تف ہے

لاہور میں دل کے مریضوں کو جعلی اسٹنٹ فروخت کرنے والے گروہ کا انکشاف ہوا ہے

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

HYDERABAD:
لاہور میں دل کے مریضوں کو جعلی اسٹنٹ فروخت کرنے والے گروہ کا انکشاف ہوا ہے اس حوالے سے ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ''4 کروڑ روپے مالیت کے جعلی اسٹنٹ برآمد کرلیے گئے ہیں، جعل ساز ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر مریضوں کو اسٹنٹ ڈالنے کا مشورہ دیتے تھے، چھ ہزار روپے مالیت کے اسٹنٹ کے دو لاکھ روپے وصول کیے جاتے لیکن اسٹنٹ نہیں ڈالا جاتا تھا۔''

امراض قلب میں مبتلا سادہ لوح مریضوں کو بے وقوف بنانے والے اس گروہ کے ساتھ اسپتال کے کچھ ڈاکٹرز بھی ملے ہوئے تھے اس کمیٹی کو ان ڈاکٹرز سے پاک ہونا چاہیے تاکہ شفاف رپورٹ کی روشنی میں اس پوری مافیا کو مکمل بے نقاب کیا جائے۔

انسانیت کے مجرموں اورحیات انسانی سے کھیلنے والے سوداگروں نے انسانی جان سے کھیلنے کے نت نئے طریقے بھی ایجادکرلیے ہیں، جان بچانے والے مسیحا خود ہی جان کے در پے ہوگئے ہیں، یہ اپنے حلف سے غداری بھی ہے اور یہ قابل مذمت فعل قابل گرفت ہی نہیں بلکہ ناقابل معافی جرم بھی ہے۔دوسری جانب انسانیت کے سچے مسیحاؤں کے قابل ذکر اورقابل فخرکارناموں کی ایک طویل داستان ہے۔اس سچی داستان میں سے کالم کی مناسبت سے ایک مختصر لیکن ہم واقعہ آپ کے گوش گزار ہے۔

یہ 1929 کی بات ہے کہ جب جرمنی کے شہر برلن کے ایک صوبائی اسپتال کے معاون ڈاکٹرکے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ حملہ قلب سے بچاؤ (ہارٹ اٹیک )کا کوئی موثرطریقہ کار دریافت کیا جائے ۔ اس سلسلے میں اس نے عضلہ قلب کی نیسج کے موت جوکہ فراوانی سے خون نہ ملنے کی صورت میں واقع ہوتی ہے اور مایوکارڈیل انفارکشن کہلاتی ہے اس کا کوئی آسان علاج نکالا جائے لہٰذا اس نے بڑے غوروخوص کے بعد فیصلہ کیا کہ بازو کی شریان کے راستے سے ربڑکی ایک پتلی ٹیوب دل میں داخل کی جائے، اس ڈاکٹر نے اپنی مدد کے لیے ایک نرس کا انتخاب کیا۔ اس نرس نے کیتھیٹر اور دوسرے جراحی آلات کو سنبھالنے کی ذمے داری قبول کی۔ جب معاون ڈاکٹر نے اس نرس کو اپنے تجربے کے منصوبے کی تفصیلات اور اہمیت سے آگاہ کیا تو اس تجربے کے لیے اس نے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا، لیکن ڈاکٹر نہ مانا اور اس نے خود ہی اپنے دل میں کیتھیٹر ڈالنے کا کام شروع کردیا۔ یہ سارا کام انتہائی خفیہ طریقے سے ہو رہا تھا۔

اس باحوصلہ معاون ڈاکٹرکا نام ورنرفورس مین تھا۔ اس کی ساتھی نرس کا نام گرڈاڈزن تھا۔ جب یہ معاون ڈاکٹر اپنے دل میں کیتھیٹر ڈالنے کا کام کر رہا تھا اسی اثنا میں اس کا ایک ساتھی ڈاکٹر بھی اسی جگہ پہنچ گیا اور اس نے فورس مین کے جسم سے یہ کیتھیٹر نکالنے کی کوشش کی لیکن بعد میں فورس مین کے سمجھانے بجھانے پر وہ خاموش ہوگیا۔ ورنر فورس مین بڑے اطمینان اور سکون سے اپنا کام کرتا رہا۔ اپنے دل میں کیتھیٹر ڈالنے کا کام مکمل کرنے کے بعد وہ اپنے ہاتھ میں آئینہ لے کر ایکس رے (X-Ray) اسکرین کے سامنے کھڑا ہوگیا اور اپنے تجربے کے ثبوت کے طور پر اس نے کچھ ایکس رے بھی بنائے۔


ورنر فورس مین نے اپنے تجربے کی تفصیلات جب شایع کیں تو اس کی نئی اور انوکھی جدت پر اسے سراہا گیا لیکن اس وقت اس کے بعض نظریات کا مذاق بھی اڑایا گیا۔ اس وقت چونکہ اس قسم کے طریقہ علاج کا تصور تک موجود نہ تھا لہٰذا دل میں کسی بھی چیزکی مداخلت بہت خطرناک سمجھی جاتی تھی۔ بالآخر ایک امریکی ماہر امراض قلب مین جونسن پر یہ تجربہ دہرایا گیا اور اس کے قلب میں کیتھیٹر داخل کرکے باریک شریانوں میں پہنچایا گیا۔ یہ سارا عمل ایکس رے میں دیکھا جاتا رہا، لیکن قلب کے فعل میں کوئی تبدیلی نہ واقع ہوئی اور وہ مسلسل دھڑکتا رہا۔ تب لوگوں کو یقین آیا کہ دل میں کیتھیٹر ڈالنے سے کوئی نقصان واقع نہیں ہوتا۔ اپنے پہلے تجربے کے تقریباً ربع صدی بعد ورنر فورس مین کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔جب دل کی کسی باریک خون کی نالی میں خون کا لوتھڑا یا تنکا پھنس کر خون کو آگے بڑھنے کا راستہ بند کردیتا ہے تو عضلہ قلب کے اس حصے کو خون اور آکسیجن کی سپلائی بند ہوجاتی ہے، سپلائی بند ہونے کے سبب دل کا وہ حصہ مردہ ہوجاتا ہے جسے طب کی اصطلاح میں مایوکارڈیل انفارکشن کہا جاتا ہے۔

اگر اس شکایت کا فوری طور پر علاج نہ کیا جائے تو ممکنہ طور پر موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ 1960 سے اب تک ورنر فورس مین کے تجربے کی روشنی میں بے شمار مریضوں کے قلب کا علاج کیا جاچکا ہے۔ 1960 کے عشرے کی ابتدا میں اسٹریٹوکائنیز نامی ایک قدرتی مادے کا پتا لگایا گیا تھا۔ یہ مادہ دراصل ایک بیکٹیریا کے استعمالاتی عمل سے بننے والی مصنوعات میں ایک ہے اس مادے کو فائبرین کو گھلانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اس خصوصیت کا مطلب یہ تھا کہ یہ مادہ خون کے سرخ خلیے کے گرد جمنے والی فائبرین کو بھی حل کرسکتا ہے جوکہ دل کی باریک نالیوں میں رکاوٹ بن کر مایوکارڈیل انفارکشن کا سبب بنتا ہے لیکن اس مادے کو زیادہ مقدار میں مریض کے جسم میں داخل نہیں کیا جاسکتا تھا، کیونکہ اس کے مضر ضمنی اثرات اس کے فوائد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھے۔

1978 میں پروفیسر پیٹررین ٹروپ نامی ماہر امراض قلب نے ایک تجربہ کیا۔ اس نے ایکس رے تصاویر کی مدد سے مایو کارڈیل انفارکشن کے مریض کے دل میں کیتھیٹر ڈالا اور جب مطلوبہ مقام تک کیتھیٹر پہنچ گیا تو اس نے اسٹریٹوکائینز نامی اس مادے کو انجیکٹ کردیا۔ حیرت انگیز طور پر رف چھ منٹ میں دل کی وہ نالی کھل گئی اور خون نے وہاں گردش شروع کردی اور مریض کے دل میں درد کا احساس بھی بالکل ختم ہوگیا۔ انجیوکارڈیو گرافی نامی اس تکنیک کی مدد سے دل کے مردہ ہوتے ہوئے عضلے میں خون اور آکسیجن کی رسد کو بحال کرکے موت سے بچایا جاسکتا ہے۔

حال ہی میں ایک نئی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ اس نئی تکنیک میں دل کے اندر ایک ایسا کیتھیٹر داخل کیا جاتا ہے جس کے اگلے سرے پر ایک گھومنے والی نلکی لگی ہوئی ہوتی ہے اس نلکی کو ایک چھوٹی سی موٹر حرکت میں لاتی ہے۔ یہ دل کی نالی میں رکاوٹ بننے والے مادے کو نکال دیتی ہے۔ اس کے پیچھے ایک اور کیتھیٹر ہوتا ہے جو دل کی نالی کے راستے کو چوڑا کردیتا ہے اس طرح اس جگہ بعد میں دوبارہ کسی قسم کی رکاوٹ پیدا ہونے کے امکانات بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ سائنس کے میدان میں روز افزوں ترقی نے انسان کو بڑی سہولیات میسر کی ہیں آئے دن نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں اور نئی نئی دریافتیں سامنے آرہی ہیں جن کی بدولت ملنے والے فوائد سے بنی نوع کی بڑی خدمت ہو رہی ہے، آج حملہ قلب سے بچاؤ اور مایوکارڈیل انفارکشن کا حل بڑا ہی سہل ہوچکا ہے جب کہ ماضی میں اس کا تصور تک محال تھا، کچھ عرصہ قبل تک قلب کی شکایات اور دل کے دورے کے شکار مریضوں کے لیے طب جدید کے پاس کوئی کارگر تدبیر دور تک موجود نہ تھی لیکن اب طبیعات و کیمیا اور برقی ٹیکنالوجی نے باہم مربوط ہوکر طب کے میدان میں ایسی ایسی کامیابیاں حاصل کرلی ہیں جن کا کوئی تصور نہ تھا۔

آج روزانہ پوری دنیا میں بے شمار مریضوں کی انجیو گرافی اور پھر انجیو پلاسٹی اور کارڈیک بائی پاس ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔جب سے دنیا صنعتی انقلاب سے دوچار ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے انسان کی غذائی عادت میں تبدیلیاں آئی ہیں، امراض قلب کے مریض بھی بڑھتے جا رہے ہیں، دل کے امراض کے مزید اسباب میں اہم ترین ورزش کی کمی، چہل قدمی سے دامن چھڑانا، سگریٹ نوشی، کام کے دوران ذہنی و جسمانی دباؤ اور بہت زیادہ چربیلی غذاؤں کا استعمال ہے ان غذاؤں اور سگریٹ نوشی وغیرہ سے حتی المقدور و حتی الامکان اجتناب کیا جائے، ہلکی پھلکی ورزش اور بالخصوص چہل قدمی کی عادت اپنائی جائے تو دل کے دوروں کے امکانات کم سے کم رہ جاتے ہیں۔ڈاکٹر ورنر فورس مین کے مذکورہ بالا واقعے میں کیا ان جعلی اسٹنٹ والوں کے لیے مثال نہیں ہے؟ ڈاکٹر ورنر مسلم نہیں تھا لیکن اس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر بلاتفریق و امتیاز بے شمار انسانوں کو نئی زندگی بخشی اور تم مسلمان ہوکر اپنے ہی بھائیوں کی زندگی سے کھیلتے ہو۔ جانتے بھی ہو کہ ایک انسان کو بچانا تمام انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے، پھر بھی یہ شرمناک فعل اور قابل گرفت طرز عمل؟ تف ہے، افسوس صد افسوس!
Load Next Story