بھوک سے بلبلاتا ونیزویلا

فوج کے اس مکروہ پہلو کا انکشاف امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی تحقیقات کے نتیجے میں کیا ہے۔


Sunday Magazine January 29, 2017
ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ گلوبل وارمنگ کو ہوّا قرار دے کر اسے امریکی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کی چینی سازش کہہ چکے ہیں۔ فوٹو: فائل

فوج عوام کو خوراک فراہم کرنے کے بجائے تاجروں کو منہگے داموں فروخت کرنے لگی

تیل کی دولت سے مالامال ونیزویلا بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ براعظم جنوبی امریکا کے شمالی ساحل پر واقع ملک میں رکازی ایندھن کے سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ سیال سونے کی دولت رکھنے والے دوسرے تمام ممالک اقتصادی طور پر مستحکم اور وہاں کے عوام خوش حال ہیں مگر ونیزویلا میں صورت حال برعکس ہے۔ حالات اس حد تک خراب ہوچکے ہیں کہ اشیائے خورونوش کے حصول کے لیے لوگ لوٹ مار کرنے پر مجبور ہیں۔



لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے دکانیں اور سپرمارکیٹیں ویران ہوچکی ہیں۔ بھوک کا یہ عالم ہے کہ کئی علاقوں میں لوگ کتے، بلیاں اور گھاس پھوس کھاکر پیٹ کا جہنم بھر رہے ہیں۔ بدحالی اور قلت خوراک کا شکار عوام صدر نکولس مدورو کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ گذشتہ برس جب احتجاجی مظاہروں نے زور پکڑا تو ہیوگوشاویز کے جانشین نے خوراک کی ترسیل کا تمام انتظام فوج کے حوالے کردیا۔ اس اقدام سے عوام کو امید تھی کہ اب ان کے جگر گوشوں کو پیٹ بھر خوراک نصیب ہوجائے گی مگر تاحال یہ امید پوری نہیں ہوسکی۔

خوراک کی رسد میں بہتری آنے کے بجائے صورت حال بدتر ہوگئی ہے کیوں کہ فوجی جنرلوں نے بھوکے مرتے عوام کی دادرسی کرنے کے بجائے اپنی تجوریاں بھرنی شروع کردی ہیں! اعلیٰ عسکری حکام کے زیرنگرانی آٹا، گندم، مکئی، چاول، دودھ، ڈبل روٹی اور دیگر تمام غذائی اشیاء بلیک مارکیٹ میں اور مقررہ سرکاری نرخوں سے سو گنا زائد قیمت پر فروخت کی جارہی ہیں۔ خوراک کی ترسیل کا نظام فوج کے حوالے کرنے کا مقصد ملک میں سرکاری نرخوں پر غذائی اشیاء کی دست یابی یقینی بنانا تھا مگر محافظ ہی ڈاکو بن بیٹھے کے مصداق فوجیوں نے عوام کے مصائب کو نظرانداز کرتے ہوئے مالی مفاد حاصل کرنے کے لیے انتہائی منہگے داموں سامان خورونوش فروخت کرنا شروع کردیا۔

فوج کے اس مکروہ پہلو کا انکشاف امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی تحقیقات کے نتیجے میں کیا ہے۔ دوران تحقیقات اے پی کے نمائندوں نے تاجروں، عام دکان داروں کے علاوہ سابق جنرلوں سے انٹرویو کیے اور اشیائے خورونوش کی بلیک مارکیٹنگ سے متعلق تحریری دستاویزات اور ریکارڈ بھی حاصل کیے۔ خبررساں ادارے کے مطابق غذائی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ قحط سے دوچار ونیزویلا میں سب سے بڑا کاروبار بن چکی ہے اور اس بہتی گنگا میں جنرل سے لے کر سپاہی تک سب ہاتھ دھورہے بل کہ نہا رہے ہیں۔

ریٹائرڈ جنرل سلور الکالا فوج میں کئی اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ غذائی اشیائی کی فروخت ونیزویلا میں منشیات کی فروخت سے زیادہ نفع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ ملک میں خوراک کی ترسیل کا پورا نظام اب فوج کے ہاتھوں میں ہے اور فوجی جنرلوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ پوری ایمان داری کے ساتھ یہ قومی ذمہ داری انجام دیں گے، عبث ہے۔

ایک پرچون فروش جوز کیمپوس نے اے پی کے نمائندوں کو بتایا کہ مکئی کا آٹا اور دوسری بنیادی ضرورت کی اشیاء لینے کے لیے وہ نصف شب کو ایک غیرقانونی مارکیٹ کا رخ کرتا ہے، جہاں فوجی اہل کار سو گنا زائد قیمت پر یہ چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عام شخص کو یہ چیزیں اور بھی منہگی خریدنی پڑتی ہیں۔ مقررہ مراکز پر کچھ اشیائے خورونوش بہت تھوڑی مقدار میں عوام کو مہیا کی جاتی ہیں، باقی سامان شب کی تاریکی میں منہگے داموں تاجروں کو فروخت کیا جارہا ہے۔

آخر ونیزویلا میں خوراک کا بحران کیسے پیدا ہوا؟ سابق صدر ہیوگوشاویز کو جب حزب اختلاف نے اقتدار سے محروم کرنے کی کوششیں شروع کیں تو انھوں نے 2004ء میں وزارت خوراک قائم کی اور عملی طور پر اس کا کنٹرول فوج کے حوالے کردیا۔ ہیوگوشاویز کی حکومت نے زرعی فارم اور فوڈ پروسیسنگ پلانٹس قومیا لیے مگر ان کے انتظام و انصرام پر توجہ نہیں دے پائی۔ نتیجتاً ملکی پیداوار محدود ہوتی چلی گئی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ عوام کی ضروریات کے لیے اشیائے خوراک درآمد کی جانے لگیں۔ صورت حال اتنی بگڑی کہ تیل برآمد کرنے والا یہ ملک غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے کُلی طور پر درآمدات پر انحصار کرنے لگا۔ تیل کے بلند نرخوں کے سبب ان دنوں معیشت خوراک کی درآمدات کا بھاری بل برداشت کرنے کے قابل تھی۔

مشکلات کا آغاز اس وقت ہوا جب چند برس قبل تیل کی قیمتیں گرنے لگیں۔ یوں برآمدات محدود ہونے لگیں جب کہ درآمدات کا حجم وسیع ہوتا چلا گیا اور حکومت کے لیے عوام کی ضرورت کے مطابق اشیائے خوراک درآمد کرنا ممکن نہ رہا۔ نتیجتاً عوام اشیائے خورونوش کے حصول کے لیے دربدر ہونے لگے۔ مارکیٹوں اور سپراسٹورز کے سامنے نہ ختم ہونے والی قطاریں معمول بن گئیں۔ پھر جب سپرمارکیٹیں طلب کے مطابق رسد کا انتظام کرنے میں ناکام ہوگئیں تو بُھوکے لوگ مشتعل ہوگئے۔ دکانیں اور مارکیٹیں لُوٹے جانے کے واقعات پیش آنے لگے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں حکومت کے خلاف مظاہرے بھی شروع ہوگئے۔

عوامی احتجاج سے خائف نکولس مدورو نے خوراک کی ترسیل کی ذمہ داری فوج کو سونپ دی مگر عسکری حکام نے اس ذمہ داری کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ غیرجانب دار معاشی ماہرین کے مطابق ونیزویلا کو بدعنوانی اور کرپشن کے عفریت نے اپنے شکنجے میں لے لیا ہے۔ فوج جیسا مضبوط ادارہ بھی اس لعنت سے محفوظ نہیں رہا۔



خوراک کی درآمد سے لے کر ترسیل و تقسیم کاری تک فوج سمیت دیگر متعلقہ محکموں کے افسران و اہل کار زیادہ سے زیادہ مال بنانے میں مصروف ہیں۔ مختلف اشیاء کے درآمدی ٹھیکے کمیشن کی رقم طے کرلینے کے بعد دیے جارہے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں رائج نرخوں سے زائد نرخوں پر اشیاء خریدی جارہی ہیں۔ ستم یہ ہے کہ منہگی خریدی جانے کے باوجود یہ چیزیں عوام کو براہ راست نہیں پہنچائی جارہی ہیں۔ بلیک مارکیٹ میں مزید منہگے داموں پر سامان خوراک تاجروں کو بیچا جاتا ہے جو معمول سے زائد نفع شامل کرکے عام گاہک کو فروخت کرتے ہیں۔

عسکری ماہرین کہتے ہیں کہ خوراک کی ترسیل کا نظام کُلی طور پر فوج کے حوالے کرنے کے پس پردہ عوام کی مشکلات کا احساس نہیں بل کہ اپنے اقتدار کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ انتہائی مشکل حالات سے دوچار عوام میں نکولس مدورو کی حکومت غیرمقبول ہوچکی ہے۔ ان حالات میں فوج کا ساتھ صدر کی ضرورت ہے۔ اسی لیے انھوں نے خوراک کی درآمد اور ترسیل و تقسیم فوج کے حوالے کردی ہے تاکہ فوجی افسران اور سپاہیوں کے اہل خانہ کو ہر شے وافر مقدار میں دست یاب ہو، اور وہ حکومت کے خلاف ہونے والی کسی ممکنہ عوامی بغاوت کا حصہ نہ بنیں۔

2016ء : امریکا نے اسلامی ممالک پر یومیہ 72 بم برسائے
دہشت گردوں اور انتہاپسندوں سے زیادہ معصوم شہری مارے گئے
امریکی سام راج کی تاریخ انسانیت کے لہو سے رنگین ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ خون آشام امریکی حکم رانوں نے کتنے ہی ممالک پر جنگ مسلط کی اور انھیں تباہ و برباد کردیا۔ امریکی مفادات کے نام پر کتنے ہی ممالک کے باہمی تنازعات کو ہوا دے کر انھیں جنگ میں جھونک دیا۔ عالمی امن کا ٹھیکیدار دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ میں دنیا پر اپنی اجارہ داری وسیع اور مستحکم کرنے کی کوششوں میں مسلسل مصروف ہے۔ مختلف ممالک کے مابین مسلح تصادم کو فروغ دے کر وہ انھیں اپنا اسلحہ فروخت کررہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خود بھی عملی طور پر ان جنگوں میں اپنے اسلحے کی آزمائش کررہا ہے۔

عالمی انسانی حقوق کے نام نہاد علم بردار کے دعووں کی قلعی کھولنے کے لیے امریکی کونسل برائے تعلقات خارجہ کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کافی ہے۔ رپورٹ میں 2016ء کے دوران مختلف ممالک میں امریکی بم باری کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کونسل برائے تعلقات خارجہ کے مطابق پاکستان، عراق، شام، لیبیا، افغانستان، یمن اور صومالیہ میں امریکی طیاروں نے اوسطاً 72 بم یومیہ گرائے۔ یعنی ہر گھنٹے میں تین بم گرائے گئے۔ ان ممالک پر برسائے گئے بموں کی تعداد 26171 بتائی گئی ہے مگر کونسل کا یہ بھی کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے، کیوں کہ یہ ڈیٹا صرف مذکورہ بالا ممالک میں کیے گئے فضائی حملوں سے متعلق ہے۔



ان میں سے 24287 بم صرف شام اور عراق میں گرائے گئے، جہاں امریکا بہادر داعش سے برسرپیکار سرکاری افواج کی اعانت کررہا ہے۔ افغانستان میں گرائے جانے والے بموں کی تعداد 1337 رہی۔ گذشتہ سے پیوستہ سال یہ تعداد 947 تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان میں امریکی فضائی کی کارروائیاں بڑھ گئی ہیں۔ سال گذشتہ دوران پاکستان میں3، صومالیہ میں 14 اور یمن میں 34 فضائی حملے کیے گئے۔

امریکی حکومت کا موقف رہا ہے کہ فضائی حملوں میں دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ فضائی حملوں میں دہشت گردوں سے زیادہ بے گناہ بچے، عورتیں اور مرد جان سے جاتے ہیں۔ اس کا اعتراف امریکی فوج کے اعلیٰ حکام نے بھی کیا ہے۔ امریکی فوج کی مرکزی کمان کے ترجمان میجر شین ہف نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں تصدیق کی تھی کہ 2014ء کے دوران شام میں امریکی طیاروں کی بم باری میں 119 عام شہری ہلاک ہوئے۔ انسانی حقوق کا عالمی ادارہ ایمنسٹی انٹرنیشنل ہلاکتوں کی تعداد 300 سے زائد قرار دیتا ہے۔ پاکستان میں امریکی ڈرونز کے حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت بھی ڈھکی چھپی نہیں۔

گلوبل وارمنگ کے خلاف جنگ
فرانس کا کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بند کرنے کا اعلان

گلوبل وارمنگ کو سائنس داں سب سے بڑا ماحولیاتی مسئلہ قرار دیتے آرہے ہیں۔ اس سے مراد عالمی درجۂ حرارت میں ہونے والا اضافہ ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق عالمی گرماؤ کے باعث رونما ہونے والے موسمی تغیرات جان دار انواع کے لیے بہ تدریج تباہی و بربادی کے پیغام میں ڈھل جائیں گے۔ آب و ہوا میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے حیوانی و نباتاتی انواع کا قدرتی ماحول بدل جائے گا۔

یہ بدلاؤ انھیں معدومیت کی گہری کھائیوں میں دھکیل دے گا جہاں سے ان کی واپسی ناممکن ہوگی۔ حیوانی و نباتاتی انواع کی تباہی خود حضرت انسان کے لیے بھی ہلاکت کا پیغام لے کر آئے گی۔ یوں کرۂ ارض کو ممکنہ تباہی سے محفوظ رکھنے کے لیے سبز مکانی (گرین ہاؤس) گیسوں کا اخراج محدود تر کرنے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ سبزمکانی گیسوں میں سب سے اہم کاربن ڈائی آکسائڈ ہے۔ اس گیس کے اخراج کے کئی ذرائع ہیں۔ گاڑیوں، فیکٹریوں اور کارخانوں کے علاوہ کاربن کے اخراج کا اہم ذریعہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر ہیں۔

ان بجلی گھروں میں کوئلے کے جلنے سے کثیر مقدار میں کاربن ڈائی آکسائڈ خارج ہوتی ہے، جو فضا میں شامل ہوکر عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بڑی تعداد میں ہیں۔ اب فرانس نے یہ بجلی گھر 2023ء تک بند کردینے کا اعلان کردیا ہے۔

فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے یہ اعلان اقوام متحدہ کی جانب سے ماحولیاتی تبدیلیوں پر غور کے لیے بلائی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کی غرض سے سبزمکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے اقوام متحدہ کے تحت رواں سال اپریل میں 192 ممالک نیفرانس کے شہر پیرس میں ایک معاہدے دستخط کیے تھے۔ اسی نسبت سے اسے معاہدۂ پیرس کہا جاتا ہے۔

اس معاہدے کے تحت برطانیہ نے 2025ء کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بند کردینے کا ہدف مقرر کیا تھا، لیکن فرانسوا اولاند اس دوڑ میں برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دینے کے لیے پُرعزم ہیں۔ مراکش کے شہر مراکش میں ہونے والی کانفرنس کے دوران فرانسیسی صدر نے ڈونلڈ ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نومنتخب امریکی صدر نے اس معاہدے سے الگ ہوجانے کا عندیہ دیا ہے۔



ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ گلوبل وارمنگ کو ہوّا قرار دے کر اسے امریکی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کی چینی سازش کہہ چکے ہیں۔ کاربن کے اخراج پر قابو نہ پاسکنے کی بنیادی وجہ ترقی یافتہ ممالک کا یہی رویہ ہے۔ صنعتی ترقی کے پہیے کی رفتار سست ہوجانے کے خوف سے یہ ممالک کاربن کے اخراج پر قابو پانے میں سنجیدہ نہیں۔ فرانس نے ان ممالک کے لیے ایک مثال قائم کردی ہے۔ پچھلے کئی عشروں کے دوران فرانس نے ایٹمی بجلی گھروں میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ آج وہ اپنی 75 فی صد بجلی کی ضروریات ایٹمی بجلی گھروں سے پوری کررہا ہے۔ مجموعی طور پر فرانس میں ضرورت سے زائد بجلی پیدا ہوتی ہے جو وہ ہمسایہ ممالک کو برآمد کرکے سالانہ ڈھائی ارب یورو کماتا ہے۔

پیرس معاہدے کے تحت جرمنی نے بھی 2050ء تک سبزمکانی گیسوں کے اخراج میں 95 فی صد تک کمی لانے کا اعلان کیا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ حالات جو کچھ بھی ہوں، چین گلوبل وارمنگ کے خلاف جنگ جاری رکھے گا۔ تاہم انھوں نے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بند کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔

اگر ترقی یافتہ صنعتی ممالک اپنے کارخانوں، فیکٹریوں اور بجلی گھروں سے کاربن کے اخراج پر قابو پالیں تو گلوبل وارمنگ کی صورت میں دنیا کو درپیش مہیب خطرے سے نمٹنا آسان ہوجائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں