گرٹروڈ بیل
عراق کی سرحدوں کا تعین کرنے اور اِسے ریاست کا روپ دینے والی برطانوی ایجنٹ
کسی عمر رسیدہ عراقی سے تذکرہ کیا جائے تو شاید وہ پہچان لے اور بتائے کہ اُس برطانوی ایجنٹ کا لقب ''خاتون'' تھا اور لوگ اُسے ''مِس بیل'' بھی کہتے تھے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہ جاسوسہ اپنی آخری سانس تک تاجِ برطانیہ کی وفادار تو رہی، لیکن منافقانہ پالیسیوں اور عرب باشندوں سے غلط بیانی نے اُسے لندن سے بددل کردیا تھا۔ اِس کا اصل نام گرٹروڈ مارگریٹ لوتھیان بیل، تاریخِ پیدائش 14 جولائی 1868ء ہے۔ 1926ء اس کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ مہینہ جولائی کا اور وفات کی تاریخ 12 ہے۔ گرٹروڈ بیل کی تدفین عراق ہی کے ایک عیسائی قبرستان میں کی گئی۔
اپنے مشن کی تکمیل کے دوران گرٹروڈ بیل پر کُھلا کہ برطانوی حکومت عرب باشندوں سے کیا گیا آزادی کا وعدہ پورا نہیں کررہی بل کہ خطے میں اُس کے مقاصد کچھ اور ہی ہیں۔ گرٹروڈ بیل کے عراق میں خفیہ مشن، وہاں کے حالات اور اِس حوالے سے گرٹروڈ کے خیالات اُن خطوط سے ظاہر ہوتے ہیں جو اس نے اپنے والدین کو لکھے۔ اِن کے علاوہ گرٹروڈ بیل کی ڈائریوں کے اوراق بھی اُس دور کے عراق اور خطۂ عرب کے حالات کا عکس ہیں، جن کا مطالعہ کرنے کے بعد تاریخ نویسوں نے قلم تھاما تو گرٹروڈ کے تعارف میں ذمہ دار اور حقیقت پسند افسر جیسے خطاب کا اضافہ کیا۔ مؤرخین کے مطابق گرٹروڈ عربوں کی زیادہ سے زیادہ آزادی کے حق میں تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ لندن انہیں خودمختار بنائے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔
گرٹروڈ بیل نے 1914ء میں عراق کی زمین پر قدم رکھا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب عربوں اور ترکوں میں اختلافات کو ہوا دے اس خطے میں اپنے قدم جمانے کے لیے برطانیہ جال پھیلا چکا تھا اور دنیا پہلی جنگِ عظیم اور اس کے اثرات دیکھ رہی تھی۔ عرب میں برطانوی تسلط کے مشن پر پہلے ہی برطانوی فوج کا ایک افسر تھامس ایڈورڈ لارنس متحرک ہوچکا تھا۔ یہ دونوں کردار ہی تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں، لیکن عجیب بات ہے کہ جو شہرت لارنس کا مقدر بنی وہ گرٹروڈ بیل کے حصّے میں نہیں آئی۔
یہاں 1962ء کی ایک فلم کا حوالہ ضروری ہے، جس کا عنوان ''لارنس آف عربیہ'' تھا۔ فلم کا خوب چرچا ہوا اور تھامس ایڈورڈ لارنس کا کردار بھی دنیا بھر میں مشہور ہوگیا، لیکن خطۂ عرب میں اِسی مشن سے جُڑی گرٹروڈ بیل کو لوگ کم ہی جان سکے۔ یہ کردار برسوں بعد جرمن فلم ساز ویرنر ہرزوگ کی نظروں میں آیا تو ''کوئین آف دی ڈیزرٹ'' بڑے پردے کی زینت بنی۔ 2015ء میں اس کردار کو سنیما کے پردے پر جگہ تو ملی، لیکن بدقسمتی کہہ لیں کہ نہ تو وہ فلم شائقین کا دل جیت سکی، اور نہ ہی ناقدین کی توجہ سمیٹ پائی۔ فلم میں آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ نکول کِڈمین نے گرٹروڈ بیل کا کردار ادا کیا تھا۔
گرٹروڈ بیل مہم جوئی کی شوقین اور سیروسیاحت کی دلدادہ تھی۔ قدیم مقامات کی کھوج، دریافت اور کوہ پیمائی اِسے محبوب رہے۔ وہ مشکل چوٹیاں سَر کرنے اور خطرناک مقامات پر نئے راستے تلاش کرنے کے حوالے سے بھی یاد کی جاتی ہے۔ بیل کا تعلق ایک امیر کبیر کاروباری خاندان سے تھا۔ دادا تجارت پیشہ اور برطانوی سیاست میں بھی عمل دخل رکھتے تھے۔ بیل کے والد بھی کاروبار کے ساتھ اہم سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے اور انہی کی وجہ سے بیل کو عالمی سیاست اور سفارت کاری میں دل چسپی پیدا ہوئی تھی۔
ایک قریبی عزیز کا تہران میں سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے طویل قیام بیل کے لیے اس ملک کی سیاحت کا سنہری موقع تھا۔ ایران میں اِس غرض سے قیام کے دوران بیل نے وہاں کے رہن سہن اور طرزِ زندگی کا مشاہدہ ہی نہیں کیا بلکہ اُس دور کے سیاسی اور مذہبی معاملات کو بھی سمجھا۔ بعدازاں آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوان بیل کو ایران میں برطانوی سفارت خانے میں ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ 1892ء کی بات ہے۔ تہران میں ذمہ داریاں نبھانے کے دوران وہ جوڑ توڑ اور ساز باز کی ماہر کے طور پر سامنے آئی۔
جلد ہی لندن حکومت اور شاہی اشرفیہ نے بھی اس کی صلاحیتوں کو تسلیم کرلیا۔ دیگر ممالک میں قیام کے دوران بیل نے وہاں کے قدیم مقامات اور آثار کا دورہ، ان کی بابت معلومات اکٹھی کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف زبانیں بھی سیکھیں۔ وہ پُراسرار اور تاریخی مقامات کے بارے میں جاننے کے ساتھ مختلف زبانوں میں گہری دل چسپی رکھتی تھی۔ اُسے عربی اور فارسی کے علاوہ فرانسیسی، جرمن اور ترکی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔
1900ء میں برطانیہ کی جانب سے فلسطین اور شام میں قیام اور بعد میں مشرقِ وسطیٰ کے متعدد دیگر ممالک کے سفر کا بھی موقع ملا۔ اپنے انہی دوروں میں اس نے عرب قبائلی سرداروں سے تعلقات استوار کیے اور اپنا اثرورسوخ بڑھاتی چلی گئی۔ یہی بعد میں اس خطے میں بڑی جغرافیائی تبدیلی میں کارآمد ثابت ہوا۔ اِس حوالے سے برطانوی پارلیمنٹ میں بھی گرٹروڈ بیل کا نام لیا جانے لگا تھا۔
دنیا میں 1920ء کا سورج چمکا تو گرٹروڈ بیل کی کوششیں رنگ لانے لگیں اور شکستہ سلطنتِ عثمانیہ کے صوبوں سے نئی ریاستوں کے ظہور کا سلسلہ شروع ہوا۔ اگلے برس عراق کی جغرافیائی اور سیاسی تشکیل عمل میں آئی۔ عراق کے وجود اور حکومت کے قیام میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کرنے والی گرٹروڈ بیل اس کے چھے برس بعد ہی زندگی کی بازی ہار گئی۔
اس کی موت زیادہ مقدار میں نشہ آور ادویہ کے استعمال سے ہوئی تھی۔ پولیس نے خودکُشی کے امکان پر بھی غور کیا، مگر یہ ثابت نہیں ہوسکا، کیوں کہ وہ اپنی ملازمہ سے کچھ دیر بعد جگانے کا کہہ کر سوئی تھی۔ نوکرانی کے مطابق بیل کی کسی حرکت، رویّے اور گفتگو سے ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ اس پر کسی قسم کا دباؤ ہے یا وہ شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔ بیل کے آخری سفر میں برطانوی افسران اور خود شاہ فیصل بن حسین بھی شریک ہوئے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اِسی مشن کے دوسرے مرکزی کردار ایڈروڈ تھامس لارنس (المعروف لارنس آف عربیا) کی موت بھی ایک ناگہانی افتاد کا نتیجہ تھی۔ اُس نے روڈ ایکسیڈنٹ میں زخمی ہونے کے چند روز بعد دم توڑا تھا۔
عرب علاقوں میں قدیم مقامات اور آثار کے تعاقب میں گرٹروڈ بیل کئی تاریخی اشیا اور نوادرات دریافت کرنے میں کام یاب رہی۔ عراقی میوزیم کا قیام بھی اِسی کا کارنامہ ہے جس میں مختلف دریافت شدہ اشیا رکھی گئیں۔ ان میں عراقی بابلی آثار اور مخطوطات و دیگر تاریخی نمونے شامل ہیں۔ 2003ء کی جنگ میں اِس میوزیم میں موجود تاریخی اشیا کو بھی نقصان پہنچا جب کہ متعدد نادر پارے چوری کرلیے گئے۔ 2006ء میں انتظامیہ نے ان میں سے چند کو برآمد کرلیا اور دوبارہ میوزیم میں سجا دیا۔
اپنے مشن کے دوران گرٹروڈ بیل اپنے والدین سے خطوط کے ذریعے رابطہ رکھتی تھی۔ اُس کے سیکڑوں خطوط انٹرنیٹ پر محفوظ ہیں۔ خطۂ عرب، خصوصاً عراقیوں کے بارے میں اپنی ماں کے نام ایک خط میں بیل نے لکھا، ''یہاں کا ماحول قدامت سے اَٹا ہوا ہے، صدیوں کی دھول اتنی گہری ہے کہ اس کے پار نہیں دیکھا جاسکتا اور نہ ہی یہ دیکھ سکتے ہیں۔''
2003ء میں عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے، اتحادی افواج کی مداخلت کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے تناظر میں گرٹروڈ بیل کے خطوط اور ڈائریوں پر نظر ڈالی جائے تو دل چسپ بات سامنے آتی ہے۔ نو دہائی قبل جب برطانیہ نے اپنے مفادات کا جال پھیلایا تھا تو عراق اور ترکوں کے زیرِتسلط صوبوں میں بھی اِسے 2003ء جیسے حالات سے نمٹنا پڑا تھا۔ 1921ء میں قابض انتظامیہ کی اہم عہدے دار کی حیثیت سے گرٹروڈ بیل نے اپنی ڈائری کے ایک صفحے پر لکھا، ''صبح کا وقت جنوبی عراق کی سرحد کا تعین کرتے ہوئے اچھا گزر گیا۔'' ایک اور موقع پر اس نے لکھا، ''بغداد پھولوں اور مبارک باد سے بَھر گیا ہے، یہ حقیقتاً ترکوں سے آزادی ملنے پر خوش ہیں۔''
جب برطانوی حکومت کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی تو بیل نے ایک خط میں لکھا کہ ہمیں یہاں جہاد کا سامنا ہے اور ہمارے لیے ان لوگوں سے نمٹنا آسان ثابت نہیں ہورہا ہے۔ گذشتہ دہائی میں بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ایسے حالات اور بعد میں عراق سے افواج کے انخلا کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ چند سال پہلے برطانیہ پر عراق سے اپنی افواج کے انخلا کا دباؤ بڑھ رہا تھا تو بیل کے خطوط اور ڈائریاں بھی تاریخ دانوں کی توجہ اور دل چسپی کا محور تھیں۔
1920ء کی ایک تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں برطانیہ کی قابض انتظامیہ مسلسل دروغ گوئی اور منافقت سے کام لے رہی تھی۔ گرٹروڈ بیل نے لکھا تھا کہ یہ مشکل ہوگا کہ برطانوی فوج کے ذریعے دیہات کو آگ لگائی جائے اور لوگوں کو یہ یقین بھی دلائیں کہ اقتدار اُن کے نمائندوں کو منتقل کردیا ہے۔
عالمی امور کے ماہرین اور تاریخ نویسوں کے مطابق نو دہائی قبل درج کردہ حالات اور واقعات اور خطۂ عرب میں مزاحمت کے تذکرے 2003ء کے بعد نظر آنے والے عراق کا عکس معلوم ہوتے ہیں۔ اپنے ایک خط میں گرٹروڈ بیل نے عرب دنیا کی سب سے بڑی دولت یعنی تیل کو قابلِِ نفرت شے قرار دیا۔ برطانوی مشن کی حقیقت سے یوں پردہ اٹھایا، ''سچ یہ ہے کہ ہم نے لوگوں سے آزادی کا وعدہ کیا، انہیں خودمختار بنانے کی بات کی تھی، مگر ہم اس سے کچھ مختلف کرنے لگے۔''
سرحدوں کا تعین کر کے عراق کو ریاست کا روپ دینے والی گرٹروڈ بیل کو صحرا کی ملکہ اور بادشاہ گر بھی کہا گیا۔ موجودہ عراق کے علاوہ چند دیگر عرب ممالک بھی حکومتی اور سرحدی اعتبار سے اِسی کی کوششوں کا نتیجہ بتائے جاتے ہیں۔ گرٹروڈ بیل اور لارنس نے اردن کے ہاشمی خاندان کے ہاتھ مضبوط کرنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ تاریخ میں درج ہے کہ برطانوی ایجنٹس نے مملکتِ عراق کے لیے ایک مجلسِ تاسیس کے قیام کی تجویز دی تھی تاکہ امیر فیصل بن حسین کو شاہِ عراق بنایا جاسکے۔ وہ سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کا دور تھا اور وہ اپنے مقصد میں کام یاب ہورہے تھے۔
گرٹروڈ بیل نہایت قابل، ذہین اور باصلاحیت عورت تھی۔ دنیا اُسے ایک جاسوس اور برطانوی ایجنٹ ہی نہیں بلکہ عربی داں، مصنف، مترجم، سیاح، ماہرِآثارِ اور محقق کے طور پر بھی یاد رکھے گی۔ بیل نے اپنے سفر کی روداد، ملکوں کی تہذیب و ثقافت سے متعلق معلومات اور اپنے مشاہدات کو کتابی شکل بھی دی۔ ایسی تمام سفری روداد عام طور پر گرٹروڈ بیل کی ڈائری کہلاتی ہیں۔
1894ء میں وہ اپنا سفرنامۂ ایران منظرِعام پر لائی۔ گرٹروڈ بیل نے ایرانی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ادب میں بھی دل چسپی لی۔ دیوانِ حافظ پڑھنے کے بعد خود کو اس کا انگریزی ترجمہ کرنے پر مجبور پایا۔ یہ ترجمہ 1897 میں شایع کیا گیا۔ 1907 میں شام اور فلسطین سے متعلق گرٹروڈ بیل نے اپنے مشاہدات اور تأثرات کو کتابی شکل دی۔
عراق کے میوزیم میں موجود بعض نوادرات سے متعلق اشارے اور ابتدائی معلومات کا حصول بھی گرٹروڈ بیل کا کارنامہ مانے جاتے ہیں۔ اُس نے اپنی زندگی میں کئی مشاغل اختیار کیے، مگر اس کا پہلا عشق قدیم مقامات کی کھوج تھا۔ شریکِ حیات کی حیثیت سے تو گرٹروڈ کی زندگی میں کوئی نہ آسکا، لیکن وہ ایک برطانوی فوجی افسر کی محبت میں ضرور گرفتار رہی۔ 1913ء میں ان کے درمیان عشقیہ خطوط کا تبادلہ شروع ہوا جو 1915ء میں ایک تکلیف دہ یاد کے سوا کچھ نہ رہا۔ اُس افسر نے ایک جنگ کے دوران زندگی ہار دی تھی۔
گرٹروڈ نے خود کو مشن سے متعلق مصروفیات میں غرق کرلیا۔ رفتہ رفتہ ماضی کی حسین اور پُرمسرت یادوں پر ذمہ داریاں غالب آگئیں اور دکھ بتدریج کم ہوتا گیا۔ وہ نہیں جانتی تھی، مگر اس افسوس ناک واقعے کے چند برس بعد عراق میں اُس کے قیام کا مقصد پورا ہونے والا تھا۔ اُس کی اپنے مشن سے متعلق سرگرمیاں جاری رہیں اور 1921ء کو نئی ریاست کا پہلا برطانیہ نواز بادشاہ دنیا کے سامنے آگیا۔ اگلے دنوں میں ریاست کے انتظامی ڈھانچے اور دیگر امور کے حوالے متعدد اہم اعلانات اور فیصلے کیے گئے جس میں گرٹروڈ بیل کا گہرا عمل دخل تھا۔ یوں لندن نواز حکومت اور عرب علاقوں پر برطانوی تسلط کے ساتھ اِس جاسوسہ کا نام بھی ہمیشہ کے لیے تاریخ میں محفوظ ہو گیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ یہ جاسوسہ اپنی آخری سانس تک تاجِ برطانیہ کی وفادار تو رہی، لیکن منافقانہ پالیسیوں اور عرب باشندوں سے غلط بیانی نے اُسے لندن سے بددل کردیا تھا۔ اِس کا اصل نام گرٹروڈ مارگریٹ لوتھیان بیل، تاریخِ پیدائش 14 جولائی 1868ء ہے۔ 1926ء اس کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ مہینہ جولائی کا اور وفات کی تاریخ 12 ہے۔ گرٹروڈ بیل کی تدفین عراق ہی کے ایک عیسائی قبرستان میں کی گئی۔
اپنے مشن کی تکمیل کے دوران گرٹروڈ بیل پر کُھلا کہ برطانوی حکومت عرب باشندوں سے کیا گیا آزادی کا وعدہ پورا نہیں کررہی بل کہ خطے میں اُس کے مقاصد کچھ اور ہی ہیں۔ گرٹروڈ بیل کے عراق میں خفیہ مشن، وہاں کے حالات اور اِس حوالے سے گرٹروڈ کے خیالات اُن خطوط سے ظاہر ہوتے ہیں جو اس نے اپنے والدین کو لکھے۔ اِن کے علاوہ گرٹروڈ بیل کی ڈائریوں کے اوراق بھی اُس دور کے عراق اور خطۂ عرب کے حالات کا عکس ہیں، جن کا مطالعہ کرنے کے بعد تاریخ نویسوں نے قلم تھاما تو گرٹروڈ کے تعارف میں ذمہ دار اور حقیقت پسند افسر جیسے خطاب کا اضافہ کیا۔ مؤرخین کے مطابق گرٹروڈ عربوں کی زیادہ سے زیادہ آزادی کے حق میں تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ لندن انہیں خودمختار بنائے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔
گرٹروڈ بیل نے 1914ء میں عراق کی زمین پر قدم رکھا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب عربوں اور ترکوں میں اختلافات کو ہوا دے اس خطے میں اپنے قدم جمانے کے لیے برطانیہ جال پھیلا چکا تھا اور دنیا پہلی جنگِ عظیم اور اس کے اثرات دیکھ رہی تھی۔ عرب میں برطانوی تسلط کے مشن پر پہلے ہی برطانوی فوج کا ایک افسر تھامس ایڈورڈ لارنس متحرک ہوچکا تھا۔ یہ دونوں کردار ہی تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں، لیکن عجیب بات ہے کہ جو شہرت لارنس کا مقدر بنی وہ گرٹروڈ بیل کے حصّے میں نہیں آئی۔
یہاں 1962ء کی ایک فلم کا حوالہ ضروری ہے، جس کا عنوان ''لارنس آف عربیہ'' تھا۔ فلم کا خوب چرچا ہوا اور تھامس ایڈورڈ لارنس کا کردار بھی دنیا بھر میں مشہور ہوگیا، لیکن خطۂ عرب میں اِسی مشن سے جُڑی گرٹروڈ بیل کو لوگ کم ہی جان سکے۔ یہ کردار برسوں بعد جرمن فلم ساز ویرنر ہرزوگ کی نظروں میں آیا تو ''کوئین آف دی ڈیزرٹ'' بڑے پردے کی زینت بنی۔ 2015ء میں اس کردار کو سنیما کے پردے پر جگہ تو ملی، لیکن بدقسمتی کہہ لیں کہ نہ تو وہ فلم شائقین کا دل جیت سکی، اور نہ ہی ناقدین کی توجہ سمیٹ پائی۔ فلم میں آسکر ایوارڈ یافتہ اداکارہ نکول کِڈمین نے گرٹروڈ بیل کا کردار ادا کیا تھا۔
گرٹروڈ بیل مہم جوئی کی شوقین اور سیروسیاحت کی دلدادہ تھی۔ قدیم مقامات کی کھوج، دریافت اور کوہ پیمائی اِسے محبوب رہے۔ وہ مشکل چوٹیاں سَر کرنے اور خطرناک مقامات پر نئے راستے تلاش کرنے کے حوالے سے بھی یاد کی جاتی ہے۔ بیل کا تعلق ایک امیر کبیر کاروباری خاندان سے تھا۔ دادا تجارت پیشہ اور برطانوی سیاست میں بھی عمل دخل رکھتے تھے۔ بیل کے والد بھی کاروبار کے ساتھ اہم سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دیتے رہے اور انہی کی وجہ سے بیل کو عالمی سیاست اور سفارت کاری میں دل چسپی پیدا ہوئی تھی۔
ایک قریبی عزیز کا تہران میں سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے طویل قیام بیل کے لیے اس ملک کی سیاحت کا سنہری موقع تھا۔ ایران میں اِس غرض سے قیام کے دوران بیل نے وہاں کے رہن سہن اور طرزِ زندگی کا مشاہدہ ہی نہیں کیا بلکہ اُس دور کے سیاسی اور مذہبی معاملات کو بھی سمجھا۔ بعدازاں آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوان بیل کو ایران میں برطانوی سفارت خانے میں ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ 1892ء کی بات ہے۔ تہران میں ذمہ داریاں نبھانے کے دوران وہ جوڑ توڑ اور ساز باز کی ماہر کے طور پر سامنے آئی۔
جلد ہی لندن حکومت اور شاہی اشرفیہ نے بھی اس کی صلاحیتوں کو تسلیم کرلیا۔ دیگر ممالک میں قیام کے دوران بیل نے وہاں کے قدیم مقامات اور آثار کا دورہ، ان کی بابت معلومات اکٹھی کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف زبانیں بھی سیکھیں۔ وہ پُراسرار اور تاریخی مقامات کے بارے میں جاننے کے ساتھ مختلف زبانوں میں گہری دل چسپی رکھتی تھی۔ اُسے عربی اور فارسی کے علاوہ فرانسیسی، جرمن اور ترکی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔
1900ء میں برطانیہ کی جانب سے فلسطین اور شام میں قیام اور بعد میں مشرقِ وسطیٰ کے متعدد دیگر ممالک کے سفر کا بھی موقع ملا۔ اپنے انہی دوروں میں اس نے عرب قبائلی سرداروں سے تعلقات استوار کیے اور اپنا اثرورسوخ بڑھاتی چلی گئی۔ یہی بعد میں اس خطے میں بڑی جغرافیائی تبدیلی میں کارآمد ثابت ہوا۔ اِس حوالے سے برطانوی پارلیمنٹ میں بھی گرٹروڈ بیل کا نام لیا جانے لگا تھا۔
دنیا میں 1920ء کا سورج چمکا تو گرٹروڈ بیل کی کوششیں رنگ لانے لگیں اور شکستہ سلطنتِ عثمانیہ کے صوبوں سے نئی ریاستوں کے ظہور کا سلسلہ شروع ہوا۔ اگلے برس عراق کی جغرافیائی اور سیاسی تشکیل عمل میں آئی۔ عراق کے وجود اور حکومت کے قیام میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کرنے والی گرٹروڈ بیل اس کے چھے برس بعد ہی زندگی کی بازی ہار گئی۔
اس کی موت زیادہ مقدار میں نشہ آور ادویہ کے استعمال سے ہوئی تھی۔ پولیس نے خودکُشی کے امکان پر بھی غور کیا، مگر یہ ثابت نہیں ہوسکا، کیوں کہ وہ اپنی ملازمہ سے کچھ دیر بعد جگانے کا کہہ کر سوئی تھی۔ نوکرانی کے مطابق بیل کی کسی حرکت، رویّے اور گفتگو سے ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ اس پر کسی قسم کا دباؤ ہے یا وہ شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔ بیل کے آخری سفر میں برطانوی افسران اور خود شاہ فیصل بن حسین بھی شریک ہوئے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اِسی مشن کے دوسرے مرکزی کردار ایڈروڈ تھامس لارنس (المعروف لارنس آف عربیا) کی موت بھی ایک ناگہانی افتاد کا نتیجہ تھی۔ اُس نے روڈ ایکسیڈنٹ میں زخمی ہونے کے چند روز بعد دم توڑا تھا۔
عرب علاقوں میں قدیم مقامات اور آثار کے تعاقب میں گرٹروڈ بیل کئی تاریخی اشیا اور نوادرات دریافت کرنے میں کام یاب رہی۔ عراقی میوزیم کا قیام بھی اِسی کا کارنامہ ہے جس میں مختلف دریافت شدہ اشیا رکھی گئیں۔ ان میں عراقی بابلی آثار اور مخطوطات و دیگر تاریخی نمونے شامل ہیں۔ 2003ء کی جنگ میں اِس میوزیم میں موجود تاریخی اشیا کو بھی نقصان پہنچا جب کہ متعدد نادر پارے چوری کرلیے گئے۔ 2006ء میں انتظامیہ نے ان میں سے چند کو برآمد کرلیا اور دوبارہ میوزیم میں سجا دیا۔
اپنے مشن کے دوران گرٹروڈ بیل اپنے والدین سے خطوط کے ذریعے رابطہ رکھتی تھی۔ اُس کے سیکڑوں خطوط انٹرنیٹ پر محفوظ ہیں۔ خطۂ عرب، خصوصاً عراقیوں کے بارے میں اپنی ماں کے نام ایک خط میں بیل نے لکھا، ''یہاں کا ماحول قدامت سے اَٹا ہوا ہے، صدیوں کی دھول اتنی گہری ہے کہ اس کے پار نہیں دیکھا جاسکتا اور نہ ہی یہ دیکھ سکتے ہیں۔''
2003ء میں عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے، اتحادی افواج کی مداخلت کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے تناظر میں گرٹروڈ بیل کے خطوط اور ڈائریوں پر نظر ڈالی جائے تو دل چسپ بات سامنے آتی ہے۔ نو دہائی قبل جب برطانیہ نے اپنے مفادات کا جال پھیلایا تھا تو عراق اور ترکوں کے زیرِتسلط صوبوں میں بھی اِسے 2003ء جیسے حالات سے نمٹنا پڑا تھا۔ 1921ء میں قابض انتظامیہ کی اہم عہدے دار کی حیثیت سے گرٹروڈ بیل نے اپنی ڈائری کے ایک صفحے پر لکھا، ''صبح کا وقت جنوبی عراق کی سرحد کا تعین کرتے ہوئے اچھا گزر گیا۔'' ایک اور موقع پر اس نے لکھا، ''بغداد پھولوں اور مبارک باد سے بَھر گیا ہے، یہ حقیقتاً ترکوں سے آزادی ملنے پر خوش ہیں۔''
جب برطانوی حکومت کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی تو بیل نے ایک خط میں لکھا کہ ہمیں یہاں جہاد کا سامنا ہے اور ہمارے لیے ان لوگوں سے نمٹنا آسان ثابت نہیں ہورہا ہے۔ گذشتہ دہائی میں بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ایسے حالات اور بعد میں عراق سے افواج کے انخلا کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ چند سال پہلے برطانیہ پر عراق سے اپنی افواج کے انخلا کا دباؤ بڑھ رہا تھا تو بیل کے خطوط اور ڈائریاں بھی تاریخ دانوں کی توجہ اور دل چسپی کا محور تھیں۔
1920ء کی ایک تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں برطانیہ کی قابض انتظامیہ مسلسل دروغ گوئی اور منافقت سے کام لے رہی تھی۔ گرٹروڈ بیل نے لکھا تھا کہ یہ مشکل ہوگا کہ برطانوی فوج کے ذریعے دیہات کو آگ لگائی جائے اور لوگوں کو یہ یقین بھی دلائیں کہ اقتدار اُن کے نمائندوں کو منتقل کردیا ہے۔
عالمی امور کے ماہرین اور تاریخ نویسوں کے مطابق نو دہائی قبل درج کردہ حالات اور واقعات اور خطۂ عرب میں مزاحمت کے تذکرے 2003ء کے بعد نظر آنے والے عراق کا عکس معلوم ہوتے ہیں۔ اپنے ایک خط میں گرٹروڈ بیل نے عرب دنیا کی سب سے بڑی دولت یعنی تیل کو قابلِِ نفرت شے قرار دیا۔ برطانوی مشن کی حقیقت سے یوں پردہ اٹھایا، ''سچ یہ ہے کہ ہم نے لوگوں سے آزادی کا وعدہ کیا، انہیں خودمختار بنانے کی بات کی تھی، مگر ہم اس سے کچھ مختلف کرنے لگے۔''
سرحدوں کا تعین کر کے عراق کو ریاست کا روپ دینے والی گرٹروڈ بیل کو صحرا کی ملکہ اور بادشاہ گر بھی کہا گیا۔ موجودہ عراق کے علاوہ چند دیگر عرب ممالک بھی حکومتی اور سرحدی اعتبار سے اِسی کی کوششوں کا نتیجہ بتائے جاتے ہیں۔ گرٹروڈ بیل اور لارنس نے اردن کے ہاشمی خاندان کے ہاتھ مضبوط کرنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ تاریخ میں درج ہے کہ برطانوی ایجنٹس نے مملکتِ عراق کے لیے ایک مجلسِ تاسیس کے قیام کی تجویز دی تھی تاکہ امیر فیصل بن حسین کو شاہِ عراق بنایا جاسکے۔ وہ سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کا دور تھا اور وہ اپنے مقصد میں کام یاب ہورہے تھے۔
گرٹروڈ بیل نہایت قابل، ذہین اور باصلاحیت عورت تھی۔ دنیا اُسے ایک جاسوس اور برطانوی ایجنٹ ہی نہیں بلکہ عربی داں، مصنف، مترجم، سیاح، ماہرِآثارِ اور محقق کے طور پر بھی یاد رکھے گی۔ بیل نے اپنے سفر کی روداد، ملکوں کی تہذیب و ثقافت سے متعلق معلومات اور اپنے مشاہدات کو کتابی شکل بھی دی۔ ایسی تمام سفری روداد عام طور پر گرٹروڈ بیل کی ڈائری کہلاتی ہیں۔
1894ء میں وہ اپنا سفرنامۂ ایران منظرِعام پر لائی۔ گرٹروڈ بیل نے ایرانی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ادب میں بھی دل چسپی لی۔ دیوانِ حافظ پڑھنے کے بعد خود کو اس کا انگریزی ترجمہ کرنے پر مجبور پایا۔ یہ ترجمہ 1897 میں شایع کیا گیا۔ 1907 میں شام اور فلسطین سے متعلق گرٹروڈ بیل نے اپنے مشاہدات اور تأثرات کو کتابی شکل دی۔
عراق کے میوزیم میں موجود بعض نوادرات سے متعلق اشارے اور ابتدائی معلومات کا حصول بھی گرٹروڈ بیل کا کارنامہ مانے جاتے ہیں۔ اُس نے اپنی زندگی میں کئی مشاغل اختیار کیے، مگر اس کا پہلا عشق قدیم مقامات کی کھوج تھا۔ شریکِ حیات کی حیثیت سے تو گرٹروڈ کی زندگی میں کوئی نہ آسکا، لیکن وہ ایک برطانوی فوجی افسر کی محبت میں ضرور گرفتار رہی۔ 1913ء میں ان کے درمیان عشقیہ خطوط کا تبادلہ شروع ہوا جو 1915ء میں ایک تکلیف دہ یاد کے سوا کچھ نہ رہا۔ اُس افسر نے ایک جنگ کے دوران زندگی ہار دی تھی۔
گرٹروڈ نے خود کو مشن سے متعلق مصروفیات میں غرق کرلیا۔ رفتہ رفتہ ماضی کی حسین اور پُرمسرت یادوں پر ذمہ داریاں غالب آگئیں اور دکھ بتدریج کم ہوتا گیا۔ وہ نہیں جانتی تھی، مگر اس افسوس ناک واقعے کے چند برس بعد عراق میں اُس کے قیام کا مقصد پورا ہونے والا تھا۔ اُس کی اپنے مشن سے متعلق سرگرمیاں جاری رہیں اور 1921ء کو نئی ریاست کا پہلا برطانیہ نواز بادشاہ دنیا کے سامنے آگیا۔ اگلے دنوں میں ریاست کے انتظامی ڈھانچے اور دیگر امور کے حوالے متعدد اہم اعلانات اور فیصلے کیے گئے جس میں گرٹروڈ بیل کا گہرا عمل دخل تھا۔ یوں لندن نواز حکومت اور عرب علاقوں پر برطانوی تسلط کے ساتھ اِس جاسوسہ کا نام بھی ہمیشہ کے لیے تاریخ میں محفوظ ہو گیا۔