ٹرمپ کی حلف برداری اور عوامی احتجاج
عالمی سرمایہ داری شدید انحطاط پذیری کا شکار ہے
KARACHI:
عالمی سرمایہ داری شدید انحطاط پذیری کا شکار ہے۔ چند برسوں میں شرح نمو 8فیصد سے گھٹ کر دو فیصد پر آگئی ہے۔ بورژوا جمہوریت پسندوں، سوشل ڈیموکریٹوںِ، نام نہاد سوشلسٹوں اور لبرلز نے عوام کو کچھ نہیں دیا۔ طبقاتی خلیج، مہنگائی، بیروزگاری، بھوک اور افلاس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اس لیے عوام اب تنگ آچکے ہیں، ان کے سامنے کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے وہ انتہائی دائیں بازو کو ووٹ دینے پر مجبور ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکینڈے نیوین ممالک، فرانس، جرمنی، برطانیہ، بھارت، پاکستان اور امریکا میں دائیں بازو کو عوام نے منتخب کیا ہے۔
امریکا اور بھارت میں مسلم مخالف موقف، فرانس اور برطانیہ میں نسل پرستی اور اسرائیل میں صہیونیت پرستی ابھر کر سامنے آئی ہے اور یہ صورتحال درحقیقت سرمایہ داری خود اپنی موت کو دعوت دے رہی ہے۔ امریکی انقلابی دانشور کامریڈ ایما گولڈمان نے درست کہا تھا کہ ''انتخابات سے مسائل حل ہوتے تو حکمران انتخابات پر کب کی پابندی لگا چکے ہوتے''۔ دنیا بھر میں عوام کی اکثریت نہیں بلکہ اقلیت ووٹ ڈالتی ہے اور جیتنے والی پارٹی ایک چوتھائی ووٹ لے کر عوام کی نمایندہ پارٹی بن جاتی ہے۔ انتخابی سیاست کی وجہ سے دنیا میں تیزی سے بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ چین میں ستائیس کروڑ، بھارت میں چونتیس کروڑ، پاکستان میں چار کروڑ، امریکا میں تین کروڑ اور جاپان میں پینسٹھ لاکھ لوگ بے روزگار ہیں۔
ان عالمی حالات کی روشنی میں امریکی صدر ٹرمپ کا قوم پرستی کے نعروں کے ساتھ جیتنا کوئی حیران کن بات نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر واشنگٹن ڈی سی میں انارکسٹوں کی بڑی تعداد نے صدارتی پریڈ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالیں جس پر پولیس نے مظاہرین پر کالی مرچ کا اسپرے کیا۔ اس کے بعد مظاہرین مشتعل ہوگئے اور دکانوں کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے، انھوں نے درجنوں گاڑیاں بھی نذر آتش کردیں۔ انارکسٹ مظاہرین نے سیاہ پرچم اٹھائے رکھے تھے اور سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے پھینکے گئے آنسو گیس کے گولوں سے بچنے کے لیے انھوں نے چہروں پر ماسک پہنا ہوا تھا۔ ٹکٹ لے کر جو لوگ حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے داخل ہو رہے تھے، مظاہرین کا ان سے پرامن برتاؤ تھا۔ مظاہرین سرمایہ داری اور ٹرمپ کے خلاف نعرے لگاتے رہے حلف برداری کے موقع پر سیکیورٹی کی بھاری نفری موجود تھی۔
مظاہرین یہ نعرے بھی لگارہے تھے کہ ہم پر شوٹ نہ کرو، سر پر ہیلی کاپٹر اڑانا بند کرو، وہ فلسطینیوں کے حقوق دینے اور گوانتانامو کی اذیت گاہ کو بند کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ پولیس نے سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں ٹرمپ کے خلاف ساٹھ ملکوں کے چھ سو تہتر شہروں میں مظاہرے ہوئے جن میں وا شنگٹن میں دو لاکھ خواتین نے مظاہرہ کیا اور لاس اینجلس میں ساڑھے 7لاکھ لوگوں نے مظاہرے کیے۔ ڈیلاور، نیویارک، شکاگو، آکلینڈ اور پورٹ لینڈ سمیت تین سو شہروں میں پندرہ سے بیس لاکھ لوگوں نے مظاہرے کیے۔ معروف گلوکارہ میڈونا نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ دل چاہتا ہے وائٹ ہاؤس کو دھماکے سے اڑا دوں۔
برطانیہ کے سات شہروں، نیوزی لینڈ کے چار شہروں، آسٹریلیا کے شہر سڈنی، جاپان کے شہر ٹوکیو، فلپائن کے دارالخلافہ منیلا میں امریکی سفارت خانے کے سامنے زبردست مظاہرہ ہوا۔ جرمنی، تھائی لینڈ، اسپین، آئرلینڈ، ہنگری، بیلجیئم، گھانا، جنوبی افریقہ، چیک ری پبلک، سوئٹزرلینڈ اور اٹلی وغیرہ میں ٹرمپ اور سرمایہ داری مخالف مظاہرے ہوئے۔ سرمایہ داری ایک ایسے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے کہ نہ آگے جاسکتی ہے اور نہ پیچھے۔ کہاوت ہے کہ گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ یہ سرمایہ داری کی موجودہ صورتحال ہے۔ اس سرمایہ داری کی لوٹ سے عوام جھنجھلا اٹھے ہیں۔ اس لیے برطانیہ میں ایک نچلے طبقے کا سوشلسٹ نظریات کا آدمی جیرمی کوربون حزب اختلاف (لیبر پارٹی) کا لیڈر بن گیا ہے۔
امریکا کے صدارتی امیدوار برنی سینڈرز کا اگر ٹرمپ سے مقابلہ ہوتا تو وہ باآسانی ٹرمپ کو شکست دے دیتا۔ اب برنی سینڈرز نے سرمایہ داری کے خلاف محنت کشوں کے حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ہندوستان کی کمیونسٹ اور دیگر بائیں بازو کے اتحاد نے اٹھارہ کروڑ عوام کی ہڑتال کرکے ثابت کردیا ہے کہ عوام کسی بھی وقت مودی سرکار کو اکھاڑ پھینک سکتے ہیں۔ کشمیری عوام اپنے حقوق کے لیے مسلسل شہادتوں کے باوجود جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس چین میں مزدوروں اور کسانوں نے اپنے حقوق کے لیے ہزاروں مظاہرے اور ہڑتالیں کیں۔ پاکستان بھر میں محنت کش اپنے حقوق کے لیے احتجاج اور ہڑتالیں کر رہے ہیں۔ ٹرمپ امریکا میں باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو بے روزگاری بڑھنے کا موجب قرار دے رہا ہے نہ کہ سرمایہ داری کو۔ جب کہ ٹرمپ کے آباؤ اجداد خود ہجرت کرکے امریکا آئے تھے۔
ٹرمپ فلسطین کو آزادی دلوانے میں مددگار بننے کے بجائے بیت المقدس میں اسرائیل کا دارالخلافہ منتقل کرنے کے حق میں بولتے ہیں، جب کہ یورپی یونین نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر ایسا کیا تو ہم اسرائیل سے تعلقات ختم کرلیں گے۔ ان عوامل سے دنیا کا ماحول پرامن ہونے کے بجائے جنگ و جدل کی جانب دھکیلا جائے گا۔ اسی لیے ٹرمپ کی حلف برداری کے دوران فلسطین میں ٹرمپ مخالف مظاہرے کیے گئے اور میکسیکن عوام نے امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر مصنوعی دیوار بنا کر ٹرمپ کے خلاف نعرے درج کیے۔
اس نسل پرستی، فرقہ پرستی کو ابھارنے سے امریکی عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ برنی سینڈرز کا کہنا درست ہے کہ امریکا میں تمام تر برائیوں کے اسباب امریکا کے ارب پتی ہیں۔ اس سے قبل وال اسٹریٹ قبضہ تحریک کے موقع پر دنیا کے نو سو شہروں میں مظاہرے ہوئے تھے اور اب دنیا بھر میں چھ سو تہتر شہروں اور صرف امریکا کے تین سو شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ یہ مظاہرہ بھی سرمایہ داری کے خلاف اور وال اسٹریٹ تحریک بھی سرمایہ داری کے خلاف تھی۔ عوام اب سرمایہ داری کے خلاف بولنے اور احتجاج کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان تمام مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے سماج کی تشکیل میں مضمر ہے۔ اس کے سوا تمام راستے بند گلی میں جاتے ہیں۔
عالمی سرمایہ داری شدید انحطاط پذیری کا شکار ہے۔ چند برسوں میں شرح نمو 8فیصد سے گھٹ کر دو فیصد پر آگئی ہے۔ بورژوا جمہوریت پسندوں، سوشل ڈیموکریٹوںِ، نام نہاد سوشلسٹوں اور لبرلز نے عوام کو کچھ نہیں دیا۔ طبقاتی خلیج، مہنگائی، بیروزگاری، بھوک اور افلاس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اس لیے عوام اب تنگ آچکے ہیں، ان کے سامنے کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے وہ انتہائی دائیں بازو کو ووٹ دینے پر مجبور ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکینڈے نیوین ممالک، فرانس، جرمنی، برطانیہ، بھارت، پاکستان اور امریکا میں دائیں بازو کو عوام نے منتخب کیا ہے۔
امریکا اور بھارت میں مسلم مخالف موقف، فرانس اور برطانیہ میں نسل پرستی اور اسرائیل میں صہیونیت پرستی ابھر کر سامنے آئی ہے اور یہ صورتحال درحقیقت سرمایہ داری خود اپنی موت کو دعوت دے رہی ہے۔ امریکی انقلابی دانشور کامریڈ ایما گولڈمان نے درست کہا تھا کہ ''انتخابات سے مسائل حل ہوتے تو حکمران انتخابات پر کب کی پابندی لگا چکے ہوتے''۔ دنیا بھر میں عوام کی اکثریت نہیں بلکہ اقلیت ووٹ ڈالتی ہے اور جیتنے والی پارٹی ایک چوتھائی ووٹ لے کر عوام کی نمایندہ پارٹی بن جاتی ہے۔ انتخابی سیاست کی وجہ سے دنیا میں تیزی سے بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ چین میں ستائیس کروڑ، بھارت میں چونتیس کروڑ، پاکستان میں چار کروڑ، امریکا میں تین کروڑ اور جاپان میں پینسٹھ لاکھ لوگ بے روزگار ہیں۔
ان عالمی حالات کی روشنی میں امریکی صدر ٹرمپ کا قوم پرستی کے نعروں کے ساتھ جیتنا کوئی حیران کن بات نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر واشنگٹن ڈی سی میں انارکسٹوں کی بڑی تعداد نے صدارتی پریڈ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالیں جس پر پولیس نے مظاہرین پر کالی مرچ کا اسپرے کیا۔ اس کے بعد مظاہرین مشتعل ہوگئے اور دکانوں کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے، انھوں نے درجنوں گاڑیاں بھی نذر آتش کردیں۔ انارکسٹ مظاہرین نے سیاہ پرچم اٹھائے رکھے تھے اور سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے پھینکے گئے آنسو گیس کے گولوں سے بچنے کے لیے انھوں نے چہروں پر ماسک پہنا ہوا تھا۔ ٹکٹ لے کر جو لوگ حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے داخل ہو رہے تھے، مظاہرین کا ان سے پرامن برتاؤ تھا۔ مظاہرین سرمایہ داری اور ٹرمپ کے خلاف نعرے لگاتے رہے حلف برداری کے موقع پر سیکیورٹی کی بھاری نفری موجود تھی۔
مظاہرین یہ نعرے بھی لگارہے تھے کہ ہم پر شوٹ نہ کرو، سر پر ہیلی کاپٹر اڑانا بند کرو، وہ فلسطینیوں کے حقوق دینے اور گوانتانامو کی اذیت گاہ کو بند کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔ پولیس نے سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں ٹرمپ کے خلاف ساٹھ ملکوں کے چھ سو تہتر شہروں میں مظاہرے ہوئے جن میں وا شنگٹن میں دو لاکھ خواتین نے مظاہرہ کیا اور لاس اینجلس میں ساڑھے 7لاکھ لوگوں نے مظاہرے کیے۔ ڈیلاور، نیویارک، شکاگو، آکلینڈ اور پورٹ لینڈ سمیت تین سو شہروں میں پندرہ سے بیس لاکھ لوگوں نے مظاہرے کیے۔ معروف گلوکارہ میڈونا نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ دل چاہتا ہے وائٹ ہاؤس کو دھماکے سے اڑا دوں۔
برطانیہ کے سات شہروں، نیوزی لینڈ کے چار شہروں، آسٹریلیا کے شہر سڈنی، جاپان کے شہر ٹوکیو، فلپائن کے دارالخلافہ منیلا میں امریکی سفارت خانے کے سامنے زبردست مظاہرہ ہوا۔ جرمنی، تھائی لینڈ، اسپین، آئرلینڈ، ہنگری، بیلجیئم، گھانا، جنوبی افریقہ، چیک ری پبلک، سوئٹزرلینڈ اور اٹلی وغیرہ میں ٹرمپ اور سرمایہ داری مخالف مظاہرے ہوئے۔ سرمایہ داری ایک ایسے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے کہ نہ آگے جاسکتی ہے اور نہ پیچھے۔ کہاوت ہے کہ گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ یہ سرمایہ داری کی موجودہ صورتحال ہے۔ اس سرمایہ داری کی لوٹ سے عوام جھنجھلا اٹھے ہیں۔ اس لیے برطانیہ میں ایک نچلے طبقے کا سوشلسٹ نظریات کا آدمی جیرمی کوربون حزب اختلاف (لیبر پارٹی) کا لیڈر بن گیا ہے۔
امریکا کے صدارتی امیدوار برنی سینڈرز کا اگر ٹرمپ سے مقابلہ ہوتا تو وہ باآسانی ٹرمپ کو شکست دے دیتا۔ اب برنی سینڈرز نے سرمایہ داری کے خلاف محنت کشوں کے حقوق کے لیے مسلسل جدوجہد کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ہندوستان کی کمیونسٹ اور دیگر بائیں بازو کے اتحاد نے اٹھارہ کروڑ عوام کی ہڑتال کرکے ثابت کردیا ہے کہ عوام کسی بھی وقت مودی سرکار کو اکھاڑ پھینک سکتے ہیں۔ کشمیری عوام اپنے حقوق کے لیے مسلسل شہادتوں کے باوجود جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس چین میں مزدوروں اور کسانوں نے اپنے حقوق کے لیے ہزاروں مظاہرے اور ہڑتالیں کیں۔ پاکستان بھر میں محنت کش اپنے حقوق کے لیے احتجاج اور ہڑتالیں کر رہے ہیں۔ ٹرمپ امریکا میں باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو بے روزگاری بڑھنے کا موجب قرار دے رہا ہے نہ کہ سرمایہ داری کو۔ جب کہ ٹرمپ کے آباؤ اجداد خود ہجرت کرکے امریکا آئے تھے۔
ٹرمپ فلسطین کو آزادی دلوانے میں مددگار بننے کے بجائے بیت المقدس میں اسرائیل کا دارالخلافہ منتقل کرنے کے حق میں بولتے ہیں، جب کہ یورپی یونین نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر ایسا کیا تو ہم اسرائیل سے تعلقات ختم کرلیں گے۔ ان عوامل سے دنیا کا ماحول پرامن ہونے کے بجائے جنگ و جدل کی جانب دھکیلا جائے گا۔ اسی لیے ٹرمپ کی حلف برداری کے دوران فلسطین میں ٹرمپ مخالف مظاہرے کیے گئے اور میکسیکن عوام نے امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر مصنوعی دیوار بنا کر ٹرمپ کے خلاف نعرے درج کیے۔
اس نسل پرستی، فرقہ پرستی کو ابھارنے سے امریکی عوام کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ برنی سینڈرز کا کہنا درست ہے کہ امریکا میں تمام تر برائیوں کے اسباب امریکا کے ارب پتی ہیں۔ اس سے قبل وال اسٹریٹ قبضہ تحریک کے موقع پر دنیا کے نو سو شہروں میں مظاہرے ہوئے تھے اور اب دنیا بھر میں چھ سو تہتر شہروں اور صرف امریکا کے تین سو شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ یہ مظاہرہ بھی سرمایہ داری کے خلاف اور وال اسٹریٹ تحریک بھی سرمایہ داری کے خلاف تھی۔ عوام اب سرمایہ داری کے خلاف بولنے اور احتجاج کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان تمام مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے سماج کی تشکیل میں مضمر ہے۔ اس کے سوا تمام راستے بند گلی میں جاتے ہیں۔