جینے دو

آج کل دنیا میں ٹرمپ کا بول بالا ہے

Jvqazi@gmail.com

آج کل دنیا میں ٹرمپ کا بول بالا ہے۔ ٹرمپ آج کل وہائٹ ہاؤس کی اس دیوار سے اس دیوار تک چھلانگ لگا رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں میکسیکو کی سرحدوں پر باڑ کی دیوار کھڑی کرنے سے سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، سات مسلمان ممالک کے جن شہریوں کو دیے ہوئے امریکن ویزے منسوخ کرنے سے سب کچھ ٹھیک ہوجائیگا۔ وہ ''سفید گھر'' میں بیٹھ کر سفید فام امریکا کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے یا کہ انھیں غیر محفوظ کر رہا ہے۔ ان کے لیے زندگی مانگ رہا ہے یا زندگی جنجال کر رہا ہے؟ کیونکہ جیو گے تب جب جینے دو گے۔ دوسروں کی زندگی کو اجاڑ کر اپنوں کی زندگی کا تحفظ کرنے والا اصول نہ ہلاکو، نہ چنگیز خان، نہ ہٹلر کو کچھ دے سکا۔

ماٹی کہے کمہار سے تو کیا گوندھے موئے

اِک دن ایسا آئے گا میں گوندھوں گی توئے

(کبیرؔ)

جو صبح کو نہ جانے وہ رات کو کیا جانے۔ ہجر وصال کی لڑیاں، شام و صبح میں پڑے رنگ، شجر سائے، نیلا آسمان، موسموں کی ترنگ، کھیلو ہنسو، جیو اور جینے دو۔

دوڑ دوڑ کر دنیا اس طرف لوٹی ہے ہیروشیما سے ناگاساکی تک، پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم تک۔ کتنا بھی وحشی ہو انسان، مذہب کی آڑ میں یا نسل کی آڑ میں، سرمائے کی ہوس میں یا اقتدار کے نشے میں، وہ لوٹا تو پھر بھی وہیں کہ ''جیو اور جینے دو''۔

''جیو اور جینے دو'' کی بنیاد پر بنا ''عمرانی معاہدہ'' جمہور جو کہے، جمہور جو چنے، جمہور میں اختلاف ہو تو اکثریت کی بات ہو۔

ارتقاء کی ان ساری مسافتوں میں ضیاء الحق کی طرح ایل کے ایڈوانی یا نریندر مودی، ٹرمپ، ہٹلر جو بھی اک لمحہ ہے، ایک تاریخ کا ورق ہے۔ یہ تو وہ گرد آلود ہوائیں ہیں، جن کو گزر جانا ہے اور رہنا اس اصول کو ہے کہ 'جیو اور جینے دو' کہ 'سنو اور سننے دو'۔ کہنا اس کا حق ہے اور سننا تم کو پڑے گا۔ تم جانو تمہارا مذہب جانے، میں جانوں میرا مذہب جانے، اور تم جانو تمھارا خدا جانے، میں جانوں اور میرا خدا جانے۔ نہ تیرا مذہب، نہ تیرا فرقہ بڑا ہے، نہ میرا مذہب نہ میرا فرقہ۔ نہ تیری سفید چمڑی، نہ میری کالی چمڑی۔ ہم نے کہا بنگالی بونے ہیں، سندھی صحیح مسلمان نہیں، بلوچ غدار، پختون جنونی۔ ہم نے ان کو آدمی کی آنکھ سے نہیں دیکھا، ہمارے اندر بھی ایک چھوٹا سا وحشی رہتا تھا، چھوٹا سا ٹرمپ رہتا تھا، کوئی ہٹلر و ہلاکو رہتا تھا۔

کہتے ہیں راسپوتین اپنے پاس زندہ مرغی رکھتا تھا۔ اسے کبھی کبھار شدید غصہ بھی آتا تھا تو امکان یہ تھا کہ کسی آدمی کی جا ن نہ لے لے۔ تو اس لمحے وہ اپنے غصے کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس مرغی کی گردن مروڑ دیتا تھا۔


کاش کچھ یہ سبق راسپوتین کے ''پوتن'' کے کانوں میں پڑی ہوتی۔ کچھ اس کی ٹرمپ کو سوجھ ہوتی، تو کچھ مودی کو خبر ہوتی۔ ہر طرف نفرتوں کا بازار لگا ہے۔ کل ہٹلر نے یہودی مارے تھے، آج برما میں ''روہنگیا'' مارے جا رہے ہیں۔ فرقوں پر فرقے ہیں، اور فرقے فرقوں کو مار رہے ہیں۔ اب تو یہ نفرتوں کا کاروبار ریاستیں کر رہی ہیں۔ وہ اِسے کافر کہتے ہیں، وہ اُسے کافر کہتے ہیں۔ مگر ہیں سب یہ انسان۔ وہ اپنی ماں کی کوکھ سے آتے ہی اذان سنتا ہے اور یہ مسلمان ہوتا ہے۔ اسے کچھ بھی شعور نہیں ہوتا۔ وہ اپنی ماں کی کوکھ سے ہندو، تو یہ اپنی ماں کی کوکھ سے عیسائی ہوتا ہے۔ مگر ان سب میں ایک جیسی حسیں ہوتی ہیں، محبتیں، نفرتیں اور جبلتیں ہیں۔

ان کے خمیر میں سب چیزیں ایک جیسی ہیں، لہو کا رنگ بھی ایک، دل کی دھڑکنوں میں پڑی موسیقی بھی ایک جیسی تھی، مگر تاریخ الگ الگ، ارتقاء بھی الگ الگ۔ زماں وہی تو مکاں الگ الگ، زباں الگ الگ، تہذیب و تمدن و ثقافت الگ الگ، لباس الگ الگ، رویے و کھانے پکانے کے انداز و اظہار الگ الگ اور پھر یوں ہوا کہ جس میں جتنی وسعت، اتنا ہی اس کا شعور بلند تھا۔ اتنی ہی اس کی پرواز اونچی تھی۔ آج اس اونچی پرواز رکھنے والی ریاست امریکا میں اب کوئی شاہین چٹانوں پر نہیں، اب تو ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے۔ کوئی بندر ہے جو اس ڈالی سے اس ڈالی پر پھدکتا ہے۔ مگر مجھے پھر سے فیض دستک دیتا ہے۔

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

مجھے اپنے آئین کے آرٹیکل 9 سے بڑی انسیت ہے۔ جو فرد کے جینے کے حق کو یقینی بناتا ہے۔ جینا کیا ہے، یہ تشریح طلب معاملہ ہے، لیکن اس کی تشریح میں مہذب دنیا کی عدالتوں میں کتابوں کے انبار لگا دیے ہیں کہ زندگی یہ نہیں کہ صرف سانس لو یا جس طرح جانور جیتا ہے۔ زندگی و جبلتوں کے تناظر میں نہیں۔ محبتوں، وسعتوں، آزادی کے حقوق، اسپتال و اسکول کے حق اور ان تمام حقوق جو کہ انساں ہونے کے ناتے بنتے ہیں، اس سے وابستہ ہے۔ وہ ''جیو اور جینے دو'' کے اصول سے وابستہ ہے۔

تم میری قدر کرو، میں تمہاری قدر کروںگا۔ یورپی یونین تو ایک اور ڈگر چل پڑا کہ اس شہری کو بھی سزائے موت نہیں دیتا کہ جس نے کسی ہم شہری پر موت صادر کی ہوتی ہے، فقط تا عمر قید دیتی ہے، تاکہ جینے کے حق کی تعظیم ہوسکے، اس کی عظمت پر کوئی آنچ نہ آئے۔ ہمیں ان ریاستوں سے دور رہنا چاہیے جو بادشاہوں، آمریتوں کی بقا کے لیے مذہب میں فرقوں اور رنگ و نسل کے تضاد کو ہوا دیتی ہیں۔ ان کے عہدوں سے اجتناب کرنا چاہیے کہ جس سے میرے دیس کے عمرانی معاہدے کو ٹھیس پہنچنے کے امکان پیدا ہوتے ہوں۔ طرح طرح کی زبانیں ہیں، قومیں و قومیتیں، فرقے و مذاہب، ایسی کوئی حرکت جس سے اس کثیر القومی و مذہب و زباں کے ملک میں کسی زبان و فرقے کے اندر احساس محرومی پیدا ہو، اس سے گریز کرنا چاہیے۔

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے

یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں

گر آج اوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا

یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں

(فیضؔ)
Load Next Story