بھونڈی آوازوں کا رقص

یہ بات بہت سمجھنے کی ہے کہ آپ جیسا چاہیں گے ویسا ہی ہوگا

یہ بات بہت سمجھنے کی ہے کہ آپ جیسا چاہیں گے ویسا ہی ہوگا، یعنی زندگی کے سارے کھیل میں اصل اہمیت حالات کی نہیں بلکہ آپ کی مرضی کی ہوتی ہے۔ لوگ خود یہ طے کرتے ہیں کہ ان کی زندگیاں کس طرح سے گذریں گی، اگر ہم خوش وخرم ہیں خوشحال اوربااختیار ہیں تو یہ ہمارا اپنا انتخاب ہے اوراگر ہم بدحال بے اختیار اور برے حال میں تویہ بھی ہمارا اپنا ہی انتخاب ہے۔

ہماری اپنی مرضی کے خلاف ہمارے حالات کا فیصلہ ہوہی نہیں سکتا جب آپ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیتے ہیں توآپ زندگی کے سارے فلسفے سے آگاہی حاصل کرلیتے ہیں۔ آج جوکچھ بھی ہمارے ساتھ ہورہا ہے اس کی ساری کی ساری ذمے داری خود ہمارے اوپرعائد ہوتی ہے ہم نے اپنے لیے اس زندگی اورحالات کا انتخاب خودکیا ہے۔ ہمارے ساتھ یہ سب کچھ ہماری اپنی مرضی اور منشا سے ہو رہا ہے اگر ہماری مرضی اور منشا نہ ہوتی توکسی میں بھی مجال تک نہیں ہے کہ وہ ہماری زندگی کے حالات کو خود طے کرے ۔

قدیم یونان کا ممتازدانشور، فلسفی اورمصنف پلو ٹارک ایک بارایک عوامی جلسے سے خطاب کررہا تھا ۔اسی دوران بادشاہ کاایک قاصد بادشاہ کا خط لے کرآگیا تقریر کرتے کرتے پلوٹارک نے خط کھول کر پڑھنا چاہا توعوام میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور پلوٹارک سے کہنے لگا پہلے ہمارے ساتھ بات کرو بادشاہ کاخط پھر پڑھ لینا ۔ پلوٹارک نے مسکرا کر خط بند کردیا اور جیب میں رکھ لیا ۔ جب جلسہ ختم ہوگیا اورلوگ چلے گئے تو خط پڑھا۔ ادھر روم میں جب عیسائیت رائج ہوگئی تب بھی Colosseum میں وحشت ناک کھیل بند نہ ہوئے۔

سن 200 میں شہر میں حسب دستور اعلان ہوا کہ Colosseum میں تیغ زنی کے کرتبوں کا مظاہرہ ہوگا سارا شہر جمع ہوا اوران کے ساتھ ایک بزرگ درویش بھی تماشا گاہ میں داخل ہوگیا۔ تیغ زن اپنے ہاتھوں میں تیزتلوار یں اور نیزے لیے ہوئے اکھاڑے میں اترے اور اپنے بادشاہ کے سامنے سے گزرتے ہوئے کہہ رہے تھے مرحبا قیصر مرنے والے تجھے سلام کرتے ہیں ۔ اور جیسے ہی وہ ایک دوسرے سے مقابلے کو بڑھے تو ہجوم میں سے وہ بزرگ درویش نکلا اور دیوار پر سے اکھاڑے میں کود پڑا اس نے تیغ زنوں سے التجا کی کہ وہ ناحق خون سے ہاتھ نہ رنگیں۔اب کیا تھا اہل شہر نے چلانا شروع کردیا۔

بوڑھے پیچھے ہٹ جاؤ مگر بوڑھا درویش کب ہٹا اس نے پھر تیغ زنوں کو منع کیا لیکن اب رومی غصے میں بپھرگئے اور ہر طرف سے یہ ہی آواز بلند ہورہی تھی کہ اس دیوانے کو مار ڈالو۔ آخر بادشاہ نے بھی اپنی رضامندی کا اظہارکردیا تیغ زنوں نے ایک لمحے میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور اسے روندتے ہوئے ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لیے بڑھ گئے ۔ سفاکی اور خونریزی کا سبق پھر دہرایا گیا لیکن اس روز رومیوں نے بہت بے لطفی محسوس کی ، بزرگ درویش کا خون رائیگاں نہ گیا۔ رومیوں نے اپنے کیے پر ندامت محسوس کی انھیں خود اپنی سنگدلی پر صدمہ سا ہوا کہ انھوں نے خونریزی کی پیاس بجھانے کے لیے ایک مقدس بزرگ کی جان لی تھی۔ اسی دن سے Colosseum کے یہ ہولناک تماشے بند ہوگئے اورسن 402 میں بادشاہ ہانوریس نے ان وحشیانہ کھیلوں کو قانوناً بندکردیا ۔ بعد میں رومیوں نے احتراماً اس گمنام بزرگ کو مذہبی رسوم کے مطابق سینٹ کلیمنٹ کے قریبی گرجا میں سپرد خاک کردیا۔


پلوٹارک نے بادشاہ ٹارجن کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمہاری حکومت سب سے پہلے اپنے دل پر ہونی چاہیے ۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج ہمارے سامنے کتنی ہی ناانصافی، ظلم، زیادتی کیوں نہ ہوجائے کتنا ہی کسی کاحق کیوں نہ مارا جا رہا ہو ہم یہ سب کچھ اپنے سامنے ہوتا ہوا دیکھ کر خاموشی کے ساتھ اپنا راستہ نہیں بدل لیتے ہیں ۔کیاہم سب اندھے،گونگے اور بہر ے نہیں بن چکے ہیں۔ کیا ہم خاموش فلموں کے خاموش ایکسٹرا کا کردار نہیں ادا کررہے ہیں۔ کیا ایسا نہیں لگتا ہے کہ ہم اس طرح زندگی گذار رہے ہیں جیسے ہم کسی جنازے میں میت کے ساتھ ساتھ چل رہے ہوں خاموش ، اداس ، غمگین ، فکرمند، اپنی باری کے منتظر ۔

سچ بات یہ ہے کہ ہمارا دشمن ہم سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہوچکا ہے جو ہمارے اندر بیٹھا ہوا ہے ہر بالغ انسان بالغ نہیں ہوتا حالانکہ ہر بالغ انسان اپنے آپ کو بالغ سمجھتا ہے ہماری عمر 69 سال ہوچکی ہے کیا یہ عمر بالغ ہونے کے لحاظ سے کافی نہیں ہے ۔لیکن کیاہم اپنے آپ کو بالغ کہہ سکتے ہیں آپ اورکچھ نہ کریں ملک کے ہرادارے کا حال خود جا کر دیکھ لیں اگر یہ نہیں کرسکتے ہیں تو پھر آپ صرف قومی اسمبلی کی ایک دن کی کارروائی جاکر دیکھ لیں اورآج آپ نے جمہوری تماشا دیکھ بھی لیا ، اگر یہ بھی مشکل ہے تو چلو صرف ایک روز اپنے ٹی وی کے سامنے شام 6 بجے سے لے کررات 2 بجے تک بیٹھ کر مختلف چینلز پر چلنے والے تمام ٹاک شوز دیکھ لیں اور ساتھ ہی ساتھ کسی ایک روزکے تمام اخباروں کا تفصیلی مطالعہ بھی کرلیں اس کے بعد اگر آپ پھر بھی پاکستانی قوم کو بالغ قوم کہیں گے تو پھر میں سر میں خاک ڈال کر جنگل کی طرف نکل جاؤں گا۔

ایک عام آدمی سے لے کر سیاست دانوں تک ہم سب بچے بنے ہوئے ہیں اور بچے بھی وہ جو بگڑے ہوئے ہوں اور جو بچپن میں ہی یتیم ہوچکے ہوں جس طرح ایک ایسا کمرہ جس میں ہر چیز ترتیب سے رکھی ہوئی ہو اورآپ اس کمرے میں تھوڑی دیر کے لیے ایک بچے کو اکیلا چھوڑ دیں پھرجب آپ تھوڑی دیر بعد اس کمرے میں جائیں تو آپ اس کمرے کا حشر نشر دیکھ کر سر پکڑ کے رہ جائیںگے اور تھوڑی دیر کے لیے آپ کی عقل جواب دے چکی ہوگی کہ میں اس کمرے کو دوبارہ صحیح کرنے کی ابتداء کہاں سے کروں ۔ سو وہ ہی حال ہمارے کروڑوں بچوں نے اس ملک کا کردیا ہے ۔

ملک میں صرف کوئی ایک چیز بتا دیں جو صحیح طریقے سے کام کررہی ہو یااس میں پہلے کے مقابلے میں بہتری آگئی ہو ،اگر غلطی یا نادانی سے کوئی چیز صحیح طریقے سے کام کرنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے تو اسے دیکھ کر ہماری آنکھوں میں خون اترآتا ہے اس کی یہ مجال دیکھ کر ہم اپنے آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور اس کو ایسی سزا دیتے ہیں کہ پھر اسے دوبارہ یہ ہی کچھ کرنے کی جرأت ہی نہیں رہتی ہے اور ملک میں کچھ بھی نہیں ہورہا ہے، بس ہمارے چاروں طرف صرف کان پھاڑ دینے والے پروپیگنڈے ہورہے ہیں۔

چین لوٹ لینے والے دعو ے ہورہے ہیں ۔ کروٹ کروٹ بے چین کر دینے والے وعدے ہورہے ہیں۔ بس چاروں طرف سے بڑے بڑے لاؤڈ اسپیکروں سے پروپیگنڈوں ، دعوؤں اور وعدوں کا ایسا شو ر مچا ہوا ہے کہ انسان اپنے دل کی بھی نہیں سن پارہا ہے بس بیچ چوراہے میں کانوں پر ہاتھ دھرے اکڑوں بیٹھا زاروقطار رورہا ہے اوراس کے چاروں طرف بھدی ، بھونڈی بلند آوازیں دیوانہ وار ناچ رہی ہیں۔
Load Next Story