اقلیتیں پاکستان میں محفوظ ہیں

پاکستان میں سیکولر، لبرل، پروگریسو ہونے کی دعویدار حکومتیں اور متعدد فوجی آمریتیں وقفے وقفے سے برسراقتدار آئیں


[email protected]

لاہور: پاکستان میں سیکولر، لبرل، پروگریسو ہونے کی دعویدار حکومتیں اور متعدد فوجی آمریتیں وقفے وقفے سے برسراقتدار آئیں لیکن ہر دور میں اقلیتوں کو نظراندازکیا گیا۔ جس کے نتیجے میں اقلیتوں کے مسائل گھمبیر ہوتے چلے گئے اور بعض ایسے مرحلے بھی آئے جب اقلیتیں خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگیں لیکن جب سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت برسراقتدار آئی ہے اس نے اقلیتوں کے مسائل پر توجہ دی ہے اور انھیں یہ احساس دلایا ہے کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بھی اس ملک کے برابرکے شہری ہیں۔ اس کا کریڈٹ وزیر اعظم نوازشریف کو جاتا ہے جو اقلیتوں کے مسائل حل کرنے کے علاوہ ان کے دکھ درد اور خوشوں میں اس طرح شریک ہوتے ہیں کہ ہر فرق مٹ جاتا ہے۔ ہندو ہوں عیسائی یا پھر سکھ وہ سب کو یکساں نظر سے دیکھتے ہیں۔

نوازشریف کا دور اقلیتوں کے لیے بہترین دور ہے۔ اب وزیراعظم اقلیتوں کے پاس خود چل کر جاتے ہیں۔ ان کی دیوالی،کرسمس اور دیگر تقریبات میں شرکت کرکے خوشی کا اظہار کرتے ہیں اوراقلیتوں کی عبادت کی تعمیر تزئین وآرائش کے معاملات میں بھی بھرپور دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں اور اقلیتوں کے تہواروں کی تقریبات میں شرکت کی کھل کر خواہش ظاہر کرتے ہیں ۔

ابھی حال ہی میں وزیراعظم محمد نواز شریف نے ضلع چکوال کے نو سو سال پرانے راج کٹاس مندرکی تعمیر نو، تزئین اور ضروری سہولتوں کی فراہمی کے بعد منعقدہ تقریب سے خطاب کیا اورکہا کہ وہ صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ تمام پاکستانیوں کے وزیراعظم ہیں جن میں ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی سمیت ملک میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگ شامل ہیں۔ دراصل نوازشریف نے یہ کہہ کر قیام پاکستان کے مقاصد اور قرون وسطیٰ کی تاریخ کے اہم تقاضوں کی نشاندہی کردی ہے۔ جن کے استدلال کے طور پر انھوں نے قرآنی آیات ، احادیث نبویﷺ، اسلامی تاریخ کے واقعات اور پنجابی صوفیا کے اشعاروتحریروں کے حوالے بھی دیے۔

یہ مندر راج کٹاس 6 ہزار سال کی طویل تاریخ کا حامل ہے اور ہندو، سکھ، بودھ اور مسیحی تہذیبوں کا گہوارہ رہ چکا ہے۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے مذہبی اقلیتوں کے دیگر اہم مقامات کی تعمیر و آرائش کے بارے میں ہدایات بھی دیں۔انھوں نے بابا گرونانک اورگندھارا یونیورسٹیوں کی تعمیر میں ہر ممکن مدد دینے کی یقین دہانی بھی کرائی۔وزیراعظم نے کہا کہ یہ ان کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ ملک کے ہر شہری کی بلا تفریق خدمت کریں۔ تمام اقلیتیں پاکستان کے دفاع، امن، ترقی اورخوشحالی کے لیے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرکام کررہی ہیں۔ ہر مذہب، احترام، اتحاد اور اتفاق کا درس دیتا ہے۔

قائداعظم نے ملکی دستورساز اسمبلی سے خطاب میں 11 اگست 1947 کوکہا تھا کہ ''آپ لوگ آزاد ہیں۔ آپ لوگ اس ملک پاکستان میں اپنی عبادت گاہوں، مسجدوں، مندروں یا کسی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔آپ کا مذہب کیا ہے؟ فرقہ کیا ہے؟ ذات کیا ہے؟ اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول سے آغازکریں گے کہ ہم سب ریاست کے شہری ہیں اور ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔'' بلاشبہ اسلامی معاشرہ ایک متوازن معاشرہ ہے۔ جس میں اقلیتوں کے جان و مال اور ہر شعبے میں خدمات انجام دینے کا بنیادی حق حاصل ہے اور قیام پاکستان سے آج تک بہت سی اقلیتی شخصیات اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہیں۔ مذہبی اقلیتیں ہماری قومی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔ تعلیم، علوم وفنون، عدلیہ اور سماجی خدمات سے دفاع وطن تک ہر شعبے میں غیر مسلم پاکستانیوں نے حب الوطنی کے جذبات سے سرشار ہوکر اپنے فرائض انجام دیے۔ وہ کسی طور پر بھی مسلم اکثریت سے پیچھے نہیں رہے۔ یقیناً پاکستان میں اقلیتوں کو ملنی والے مراعات اور ان کے ساتھ علم اکثریت کا برتاؤ قابل تعریف ہے۔

اس ضمن میں حکومت کی حکمت عملی اور وزیر اعظم محمد نوازشریف کی رہنمائی کی بدولت اقلیتوں میں اطمینان کا احساس پایا جاتا ہے۔ وزیر اعظم محمد نوازشریف کا اقلیتوں کے لیے بڑھ چڑھ کرکام تحسین کی نظر سے دیکھا جانا چاہیے، نوازشریف ہمیشہ اقلیتوں کے لیے فکر مند دکھائی دیتے ہیں۔ ایک مسلمان وزیراعظم کے دل میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اوران کی خوشیوں کے بارے میں تفکر انھیں ہر مذہب کے پیروکاروں میں ہر دل عزیزبنادیتا ہے۔اس حوالے سے محمد نوازشریف کا جو وژن ہے وہ میں نے کسی اور وزیراعظم میں نہیں دیکھا۔ اقلیتوں کے کے حوالے سے صدر مملکت ممنون حسین کی کاوشیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔

وہ اقلیتی رہنماؤں سے رابطے میں رہتے ہیں ان کے مسائل بغور سنتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ایوان صدر میں اقلیتوں کے تہواروں کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد بھی بڑی خوش آیند بات ہے۔ اس حوالے سے صدر پاکستان کی خدمات کو بھی یاد رکھا جائے گا۔ راج کٹاس مندر میں ہونے والی مذکورہ تقریب کے انعقاد کا سہرا متروکہ وقف املاک کے چیئرمین صدیق الفاروق کے سرجاتا ہے۔ متروکہ وقف املاک اور اقلیتوں کے حوالے سے ان کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اقلیتی برادری کے مسائل ہی نہیں سنتے بلکہ ان پر ایکشن بھی لیتے ہیں۔ انھوں نے سندھ اور پنجاب کے متعدد شہروں میں بڑی جدوجہد کے بعد اقلیتوں کی عبادت گاہوں سے قبضے ختم چھڑائے ہیں۔

کراچی سے تھر پارکر تک جہاں جہاں اقلیتی عبادت گاہوں پر قبضے تھے ان کے خاتمے کے لیے انھوں نے دلیرانہ کردار ادا کیا۔ میں نے مسلم لیگ (ن) کے دورکو اقلیتوں کے لیے سنہرا دور یوں ہی قرار نہیں دیا۔ آپ دیکھیں کہ ہر سطح پر اقلیتوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ مذہبی امورکے وزیر سردار یوسف نے بھی کرسمس کا پروگرام آرگنائزکیا اور عیسائی بھائیوں کی خوشیوں میں شریک ہوئے۔ جب کہ پاکستان کی تاریخ میں کرسمس کے تہوارکے موقعے پر پہلی بارکرسمس ٹرین چلائی گئی۔ اقلیتوں کے حوالے سے موجودہ حکومت کے سینیٹرکامران مائیکل کی خدمات کا تذکرہ نہ کرنا زیادتی ہوگی۔انھوں نے اس ضمن میں قابل ذکر خدمات انجام دی ہیں اور قانون سازی کے مختلف مرحلوں کے دوران انھوں نے بھرپور تعاون کیا ہے۔

موجودہ دور میں اقلیتی برادری کے ساتھ حکومتی سلوک اور انھیں حاصل مراعات کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کوکسی بھی مہذب کے ملک کے سامنے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ فرانس، جرمن، ناروے، برطانیہ، سربیا، امریکا، میانمر اور بعض دیگر ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ جو برتاؤ کیا جارہا ہے، اس کا موازنہ پاکستان کی اقلیت سے کیا جائے تو پاکستانی اقلیتی برادری حالت بدرجہا بہتر ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو جو حقوق حاصل ہیں وہ شاید ہی کسی اور ملک کی اقلیتوں کو نصیب ہوں۔

آپ بھارت کی مثال لے لیں جہاں اقلیتوں کے قتل عام کے بے شمار واقعات ہوچکے ہیں۔ بھارت میں مسلموں، مسیحی اقلیت، دلت اقلیت اور سکھ اقلیت پر جو مظالم روا رکھے گئے ہیں وہ عالمی ذرایع ابلاغ سے بھی پوشیدہ نہیں۔ ان حالات میں دیکھا جائے تو پاکستان اقلیتوں کے لیے انتہائی قابل رشک ریاست ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق مختلف ملکوں میں تعینات پاکستانی سفیروں کو متحرک اقلیتوں کے حوالے سے پاکستان کا قابل رشک ٹریک ریکارڈ پیش کیا جائے۔ اس طرح اصل حقائق بھی دنیا کے سامنے آئیں گے اور پاکستانی دشمنوں کا اقلیتوں کے حوالے سے پروپیگنڈا بھی دم توڑ جائے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔