وحشی جانوروں کے حملے نے انسانی بستیوں میں دہشت پھیلادی
دنیا کے بعض خطوں میں وحشی جانور اور خوں آشام پرندے اس صورت حال کو بگاڑ دیتے ہیں۔
اس دنیا، اس ہمارے کرۂ ارض پر جان داروں کے دم سے ہی یہ ساری رونق ہے۔ انسان تو اشرف المخلوقات ہے ہی، لیکن یہاں اگر جانور نہ ہوں تو زمین ویران اور غیرآباد ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر زمین پر آباد انسانوں کے دم سے رونق ہے تو یہاں بسنے والے جانوروں بھی اس میں اضافہ کرتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان پائی جانے والی ہم آہنگی سے ایک ایسا نظام تشکیل پاتا ہے جو ہماری دنیا کی بقا اور اس کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دنیا کے بعض خطوں میں وحشی جانور اور خوں آشام پرندے اس صورت حال کو بگاڑ دیتے ہیں۔ وہ انسانی بستیوں کو کچھ اس انداز سے نشانہ بناتے ہیں کہ بستیاں کی بستیاں اجاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
ظاہر ہے اس کا سب سے بڑا سبب انسانوں اور جانوروں کے درمیان عدم توازن ہی تو ہے جو دونوں کے لیے بہت بڑے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ پھر انسان کو حرکت میں آنا پڑتا ہے اور وہ اس عدم توازن کو دور کرنے اور انسان اور جانور کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے اہم اقدامات کرتا ہے تب کہیں جاکر ان دونوں کی کرۂ ارض پر موجودگی ممکن ہوپاتی ہے۔ آئیے اس حوالے سے آپ کو کچھ واقعات سے آگاہ کرتے ہیں:
٭کیلی فورنیا، پنسلوانیا میں کوّوں کی یلغار:
یہ 2012کی بات ہے جب امریکی ریاست پنسلوانیا کے ایک چھوٹے سے قصبے کیلی فورنیا میں فضا سے ہزاروں کووّں نے یلغار کردی اور پورا علاقہ تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اس قصبے کے مکینوں کا کہنا تھا کہ ان کے لیے ان ہزاروں کوئوں کی کریہہ اور کرخت آوازیں ناقابل برداشت تھیں۔
کوئی کہتا تھا کہ یہ آوازیں طوفانی بارش کے برستے قطروں کی مانند کاٹ دار تھیں اور کچھ کا کہنا تھا کہ یہ آوازیں چنگھاڑتے ہوئے الارم کلاک سے بھی زیادہ تیز اور شدید تھیں، جنہیں برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔ ان سب سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اگر کسی جگہ پر اتنی بڑی تعداد میں پرندے ایک ساتھ حملہ آور ہوجائیں تو اس کی وجہ سے بہت بڑے اور خطرناک مسائل پیدا ہوسکتے تھے، کیوں کہ پرندوں کی اتنی بڑی تعداد کا کسی جگہ پہنچنا موذی اور خوف ناک بیماریوں کے پھیلائو کا سبب بن سکتا تھا، اس سے نہ صرف لوگ متاثر ہوسکتے تھے، بل کہ یہاں کے شہری بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا۔ ویسے بھی پنسلوانیا کے اس قصبے کیلی فورنیا میں اکثر و بیشتر پرندوں کے حملوں کے واقعات موسم سرما میں ہی پیش آتے رہے ہیں۔
اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ پرندے سردی کے موسم میں شہری علاقوں کی چمک دمک اور روشنیوں کی طرف راغب ہوتے ہیں اور یہاں آتے ہیں تو یہاں انہیں حرارت بھی ملتی ہے جو ان کے وجود کے لیے ضروری ہے۔ مقامی عہدے دار ان حملہ آور کوئوں کو یہاں سے بھگانے کے لیے انگور کا رس نکالنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دھوئیں کو استعمال کرتے ہیں جو کالی مرچ کے اسپرے والا کام کرتا ہے، یعنی نہ تو یہ خاص اسپرے پودوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اور نہ ہی پرندوں کے لیے کسی طرح کی مضرت رسانی کا سبب بنتا ہے۔
بہرحال ان حملہ آور کوئوں کو بھگانے کے لیے انگور کا رس نکالنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دھوئیں کا اسپرے کیا گیا جسے یہ برداشت نہیں کرسکے اور فوراً ہی اس مقام کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اس روز کے بعد سے مقامی عہدے داران اس مصیبت سے نجات پانے کے لیے یہی اسپرے کرتے ہیں۔
٭جب سائبیریا کے کالے ریچھ مصیبت بن گئے:
روس چین سرحد کے قریب سائبیریا میں Luchegorsk کا قصبہ واقع ہے۔2015 ء میں یہ پورا علاقہ وحشی سیاہ ریچھوں کے محاصرے میں آگیا تھا، جہاں ہر طرف خوں خوار ریچھ دندناتے پھرتے تھے۔ شروع میں معلوم ہوا کہ 36بھوکے پیاسے ریچھ خوراک کی تلاش میں اس خطے میں داخل ہوئے تھے۔ ایک مقامی فرد نے ریچھوں کے اس منظم حملے کو ایک فوجی مہم سے تشبیہہ دی، کیوں کہ یہ بالکل فوجیوں کے انداز میں یہاں آئے تھے اور آتے ہی خوراک کی تلاش شروع کردی تھی۔
اس دوران مقامی افراد اور یہاں بہ طور مہمان آنے والے ریچھوں کے درمیان کئی خوف ناک مقابلے بھی ہوئے، جس کے بعد مقامی عہدے داروں کو علاقے کے مکینوں کو ان کے تحفظ اور سلامتی کے لیے یہ ہدایات جاری کرنی پڑیں کہ وہ زیادہ وقت اپنے گھروں کے اندر ہی رہیں اور بلاضرورت باہر نکلنے کی کوشش نہ کریں۔ لیکن چوں کہ یہ سیاہ ریچھ مسلسل مقامی افراد کے لیے خطرہ بنتے جارہے تھے، اس لیے ان میں سے متعدد ریچھوں کو بہ حالت مجبوری ہلاک بھی کرنا پڑا۔ دوسری جانب ان ریچھوں نے لگ بھگ پانچ افراد کی جانیں لے لیں، جس کے بعد صورت حال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے مقامی سطح پر ایک اسپیشل ٹاسک فورس تشکیل دینی پڑی۔
یہ سیاہ ریچھ کہاں سے اور کیوں آگئے تھے؟ یہ اچانک نہیں آئے تھے، کیوں کہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ کافی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اصل اور بنیادی معاملہ یہ تھا کہ جس جنگل میں یہ سیاہ ریچھ بڑی تعداد میں رہتے تھے، وہاں pignoli کی کمی پیدا ہوگئی تھی۔ pignoli انناس یا صنوبر کی گری کو کہتے ہیں جسے یہ سیاہ ریچھ بڑے شوق اور رغبت سے کھاتے ہیں۔ یہ ان کی خوراک کا سب سے اہم جزو اور سب سے بڑا جزو ہے، اس کی کمی کی وجہ سے سیاہ ریچھ بھوکے مرنے لگے۔ چناں چہ وہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے مایوسی کے عالم میں Luchegorsk کے قصبے میں داخل ہوگئے۔ مگر یہاں بھی انہیں جب مطلوبہ خوراک نہ مل سکی تو پھر انہوں نے اس قصبے کے لوگوں پر حملے کرنے شروع کردیے جس سے یہ ساری صورت حال پیدا ہوئی۔
٭وحشی اونٹوں سے نجات کیسے حاصل کی؟
یہ 2009کی بات ہے جب آسٹریلیا کے شمالی علاقے Docker River میں ایک ساتھ لگ بھگ 6,000پیاسے اور وحشی اونٹوں نے دھاوا بول دیا۔
یہ اونٹ اصل میں آسٹریلیا اس لیے لائے گئے تھے، تاکہ ان کے ذریعے ایسے بنجر، ویران اور خشک مقامات تک سفر کیا جاسکے جہاں تک دوسرے جانوروں کا پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ اس کے بعد جب ذرائع آمدورفت کا نظام بہتر ہونے لگا تو ان میں سے اکثر اونٹوں کو آزاد کردیا گیا۔
اس کے بعد ایک عجیب سی صورت حال پیدا ہوگئی، وہ یہ کہ ان بے لگام اونٹوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا چلا گیا اور یہ آوارہ اونٹ ادھر ادھر پھرتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے Docker River پر دھاوا بول دیا۔ وہ پانی کی تلاش میں تھے، انہیں پانی کی ضرورت تھی جس کی تلاش میں وہ دیوانوں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ آجا رہے تھے۔
اپنی اس کوشش میں ان اونٹوں نے پینے کا صاف پانی سپلائی کرنے والے ذخائر کو آلودہ کردیا، حفاظتی جنگلے توڑ ڈالے اور تمام واٹر ٹینکس کو تباہ و برباد کردیا۔ چناں چہ حکومتِ آسٹریلیا کو ان سے نمٹنے کے لیے حرکت میں آنا پڑا۔ اس نے اونٹ صفائی کا ایک خصوصی پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا جس میں اونٹوں کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے بڑے بڑے رسوں سے لٹکا اور باندھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا تھا۔ حالاں کہ اس پروگرام میں بہت سی مشکلات تھیں، کئی لوگوں اور اقوام نے اس کی مخالفت کی، مگر آسٹریلیا کی حکومت نے کسی کی پروا نہیں کی اور ان آوارہ اور خوف ناک اونٹوں کو سرحد پار پہنچاکر ہی دم لیا۔ 2012 تک لگ بھگ ایک لاکھ وحشی اونٹ سرحد پار پہنچادیے گئے تھے۔
٭کیا جاپانی جزیرہ کاکارا ختم ہوجائے گا؟
جاپان کی ساگا کمشنری کے قریب بحیرۂ Genial میں کاکارا نامی ایک چھوٹا سا جزیرہ واقع ہے۔ 2016 تک یہاں کی آبادی لگ بھگ سو افراد پر مشتمل تھی، یہ لوگ یہاں کے مقامی یا دیسی نہیں ہیں، بل کہ یہ اس جزیرے پر کم و بیش 15سال پہلے ایک قریبی جزیرے کیوشو سے سمندر میں تیرتے ہوئے یہاں پہنچے تھے جو یہاں سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
اس کے بعد ان کی آبادی میں اضافہ تو ہوا، مگر اتنا نہیں جتنا مقامی سؤروں کی آبادی میں ہوا تھا۔ اس جزیرے کاکارا پر اس وقت لگ بھگ 300 سؤر بستے ہیں، یعنی یہاں 100انسانوں کے مقابلے میں سؤروں کی تعداد تین گنا ہے۔ اس جزیرے پر شکرقندی اور لوکی کی فصلیں بڑی تعداد میں اُگتی ہیں، ان سے یہ جزیرہ بھرا پڑا ہے۔ یہ سؤر تعداد میں انسانوں سے زیادہ ہیں، مگر یہ کبھی انسانوں کے لیے کسی خطرے یا نقصان کا باعث نہیں بنے۔ اس جزیرے کا بنیادی مقصد میک اپ کے سامان کے لیے camellias یا جڑی بوٹیاں اگانا تھا اور دوسرا مقصد سیاحت تھی۔ لیکن جب ان سؤروں نے ان camellias کو نقصان پہنچایا تو سیاحت کا مقصد بھی ختم ہوگیا۔ یہ جزیرہ چوں کہ ناہموار ہے، اس لیے یہاں کتوں کے ذریعے سؤروں کا شکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پھر مقامی افراد کے لگائے گئے دام اور پھندے بھی اس راستے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ اگر اس ضمن میں کچھ بھی نہ کیا گیا تو کاکارا جزیرہ بے مقصد ہوکر رہ جائے گا اور اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
٭زہریلے سیاہ سانپوں کے نرغے میں:
گھانا کی میونسپلٹی Ejisu میں دو گائوں واقع ہیں:Essienimpong اور Kwaaso۔ یہ اپریل 2016کی بات ہے کہ ان دونوں گائوں پر زہریلے اور سیاہ سانپوں نے یلغار کردی۔ یہ خطہ چاروں طرف سے سبزے اور نباتات سے گھرا ہوا ہے، اس لیے شروع میں لوگوں نے یہ قیاس کیا کہ غالباً یہ سانپ انہی جگہوں سے آئے ہوں گے۔ زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ ان سیاہ سانپوں نے دونوں دیہات میں داخل ہونے کے بعد لوگوں کے گھروں میں پناہ لینی شروع کردی، یہ مقامی افراد کی خواب گاہوں میں، الماریوں میں اور ان کے باتھ رومز میں گھس گئے۔ اس سے وہاں بسنے والے افراد میں سخت بے چینی پیدا ہوگئی۔ انہوں نے اپنے طور پر جہاں تک ممکن تھا، ان سانپوں کو شکار کرنے یا مار ڈالنے کی کوشش کی، مگر وہ سب سے نجات نہ پاسکے۔ ویسے بھی نہایت مختصر مدت میں 60سے زیادہ سانپوں کو ہلاک کیا گیا، مگر وہ اب بھی پورے جزیرے پر لوگوں کے گھروں کے اندر رینگتے پھرتے رہے۔
یہاں کے مقامی افراد کا خیال تھا کہ ان سیاہ سانپوں کی آمد کا سبب دیوتائوں کی ناراضگی ہے۔ وہ ہم سب سے اور خاص طور سے ہمارے نوجوانوں سے شدید ناراض ہیں جس کی ہمیں یہ سزا دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نوجوان جنسی بے راہ روی کا شکار ہیں۔ وہ گائوں کے اطراف میں درختوں اور جھاڑیوں میں غیراخلاقی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ عذاب ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔ جب صورت حال کسی بھی طرح سنبھل نہ سکی تو مقامی عہدے دار حرکت میں آئے، انہوں نے اس جزیرے کا دورہ کیا اور پورے علاقے میں جراثیم کش دوائوں کا اسپرے کیا۔ اسپرے کے بعد انہوں نے 300مردہ سانپ جمع کیے اور ان کا جائزہ لینے کے بعد بتایا کہ یہ سانپ کاٹنے والے تو تھے، مگر یہ زہریلے بالکل نہیں تھے، اس لیے ان سے جان جانے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔
٭جب پینگوئن مصیبت بن گئے:
پینگوئن ایک ایسا مقبول پرندہ ہے جسے ساری دنیا میں پیار اور محبت سے نواز جاتا ہے۔ لیکن اس پرندے کے زیادہ قریب رہنے والوں کا نظریہ ذرا مختلف ہے۔ جنوبی افریقا میں واقع خلیج بیٹی میں افریقی پینگوئن اکثر افزائش نسل کے لیے آتے ہیں۔ 2012تک اس شہر کے مکین اس پرندے کی آمد سے عاجز آچکے تھے۔ انہوں نے مقامی افراد کے گھروں کے باہر لگے حفاظتی جنگلوں کو توڑ ڈالا تھا۔ پینگوئن اتنی بڑی تعداد میں آتے تھے کہ مقامی افراد کی انہیں اپنے گھروں سے دور رکھنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی تھی۔ بعض لوگوں کو شکایت تھی کہ ان میں بہت زیادہ بدبو ہوتی ہے، کسی کا کہنا تھا کہ یہ لوگوں کے کاٹ بھی لیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ شکوہ تھا کہ جب یہ پینگوئن اپنی کرخت آواز میں شور مچاتے ہیں تو رات کے وقت سونا مشکل ہوجاتا ہے۔
لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی آوازیں گدھے کی آواز جیسی ناگوار اور کرخت ہوتی ہیں۔ چناں چہ ان شکایات کا انبار لگنے کے بعد مقامی عہدے داروں کو ایکشن لینا پڑا اور انہوں نے مقامی آبادی کی جان ان پرندوں سے چھڑادی۔ لیکن یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 2016 میں تیندوے، ان پینگوئنز کے لیے خطرہ بن گئے تھے، کیوں کہ یہ خوں خوار تیندوے خلیج بیٹی کے پورے علاقے میں دندناتے پھرتے تھے۔ ان ظالم تیندووں نے ایک ہی حملے میں لگ بھگ 33 پینگوئن ہلاک کرڈالے تھے۔
٭لائبیریا کے گائوں میں ہاتھیوں کا حملہ:
ہم سب جانتے ہیں کہ مغربی افریقا کا بہت بڑا حصہ ایبولا کے وبائی مرض کا نشانہ بنا جس نے ساری دنیا میں تشویش کی لہر دوڑادی تھی، چناں چہ اس کی روک تھام کے لیے جو بھی ممکنہ اقدامات کیے گئے، ان کے بعد کچھ ایسے حیرت انگیز نتائج بھی سامنے آئے جو ماہرین کے لیے حیرت اور پریشانی کا سبب بن گئے۔ 2015 میں لائبیریا کے علاقے Jageloken نامی گائوں میں ہاتھیوں کے غول کے غول اس طرح داخل ہوئے کہ انہوں نے گائوں والوں کی کافی کی فصلیں تباہ کرڈالیں اور ان کے گھروں اور پراپرٹی کو خاصا نقصان پہنچایا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ہاتھیوں کو کس نے اور کیوں اس طرح ہنکایا کہ وہ تباہ کن انداز میں اس علاقے میں داخل ہوئے؟
اس کے جواب یہ ہے کہ قرب و جوار کے ان علاقوں میں جب درختوں کی کٹائی کا کام شروع ہوا جہاں یہ ہاتھی رہتے تھے، تو اس سے گھبراکر ہاتھی اپنی پناہ گاہیں چھوڑ کر اطراف کے علاقوں کی طرف دوڑے۔ اس کا دوسرا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ جب حکومتوں نے bush hunting پر پابندی لگائی تو بھی یہ مسئلہ پیدا ہوا۔ یہ مذکورہ دونوں طریقے ایبولا وائرس کی روک تھام میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس سرکاری پابندی کے باوجود آج بھی گائوں کے لوگ جنگلوں میں جاتے ہیں اور نہ صرف ان درختوں کی کٹائی کرتے ہیں، بل کہ ان کے لٹھے بھی فروخت کرتے ہیں جس سے یہ صورت حال مزید بگڑ رہی ہے۔
٭قطبی ریچھ بھی مسئلہ بن گئے:
خلیج ہڈسن پر برف کی چادر سمٹتی جارہی ہے جس کی وجہ سے قطبی ریچھوں کے لیے مسائل پیدا ہونے لگے ہیں، ایک تو وہ بے گھر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور دوسرے وہ ان قدرتی میدانوں سے بھی محروم ہونے لگے ہیں جہاں وہ صدیوں سے شکار کرتے چلے آئے ہیں۔ چناں چہ ان قطبی ریچھوں کے لیے خوراک کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ بن گئی۔ 2013 میں صورت حال اس حد تک خراب ہوگئی تھی کہ یہ بے آسرا سفید ریچھ خوراک کی تلاش میں وسطی کینیڈا کے شہر چرچل میں بھی داخل ہوگئے تھے۔ یہ ایک وحشی اور خوف ناک جانور ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر یہ بھوکا ہو تو کچھ بھی کرسکتا ہے۔ یہ انسانوں پر حملے کرکے بھی اپنی بھوک مٹاسکتا ہے۔ چرچل شہر اپنے سفید قطبی ریچھوں اور عالمی سیاحت کے حوالے سے طویل عرصے سے کافی مشہور رہا ہے۔
بہت سے سیاحوں نے یہاں آکر قطبی ریچھوں کی ضیافت بھی اڑائی تھی اور وہ ایک بار پھر اس سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے۔ 2013 تک ایسے 168واقعات رپورٹ ہوئے تھے جن میں بتایا گیا تھا کہ قطبی ریچھوں کی شہریوں سے مڈبھیڑ ہوئی تھی جن کے نتائج اچھے نہیں نکلے تھے۔ جلد ہی یہ ریچھ خوف ناک ہوتے چلے گئے۔ ایک سفید ریچھ نے ایک خاتون پر حملہ کیا، اسے شدید زخمی کیا، بل کہ اس کا کان ہی اڑا دیا۔ اس صورت حال میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ قطبی ریچھ کی آبادی کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرے گی اور چرچل اور Arviat میں اس شان دار جانور کے شکار کی ایک حد تک ہی اجازت دے گی۔ واضح رہے کہ Arviat چرچل کے شمال میں ایک اسکیمو آبادی ہے جو صدیوں سے یہاں امن و امان کے ساتھ رہ رہی ہے۔
٭ابھی تک خوں آشام چمگادڑوں کے نرغے میں:
یہ مئی 2016کی بات ہے کہ نیو سائوتھ ویلز کی خلیج بیٹ مینس کے شہر پر کم و بیش ایک لاکھ خوں آشام چمگادڑوں نے یلغار کردی جس کے نتیجے میں اس علاقے کے ہر درخت اور ہر سطح پر ان کا قبضہ ہوگیا، ہر طرف یہی چمگادڑیں دکھائی دے رہی تھیں۔ علاقہ مکین اپنے ہی گھروں میں قید ہوکر رہ گئے تھے۔ انہوں نے اپنے گھروں کی تمام کھڑکیاں، دروازے اور روشن دان تک اس لیے بند کردیے کہ کہیں سے یہ خوف ناک چمگادڑ اندر نہ داخل ہوجائے۔ یہ چمگادڑیں خاکستری سروں والی اڑنے والی لومڑیوں کی طرح تھیں۔ انہیں لومڑی اس لیے کہا جاتا ہے، کیوں کہ ان کی شکلیں لومڑی سے ملتی ہیں۔ انہیں جانوروں کی نہایت خوف ناک مگر نادر اقسام کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، اس لیے انہیں مارا نہیں جاسکتا تھا۔ اتھارٹیز کے لیے بڑا مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ اس مشکل صورت حال سے کیسے نمٹا جائے۔ متعدد گروپس اور افراد سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور غور و خوض کرنے لگے۔
اعلیٰ عہدے داروں نے تجویز پیش کی کہ انہیں دھواں چھوڑ کر یا شور کے ذریعے ڈرا کر بھگانے کی کوشش کی جائے، مگر ایسے میں جانوروں کے حقوق کی تنظیموں نے شہر کے لوگوں کو پُرسکون رہنے اور انتظار کرنے کے لیے کہا۔ انہوں نے یقین دہائی کرائی کہ یہ مسئلہ جلد ہی حل کرلیا جائے گا۔ آخرکار اس شہر کو 2.5 ملین ڈالرز کے فنڈز فراہم کردیے گئے، تاکہ چمگادڑوں کے اس مشکل مسئلے سے نمٹا جاسکے۔ لیکن جون 2016 تک بھی یہ شہر چمگادڑوں کے محاصرے میں رہا تھا اور اب تک ان سے نجات حاصل نہیں کرسکا ہے۔
٭تیندوے مینڈک کی تباہی:
دنیا میں انسانی آبادیوں پر جانوروں کے حملے کی سب سے خوف ناک اور بدترین مثال 1952میں ملتی ہے۔ یہ واقعہ وسکونسن کے چھوٹے سے قصبے اوکانٹو میں پیش آیا تھا جب 175ملین لیپرڈ فراگس (سبز مائل مینڈک) نے پورے شہر کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا تھا۔ سبزی مائل یا بھورا یہ مینڈک شمالی امریکا سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے جسم پر تیندوے کی طرح سفید یا سیاہ دھبے ہوتے ہیں۔ صورت حال اس قدر خراب تھی کہ اگر سڑک پر کوئی کار دکھائی دیتی تو اسے ان مینڈکوں نے پوری طرح ڈھکا ہوتا تھا۔ ان خوف ناک مینڈکوں سے کتے بھی ڈر گئے تھے، اندھیرے میں اس شہر میں ہر طرف خوف ناک اور چمک دار آنکھیں گھورتی دکھائی دیتیں۔
اس علاقے میں ان مینڈکوں کی اتنی بڑی تعداد کا سبب یہاں کی وہ غیرمعمولی نمی تھی جس نے گرین بے (خلیج سبز) کے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور اس سال چوں کہ یہ پانی رکا بھی نہیں تو یہ مینڈک یہاں آگئے۔ پھر جیسے جیسے موسم گرما آنے لگا تو یہ سب اس شہر کو چھوڑ کر واپس چلے گئے اور سب کچھ نارمل ہوگیا۔ اس وقت یہ مینڈک بڑے پیمانے پر سائنسی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے تھے اور شمال میں انہیں اس لیے پکڑا جاتا تھا، کیوں کہ انہیں بہ طور نمونہ آگے اچھے پیسوں پر فروخت کیا جاتا تھا۔ یہ کوشش کام یاب رہی، آج صورت حال یہ ہے کہ شمال کے لیپرڈ فراگس جانوروں کی معدوم ہوتی اقسام میں شمار ہونے لگے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر زمین پر آباد انسانوں کے دم سے رونق ہے تو یہاں بسنے والے جانوروں بھی اس میں اضافہ کرتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان پائی جانے والی ہم آہنگی سے ایک ایسا نظام تشکیل پاتا ہے جو ہماری دنیا کی بقا اور اس کی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دنیا کے بعض خطوں میں وحشی جانور اور خوں آشام پرندے اس صورت حال کو بگاڑ دیتے ہیں۔ وہ انسانی بستیوں کو کچھ اس انداز سے نشانہ بناتے ہیں کہ بستیاں کی بستیاں اجاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
ظاہر ہے اس کا سب سے بڑا سبب انسانوں اور جانوروں کے درمیان عدم توازن ہی تو ہے جو دونوں کے لیے بہت بڑے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ پھر انسان کو حرکت میں آنا پڑتا ہے اور وہ اس عدم توازن کو دور کرنے اور انسان اور جانور کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے اہم اقدامات کرتا ہے تب کہیں جاکر ان دونوں کی کرۂ ارض پر موجودگی ممکن ہوپاتی ہے۔ آئیے اس حوالے سے آپ کو کچھ واقعات سے آگاہ کرتے ہیں:
٭کیلی فورنیا، پنسلوانیا میں کوّوں کی یلغار:
یہ 2012کی بات ہے جب امریکی ریاست پنسلوانیا کے ایک چھوٹے سے قصبے کیلی فورنیا میں فضا سے ہزاروں کووّں نے یلغار کردی اور پورا علاقہ تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ اس قصبے کے مکینوں کا کہنا تھا کہ ان کے لیے ان ہزاروں کوئوں کی کریہہ اور کرخت آوازیں ناقابل برداشت تھیں۔
کوئی کہتا تھا کہ یہ آوازیں طوفانی بارش کے برستے قطروں کی مانند کاٹ دار تھیں اور کچھ کا کہنا تھا کہ یہ آوازیں چنگھاڑتے ہوئے الارم کلاک سے بھی زیادہ تیز اور شدید تھیں، جنہیں برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔ ان سب سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اگر کسی جگہ پر اتنی بڑی تعداد میں پرندے ایک ساتھ حملہ آور ہوجائیں تو اس کی وجہ سے بہت بڑے اور خطرناک مسائل پیدا ہوسکتے تھے، کیوں کہ پرندوں کی اتنی بڑی تعداد کا کسی جگہ پہنچنا موذی اور خوف ناک بیماریوں کے پھیلائو کا سبب بن سکتا تھا، اس سے نہ صرف لوگ متاثر ہوسکتے تھے، بل کہ یہاں کے شہری بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا۔ ویسے بھی پنسلوانیا کے اس قصبے کیلی فورنیا میں اکثر و بیشتر پرندوں کے حملوں کے واقعات موسم سرما میں ہی پیش آتے رہے ہیں۔
اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ پرندے سردی کے موسم میں شہری علاقوں کی چمک دمک اور روشنیوں کی طرف راغب ہوتے ہیں اور یہاں آتے ہیں تو یہاں انہیں حرارت بھی ملتی ہے جو ان کے وجود کے لیے ضروری ہے۔ مقامی عہدے دار ان حملہ آور کوئوں کو یہاں سے بھگانے کے لیے انگور کا رس نکالنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دھوئیں کو استعمال کرتے ہیں جو کالی مرچ کے اسپرے والا کام کرتا ہے، یعنی نہ تو یہ خاص اسپرے پودوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اور نہ ہی پرندوں کے لیے کسی طرح کی مضرت رسانی کا سبب بنتا ہے۔
بہرحال ان حملہ آور کوئوں کو بھگانے کے لیے انگور کا رس نکالنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دھوئیں کا اسپرے کیا گیا جسے یہ برداشت نہیں کرسکے اور فوراً ہی اس مقام کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اس روز کے بعد سے مقامی عہدے داران اس مصیبت سے نجات پانے کے لیے یہی اسپرے کرتے ہیں۔
٭جب سائبیریا کے کالے ریچھ مصیبت بن گئے:
روس چین سرحد کے قریب سائبیریا میں Luchegorsk کا قصبہ واقع ہے۔2015 ء میں یہ پورا علاقہ وحشی سیاہ ریچھوں کے محاصرے میں آگیا تھا، جہاں ہر طرف خوں خوار ریچھ دندناتے پھرتے تھے۔ شروع میں معلوم ہوا کہ 36بھوکے پیاسے ریچھ خوراک کی تلاش میں اس خطے میں داخل ہوئے تھے۔ ایک مقامی فرد نے ریچھوں کے اس منظم حملے کو ایک فوجی مہم سے تشبیہہ دی، کیوں کہ یہ بالکل فوجیوں کے انداز میں یہاں آئے تھے اور آتے ہی خوراک کی تلاش شروع کردی تھی۔
اس دوران مقامی افراد اور یہاں بہ طور مہمان آنے والے ریچھوں کے درمیان کئی خوف ناک مقابلے بھی ہوئے، جس کے بعد مقامی عہدے داروں کو علاقے کے مکینوں کو ان کے تحفظ اور سلامتی کے لیے یہ ہدایات جاری کرنی پڑیں کہ وہ زیادہ وقت اپنے گھروں کے اندر ہی رہیں اور بلاضرورت باہر نکلنے کی کوشش نہ کریں۔ لیکن چوں کہ یہ سیاہ ریچھ مسلسل مقامی افراد کے لیے خطرہ بنتے جارہے تھے، اس لیے ان میں سے متعدد ریچھوں کو بہ حالت مجبوری ہلاک بھی کرنا پڑا۔ دوسری جانب ان ریچھوں نے لگ بھگ پانچ افراد کی جانیں لے لیں، جس کے بعد صورت حال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے مقامی سطح پر ایک اسپیشل ٹاسک فورس تشکیل دینی پڑی۔
یہ سیاہ ریچھ کہاں سے اور کیوں آگئے تھے؟ یہ اچانک نہیں آئے تھے، کیوں کہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ کافی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اصل اور بنیادی معاملہ یہ تھا کہ جس جنگل میں یہ سیاہ ریچھ بڑی تعداد میں رہتے تھے، وہاں pignoli کی کمی پیدا ہوگئی تھی۔ pignoli انناس یا صنوبر کی گری کو کہتے ہیں جسے یہ سیاہ ریچھ بڑے شوق اور رغبت سے کھاتے ہیں۔ یہ ان کی خوراک کا سب سے اہم جزو اور سب سے بڑا جزو ہے، اس کی کمی کی وجہ سے سیاہ ریچھ بھوکے مرنے لگے۔ چناں چہ وہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے مایوسی کے عالم میں Luchegorsk کے قصبے میں داخل ہوگئے۔ مگر یہاں بھی انہیں جب مطلوبہ خوراک نہ مل سکی تو پھر انہوں نے اس قصبے کے لوگوں پر حملے کرنے شروع کردیے جس سے یہ ساری صورت حال پیدا ہوئی۔
٭وحشی اونٹوں سے نجات کیسے حاصل کی؟
یہ 2009کی بات ہے جب آسٹریلیا کے شمالی علاقے Docker River میں ایک ساتھ لگ بھگ 6,000پیاسے اور وحشی اونٹوں نے دھاوا بول دیا۔
یہ اونٹ اصل میں آسٹریلیا اس لیے لائے گئے تھے، تاکہ ان کے ذریعے ایسے بنجر، ویران اور خشک مقامات تک سفر کیا جاسکے جہاں تک دوسرے جانوروں کا پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ اس کے بعد جب ذرائع آمدورفت کا نظام بہتر ہونے لگا تو ان میں سے اکثر اونٹوں کو آزاد کردیا گیا۔
اس کے بعد ایک عجیب سی صورت حال پیدا ہوگئی، وہ یہ کہ ان بے لگام اونٹوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا چلا گیا اور یہ آوارہ اونٹ ادھر ادھر پھرتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے Docker River پر دھاوا بول دیا۔ وہ پانی کی تلاش میں تھے، انہیں پانی کی ضرورت تھی جس کی تلاش میں وہ دیوانوں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ آجا رہے تھے۔
اپنی اس کوشش میں ان اونٹوں نے پینے کا صاف پانی سپلائی کرنے والے ذخائر کو آلودہ کردیا، حفاظتی جنگلے توڑ ڈالے اور تمام واٹر ٹینکس کو تباہ و برباد کردیا۔ چناں چہ حکومتِ آسٹریلیا کو ان سے نمٹنے کے لیے حرکت میں آنا پڑا۔ اس نے اونٹ صفائی کا ایک خصوصی پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا جس میں اونٹوں کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے بڑے بڑے رسوں سے لٹکا اور باندھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا تھا۔ حالاں کہ اس پروگرام میں بہت سی مشکلات تھیں، کئی لوگوں اور اقوام نے اس کی مخالفت کی، مگر آسٹریلیا کی حکومت نے کسی کی پروا نہیں کی اور ان آوارہ اور خوف ناک اونٹوں کو سرحد پار پہنچاکر ہی دم لیا۔ 2012 تک لگ بھگ ایک لاکھ وحشی اونٹ سرحد پار پہنچادیے گئے تھے۔
٭کیا جاپانی جزیرہ کاکارا ختم ہوجائے گا؟
جاپان کی ساگا کمشنری کے قریب بحیرۂ Genial میں کاکارا نامی ایک چھوٹا سا جزیرہ واقع ہے۔ 2016 تک یہاں کی آبادی لگ بھگ سو افراد پر مشتمل تھی، یہ لوگ یہاں کے مقامی یا دیسی نہیں ہیں، بل کہ یہ اس جزیرے پر کم و بیش 15سال پہلے ایک قریبی جزیرے کیوشو سے سمندر میں تیرتے ہوئے یہاں پہنچے تھے جو یہاں سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
اس کے بعد ان کی آبادی میں اضافہ تو ہوا، مگر اتنا نہیں جتنا مقامی سؤروں کی آبادی میں ہوا تھا۔ اس جزیرے کاکارا پر اس وقت لگ بھگ 300 سؤر بستے ہیں، یعنی یہاں 100انسانوں کے مقابلے میں سؤروں کی تعداد تین گنا ہے۔ اس جزیرے پر شکرقندی اور لوکی کی فصلیں بڑی تعداد میں اُگتی ہیں، ان سے یہ جزیرہ بھرا پڑا ہے۔ یہ سؤر تعداد میں انسانوں سے زیادہ ہیں، مگر یہ کبھی انسانوں کے لیے کسی خطرے یا نقصان کا باعث نہیں بنے۔ اس جزیرے کا بنیادی مقصد میک اپ کے سامان کے لیے camellias یا جڑی بوٹیاں اگانا تھا اور دوسرا مقصد سیاحت تھی۔ لیکن جب ان سؤروں نے ان camellias کو نقصان پہنچایا تو سیاحت کا مقصد بھی ختم ہوگیا۔ یہ جزیرہ چوں کہ ناہموار ہے، اس لیے یہاں کتوں کے ذریعے سؤروں کا شکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پھر مقامی افراد کے لگائے گئے دام اور پھندے بھی اس راستے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ اگر اس ضمن میں کچھ بھی نہ کیا گیا تو کاکارا جزیرہ بے مقصد ہوکر رہ جائے گا اور اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
٭زہریلے سیاہ سانپوں کے نرغے میں:
گھانا کی میونسپلٹی Ejisu میں دو گائوں واقع ہیں:Essienimpong اور Kwaaso۔ یہ اپریل 2016کی بات ہے کہ ان دونوں گائوں پر زہریلے اور سیاہ سانپوں نے یلغار کردی۔ یہ خطہ چاروں طرف سے سبزے اور نباتات سے گھرا ہوا ہے، اس لیے شروع میں لوگوں نے یہ قیاس کیا کہ غالباً یہ سانپ انہی جگہوں سے آئے ہوں گے۔ زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ ان سیاہ سانپوں نے دونوں دیہات میں داخل ہونے کے بعد لوگوں کے گھروں میں پناہ لینی شروع کردی، یہ مقامی افراد کی خواب گاہوں میں، الماریوں میں اور ان کے باتھ رومز میں گھس گئے۔ اس سے وہاں بسنے والے افراد میں سخت بے چینی پیدا ہوگئی۔ انہوں نے اپنے طور پر جہاں تک ممکن تھا، ان سانپوں کو شکار کرنے یا مار ڈالنے کی کوشش کی، مگر وہ سب سے نجات نہ پاسکے۔ ویسے بھی نہایت مختصر مدت میں 60سے زیادہ سانپوں کو ہلاک کیا گیا، مگر وہ اب بھی پورے جزیرے پر لوگوں کے گھروں کے اندر رینگتے پھرتے رہے۔
یہاں کے مقامی افراد کا خیال تھا کہ ان سیاہ سانپوں کی آمد کا سبب دیوتائوں کی ناراضگی ہے۔ وہ ہم سب سے اور خاص طور سے ہمارے نوجوانوں سے شدید ناراض ہیں جس کی ہمیں یہ سزا دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نوجوان جنسی بے راہ روی کا شکار ہیں۔ وہ گائوں کے اطراف میں درختوں اور جھاڑیوں میں غیراخلاقی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ عذاب ہم پر مسلط کیا گیا ہے۔ جب صورت حال کسی بھی طرح سنبھل نہ سکی تو مقامی عہدے دار حرکت میں آئے، انہوں نے اس جزیرے کا دورہ کیا اور پورے علاقے میں جراثیم کش دوائوں کا اسپرے کیا۔ اسپرے کے بعد انہوں نے 300مردہ سانپ جمع کیے اور ان کا جائزہ لینے کے بعد بتایا کہ یہ سانپ کاٹنے والے تو تھے، مگر یہ زہریلے بالکل نہیں تھے، اس لیے ان سے جان جانے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔
٭جب پینگوئن مصیبت بن گئے:
پینگوئن ایک ایسا مقبول پرندہ ہے جسے ساری دنیا میں پیار اور محبت سے نواز جاتا ہے۔ لیکن اس پرندے کے زیادہ قریب رہنے والوں کا نظریہ ذرا مختلف ہے۔ جنوبی افریقا میں واقع خلیج بیٹی میں افریقی پینگوئن اکثر افزائش نسل کے لیے آتے ہیں۔ 2012تک اس شہر کے مکین اس پرندے کی آمد سے عاجز آچکے تھے۔ انہوں نے مقامی افراد کے گھروں کے باہر لگے حفاظتی جنگلوں کو توڑ ڈالا تھا۔ پینگوئن اتنی بڑی تعداد میں آتے تھے کہ مقامی افراد کی انہیں اپنے گھروں سے دور رکھنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی تھی۔ بعض لوگوں کو شکایت تھی کہ ان میں بہت زیادہ بدبو ہوتی ہے، کسی کا کہنا تھا کہ یہ لوگوں کے کاٹ بھی لیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ شکوہ تھا کہ جب یہ پینگوئن اپنی کرخت آواز میں شور مچاتے ہیں تو رات کے وقت سونا مشکل ہوجاتا ہے۔
لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی آوازیں گدھے کی آواز جیسی ناگوار اور کرخت ہوتی ہیں۔ چناں چہ ان شکایات کا انبار لگنے کے بعد مقامی عہدے داروں کو ایکشن لینا پڑا اور انہوں نے مقامی آبادی کی جان ان پرندوں سے چھڑادی۔ لیکن یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 2016 میں تیندوے، ان پینگوئنز کے لیے خطرہ بن گئے تھے، کیوں کہ یہ خوں خوار تیندوے خلیج بیٹی کے پورے علاقے میں دندناتے پھرتے تھے۔ ان ظالم تیندووں نے ایک ہی حملے میں لگ بھگ 33 پینگوئن ہلاک کرڈالے تھے۔
٭لائبیریا کے گائوں میں ہاتھیوں کا حملہ:
ہم سب جانتے ہیں کہ مغربی افریقا کا بہت بڑا حصہ ایبولا کے وبائی مرض کا نشانہ بنا جس نے ساری دنیا میں تشویش کی لہر دوڑادی تھی، چناں چہ اس کی روک تھام کے لیے جو بھی ممکنہ اقدامات کیے گئے، ان کے بعد کچھ ایسے حیرت انگیز نتائج بھی سامنے آئے جو ماہرین کے لیے حیرت اور پریشانی کا سبب بن گئے۔ 2015 میں لائبیریا کے علاقے Jageloken نامی گائوں میں ہاتھیوں کے غول کے غول اس طرح داخل ہوئے کہ انہوں نے گائوں والوں کی کافی کی فصلیں تباہ کرڈالیں اور ان کے گھروں اور پراپرٹی کو خاصا نقصان پہنچایا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ہاتھیوں کو کس نے اور کیوں اس طرح ہنکایا کہ وہ تباہ کن انداز میں اس علاقے میں داخل ہوئے؟
اس کے جواب یہ ہے کہ قرب و جوار کے ان علاقوں میں جب درختوں کی کٹائی کا کام شروع ہوا جہاں یہ ہاتھی رہتے تھے، تو اس سے گھبراکر ہاتھی اپنی پناہ گاہیں چھوڑ کر اطراف کے علاقوں کی طرف دوڑے۔ اس کا دوسرا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ جب حکومتوں نے bush hunting پر پابندی لگائی تو بھی یہ مسئلہ پیدا ہوا۔ یہ مذکورہ دونوں طریقے ایبولا وائرس کی روک تھام میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس سرکاری پابندی کے باوجود آج بھی گائوں کے لوگ جنگلوں میں جاتے ہیں اور نہ صرف ان درختوں کی کٹائی کرتے ہیں، بل کہ ان کے لٹھے بھی فروخت کرتے ہیں جس سے یہ صورت حال مزید بگڑ رہی ہے۔
٭قطبی ریچھ بھی مسئلہ بن گئے:
خلیج ہڈسن پر برف کی چادر سمٹتی جارہی ہے جس کی وجہ سے قطبی ریچھوں کے لیے مسائل پیدا ہونے لگے ہیں، ایک تو وہ بے گھر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور دوسرے وہ ان قدرتی میدانوں سے بھی محروم ہونے لگے ہیں جہاں وہ صدیوں سے شکار کرتے چلے آئے ہیں۔ چناں چہ ان قطبی ریچھوں کے لیے خوراک کی فراہمی ایک بڑا مسئلہ بن گئی۔ 2013 میں صورت حال اس حد تک خراب ہوگئی تھی کہ یہ بے آسرا سفید ریچھ خوراک کی تلاش میں وسطی کینیڈا کے شہر چرچل میں بھی داخل ہوگئے تھے۔ یہ ایک وحشی اور خوف ناک جانور ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر یہ بھوکا ہو تو کچھ بھی کرسکتا ہے۔ یہ انسانوں پر حملے کرکے بھی اپنی بھوک مٹاسکتا ہے۔ چرچل شہر اپنے سفید قطبی ریچھوں اور عالمی سیاحت کے حوالے سے طویل عرصے سے کافی مشہور رہا ہے۔
بہت سے سیاحوں نے یہاں آکر قطبی ریچھوں کی ضیافت بھی اڑائی تھی اور وہ ایک بار پھر اس سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے۔ 2013 تک ایسے 168واقعات رپورٹ ہوئے تھے جن میں بتایا گیا تھا کہ قطبی ریچھوں کی شہریوں سے مڈبھیڑ ہوئی تھی جن کے نتائج اچھے نہیں نکلے تھے۔ جلد ہی یہ ریچھ خوف ناک ہوتے چلے گئے۔ ایک سفید ریچھ نے ایک خاتون پر حملہ کیا، اسے شدید زخمی کیا، بل کہ اس کا کان ہی اڑا دیا۔ اس صورت حال میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ قطبی ریچھ کی آبادی کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرے گی اور چرچل اور Arviat میں اس شان دار جانور کے شکار کی ایک حد تک ہی اجازت دے گی۔ واضح رہے کہ Arviat چرچل کے شمال میں ایک اسکیمو آبادی ہے جو صدیوں سے یہاں امن و امان کے ساتھ رہ رہی ہے۔
٭ابھی تک خوں آشام چمگادڑوں کے نرغے میں:
یہ مئی 2016کی بات ہے کہ نیو سائوتھ ویلز کی خلیج بیٹ مینس کے شہر پر کم و بیش ایک لاکھ خوں آشام چمگادڑوں نے یلغار کردی جس کے نتیجے میں اس علاقے کے ہر درخت اور ہر سطح پر ان کا قبضہ ہوگیا، ہر طرف یہی چمگادڑیں دکھائی دے رہی تھیں۔ علاقہ مکین اپنے ہی گھروں میں قید ہوکر رہ گئے تھے۔ انہوں نے اپنے گھروں کی تمام کھڑکیاں، دروازے اور روشن دان تک اس لیے بند کردیے کہ کہیں سے یہ خوف ناک چمگادڑ اندر نہ داخل ہوجائے۔ یہ چمگادڑیں خاکستری سروں والی اڑنے والی لومڑیوں کی طرح تھیں۔ انہیں لومڑی اس لیے کہا جاتا ہے، کیوں کہ ان کی شکلیں لومڑی سے ملتی ہیں۔ انہیں جانوروں کی نہایت خوف ناک مگر نادر اقسام کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، اس لیے انہیں مارا نہیں جاسکتا تھا۔ اتھارٹیز کے لیے بڑا مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ اس مشکل صورت حال سے کیسے نمٹا جائے۔ متعدد گروپس اور افراد سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور غور و خوض کرنے لگے۔
اعلیٰ عہدے داروں نے تجویز پیش کی کہ انہیں دھواں چھوڑ کر یا شور کے ذریعے ڈرا کر بھگانے کی کوشش کی جائے، مگر ایسے میں جانوروں کے حقوق کی تنظیموں نے شہر کے لوگوں کو پُرسکون رہنے اور انتظار کرنے کے لیے کہا۔ انہوں نے یقین دہائی کرائی کہ یہ مسئلہ جلد ہی حل کرلیا جائے گا۔ آخرکار اس شہر کو 2.5 ملین ڈالرز کے فنڈز فراہم کردیے گئے، تاکہ چمگادڑوں کے اس مشکل مسئلے سے نمٹا جاسکے۔ لیکن جون 2016 تک بھی یہ شہر چمگادڑوں کے محاصرے میں رہا تھا اور اب تک ان سے نجات حاصل نہیں کرسکا ہے۔
٭تیندوے مینڈک کی تباہی:
دنیا میں انسانی آبادیوں پر جانوروں کے حملے کی سب سے خوف ناک اور بدترین مثال 1952میں ملتی ہے۔ یہ واقعہ وسکونسن کے چھوٹے سے قصبے اوکانٹو میں پیش آیا تھا جب 175ملین لیپرڈ فراگس (سبز مائل مینڈک) نے پورے شہر کو خوف و دہشت میں مبتلا کردیا تھا۔ سبزی مائل یا بھورا یہ مینڈک شمالی امریکا سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے جسم پر تیندوے کی طرح سفید یا سیاہ دھبے ہوتے ہیں۔ صورت حال اس قدر خراب تھی کہ اگر سڑک پر کوئی کار دکھائی دیتی تو اسے ان مینڈکوں نے پوری طرح ڈھکا ہوتا تھا۔ ان خوف ناک مینڈکوں سے کتے بھی ڈر گئے تھے، اندھیرے میں اس شہر میں ہر طرف خوف ناک اور چمک دار آنکھیں گھورتی دکھائی دیتیں۔
اس علاقے میں ان مینڈکوں کی اتنی بڑی تعداد کا سبب یہاں کی وہ غیرمعمولی نمی تھی جس نے گرین بے (خلیج سبز) کے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور اس سال چوں کہ یہ پانی رکا بھی نہیں تو یہ مینڈک یہاں آگئے۔ پھر جیسے جیسے موسم گرما آنے لگا تو یہ سب اس شہر کو چھوڑ کر واپس چلے گئے اور سب کچھ نارمل ہوگیا۔ اس وقت یہ مینڈک بڑے پیمانے پر سائنسی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے تھے اور شمال میں انہیں اس لیے پکڑا جاتا تھا، کیوں کہ انہیں بہ طور نمونہ آگے اچھے پیسوں پر فروخت کیا جاتا تھا۔ یہ کوشش کام یاب رہی، آج صورت حال یہ ہے کہ شمال کے لیپرڈ فراگس جانوروں کی معدوم ہوتی اقسام میں شمار ہونے لگے ہیں۔