ٹرمپ حکومت کا ڈومور کا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائے گا پاکستان

جیسا سفارتی تعلق امریکا اپنائے گا اسی انداز کا سفارتی جواب پاکستان سے پائے گا، ذرائع


عامر خان January 28, 2017
ٹرمپ نے بھارت سے تعلقات بڑھائے تو پاکستان دیگر عالمی طاقتوں سے روابط کی پالیسی اپنا سکتا ہے. فوٹو؛ فائل

پاکستان نے نئی امریکی حکومت سے آئندہ کے روابط رکھنے کے معاملے پر مستقبل کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی مرتب کرلی ہے۔ پاکستان کی ٹرمپ حکومت سے تعلقات کی حکمت عملی''جیسا سفارتی تعلق اور اس ہی انداز سے سفارتی جواب ''دینے کی ہوگی۔

حکمت عملی میں طے کیا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے نئی امریکی حکومت کا ڈومور کا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کیا جائے گا اور تعلقات ''متوازن اور برابری '' کی بنیاد پر قائم کیے جائیں گے جب کہ وفاقی حکومت پاک امریکا تعلقات میں بہتری کیلیے نئی امریکی انتظامیہ سے سفارتی رابطے '' ٹرمپ حکومت کی پاکستان کیلیے اختیار پالیسی '' کو مدنظر رکھتے ہوئے اختیارکرے گی۔

ادھر وفاقی حکومت کے اہم ترین ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اعلی ترین حکومتی حلقوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کئی اسلامی ممالک کے شہریوں پر امریکی ویزوں کے اجرا کی پاپندی عائد کرنے کے بعد ممکنہ طور پاکستانیوں کیلیے ویزے کی جانچ پڑتال کے عمل کو سخت کرنے بنانے کی اطلاعات سمیت امریکا کے بھارت سے حالیہ رابطوں کا جائزہ لیا جارہاہے۔

دوسری جانب حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر امریکا نے پاکستانیوں کیلیے ویزے کی جانچ پڑتال کے عمل کو سخت بنانے کی پالیسی اختیار کی تو وفاقی حکومت امریکا کے اس اقدام پر ٹرمپ حکام سے رابطہ کرے گی اور کو شش کی جائے گی کہ ٹرمپ حکام سے ڈائیلاگ پالیسی کے تحت اس معاملے کو حل کرایا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ ٹرمپ حکام کے رابطوں کا بھی جائزہ لے رہاہے۔ حکومتی حکام سمجھتے ہیں کہ امریکا اوربھارت کے درمیان معمول کے مطابق سفارتی تعلقات اگر مستقبل میں مذید مضبوط ہوجائیں گے تو اس سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا تاہم ٹرمپ حکومت نے دفاعی سطح پر پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی تو اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ اس حالات سے نمٹنے کیلیے پاکستان اپنے دفاعی نطام کو مذید مستحکم بنانے کیلیے فوری اقدام کرے گا جب کہ اس صورت میں پاکستان کا سفارتی اور تعلقات کا جھکاؤ امریکا کے بجائے دیگر اہم طاقتور عالمی ممالک کی طرف مذید بڑھ سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں