سائبر کرائم کی 22 سو شکایات میں صرف 250 پر کارروائی
سیکڑوں شکایات داخل دفتر،ایف آئی اے نے پچھلے سال 60 ملزمان گرفتار کیے
ایف آئی اے کے سائبرکرائم ونگ کوگزشتہ سال مجموعی طورپر 2200 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے صرف ڈھائی سو پر ایکشن لے کر باقی داخل دفتر کر دی گئیں۔
ذرائع کے مطابق جمعہ کو گزشتہ سال 2015 کی نسبت 25 فیصدزیادہ درخواستیں موصول ہوئی تھیں جن میںسے صرف 35 فیصد درخواستوں پرتحقیقات مکمل کی گئی تھیں۔ گزشتہ سال ملنے والی شکایات پرچھ سے زائد گروپوں کے 60 ملزمان حراست میں لیے گئے۔ یہ لوگ خاص طورپرسوشل میڈیا پرسادہ لوح خواتین و لڑکیوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے بلیک میل کرتے اور رقوم بھی ہتھیاتے تھے۔
ادھر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے سیکڑوں درخواستوں پرکوئی ایکشن نہیں لیا۔ ذرائع نے بتایا جن شکایات کے مدعی کمزور ہوں ان کی تفتیش مکمل نہیں کی جاتی اوردرخواست گزار دلبرداشتہ ہوکر پیروی چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسی درخواستیں سائبرکرائم ونگ کے تفتیشی افسروں کیلیے''سونے کی چڑیا'' ہوتی ہیں۔
اس ضمن میں ایف آئی اے کے ایک سینئرافسر نے ایکسپریس کے رابطہ پرنام شائع نہ کرنے کی شرط پرکہاہے درحقیقیت ایف آئی اے اور پولیس میں یہ بنیادی فرق ہے کہ پولیس ایف آئی آردرج کرنے کے بعدتفتیش کرتی ہے مگرایف آئی اے جونہی کسی کیخلاف کوئی درخواست آتی ہے تواسکی پہلے انکوائری کرتی ہے جس میں ملزم یا ملزمان کو طلبی کے3 سمن بھیجے جاتے ہیں تاکہ وہ انکوائری میں اپنا موقف پیش کرسکیں لہٰذا اگر ملزم کا موقف درست ثابت ہوجائے توپھر مقدمہ درج نہیں کیا جاتا۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ لوگوں کی درخواستوں کی تعداد کے اعتبارسے مقدمات درج نہیں ہوئے۔
ذرائع کے مطابق جمعہ کو گزشتہ سال 2015 کی نسبت 25 فیصدزیادہ درخواستیں موصول ہوئی تھیں جن میںسے صرف 35 فیصد درخواستوں پرتحقیقات مکمل کی گئی تھیں۔ گزشتہ سال ملنے والی شکایات پرچھ سے زائد گروپوں کے 60 ملزمان حراست میں لیے گئے۔ یہ لوگ خاص طورپرسوشل میڈیا پرسادہ لوح خواتین و لڑکیوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے بلیک میل کرتے اور رقوم بھی ہتھیاتے تھے۔
ادھر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے سیکڑوں درخواستوں پرکوئی ایکشن نہیں لیا۔ ذرائع نے بتایا جن شکایات کے مدعی کمزور ہوں ان کی تفتیش مکمل نہیں کی جاتی اوردرخواست گزار دلبرداشتہ ہوکر پیروی چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسی درخواستیں سائبرکرائم ونگ کے تفتیشی افسروں کیلیے''سونے کی چڑیا'' ہوتی ہیں۔
اس ضمن میں ایف آئی اے کے ایک سینئرافسر نے ایکسپریس کے رابطہ پرنام شائع نہ کرنے کی شرط پرکہاہے درحقیقیت ایف آئی اے اور پولیس میں یہ بنیادی فرق ہے کہ پولیس ایف آئی آردرج کرنے کے بعدتفتیش کرتی ہے مگرایف آئی اے جونہی کسی کیخلاف کوئی درخواست آتی ہے تواسکی پہلے انکوائری کرتی ہے جس میں ملزم یا ملزمان کو طلبی کے3 سمن بھیجے جاتے ہیں تاکہ وہ انکوائری میں اپنا موقف پیش کرسکیں لہٰذا اگر ملزم کا موقف درست ثابت ہوجائے توپھر مقدمہ درج نہیں کیا جاتا۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ لوگوں کی درخواستوں کی تعداد کے اعتبارسے مقدمات درج نہیں ہوئے۔