پانی کی منصفانہ تقسیم ناگزیر
بھارت 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے جمعہ کو سندھ اسمبلی میں پیش کی گئی تحریک پر بحث سمیٹے ہوئے ایک طرف 1991ء کے پانی کے معاہدہ کی خلاف ورزی کے حوالہ سے صوبہ کو درپیش پانی کی کمیابی کے مسئلہ پر طویل، تاہم غور و فکر کی حامل تقریر کی جس میں انھوں نے سندھ و پنجاب کے دو برادر صوبوں کے مابین آبی بد انتظامی اور معاہدوں پر پیدا شدہ شکایتی صورتحال کی سنگینی کو اجاگر کیا جب کہ ان کا کہنا تھا کہ جب پانی ہی نہیں تو کالا باغ ڈیم کیسے بنے گا،کیا ہوا سے اسے بھریں گے۔
ان کے استدلال پر دوسری طرف سے جواب آنے کی توقع بھی ہے مگر اصل مسئلہ سندھ اور پنجاب کے مابین پانی کی طے شدہ اور منصفانہ تقسیم پر پائی جانے والی رنجش کا خاتمہ، مکالمہ اور دوطرفہ ماہرین کی ٹھوس اور نتیجہ خیز بات چیت کی متقاضی ہے، ایسے حساس ایشوز پر آبی ماہرین اور پانی کی وزارت اور متعلقہ محکمہ جاتی ریکارڈ کی بنیاد پر اطمینان بخش مذاکرات کی ضرورت ہے، مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ صرف سیلاب روکنے کے لیے 15 ارب ڈالر خرچ کرنا دانشمندی نہیں۔
چنانچہ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اگلے روز اس مسئلہ پر بحث کی اور اراکین اسمبلی نے پانی کی غیرمنصفانہ تقسیم پر وفاقی حکومت سے سخت احتجاج کیا، اراکین اسمبلی نے کہا کہ سندھ کا پانی روکنے کی وجہ سے سندھ کی22 لاکھ زرعی اراضی سمندر برد ہو گئی اور اگر پانی روکنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو2050ء تک ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور حیدرآباد جب کہ2070ء تک کراچی سمندر برد ہو جائے گا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہر مرتبہ ہم نے قومی مفاد کے نام پر قربانی دی ہے لیکن صرف ہماری ہی قربانی کیوں، وزیراعلیٰ نے کہا کہ کالاباغ ڈیم کے لیے پیپلزپارٹی کی حکومت نے ایک روپیہ بھی مختص نہیں کیا۔ جب ہماری5 سال حکومت رہی تو ہم نے1991ء کے معاہدے پرعمل کرایا۔
ایم کیوایم کے پارلیمانی رہنما سید سردار احمد نے کہا کہ1991ء کا معاہدہ صرف ایک دن میں ہوا۔ ایک اجلاس لاہور میں ہوا اور پھر حتمی اجلاس جام صادق کے گھر میں ہوا۔ انھوں نے زور دیا کہ بھارت 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ بھارت کے خلاف ہر فورم پر جائے ۔ سینئر وزیر نثار کھوڑو کے مطابق اس معاہدے پر جام صادق علی اور مظفر شاہ نے دستخط کیے تھے جب کہ پنجاب سے غلام حیدر وائیں اور شاہ محمود قریشی نے کیے۔
مراد علی شاہ جب سندھ کے وزیر زراعت تھے تو چشمہ جہلم لنک کینال بند کرا دیا اور یہ کینال2008ء سے2013ء تک بند رہی۔ فنکشنل لیگ کی رکن نصرت سحر عباسی نے اہم سوال اٹھایا کہ اگر2050ء میں ٹھٹھہ، بدین، سجاول اور حیدرآباد جب کہ2070ٗء میں کراچی بھی سمندر برد ہونے کا خدشہ ہے تو نئی بستیاں کیوں بسائی جا رہی ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا کہ 1984ء کے مقابلے میں پنجاب کی زرعی زمین میں21 فیصد اضافہ جب کہ سندھ کی زرعی زمین میں25 فیصد کمی آئی ہے۔ 22 لاکھ ایکڑ زمین سمندر برد ہوگئی ہے کیونکہ سمندر کو روکنے کے لیے ایک مخصوص مقدار میں پانی چاہیے جو نہیں مل رہا۔
صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو نے کہا کہ1991ء کے معاہدے کے مطابق سالانہ10ملین ایکڑ فٹ پانی کوٹری بیراج سے آگے جانا چاہیے حالانکہ ہماری ضرورت35 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر ثمرعلی خان نے خبردار کیا کہ21 ویں صدی میں موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی قلت2 سب سے بڑے چیلنجز ہوں گے۔
ایوان میں بلاشبہ پانی کی تقسیم اور حصول کا میکنزم زیر بحث تھا، لہٰذا اسے جمہوری اسپرٹ اور دوطرفہ خیرسگالی کے انداز میں حل کرنا صائب ہو گا۔ لازم ہے کہ ماہرین سندھ و پنجاب آبی معاہدہ اور نہری پانی کے وسائل پر ارسا فورم اور وزارتی سطح پر بات چیت کا راستہ اختیار کریں۔ پانی کا ایشو ملکی ترقی اور زراعت کی بقا کے تناظر میں سنجیدہ مکالمہ سے طے پانا چاہیے، حکام اس بات کا ادراک کریں کہ بھارت نے تو سندھ طاس معاہدہ کی بساط لپیٹنے کے نعرہ کو انتخابی مہم کا حصہ بنا لیا ہے اس لیے حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کیا خوب حوالہ دیا کہ 1859ء تک پانی کے ایشوز پر کوئی بڑا تنازعہ پیدا نہیں ہوا مگر جب تنازع پیدا ہوا تو 1935ء میں اس حوالہ سے انڈین گورنمنٹ ایکٹ نافذ ہوا، پھر راؤ کمیشن بنا جس نے تسلیم کیا کہ سندھ سے زیادتی ہو رہی ہے، اس کے بعد پانی کی تقسیم کے حوالہ سے 1945ء میں معاہدہ ہوا جو سندھ پنجاب معاہدہ کہلاتا ہے، سندھ حکومت کے سربراہ نے کہا کہ سندھ محض ایک دریا نہیں بلکہ دریاؤں کا بادشاہ ہے، وقت آ گیا ہے کہ انڈس ریور معاہدہ کی اسپرٹ پر اس کے الفاظ اور روح کے مطابق ایسا میکنزم وضع کیا جائے کہ برادر صوبوں آبی شکایات کا فوری ازالہ ہو اور اسی فورم کو آئندہ کے لیے بھی مفاہمت کی بنیاد بنایا جائے۔