جمخانہ الیکشن سیکنڈ ہوم ایلیٹ کلاس اور کچرا

جمخانہ الیکشن 2017-19ء کے انعقاد کی آئندہ تاریخ آٹھ فروری 2017ء بروز بدھ مقرر کی گئی ہے

h.sethi@hotmail.com

MADRID:
ہمارے ایک دوست کے مکان کے تین اطراف تھوڑے تھوڑے فاصلے پر تین اسکول ہیں، اس نے اپنے ملاقاتیوں کو متنبہ کررکھا ہے کہ وہ اس کے گھر دوپہر ایک بجے سے تین بجے کے درمیان آنے سے گریز کریں ورنہ اپنی پریشانی کے وہ خود ذمے دار ہوں گے۔ وجہ اس کی یہ ہے ان اوقات کے دوران وہاں کے راستے Choke ہوتے ہیں اور وہاں طالبان علم کو لینے کے لیے آنے والی کاروں کے ہارن ON ہوتے ہیں اور اس کے گھر ان اوقات میں آنے والا ملاقاتی پانچ منٹ کا فاصلہ نصف گھنٹے میں طے تو کرلیتا ہے لیکن اسے کار کے لیے پارکنگ نہیں ملتی اور اگر وہ واپس جانا چاہے تو کامیابی نہیں ہوتی۔ رات کے وقت البتہ اس علاقے میں سناٹے اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے نیم تاریکی اور زیرو ٹریفک کا راج ہوتا ہے۔

ایک رات دس بجے کے بعد میرا اس دوست کے گھر جانا ہوا تو ایک اسکول کے بیرونی گیٹ کے باہر Log Fire کا منظر دیکھا۔ جنوری کی سرد رات جلتی ہوئی لکڑیوں کے گرد سات آٹھ مرد آگ سینکتے اور اور چائے پیتے دیکھے وہ ان کا جمخانہ کلب تھا۔ لاہور جمخانہ کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ سن 1941ء میں کلب کے چیئرمین جسٹس جے ایچ منرو تھے۔ اس کے بعد جسٹس بلیکراور جسٹس ایبل چیئرمین رہے۔ سن 1948ء سے 1950ء تک مسٹر بسٹن چیئرمین تھے۔ ان کے بعد نواب مظفر علی خاں قزلباش چیئرمین منتخب ہوئے اور مختلف وقفوں سے سن 1974ء تک وہ آٹھ بار چیئرمین منتخب ہوئے۔

سابق چیف سیکریٹری سید فدا حسن اور پرویز مسعود تین تین بار چیئرمین رہے۔ بزنس مین اور سیاست دان میاں مصباح الرحمن پانچ بار چیئرمین رہنے کے بعد 2014ء کے لیے حسب سابق ایک سال کے لیے منتخب ہوئے لیکن کمپنیز آرڈیننس کے جھرلو کی مدد سے انھوں نے تین سال کا دورانیہ حاصل کرلیا۔ یوں ان کی چیرمینی کی مدت قزلباش صاحب کے برابر ہوگئی۔ کلب کے 99 فیصد ممبر کمپنیز آرڈیننس کے ذریعے 1941ء سے 2014ء تک ایک سال کی ٹرم کے تین سال میں تبدیل ہونے کی قانونی موشگافی کا ادراک نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ انھوں نے 2014ء میں کمیٹی آف مینجمنٹ کو ایک سال کے لیے ووٹ دیا تھا۔ اسی وجہ سے تین COM ممبران نے اخلاقی ذمے داری سمجھتے ہوئے استعفے دے دیے تھے۔

جمخانہ الیکشن 2017-19ء کے انعقاد کی آئندہ تاریخ آٹھ فروری 2017ء بروز بدھ مقرر کی گئی ہے۔ گیارہ امیدوار بحیثیت آزاد امیدوار الیکشن لڑینگے۔ بہ الفاظ دیگر اسے کانٹے دار مقابلہ بھی کہا جاسکتا ہے لیکن بعض سینئر اور سنجیدہ ممبران کلب کا کہنا ہے کہ اس بار گھمسان کا رن پڑیگا۔

الیکشن میں حصہ لینے والے 35 امیدواروں میں سے 12 ٹاپ اسکور کمیٹی آف مینجمنٹ کے ممبر ہوں گے۔ اکثریت حاصل کرنے والا پینل کلب کی حکومت چلائے گا۔ تجربہ کار ممبروں کا خیال ہے کہ اس بار ایک پینل سات جب کہ دوسرا پانچ سیٹیں لے جائے گا۔ اکثریتی پینل کا ممبر چیئرمین ہوگا جو اپنے پینل کو Lucrative کمیٹیاں تقسیم کرے گا اور اقلیتی پینل نسبتاً کھڈے لائن کمیٹیاں لینے سے انکار کرکے حزب اختلاف بن جائے گا۔ لیکن ابھی الیکشن دس روز کے فاصلے پر ہیں۔ اندازے اور قیافے الٹ بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ کلب ممبر ایک سال ہی کے لیے کمیٹی کو اختیارات دینے کے حق میں ہیں اور بیورو کریٹوں کے پینل کا بھی یہی خیال ہے۔


جمخانہ الیکشن اس کے ممبروں کو جوڑنے اور ایک دوسرے کو ملانے کا بھی خوشگوار ذریعہ بنتا ہے۔ الیکشن میں امیدوار حضرات قریباً ایک مہینہ قبل ہی ناشتوں، برنچوں، لنچوں، ہیوی ٹیسیوں اور ڈنروں کا اہتمام کرنے لگتے ہیں۔ بعض خوشحال اور خوش خوراک امیدوار اپنے بااثر ووٹروں کے لیے قسم قسم کے مشروبات سے بھی تواضع کرکے ووٹ پکے کرتے ہیں۔انھوں نے بہت سے لوگوں کو آؤٹ آف ٹرن کلب کی ممبر شپ دینے کے علاوہ نیچے سے اٹھا کر کچے ممبروں کو P ممبر یعنی مستقل ممبر کا درجہ دے کر انھیں الیکشن میں ووٹ دینے کا اہل بنایا ہے جس پر وہ تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔

جمخانہ کے شروع کے ممبروں میں اکثریت سرکاری ملازموں کی ہوتی تھی غیرسرکاری ممبر سیاسی، سماجی اور کاروباری لیکن معتبر حیثیت کے حامل لوگ ہوتے تھے۔ تب یہ ایلیٹ کلاس کہلاتی تھی وقت گزرنے کے ساتھ اس کلب میں ہر قماش کے لوگ تعلقات سفارش اور دولت کی بنیادوں پر ممبر شپ حاصل کرنے میں کامیاب ہونے لگے۔ بقول ایک سینئر ممبر کے پھر ایلیٹ کلاس کے ساتھ کچرا کلاس شامل ہونے لگی۔ اگرچہ کلب کا مقصد علاوہ سوشلائزیشن کے اسپورٹس، تفریح، ایکسرسائز اور اعلیٰ کلچرل و ثقافتی سرگرمیاں، بشمول خوراک تھا۔ لیکن یہ نئی کلاس اسے محض کھابہ خانہ بنانا چاہتی ہے۔ بہرحال ابھی تک کلب کا گولف کورس، جمنیزیم، ٹینس و سکوائش کورٹس، اسنوکر روم، سوئمنگ پُولز، لائبریری و ریڈنگ روم اور کارڈ روم قائم ہیں۔

سوشلی متحرک جمخانہ ممبر اسے سیکنڈ ہوم قرار دیتے ہیں کیونکہ یہاں انھیں اپنے گھر جیسا پرسکون اور دوستانہ ماحول ملتا ہے۔ محبت اور اپنائیت ملتی ہے۔ مانوس چہرے، پسند کے کھانے اور خوش آمدید کہتے در و دیوار ملتے ہیں، خوشگوار فضا اور پسندیدہ موسم کی مہک ملتی ہے۔ وہ اکیلے آئیں یا فیملی کے ہمراہ میزبان اسٹاف ممبر انھیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ اس کلب میں کچھ ایسے بھی سینئر ممبر ہیں جو دن چڑھتے ہی گھروں سے نکال دیے جاتے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ یہاں دن گزارتے کھاتے پیتے کسی صوفے پر نیم دراز ہوکر ٹھونکا لگاتے اور رات گئے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔

جمخانہ کلب کی اصل جائے پیدائش لارنس و منٹگمری ہالز ہے جن کی تعمیر 1861-66 میں ہوئی تھی۔ شروع میں اسے لاہور و میاں میر انسٹی ٹیوٹ کا نام دیا گیا پھر 1906ء میں اس کا نام لاہور جمخانہ رکھ دیا گیا۔ سن 1972ء میں حکومت پنجاب نے اس کی پہلی عمارت کو حاصل کر کے وہاں قائداعظم لائبریری قائم کردی لیکن اس سے پہلے ہی کلب موجودہ جگہ پر 1968ء میں منتقل ہوگئی تھی۔

جمخانہ کلب کے ممبران کی اکثریت COM کی مدت خود طے کرنے کا اختیار حاصل کرنے کی خواہش مند ہے جس کے لیے قانونی رکاوٹ دور کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس مقصد کے لیے بیورو کریٹ پینل جس کی سربراہی کامران لاشاری کررہے ہیں کھل کر اظہار ارادہ کرچکا ہے۔ ان کا مد مقابل پینل جس کے سربراہ میاں مصباح الرحمن ہیں یہی چاہے گا الیکشن کی تاریخ 8 فروری 2017ء طے ہوچکی جو اصولی طور پر ہفتہ یا اتوار ہونی چاہیے تھی۔

اس بار بدھ ہے جو سرکاری دفاتر میں Working Day ہے۔ مناسب ہوتا کہ سرکاری ملازموں کی سہولت کو مدنظر رکھا جاتا لیکن اب الیکشن شیڈول طے ہوچکا۔ اس لیے جس نے ووٹ کا حق استعمال کرنا ہے وہ ضرور ووٹ دینے جمخانہ کلب پہنچے گا۔ لیکن یہ طے ہے کہ اس بار گھمسان کا رن پڑے گا۔ سپریم کورٹ میں پانامہ لیک کیس سے جمخانہ الیکشن تک ایک ہی آواز ہے۔ We Want Change اور اب ہر دو جگہ فیصلے کی گھڑی بھی بہت دور نہیں۔
Load Next Story