سیّاں بھئے کوتوال۔۔۔
ایک کراچی والے ہیں کہ ملازم اور ملازماؤں کے آگے بے بس
کہاوت ہے کہ ''سیّاں بھئے کوتوال' اب ڈر کاہے کا؟'' یہ کہاوت مجسم بن کر راجہ خرم علی خان کی اہلیہ پر لاگو ہوتی ہے۔ بد نصیب طیبہ کی چیخیں اہل محلہ بھی سنتے تھے مگر خاموش رہتے تھے، اپنے کان بند کرلیتے تھے کہ طاقتور ظالم طاقت کے نشے میں چور تھا۔ بھلا کس کی مجال تھی جو مظلوم کی داد رسی کے لیے آگے آتا۔
ایک کراچی والے ہیں کہ ملازم اور ملازماؤں کے آگے بے بس، وہ جب چاہیں چھٹی کریں، کام چوری کریں، زبان درازی کریں، مگر گھر والی کی کیا مجال کہ دو لفظ کہہ دے۔ فوراً کام چھوڑنے کی دھمکی۔ خود یہ کام والیاں جن کی اکثریت جنوبی پنجاب کی ہے آئے دن غائب۔ بغیر بتائے گاؤں جانا اور چھٹی منانا ان کا حق، لیکن کیا مجال بیگم صاحبہ کی وہ دس دس دن کی چھٹی منانے والی کام والیوں کی تنخواہوں سے ایک ٹکا توکاٹ کر دکھائیں۔ صرف اسی پر بس نہیں بلکہ اگر اضافی کام کروانا ہو تو اس کے اضافی پیسے الگ، لیکن خود سے چھٹیاں منانے کی رقم کوئی کاٹ نہیں سکتا۔ اسی لیے ہر طرف سے کراچی پر یلغار ہے۔
چند سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے گھر کام کرنے والی جو صادق آباد کی رہنے والی تھی اس نے زمینداروں کے ظلم و ستم کی جو داستانیں سنائی تھیں انھیں سن کر کوئی بھی صاحب دل آبدیدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کا نام رحیمہ تھا۔ کہتی تھی ''باجی! اپنا گھر اورگاؤں چھوڑ کر کوئی خوشی سے دوسرے شہر نہیں جاتا۔ مگر جب کھیتوں میں کام کرنے کے عوض مزدوری نہ ملے، گھروں میں صرف اناج دے کر اورگندم کی کٹائی کے دوران بیگار لیا جائے تو کوئی کیسے گزارہ کرے۔ اسکول جانے کا توکوئی بچہ سوچ ہی نہیں سکتا۔ یہاں کام کرتے ہیں تو مہینے پہ تنخواہ ملتی ہے، چائے پانی، کھانا سبھی دیتے ہیں، تہوار پہ کپڑے لتے الگ، عیدی الگ، سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے بچے پڑھنے بھی جاتے ہیں اورکام کرکے پیسے بھی کماتے ہیں۔''
سوشل میڈیا کے منفی اورغیراخلاقی اثرات اپنی جگہ ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی سوشل میڈیا نے طیبہ کا کیس ہائی لائٹ کیا۔ چائلڈ پروٹیکشن والوں کو بھی خبر نجی چینلز نے دی۔ پاکستان میں غربت عام ہے۔ شہروں میں کام کرنے والی عورتیں اور بچے سکون اور اطمینان سے کام کرتے ہیں اور مہینہ ختم ہونے پر معاوضہ بھی وصول کرتے ہیں لیکن اس ملک کی زیادہ تر آبادی دیہاتوں پر مشتمل ہے۔ پنجاب کے دیہاتوں سے والدین اپنے بچوں کو لاہور اور اسلام آباد لاکر گھروں میں نوکر کرا دیتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔ کچھ لوگ بروکر اور ایجنٹ کا کام کرتے ہیں ، یہ غریب ماں باپ کو موٹی رقم کا جھانسا دے کر بچوں اور بچیوں کو باقاعدہ تنخواہ میں سے اپنا کمیشن لے کر نوکری دلوا دیتے ہیں۔
یہ دن رات یعنی چوبیس گھنٹے کی نوکری ہوتی ہے۔ طیبہ کے والدین نے بھی دو سال قبل اپنی بیٹی کو کچھ لوگوں کے ذریعے ایڈیشنل سیشن جج کے گھر نوکر کروایا اور پھر پلٹ کر خبر نہ لی کہ ان کی بچی کس حال میں ہے۔ انھیں بس ماہانہ تنخواہ سے دلچسپی تھی یا پھر دو سال پہلے ایک موٹی رقم یکمشت دے دی گئی ہوگی۔ اس کا جائزہ نہ اب تک میڈیا نے لیا نہ پولیس نے اپنی تفتیش میں اس نکتے کی طرف توجہ دی کہ دو سال سے والدین ملنے کیوں نہیں آئے؟ یا کبھی طیبہ کو گھر جانے کی چھٹی کیوں نہیں ملی؟
ابھی دس سالہ طیبہ کا واقعہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں گردش کر رہا تھا کہ سات سالہ طوبیٰ کا کیس سامنے آ گیا۔ ننھی طوبیٰ کوکراچی میں چند اوباش لوگوں نے تشدد اور زیادتی کا شکار بناکر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ چند ملزموں کوگرفتار کیا گیا ہے، بچی نیم بیہوش ہے۔ معصوم بچیوں کے ساتھ اس قسم کی درندگی کے واقعات ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔گزشتہ سال لاہور کے ایک بڑے اسپتال میں بھی ایک نابالغ بچی کے ساتھ زیادتی اور تشدد کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ کیا ملزم پکڑا گیا؟ کیا کراچی کی طوبیٰ کو زیادتی کا نشانہ بنانیوالے پکڑے جائیں گے؟ کیا انھیں واقعی سزا ہوگی؟
یہ ایسے سوال ہیں جن کا جواب ہمیں پہلے سے معلوم ہے۔ ان سوالوں میں ایک سوال اور جڑ گیا ہے کہ کیا ایڈیشنل سیشن جج خرم علی خان کی اہلیہ پر بھی فرد جرم عائد ہوگی؟ کیا انھیں سزا بھی ملے گی؟ اگر آپ میری رائے سننا چاہیں تو میں کہوں گی کہ ہرگز نہیں۔ جج صاحب کی اہلیہ کو ضمانت پر فوری رہا کردیا گیا اور بچی والدین کے حوالے۔ جسے لے کر وہ نامعلوم مقام پہ روپوش ہوگئے اور اپنے موبائل فون بھی آف کردیے۔
اس ملک میں اگر دادا مقدمہ کرتا ہے تو وہ پیشیاں بھگتاتے بھگتاتے اس دارفانی سے کوچ کرجاتا ہے۔ مقدمہ بیٹا لڑتا ہے وہ بھی بوڑھا ہوجاتا ہے پھر پوتے کی باری آتی ہے۔ اسے دادا کا مقدمہ لڑنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ چودہ سال کی سزا کاٹنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ ملزم بیگناہ ہے۔ اس موضوع پر شباب کیرانوی نے ایک فلم بنائی تھی ''انصاف اور قانون'' جس میں مرکزی کردار نامور اداکار محمد علی نے ادا کیا تھا۔ کیا کوئی جج کسی بیگناہ کو اس کی زندگی کے وہ ماہ وسال لوٹا سکتا ہے۔
ادھر طیبہ کے معاملے میں دیکھئے بدنام صرف پولیس والے اور وردی والے ہیں جو ہر جرم میں اپنے پیٹی بند بھائی کو بچانا فرض سمجھتے ہیںلیکن اس فہرست میں جج صاحبان بھی شامل ہیں۔ اپنے پیٹی بند بھائیوں اور بہنوں کو وہ فوری انصاف دلواتے ہیں کہ کبھی انھیں بھی تو ایسے ''فوری انصاف'' کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ذرا پچھلے اخبارات اٹھائیے اور تفصیل دیکھئے تو چودہ طبق روشن ہوجائیں، برطانوی عدلیہ بھی اس فوری انصاف کے آگے پانی بھرتی نظر آئیگی۔
بچی کو سیشن جج کے گھر سے بازیاب کروایا جاتا ہے۔ جج کی اہلیہ جوکہ اس مقدمے میں ملزمہ ہیں انھیں فوری طور پر دو دن میں ضمانت پر رہا کردیا جاتا ہے۔ بچی کے کئی دعویدار نکل آتے ہیں ایک سے زائد والدین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پھوپھی پٹھانی بیگم اور جج کے گھر کام پر رکھوانے والی نادرہ اور اس کا بیٹا بھی منظرعام پر آجاتے ہیں لیکن بالکل اچانک اور بنا کسی تحقیق کے طیبہ کو اس کے والدین ہونے کے دعویداروں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
اس سارے کیس کی تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیٹی بند بھائی کو بچانے کے لیے بہت ممکن ہے کہ والدین کو ڈرایا دھمکایا گیا ہو کہ اگر انھوں نے مقدمہ کیا یا مزید زبان کھولی تو ان کی خیر نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جن والدین کے حوالے کیا گیا ہے وہ اصلی بھی ہیں یا نہیں اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ پیسہ دے کر ان کا منہ بند کردیا گیا ہو۔بہرحال ہم چیف جسٹس کے شکرگزار ہیں کہ انھوں نے ازخود اس سارے واقعے کا نوٹس لے لیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایڈیشنل سیشن جج کو او۔ایس۔ڈی بنانے سے طیبہ کو انصاف مل جائے گا؟
جج کی اہلیہ جو واقعتاً سو فیصد طیبہ پر تشدد، مارپیٹ اور جلانے جھلسانے کی ذمے دار ہیں، کیا انھیں کوئی سزا ملے گی؟ یا یہاں بھی کچھ دے دلا کر طیبہ کے والدین کا منہ بند کردیا جائے گا۔ غربت ایک ناسور ہے جس کا علاج پیسہ ہے۔ عدالتیں بھی صاحب حیثیت کا ساتھ دیتی آئی ہیں۔ کبھی کبھی تو صاحب کردار جج 99 فیصد انصاف بھی دیتا آیا ہے لیکن طیبہ کے معاملے میں ایسا ہوتا کم ازکم مجھے تو نظر نہیں آتا۔ کہاں عزت مآب جج صاحب اور ان کی اہلیہ ؟ اور کہاں تقدیر کی ماری بدنصیب طیبہ جس کا جرم غربت ہے۔ دیکھتے ہیں چیف جسٹس صاحب کوئی تاریخ رقم کرتے ہیں یا نہیں؟ بہرحال پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے۔ کالم کا اختتام کردیا تھا کہ ایک اور اسی نوعیت کی خبر ملی۔ گوجرانوالہ میں صاحب خانہ نے کمسن ملازمہ رخسارکو زیادتی کا نشانہ بناتے ہوئے تشدد کیا اور پھر چہرے پر گرم چائے گرا کر جھلسا دیا۔