ساس سسرکا نام نہیں لے سکتے
امنوں، فادر نسبتی، برادر نسبتی اور خواہر نسبتی سے رشتے دنیا بھر میں کبھی محبت کبھی نفرت پر مبنی سمجھے جاتے ہیں
خوش دامنوں، فادر نسبتی، برادر نسبتی اور خواہر نسبتی (In Laws) سے رشتے دنیا بھر میں کبھی محبت کبھی نفرت پر مبنی سمجھے جاتے ہیں لیکن آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ دنیا کے بعض معاشروں میں بیگم کے ساتھ جہیز میں آنے والے اس خاندان کے افراد کوکم ازکم زبانی طور پر بڑے عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے۔
اپنے کالم میں ہم پچھلے کچھ عرصے سے دلچسپ موضوعات پر لکھی جانے والی کتابوں کا تذکرہ کرتے آئے ہیں مگر اس مرتبہ ہمیں خاصی ریسرچ کے بعد لکھا جانے والا ایک مضمون ہاتھ آیا ہے جس کا عنوان ہے ''جب محض میڈم یا سرکہنا کافی نہیں ہوتا'' اس کے مصنف مسٹر بریانٹ روسو ہیں۔ جس کا کچھ حصہ ہم اپنے قارئین کی تفریح طبع کے لیے پیش کر رہے ہیں۔
یہ ایک جغرافیائی اعتبار سے خاصی پھیلی ہوئی پریکٹس ہے جسے بات چیت سے گریز (اوائیڈنس اسپیچ) یا ساس کی زبان کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت خاصی سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں اس بارے میں کہ بیگم کے والدین یا بیگم کی بہنوں سے کس طرح بات کرنی چاہیے یا نہیں کرنی چاہیے۔
افریقہ آسٹریلیا اور بھارت کے کچھ حصوں کے بعض معاشروں میں ایسے الفاظ کو بڑی سختی سے کم اور محدودکیا گیا ہے جو ایک شخص شادی کے بعد زبان سے ادا کرسکتا ہے بلکہ بعض کمیونٹیز میں تو ساس اور سالیوں سے براہ راست بول چال پر مکمل پابندی لگائی گئی ہے۔مثال کے طور پر ایتھوپیا میں کمباٹا زبان بولنے والی بعض شادی شدہ خواتین ایک قانون پر عمل کرتی ہیں جو بالشیا کہلاتا ہے۔اس قانون کے تحت ان کے لیے ایسے الفاظ بولنا ممنوع قراردیا گیا ہے جو ان حروف سے شروع ہوتے ہیں جو ان کی ساس یا سسر کے ناموں میں استعمال ہورہے ہیں۔
یہ قانون گفتگو کو خاصا پیچیدہ بناسکتا ہے مگر اس کا حل ایک ڈکشنری کی صورت میں فراہم کیا گیا ہے اس میں ایک طرف تو وہ نارمل اصطلاحات ہیں جو ہر ایک استعمال کرسکتا ہے مگر دوسری طرف ان کے ہم معنی اصطلاحات ہیں جو ایسی خواتین کے لیے ہیں جو متعلقہ الفاظ بولنے کی مجاز نہیں ہیں۔ایک اور حل یہ ہے کہ آپ ایک لفظ کے بجائے کئی الفاظ بول ڈالیں، مثال کے طور پر اگر بیگم صاحبہ اپنی زبان سے بیل نہیں بول سکتیں تو وہ یہ کہہ سکتی ہیں اچھا وہ جانور جو ہل چلاتا ہے۔ کمباٹا زبان میں ایک اور لفظ وہاٹ چمکالٹ (Whatchamcallit) ہے جسے آپ Noun یا Verb کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں جب آپ کو کوئی اور متبادل لفظ نہیں مل رہا ہے۔
بولنے سے گریز (Avoidance Speech) کی پریکٹس پر جنوبی افریقہ کے بعض حصوں میں بانتو زبان بولنے والے بھی عمل کرتے ہیں۔ جہاں شادی شدہ خواتین اپنے سسر کا نام نہیں لے سکتیں اور نہ اس نام سے ملتے جلتے الفاظ یا آواز نکال سکتی ہیں۔بانتو زبان بولنے والے دوسری زبانوں کے متبادل الفاظ ادھار لے کر اس پابندی سے جان چھڑاتے ہیں۔ جو خواتین یہ پابندی نہیں کرپاتیں انھیں خاص طور پر سسر حضرات میں منہ پھٹ اور بدتمیز سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح بھارت کے کچھ علاقوں میں بہوئیں ایسے الفاظ نہیں بول سکتیں جو ایسے حروف سے شروع ہوتے ہیں جو ان کے ساس سسر اورنندوں کے ناموں میں پہلے حرف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ انھیں مجبوراً ایسے متبادل الفاظ بولنے پڑتے ہیں جو اتنے عام نہیں ہیں۔آسٹریلیا میں ابتدائی دورکی قدیم زبانیں بولنے والے بعض قدامت پسند افراد میں یہ روایت عام ہے۔ ییل (Yale) کے لسانیات کے پروفیسرکلیئر بوورن کے مطابق بعض علاقوں میں اس روایت پر عمل نہیں ہوتا تاہم مغربی صحرا کے خطے اورآرن ہیم لینڈ میں اب بھی بیگمات اپنے ساس سسرکو مخاطب کرنے میں احتیاط سے کام لیتی ہیں۔
آسٹریلیا میں بول چال کی یہ بندش دوطرفہ بھی ہوسکتی ہے اور فریقوں کو پابندکیا جاسکتا ہے مثلاً کچھ قدیم ثقافتیں (Cultures) ایسی بھی ہیں جہاں صاحبزادے اوران کی ساس ایک دوسرے سے براہ راست مخاطب نہیں ہوسکتے اور ایک دوسرے کا نام نہیں لے سکتے۔اس سلسلے میں پروفیسر بوورن کہتے ہیں میرا تجربہ بتاتا ہے کہ ساس بہوکے مقابلے میں لڑکے اوراس کی ساس ایک دوسرے سے زیادہ شرماتے ہیں۔افریقہ اور بھارت کی طرح آسٹریلیا میں بھی بعض قوانین لاگو ہیں جن کے تحت ساس سسر بہوئیں اور داماد کچھ الفاظ ایک دوسرے کی موجودگی میں نہیں بول سکتے اور اس پابندی کی وجہ سے بہت سے متبادل الفاظ وضع کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈائربل زبان میں جو شمال مشرق کوئنز لینڈ میں بولی جاتی ہے پانی کو روزمرہ کی زبان میں بانا کہا جاتا ہے مگر جن In Laws کو پابند کیا گیا ہے وہ پانی کو جوجاما کہتے ہیں۔
یقیناً وہاں ہر چیز کے لیے متبادل لفظ موجود نہیں ہے اور اکثر ایک ہی جائز لفظ سے بہت سارے کام لیے جاتے ہیں مثلاً گوگویمیتھر زبان میں جو کوئنزلینڈ کے ''شمال بعید'' میں بولی جاتی ہے پانی کا مطلب صرف سفر کرنا ہے مگر مجبوری میں اسے پیدل چلنے، رینگ رینگ کر چلنے، لنگڑا کر چلنے، پیڈل یا فلوٹ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔آخر ''اوائیڈنس اسپیچ'' کی روایت کیوں وجود میں آئی؟ بعض ماہرین کے نزدیک افریقہ اور بھارت میں اس کے استعمال کا سبب یہ ہے کہ وہاں بہوؤں کوکمتر سمجھا جاتا ہے۔
آسٹریلیا میں ہوسکتا ہے بول چال کی یہ پابندی دونوں کو ایک دوسرے کی''دستبرد'' سے بچانے کے لیے لگائی گئی ہو کیونکہ باہمی قربت سے خاصی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی تھیں۔ایسے معاشروں میں اس پابندی کی وجہ سے شادی شدہ لڑکے لڑکیاں خاصی کم گو ہوجاتی ہیں کیونکہ ان کا خاصا وقت بولنے سے پہلے تولنے یعنی قانونی طور پر جائز الفاظ کی تلاش میں گزرتا ہے۔پاکستان میں بھی زیادہ تر میاں بیوی اپنے ساس سسرکا نام نہیں لیتے اور عام طور پر غربت اور احترام کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن گھرانوں میں بہوئیں اپنے ساس سسر کی عزت کرتی ہیں وہاں ماحول خوشگوار اورشادیاں کامیاب رہتی ہیں۔
اس سلسلے میں ماہرین نے مندرجہ ذیل دس اصول اور ضابطے گنائے ہیں جن کے ذریعے ایک کامیاب گھریلو زندگی گزاری جاتی ہے یہ اصول اور ضابطے اتفاق سے خواتین کے لیے ہیں۔
1۔کبھی اپنے شوہرکو ایک ایسی صورتحال میں مت ڈالیے جہاں اسے آپ کے اور اپنے رشتے دار میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے کیونکہ اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ اپنے شوہر کو ایک ناممکن صورتحال سے دوچارکردیں گی اس کے بجائے اس کے اور نانا نانی، دادا دادی، والدین اور بچوں کے باہمی تعلقات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور جہاں تک ہوسکے اس رشتے کو تقویت پہنچائیں چاہے اس کے والدین آپ کو کتنے ہی ناپسند کیوں نہ ہوں بہرحال اس کے والدین ہیں۔
2۔حدود اور سرحدوں کا تعین کرکے ان سے باہر نہ نکلیے۔اپنے شوہر سے مل کر طے کیجیے کہ کیا چیز اہم ہے اور کیا نہیں۔ ایک ٹیم کے طور پرکام کرتے ہوئے اپنی فیملی کی اقدار (Values) کا تعین کیجیے، پھر اپنے ان لاز کو یہ اقدار کمیونیکیٹ کیجیے خاص طور پر وہ جن کا تعلق اپنے بچوں سے ہے۔جہاں تک سرحدوں کا تعلق ہے کبھی ایسے وعدے نہ کریں جو آپ پورے نہ کرسکیں۔
3۔اپنی بات منوائیے۔ بعض معاملات میں آپ کا غیر لچکدار ہونا ضروری ہے اپنے شوہر کے گھر والوں سے صاف کہہ دیجیے کہ وہ جب چاہا ڈراپ ہوجانے کے بجائے آنے سے پہلے آپ کو فون ضرور کرلیں یہ خود ان کے مفاد میں ہوگا کیونکہ آپ ان کے لیے مناسب اہتمام بھی کرسکیں گی۔
4۔براہ راست کمیونیکیٹ کیجیے۔ جہاں تک ممکن ہو کسی تھرڈ پارٹی کو درمیان میں لائے بغیر براہ راست بات کیجیے اگر کسی بات سے آپ کے جذبات مجروح ہوتے ہوں تو شوہر کے ذریعے پیغام پہنچانے کے بجائے براہ راست اپنی نند سے بات کریں اور اس نیک کام میں کبھی دیر نہ کریں۔
5۔اپنے آپ کو پہچانیے اور وہی نظر آئیے۔ یہ بات شیکسپیئر نے سالہا سال پہلے کہی تھی اور آج بھی سچی اور ترو تازہ ہے۔ اپنے آپ کو وہ کچھ بناکر پیش نہ کریں جو آپ کے شوہر کے گھر والے چاہتے ہیں مگر جو آپ اصل میں نہیں۔
6۔ نہ ہر سسر اور نہ ہر ساس کچن میں سر کھپانا پسند کرتے ہیں اس لیے ان سے وہ توقع نہ لگائیے جو وہ پوری نہ کرسکیں۔
7۔ دماغ کو ٹھنڈا رکھیے۔ کبھی اوور ری ایکٹ نہ کریں بیشتر مرتبہ بہترین کام یہی ہوتا ہے کہ آپ کچھ نہ کریں وقت سارے زخموں کو مندمل کردیتا ہے لہٰذا خاموش رہ کر وقت کو گزرنے دیجیے۔
8۔میچور ہونے کا ثبوت دیجیے۔ آپ کے والدین کو بہرطور آپ سے محبت کرنا ہے یہ بات کنٹریکٹ میں ہے مگر آپ کے شوہرکے والدین کے معاملے میں ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا اس حقیقت کو تسلیم کیجیے کہ In Laws آپ کے پیرنٹس نہیں ہیں اور آپ کے والدین جیسے رولز پر نہیں چلیں گے۔ صورتحال کو اپنے ''مخالفوں'' کے نقطہ نظر سے دیکھیے اگر آپ اتفاق نہ بھی کریں تو بڑے پن کا مظاہرہ کریں مختلف انداز سے سوچیں نہ بہتر نہ بدتر۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظرانداز کیجیے بڑے ایشوز سے نمٹنے کو اہمیت دیں۔
9۔ مہرباں رہیے۔ اس وقت بھی جب غصے سے دانت پیس رہی ہوں منہ سے کوئی عمدہ بات نکالیے۔ اگر کوئی اچھی بات نہ کہہ پائیں تو صرف خاموشی سے مسکراتی رہیں۔10۔ اپنی حس مزاح برقرار رکھیں۔ میری ایک پیاری سہیلی نے مجھے یہ کہانی سنائی۔ جب میں حاملہ تھی اور پہلا بچہ ہونے والا تھا میرے سسر ایک خاص تحفہ لے کر میرے پاس آئے۔ میرے لیے لائف انشورنس پالیسی۔ پوچھنے پر کہنے لگے ہوسکتا ہے تم زندہ نہ رہو اور تمہیں اس کی ضرورت پڑ جائے جی تو چاہا یہ کاغذات کی شکل میں تحفہ ان کے منہ پر دے ماروں مگر میں دل کھول کر ہنس پڑی اور اس تحفے پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ آج ان صاحبہ کے بچے بالکل صحت مند اور خوش و خرم ہیں اور وہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہیں۔
اپنے کالم میں ہم پچھلے کچھ عرصے سے دلچسپ موضوعات پر لکھی جانے والی کتابوں کا تذکرہ کرتے آئے ہیں مگر اس مرتبہ ہمیں خاصی ریسرچ کے بعد لکھا جانے والا ایک مضمون ہاتھ آیا ہے جس کا عنوان ہے ''جب محض میڈم یا سرکہنا کافی نہیں ہوتا'' اس کے مصنف مسٹر بریانٹ روسو ہیں۔ جس کا کچھ حصہ ہم اپنے قارئین کی تفریح طبع کے لیے پیش کر رہے ہیں۔
یہ ایک جغرافیائی اعتبار سے خاصی پھیلی ہوئی پریکٹس ہے جسے بات چیت سے گریز (اوائیڈنس اسپیچ) یا ساس کی زبان کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت خاصی سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں اس بارے میں کہ بیگم کے والدین یا بیگم کی بہنوں سے کس طرح بات کرنی چاہیے یا نہیں کرنی چاہیے۔
افریقہ آسٹریلیا اور بھارت کے کچھ حصوں کے بعض معاشروں میں ایسے الفاظ کو بڑی سختی سے کم اور محدودکیا گیا ہے جو ایک شخص شادی کے بعد زبان سے ادا کرسکتا ہے بلکہ بعض کمیونٹیز میں تو ساس اور سالیوں سے براہ راست بول چال پر مکمل پابندی لگائی گئی ہے۔مثال کے طور پر ایتھوپیا میں کمباٹا زبان بولنے والی بعض شادی شدہ خواتین ایک قانون پر عمل کرتی ہیں جو بالشیا کہلاتا ہے۔اس قانون کے تحت ان کے لیے ایسے الفاظ بولنا ممنوع قراردیا گیا ہے جو ان حروف سے شروع ہوتے ہیں جو ان کی ساس یا سسر کے ناموں میں استعمال ہورہے ہیں۔
یہ قانون گفتگو کو خاصا پیچیدہ بناسکتا ہے مگر اس کا حل ایک ڈکشنری کی صورت میں فراہم کیا گیا ہے اس میں ایک طرف تو وہ نارمل اصطلاحات ہیں جو ہر ایک استعمال کرسکتا ہے مگر دوسری طرف ان کے ہم معنی اصطلاحات ہیں جو ایسی خواتین کے لیے ہیں جو متعلقہ الفاظ بولنے کی مجاز نہیں ہیں۔ایک اور حل یہ ہے کہ آپ ایک لفظ کے بجائے کئی الفاظ بول ڈالیں، مثال کے طور پر اگر بیگم صاحبہ اپنی زبان سے بیل نہیں بول سکتیں تو وہ یہ کہہ سکتی ہیں اچھا وہ جانور جو ہل چلاتا ہے۔ کمباٹا زبان میں ایک اور لفظ وہاٹ چمکالٹ (Whatchamcallit) ہے جسے آپ Noun یا Verb کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں جب آپ کو کوئی اور متبادل لفظ نہیں مل رہا ہے۔
بولنے سے گریز (Avoidance Speech) کی پریکٹس پر جنوبی افریقہ کے بعض حصوں میں بانتو زبان بولنے والے بھی عمل کرتے ہیں۔ جہاں شادی شدہ خواتین اپنے سسر کا نام نہیں لے سکتیں اور نہ اس نام سے ملتے جلتے الفاظ یا آواز نکال سکتی ہیں۔بانتو زبان بولنے والے دوسری زبانوں کے متبادل الفاظ ادھار لے کر اس پابندی سے جان چھڑاتے ہیں۔ جو خواتین یہ پابندی نہیں کرپاتیں انھیں خاص طور پر سسر حضرات میں منہ پھٹ اور بدتمیز سمجھا جاتا ہے۔
اسی طرح بھارت کے کچھ علاقوں میں بہوئیں ایسے الفاظ نہیں بول سکتیں جو ایسے حروف سے شروع ہوتے ہیں جو ان کے ساس سسر اورنندوں کے ناموں میں پہلے حرف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ انھیں مجبوراً ایسے متبادل الفاظ بولنے پڑتے ہیں جو اتنے عام نہیں ہیں۔آسٹریلیا میں ابتدائی دورکی قدیم زبانیں بولنے والے بعض قدامت پسند افراد میں یہ روایت عام ہے۔ ییل (Yale) کے لسانیات کے پروفیسرکلیئر بوورن کے مطابق بعض علاقوں میں اس روایت پر عمل نہیں ہوتا تاہم مغربی صحرا کے خطے اورآرن ہیم لینڈ میں اب بھی بیگمات اپنے ساس سسرکو مخاطب کرنے میں احتیاط سے کام لیتی ہیں۔
آسٹریلیا میں بول چال کی یہ بندش دوطرفہ بھی ہوسکتی ہے اور فریقوں کو پابندکیا جاسکتا ہے مثلاً کچھ قدیم ثقافتیں (Cultures) ایسی بھی ہیں جہاں صاحبزادے اوران کی ساس ایک دوسرے سے براہ راست مخاطب نہیں ہوسکتے اور ایک دوسرے کا نام نہیں لے سکتے۔اس سلسلے میں پروفیسر بوورن کہتے ہیں میرا تجربہ بتاتا ہے کہ ساس بہوکے مقابلے میں لڑکے اوراس کی ساس ایک دوسرے سے زیادہ شرماتے ہیں۔افریقہ اور بھارت کی طرح آسٹریلیا میں بھی بعض قوانین لاگو ہیں جن کے تحت ساس سسر بہوئیں اور داماد کچھ الفاظ ایک دوسرے کی موجودگی میں نہیں بول سکتے اور اس پابندی کی وجہ سے بہت سے متبادل الفاظ وضع کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈائربل زبان میں جو شمال مشرق کوئنز لینڈ میں بولی جاتی ہے پانی کو روزمرہ کی زبان میں بانا کہا جاتا ہے مگر جن In Laws کو پابند کیا گیا ہے وہ پانی کو جوجاما کہتے ہیں۔
یقیناً وہاں ہر چیز کے لیے متبادل لفظ موجود نہیں ہے اور اکثر ایک ہی جائز لفظ سے بہت سارے کام لیے جاتے ہیں مثلاً گوگویمیتھر زبان میں جو کوئنزلینڈ کے ''شمال بعید'' میں بولی جاتی ہے پانی کا مطلب صرف سفر کرنا ہے مگر مجبوری میں اسے پیدل چلنے، رینگ رینگ کر چلنے، لنگڑا کر چلنے، پیڈل یا فلوٹ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔آخر ''اوائیڈنس اسپیچ'' کی روایت کیوں وجود میں آئی؟ بعض ماہرین کے نزدیک افریقہ اور بھارت میں اس کے استعمال کا سبب یہ ہے کہ وہاں بہوؤں کوکمتر سمجھا جاتا ہے۔
آسٹریلیا میں ہوسکتا ہے بول چال کی یہ پابندی دونوں کو ایک دوسرے کی''دستبرد'' سے بچانے کے لیے لگائی گئی ہو کیونکہ باہمی قربت سے خاصی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی تھیں۔ایسے معاشروں میں اس پابندی کی وجہ سے شادی شدہ لڑکے لڑکیاں خاصی کم گو ہوجاتی ہیں کیونکہ ان کا خاصا وقت بولنے سے پہلے تولنے یعنی قانونی طور پر جائز الفاظ کی تلاش میں گزرتا ہے۔پاکستان میں بھی زیادہ تر میاں بیوی اپنے ساس سسرکا نام نہیں لیتے اور عام طور پر غربت اور احترام کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن گھرانوں میں بہوئیں اپنے ساس سسر کی عزت کرتی ہیں وہاں ماحول خوشگوار اورشادیاں کامیاب رہتی ہیں۔
اس سلسلے میں ماہرین نے مندرجہ ذیل دس اصول اور ضابطے گنائے ہیں جن کے ذریعے ایک کامیاب گھریلو زندگی گزاری جاتی ہے یہ اصول اور ضابطے اتفاق سے خواتین کے لیے ہیں۔
1۔کبھی اپنے شوہرکو ایک ایسی صورتحال میں مت ڈالیے جہاں اسے آپ کے اور اپنے رشتے دار میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے کیونکہ اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ اپنے شوہر کو ایک ناممکن صورتحال سے دوچارکردیں گی اس کے بجائے اس کے اور نانا نانی، دادا دادی، والدین اور بچوں کے باہمی تعلقات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور جہاں تک ہوسکے اس رشتے کو تقویت پہنچائیں چاہے اس کے والدین آپ کو کتنے ہی ناپسند کیوں نہ ہوں بہرحال اس کے والدین ہیں۔
2۔حدود اور سرحدوں کا تعین کرکے ان سے باہر نہ نکلیے۔اپنے شوہر سے مل کر طے کیجیے کہ کیا چیز اہم ہے اور کیا نہیں۔ ایک ٹیم کے طور پرکام کرتے ہوئے اپنی فیملی کی اقدار (Values) کا تعین کیجیے، پھر اپنے ان لاز کو یہ اقدار کمیونیکیٹ کیجیے خاص طور پر وہ جن کا تعلق اپنے بچوں سے ہے۔جہاں تک سرحدوں کا تعلق ہے کبھی ایسے وعدے نہ کریں جو آپ پورے نہ کرسکیں۔
3۔اپنی بات منوائیے۔ بعض معاملات میں آپ کا غیر لچکدار ہونا ضروری ہے اپنے شوہر کے گھر والوں سے صاف کہہ دیجیے کہ وہ جب چاہا ڈراپ ہوجانے کے بجائے آنے سے پہلے آپ کو فون ضرور کرلیں یہ خود ان کے مفاد میں ہوگا کیونکہ آپ ان کے لیے مناسب اہتمام بھی کرسکیں گی۔
4۔براہ راست کمیونیکیٹ کیجیے۔ جہاں تک ممکن ہو کسی تھرڈ پارٹی کو درمیان میں لائے بغیر براہ راست بات کیجیے اگر کسی بات سے آپ کے جذبات مجروح ہوتے ہوں تو شوہر کے ذریعے پیغام پہنچانے کے بجائے براہ راست اپنی نند سے بات کریں اور اس نیک کام میں کبھی دیر نہ کریں۔
5۔اپنے آپ کو پہچانیے اور وہی نظر آئیے۔ یہ بات شیکسپیئر نے سالہا سال پہلے کہی تھی اور آج بھی سچی اور ترو تازہ ہے۔ اپنے آپ کو وہ کچھ بناکر پیش نہ کریں جو آپ کے شوہر کے گھر والے چاہتے ہیں مگر جو آپ اصل میں نہیں۔
6۔ نہ ہر سسر اور نہ ہر ساس کچن میں سر کھپانا پسند کرتے ہیں اس لیے ان سے وہ توقع نہ لگائیے جو وہ پوری نہ کرسکیں۔
7۔ دماغ کو ٹھنڈا رکھیے۔ کبھی اوور ری ایکٹ نہ کریں بیشتر مرتبہ بہترین کام یہی ہوتا ہے کہ آپ کچھ نہ کریں وقت سارے زخموں کو مندمل کردیتا ہے لہٰذا خاموش رہ کر وقت کو گزرنے دیجیے۔
8۔میچور ہونے کا ثبوت دیجیے۔ آپ کے والدین کو بہرطور آپ سے محبت کرنا ہے یہ بات کنٹریکٹ میں ہے مگر آپ کے شوہرکے والدین کے معاملے میں ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا اس حقیقت کو تسلیم کیجیے کہ In Laws آپ کے پیرنٹس نہیں ہیں اور آپ کے والدین جیسے رولز پر نہیں چلیں گے۔ صورتحال کو اپنے ''مخالفوں'' کے نقطہ نظر سے دیکھیے اگر آپ اتفاق نہ بھی کریں تو بڑے پن کا مظاہرہ کریں مختلف انداز سے سوچیں نہ بہتر نہ بدتر۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظرانداز کیجیے بڑے ایشوز سے نمٹنے کو اہمیت دیں۔
9۔ مہرباں رہیے۔ اس وقت بھی جب غصے سے دانت پیس رہی ہوں منہ سے کوئی عمدہ بات نکالیے۔ اگر کوئی اچھی بات نہ کہہ پائیں تو صرف خاموشی سے مسکراتی رہیں۔10۔ اپنی حس مزاح برقرار رکھیں۔ میری ایک پیاری سہیلی نے مجھے یہ کہانی سنائی۔ جب میں حاملہ تھی اور پہلا بچہ ہونے والا تھا میرے سسر ایک خاص تحفہ لے کر میرے پاس آئے۔ میرے لیے لائف انشورنس پالیسی۔ پوچھنے پر کہنے لگے ہوسکتا ہے تم زندہ نہ رہو اور تمہیں اس کی ضرورت پڑ جائے جی تو چاہا یہ کاغذات کی شکل میں تحفہ ان کے منہ پر دے ماروں مگر میں دل کھول کر ہنس پڑی اور اس تحفے پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ آج ان صاحبہ کے بچے بالکل صحت مند اور خوش و خرم ہیں اور وہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہی ہیں۔