بھرم بازی

مودی نے خود کو اتنا تو چڑھا لیا ہے کہ کھادی پسند رہنما کا خطاب گاندھی کے بجائے خود کو دے دیا ہے


عثمان دموہی January 29, 2017
[email protected]

مودی نے خود کو اتنا تو چڑھا لیا ہے کہ کھادی پسند رہنما کا خطاب گاندھی کے بجائے خود کو دے دیا ہے۔کھادی انڈسٹری کے اشتہار میں اب گاندھی کی جگہ مودی کو چرخا چلاتے دکھایا جا رہا ہے گوکہ کانگریس پارٹی نے اس پر بہت اعتراض کیا ہے مگرکوئی نتیجہ برآمد ہونے کے بجائے مودی کو کھادی کا فیورٹ کردار قرار دیتے ہوئے انھیں اس صنعت کے لیے خوش قسمتی کی علامت کہا جا رہا ہے اور یہ بھی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ انھیں گاندھی کی جگہ اشتہار میں دکھانے سے کھادی کی سیل میں چارچاند لگ گئے ہیں۔اس کی سیل میں پہلے کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔

مودی اس وقت خوش فہمی اور شیخی میں پھولے نہیں سما رہے ہیں مگر بھارتی دانشور اور تجزیہ کار ان کی خوش فہمی کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ گزشتہ الیکشن میں ضرور بھاری اکثریت سے جیت گئے تھے مگر اس جیت میں ان کی بچپن کی غربت اور ایک چائے والے لڑکے سے لوگوں کی ہمدردی نے انھیں زمین سے آسمان پر پہنچا دیا تھا مگر اب وہ خود کو شہنشاہ سمجھنے لگے ہیں دس لاکھ کا کرتہ پہنتے ہیں۔ اوباما اور ٹرمپ سے کم حیثیت لوگوں کو اپنا دوست نہیں بناتے۔

بھارت میں کم اور ولایت میں زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ جنتا بھوکوں مر رہی ہے وہ ان کی بھوک مٹانے کے بجائے بھارت کو دنیا کا طاقتور ترین ملک بنانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ سالانہ بجٹ کا 80 فیصد حصہ جدید اور مہلک ہتھیاروں کی خرید پر خرچ کر رہے ہیں مگر افسوس کہ اپنی فوج کے بھوکے سپاہیوں کا پیٹ نہیں بھر پا رہے ہیں۔ دال وہ بھی پتلی، روٹی وہ بھی جلی کٹی اور چوبیس گھنٹے کی کشمیرکی برف سے ڈھکی وادیوں کی نگرانی کے لیے ڈھنگ کے گرم کپڑے بھی دستیاب نہیں۔

گزشتہ 70 برسوں سے فوجی ایسی ہی صورتحال کو برداشت کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب ان کی قوت برداشت جواب دے چکی ہے۔ وہ اب اپنی بپتا سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں جس سے پوری دنیا میں بھارت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ ادھر مودی جی اسی بھوکی فوج کے ذریعے بھارت کو دنیا کی سپر پاور بنانے کے سپنے دیکھ رہے ہیں اور اسی بھوکی فوج کے ذریعے پاکستان کو فتح کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

مودی جی کے لیے شرم کی بات ہے کہ ان کا ایک بھوکا فوجی چندولال اپنی بھوک مٹانے کے لیے پاکستان کی سرحد میں گھس آیا۔ وہ یہاں قسم قسم کے کھانے کھا کر اپنے دیش کو ہی بھول بیٹھا۔ وہ کسی طرح بھی بھارت واپس جانے کے لیے تیار نہ تھا مگر بھلا ہو ہمارے فوجیوں کا جنھوں نے کسی طرح اسے منا کر بھارت کے حوالے کردیا۔ مودی جی کو پاکستان کے اس احسان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور ساتھ ہی اپنے فوجیوں کے لیے مناسب کھانے کا انتظام کرنا چاہیے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی بھوکی فوج سرجیکل اسٹرائیک کی ہمت کرسکتی ہے سب ہی سمجھ چکے ہیں کہ مودی کا دعویٰ بھرم بازی کے سوا کچھ نہیں ہے مودی جی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انھیں خطروں سے کھیلنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔سب نے ہی انھیں منع کیا کہ پورے بھارت میں جڑ پکڑ چکی کرپشن کو ختم کرنے کی لاحاصل مہم جوئی کے چکر میں کرنسی کو منسوخ نہ کریں کیونکہ اس میں کامیابی کا کوئی چانس نہیں ہے جن ملکوں میں یہ کھیل کھیلا گیا ان میں سے کئی حکومتوں کا تختہ پلٹ تک ہوچکا ہے۔ اس سے عوام کی پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں وہ کنگال ہوجاتے ہیں اور ان کے روزمرہ کے کام کاج رک جاتے ہیں مگر مودی نے کسی کی نہ سنی اور بڑے نوٹ کینسل کردیے اور اس سلسلے میں اپنی کابینہ تک کو اعتماد میں نہ لیا۔

مودی نے پچاس دنوں میں حالات کو درست کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر اب سو دن سے اوپر ہوچکے ہیں۔ عوام بینکوں کے سامنے لمبی لمبی قطاریں لگا رہے ہیں ان قطاروں کی دھکم پیل میں دو سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہوچکے ہیں۔ معاشی سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں شرح نمو گرتی جا رہی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج میں مندی کا رجحان ہے بیرونی سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

اب ایسے حالات میں اترپردیش اور پنجاب کے الیکشن سر پر آچکے ہیں۔ عوام کی بدظنی کی وجہ سے ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کا جیتنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ مودی پہلے موروثی سیاست کے سخت خلاف تھے وہ اس ضمن میں کانگریس کو لتاڑتے رہتے تھے مگر اب اترپردیش کے الیکشن میں بی جے پی کے رہنماؤں کے خاندان والوں کو دل کھول کر ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں مگر کسی بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے۔

مودی کے دور میں انتہا پسند ہندو تنظیموں نے ایسا زور پکڑا ہے کہ تمام اقلیتیں بے بس ومجبور ہوکر رہ گئی ہیں۔ خاص طور پر مسلمان ان غنڈوں کے رحم وکرم پر ہیں وہ جب اور جہاں چاہیں ان پر حملہ کرسکتے ہیں اس لیے کہ پولیس ان کی طرفدار ہے گائے کے ذبیحہ کے بند ہونے سے مسلمان کیا سیکولر قسم کے ہندو بھی گائے کے گوشت سے محروم ہوگئے ہیں لیکن مودی کی دو رنگی دیکھیے کہ گائے کا گوشت خلیجی ممالک کو برابر برآمد کیا جا رہا ہے ظاہر ہے کہ یہ گوشت بغیر ذبیحہ کے وہاں نہیں بھیجا جاسکتا تو فارن ایکسچینج کمانے کے لیے گائے کو کاٹنا جائز ہے مگر بھارتی مسلمانوں کو گائے کو مقدس ماں قرار دے کر ڈرایا جا رہا ہے مودی دراصل اپنے دور میں بھارت کو ایک کٹر ہندو دیش بنانے کی مہم پر عمل پیرا ہیں۔

گائے کو اتنی اہمیت دی جا رہی ہے کہ اس کے پیشاب سے کینسر کا علاج کرنے کا سرکاری سطح پر پرچار کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی سے منسلک ایک ڈاکٹر نے انکشاف کیا ہے کہ گائے آکسیجن لیتی ہے اور آکسیجن ہی خارج کرتی ہے جب کہ اس عجب تحقیق پر تمام ہی سائنسداں حیران و پریشان ہیں۔

مودی کی مطلق العنانی اور ناکام پالیسیوں کی وجہ سے مودی سرکارکی حلیف سیاسی پارٹیاں بھی ان سے بدظن ہوتی جا رہی ہیں۔ شیوسینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مودی نے کرنسی بحران کے ذریعے بھارت پر ہیروشیما جیسا ایٹم بم گرادیا ہے۔ خود بی جے پی کے کئی رہنما مودی پر کھل کرتنقید کر رہے ہیں۔ اب ایسے حالات میں مودی کے خاص بااثر مصاحب امت شاہ کی جانب سے یہ خطرہ بڑھتا جا رہا ہے کہ جس طرح مودی نے اپنے محسن لال کرشن ایڈوانی سے بے وفائی کی تھی کہیں امت شاہ بھی اسی راستے پر نہ چل پڑے۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ کیجریوال نے مودی پر بی اے کی جعلی ڈگری حاصل کرنے کا الزام عائد کر رکھا ہے۔ مودی اب تک اپنی اصلی ڈگری کسی کو نہیں دکھا سکے ہیں۔

مودی اپنے دو سالہ دور میں اب تک آدھی دنیا کی سیر کرچکے ہیں مگر وہ کسی ملک کو بھارت میں بڑی سرمایہ کاری کرنے پر راضی نہیں کرسکے ہیں دوسری جانب وہ جن غیر ملکی اہم شخصیات کو بھارت میں مدعو کرتے رہے ہیں ان سے بھی وہ خاطر خواہ سرمایہ کاری کرانے میں ناکام رہے ہیں جس پر حزب اختلاف ان سے نہ صرف سخت ناراض ہے بلکہ اس خرچ کا حساب مانگ رہی ہے۔ مختصر یہ کہ مودی کا دور ایک افراتفری کا دور ہے بھارتی عوام پہلے کبھی اتنے پریشان نہیں تھے جتنے اب ہیں چنانچہ لگتا ہے کہ اب مودی کا زوال شروع ہوچکا ہے اور اگلے عام انتخابات میں انھیں کراری ہارکا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں