شکستوں کی داستان طویل ہوگئی
کارکردگی کا پوسٹ مارٹم، ذمہ داروں کا تعین کون کرے گا؟
وہی ہوا جس کا ڈر تھا، توقعات کے عین مطابق پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کے ہاتھوں ایک روزہ سیریز میں بھی 4-1 سے شکست کھا گئی، شائقین تو ابھی کینگروز سے ٹیسٹ سیریز میں ناکامی کا دکھ نہیں بھولے تھے کہ ایک اور غم سہنا پڑ گیا۔
گرین شرٹس کی ناکامی کے بعد سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی ہے اور پرستار اپنے اپنے انداز میں کمنٹس شیئر کر کے اپنے دکھ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، سنا ہے کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا اتنا خطرناک ہو گیا ہے کہ اس کے قہر سے مضبوط حکمران اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں لیکن یہ طاقتور سوشل میڈیا پاکستان کرکٹ ٹیم کا کچھ بگاڑ سکا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی دے رہا ہے، ہمیشہ ہی سے یہ دیکھنے میں آیا کہ کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بنتے ہیں۔
ناقص کارکردگی پر ٹیم سے باہر ہوتے ہیں اور بعد میں بغیر پرفارم کئے ٹیم میں دوبارہ واپس بھی آ جاتے ہیں، شائقین کی طرح میری سمجھ میں بھی ابھی تک یہ نہیں آ سکا کہ مخصوص کھلاڑی پرفارمنس دکھائے بغیر ٹیموں میں واپس کیسے آ جاتے ہیں اور باصلاحیت کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے انبار لگانے کے باوجود بن کھلے کیوں مرجھا جاتے ہیں؟ یہی نام نہاد سینئر کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بننے کے بعد دوبارہ فٹنس مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، اگر یقین نہیں آتا تو آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ سیریز کو ہی دیکھ لیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
کیویز کے بعد کینگروز کے ہاتھوں بھی شکست سے سب مایوسی کا شکار ہیں، اگر کوئی اپنی دھن میں مگن ہیں تو وہ ہماری قومی ٹیم کے کھلاڑی ہیں، وہ اس لئے بھی پریشان نہیں ہے کیونکہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کونسی پاکستانی ٹیم کو پہلی بار شکست ہوئی ہے؟ یہ تو روٹین کا معاملہ ہے، یہ کھلاڑی بخوبی جانتے ہیں کہ ہار کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ اور شائقین کو کس طرح ہینڈل کرنا ہے، چند دنوں بعد پاکستان سپر لیگ کا میلہ متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر سج جائے گا۔
افتتاحی تقریب کے دوران سٹیڈیم وی آئی پی شخصیات اور تماشائیوں سے کچھا کھچ بھرا ہوگا، لیگ کے مقابلوں کے دوران فلک بوس چھکے اور چوکے لگیں گے، وکٹیں تنکوں کی طرح ہوا میں اڑیں گی،شائقین ان چوکوں چھکوں کی برسات میں کھو کر ماضی کی شکستوں کو بھول جائیں گے اور وہ ایک بار پھر زیرو سے ہیرو بن جائیں گے، پرستار ان کی ایک جھلک تک دیکھنے کو ترسیں گے، خوش نصیبی سے موقع میسر آنے پر ان سے آٹوگراف لیں گے، یہ وہی کھیل ہے جو سالہا سال سے شاطر کھلاڑی اپنے چاہنے والوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔
سوچنے اور محسوس کرنے کی بات ہے کہ وہ ٹیم جو ملکی اور غیر ملکی مقابلوں میں بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیا کرتی تھی، اس کی کارکردگی اس حد زوال پذیر کیسے ہو گئی؟ کہ اس کی شکستوں کا سفر انگلینڈ، نیوزی لینڈ سے ہوتا ہوا آسٹریلیا تک جا پہنچا ہے، انضمام الحق نے تو زندگی کا بڑا حصہ کھیلوں کے میدانوں میں گزارا ہے، وہ یہ سبق کیوں بھول گئے کہ جب بارشیں ہوتی ہے تو لہلہاتی فصلیں انھیں سرزمینوںکی زینت بنتی ہیں جہاں لوگوں نے محنت کی ہوتی ہے باقی جگہ جھاڑیاں ہی اگتی ہیں۔ وہ جب سے چیف سلیکٹر بنے ہیں ٹیم نے شکستوں اور ناکامیوں کی ایسی داستان رقم کی ہے کہ خدا کی پناہ۔
مشہور کہاوت ہے کہ جس طرح خیالی پلاؤ سے ناقابل تسخیر قلعے تعمیر نہیں کئے جا سکتے، بڑے بڑے معرکے سر نہیں کئے جا سکتے،انہونی کو ہونی اور ناممکن کو ممکن نہیں بنایا جا سکتا، اسی طرح من پسندکھلاڑیوں سے بنائی ہوئی ٹیمیں محض حب الوطن پاکستانیوں کے بھنگڑوں اور نعروں سے میچز نہیں جیت سکتیں۔
قوم تو ہمیشہ ہی اپنے پلیئرز کی کامیابیوں کے لئے دعاگو رہتی ہے، کیا یہ سچے پاکستانیوں کی دعائیں نہیں تھیں کہ ورلڈ کپ 1992ء کے دوران پاکستان کا 74 رنز بنانے کے باوجود بارش کی وجہ سے انگلینڈ کے خلاف میچ کا ٹائی ہو جانا اور آسٹریلیا سے ویسٹ انڈیز کی جیت کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کو سیمی فائنل تک رسائی ممکن ہوئی اورتمام تر نامساعد اور مشکل حالات کے باوجود گرین شرٹس میگا ایونٹ کا ٹائٹل پہلی بار لے اڑی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ پر بلاوجہ تنقید کرنا بھی شاید ایک فیشن بن گیا ہے،میری رائے میں ہر کام میں بورڈ حکام کے کاموں میں کیڑے نکالنا بھی مناسب نہیں، اطلاعات ہیں کہ پی سی بی کے خزانے میں 10 ارب کے قریب رقم موجود ہے، سوچنے اور محسوس کرنے کی بات ہے کہ پی آئی اے، ریلویز، سٹیل ملز سمیت پاکستان کا وہ کون سا محکمہ ہے جو اتنے منافع میں جا رہا ہے۔
یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اربوں روپے کے فنڈز مہیا کرنے کے باوجود متعدد محکمے مزید خسارے میں جا رہے ہیں، صنعتکار، جاگیردار، حکومتی وزیر، مشیر اور بیوروکریٹس لوٹ مار اور کرپشن کے پیسوں کو باہر کے ملکوں میں غیر قانونی طور پر لے جانے کے باوجود عزت دار ہیں اور اربوں روپے کا سرمایہ پاکستان میں لانے والے کرکٹ بورڈ کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا ہے، ایسا کیوں ہے اور اس کیوں کا جواب شاید ابھی کسی کے پاس نہ ہو۔
کرکٹ بورڈ کا کام یہی ہے کہ وہ کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دے، ان کی فٹنس اور گیم میں مہارت کے لئے بہترین کوچز کی خدمات حاصل کرے، پلیئرز کے میرٹ پر انتخاب کے لئے ایماندار سلیکشن کمیٹی تشکیل دے، یہ وہ تمام فرائض ہیں جو پی سی بی کے موجودہ عہدیدار احسن طریقے سے پورے بھی کر رہے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ کھلاڑی قوموں میں محبت بانٹتے ہیں، لیکن پاکستان میں وہ کون سا کھیل ہے جس کے میچز پوری قوم سارے کام کاج چھوڑ کر دیکھتی اور رو رو کر ٹیم کی فتح وکامرانی کے لئے دعائیں کرتی ہوئی نظر آتی ہے، وہ کون سا کھیل ہے کہ جس کے جیتنے کی خوشی میں فائرنگ کی گونج اور ڈھول کی تھاپ پر رقص و بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں، وہ کون سا کھیل ہے جس میں فتح کی خوشی میں شکرانے کے نوافل ادا کئے جاتے ہیں اور دیگوں کے منہ کھول دیئے جاتے ہیں۔
کس کھیل میں جیت کر پورے ملک کے طول وعرض میں سینکڑوں من مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں اور شکست کی صورت میں شائقین غم زدہ ہو کرکھانا پینا چھوڑ جاتے ہیں اورکئی کمزور حضرات زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، اس پس منظر میں وہ کھیل کرکٹ ہی ہے جس کے مقابلوں کے دوران عوام کی نبضیں اور سانسیں قابو میں نہیں رہتیں، وقت تھم جاتا ہے اور ٹریفک کے اژدہام کو کرکٹ کا دیوہیکل اژدھا نگل جاتا ہے۔ملکی دوسرے کھیلوں کا حال تو کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے، واحد کھیل کرکٹ ہی باقی رہ جاتا ہے جس نے ایک بار نہیں متعدد بارجیت کی شکل میں قوم کو خوشیاں عطاء کی ہیں۔
، اسی جیت کی وجہ سے پاکستان میں کرکٹ سے محبت کرنے والوں کی کمی نہیں، پاکستان کرکٹ ٹیم سے وابستہ کھلاڑی جہاں بھی جاتے ہیں تو ان کے چاہنے اور محبت کرنے والے پرستار ان کے وارے جاتے ہیں اور انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔
عالمی سطح پر ہونے والے مقابلوں کے دوران عوام کا جوش قابل دید ہوتا ہے اور وہ راتوں کو جاگ کر جہاں سنسنی خیز مقابلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں اپنی ٹیم کی کامیابی کے لئے گڑ گڑا کر دعا بھی مانگتے ہیں، شائقین کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کا پسندیدہ کھیل بھی نت نئے تجربات کی نظرہو کر تباہی کی طرف دھکیل دیا جائے، کرکٹ کو دوبارہ بام عروج تک پہنچانے کے لئے پی سی بی کے تھنک ٹینک کو دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور کیویز اور کینگروز کے ہاتھوں ٹیم کی ناکامیوںکا سبب بننے والے ذمہ داروں کے خلاف بلاتفریق کاروائی کرنا ہوگی۔
گرین شرٹس کی ناکامی کے بعد سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی ہے اور پرستار اپنے اپنے انداز میں کمنٹس شیئر کر کے اپنے دکھ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، سنا ہے کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا اتنا خطرناک ہو گیا ہے کہ اس کے قہر سے مضبوط حکمران اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں لیکن یہ طاقتور سوشل میڈیا پاکستان کرکٹ ٹیم کا کچھ بگاڑ سکا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا ہوتا دکھائی دے رہا ہے، ہمیشہ ہی سے یہ دیکھنے میں آیا کہ کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بنتے ہیں۔
ناقص کارکردگی پر ٹیم سے باہر ہوتے ہیں اور بعد میں بغیر پرفارم کئے ٹیم میں دوبارہ واپس بھی آ جاتے ہیں، شائقین کی طرح میری سمجھ میں بھی ابھی تک یہ نہیں آ سکا کہ مخصوص کھلاڑی پرفارمنس دکھائے بغیر ٹیموں میں واپس کیسے آ جاتے ہیں اور باصلاحیت کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے انبار لگانے کے باوجود بن کھلے کیوں مرجھا جاتے ہیں؟ یہی نام نہاد سینئر کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بننے کے بعد دوبارہ فٹنس مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، اگر یقین نہیں آتا تو آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ سیریز کو ہی دیکھ لیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
کیویز کے بعد کینگروز کے ہاتھوں بھی شکست سے سب مایوسی کا شکار ہیں، اگر کوئی اپنی دھن میں مگن ہیں تو وہ ہماری قومی ٹیم کے کھلاڑی ہیں، وہ اس لئے بھی پریشان نہیں ہے کیونکہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ کونسی پاکستانی ٹیم کو پہلی بار شکست ہوئی ہے؟ یہ تو روٹین کا معاملہ ہے، یہ کھلاڑی بخوبی جانتے ہیں کہ ہار کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ اور شائقین کو کس طرح ہینڈل کرنا ہے، چند دنوں بعد پاکستان سپر لیگ کا میلہ متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر سج جائے گا۔
افتتاحی تقریب کے دوران سٹیڈیم وی آئی پی شخصیات اور تماشائیوں سے کچھا کھچ بھرا ہوگا، لیگ کے مقابلوں کے دوران فلک بوس چھکے اور چوکے لگیں گے، وکٹیں تنکوں کی طرح ہوا میں اڑیں گی،شائقین ان چوکوں چھکوں کی برسات میں کھو کر ماضی کی شکستوں کو بھول جائیں گے اور وہ ایک بار پھر زیرو سے ہیرو بن جائیں گے، پرستار ان کی ایک جھلک تک دیکھنے کو ترسیں گے، خوش نصیبی سے موقع میسر آنے پر ان سے آٹوگراف لیں گے، یہ وہی کھیل ہے جو سالہا سال سے شاطر کھلاڑی اپنے چاہنے والوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔
سوچنے اور محسوس کرنے کی بات ہے کہ وہ ٹیم جو ملکی اور غیر ملکی مقابلوں میں بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیا کرتی تھی، اس کی کارکردگی اس حد زوال پذیر کیسے ہو گئی؟ کہ اس کی شکستوں کا سفر انگلینڈ، نیوزی لینڈ سے ہوتا ہوا آسٹریلیا تک جا پہنچا ہے، انضمام الحق نے تو زندگی کا بڑا حصہ کھیلوں کے میدانوں میں گزارا ہے، وہ یہ سبق کیوں بھول گئے کہ جب بارشیں ہوتی ہے تو لہلہاتی فصلیں انھیں سرزمینوںکی زینت بنتی ہیں جہاں لوگوں نے محنت کی ہوتی ہے باقی جگہ جھاڑیاں ہی اگتی ہیں۔ وہ جب سے چیف سلیکٹر بنے ہیں ٹیم نے شکستوں اور ناکامیوں کی ایسی داستان رقم کی ہے کہ خدا کی پناہ۔
مشہور کہاوت ہے کہ جس طرح خیالی پلاؤ سے ناقابل تسخیر قلعے تعمیر نہیں کئے جا سکتے، بڑے بڑے معرکے سر نہیں کئے جا سکتے،انہونی کو ہونی اور ناممکن کو ممکن نہیں بنایا جا سکتا، اسی طرح من پسندکھلاڑیوں سے بنائی ہوئی ٹیمیں محض حب الوطن پاکستانیوں کے بھنگڑوں اور نعروں سے میچز نہیں جیت سکتیں۔
قوم تو ہمیشہ ہی اپنے پلیئرز کی کامیابیوں کے لئے دعاگو رہتی ہے، کیا یہ سچے پاکستانیوں کی دعائیں نہیں تھیں کہ ورلڈ کپ 1992ء کے دوران پاکستان کا 74 رنز بنانے کے باوجود بارش کی وجہ سے انگلینڈ کے خلاف میچ کا ٹائی ہو جانا اور آسٹریلیا سے ویسٹ انڈیز کی جیت کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کو سیمی فائنل تک رسائی ممکن ہوئی اورتمام تر نامساعد اور مشکل حالات کے باوجود گرین شرٹس میگا ایونٹ کا ٹائٹل پہلی بار لے اڑی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ پر بلاوجہ تنقید کرنا بھی شاید ایک فیشن بن گیا ہے،میری رائے میں ہر کام میں بورڈ حکام کے کاموں میں کیڑے نکالنا بھی مناسب نہیں، اطلاعات ہیں کہ پی سی بی کے خزانے میں 10 ارب کے قریب رقم موجود ہے، سوچنے اور محسوس کرنے کی بات ہے کہ پی آئی اے، ریلویز، سٹیل ملز سمیت پاکستان کا وہ کون سا محکمہ ہے جو اتنے منافع میں جا رہا ہے۔
یہاں تو صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اربوں روپے کے فنڈز مہیا کرنے کے باوجود متعدد محکمے مزید خسارے میں جا رہے ہیں، صنعتکار، جاگیردار، حکومتی وزیر، مشیر اور بیوروکریٹس لوٹ مار اور کرپشن کے پیسوں کو باہر کے ملکوں میں غیر قانونی طور پر لے جانے کے باوجود عزت دار ہیں اور اربوں روپے کا سرمایہ پاکستان میں لانے والے کرکٹ بورڈ کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا ہے، ایسا کیوں ہے اور اس کیوں کا جواب شاید ابھی کسی کے پاس نہ ہو۔
کرکٹ بورڈ کا کام یہی ہے کہ وہ کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دے، ان کی فٹنس اور گیم میں مہارت کے لئے بہترین کوچز کی خدمات حاصل کرے، پلیئرز کے میرٹ پر انتخاب کے لئے ایماندار سلیکشن کمیٹی تشکیل دے، یہ وہ تمام فرائض ہیں جو پی سی بی کے موجودہ عہدیدار احسن طریقے سے پورے بھی کر رہے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ کھلاڑی قوموں میں محبت بانٹتے ہیں، لیکن پاکستان میں وہ کون سا کھیل ہے جس کے میچز پوری قوم سارے کام کاج چھوڑ کر دیکھتی اور رو رو کر ٹیم کی فتح وکامرانی کے لئے دعائیں کرتی ہوئی نظر آتی ہے، وہ کون سا کھیل ہے کہ جس کے جیتنے کی خوشی میں فائرنگ کی گونج اور ڈھول کی تھاپ پر رقص و بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں، وہ کون سا کھیل ہے جس میں فتح کی خوشی میں شکرانے کے نوافل ادا کئے جاتے ہیں اور دیگوں کے منہ کھول دیئے جاتے ہیں۔
کس کھیل میں جیت کر پورے ملک کے طول وعرض میں سینکڑوں من مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں اور شکست کی صورت میں شائقین غم زدہ ہو کرکھانا پینا چھوڑ جاتے ہیں اورکئی کمزور حضرات زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، اس پس منظر میں وہ کھیل کرکٹ ہی ہے جس کے مقابلوں کے دوران عوام کی نبضیں اور سانسیں قابو میں نہیں رہتیں، وقت تھم جاتا ہے اور ٹریفک کے اژدہام کو کرکٹ کا دیوہیکل اژدھا نگل جاتا ہے۔ملکی دوسرے کھیلوں کا حال تو کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے، واحد کھیل کرکٹ ہی باقی رہ جاتا ہے جس نے ایک بار نہیں متعدد بارجیت کی شکل میں قوم کو خوشیاں عطاء کی ہیں۔
، اسی جیت کی وجہ سے پاکستان میں کرکٹ سے محبت کرنے والوں کی کمی نہیں، پاکستان کرکٹ ٹیم سے وابستہ کھلاڑی جہاں بھی جاتے ہیں تو ان کے چاہنے اور محبت کرنے والے پرستار ان کے وارے جاتے ہیں اور انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔
عالمی سطح پر ہونے والے مقابلوں کے دوران عوام کا جوش قابل دید ہوتا ہے اور وہ راتوں کو جاگ کر جہاں سنسنی خیز مقابلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں اپنی ٹیم کی کامیابی کے لئے گڑ گڑا کر دعا بھی مانگتے ہیں، شائقین کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کا پسندیدہ کھیل بھی نت نئے تجربات کی نظرہو کر تباہی کی طرف دھکیل دیا جائے، کرکٹ کو دوبارہ بام عروج تک پہنچانے کے لئے پی سی بی کے تھنک ٹینک کو دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور کیویز اور کینگروز کے ہاتھوں ٹیم کی ناکامیوںکا سبب بننے والے ذمہ داروں کے خلاف بلاتفریق کاروائی کرنا ہوگی۔