بیمار ٹیکسٹائل صنعتوں کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کے لیے فوکل پرسن مقرر
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی ٹیکسٹائل کا اجلاس، شعبے کی بحالی پرغور، فیڈریشن، ٹی ایم اے و دیگرنے تجاویز دیں
گورنر وتھرا کی اسٹیک ہولڈرزکوتعاون کی یقین دہانی۔ فوٹو: فائل
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل انڈسٹری کا اجلاس اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں منعقد ہوا جس میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بحالی کے طریقہ کار پر غور کیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی نے اجلاس کے مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس ٹیکسٹائل سیکٹر کے بینک قرضوں کے مسائل نمٹانے کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ ''ایکسپریس'' کو اجلاس کے موصول ہونے والے منٹس کے مطابق دوران اجلاس چیئرمین کمیٹی نے ٹیکسٹائل سیکٹر کی بحالی کے لیے تجاویز طلب کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری اور بینکاری شعبے کا ملک کے معاشی استحکام میں اہم کردار ہے۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری کے نمائندوں نے ٹیکسٹائل صنعت کے بحران اور اس کے اسباب بیان کیے اور ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مسائل اٹھاتے ہوئے کہا کہ ٹیکسٹائل یونٹس یا تو بند ہوگئے ہیں یاتباہی کے قریب ہیں، اس شعبے کی بحالی کے لیے خصوصی بحالی منصوبہ فوری شروع کیے جانے کی ضرورت ہے، گیس اور بجلی کی بلند لاگت، درآمدی خام مال پر عائد زائد ٹیرف، قرضوں اور بیمار صنعتوں کی وجہ سے اس شعبے کی حالت انتہائی مایوس کن ہے اور اسکی برآمدات کم ہو رہی ہیں، اگر بیمارصنعتوں کے قرضے بینک ری شیڈول کردیں تو بند یونٹس بھی دوبارہ کھل جائیں گے۔
دوران اجلاس ایف پی سی سی آئی کے نمائندے نے کہا کہ پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے ٹیکسٹائل کی صنعت غیرمسابقتی ہوگئی ہے، برآمدات میں کمی اور ٹیکسٹائل یونٹس کی بندش اس کا ثبوت ہے جبکہ قرضوں پر ڈیفالٹ کی وجہ سے بینکوں نے سرمایہ فراہم کرنا بند کردیا ہے جس سے صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے اور اس کے نتیجے میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے غیرفعال قرضے مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے گورنراسٹیٹ بینک اور بینکوں کے سربراہوں سے مطالبہ کیا کہ قرضے ری شیڈول کرکے ورکنگ سرمائے کی سہولتیں ترجیحی بنیادوں پر بحال کی جائیں۔
اجلاس میں ٹی ایم اے کے نمائندے نے بند صنعتوں کی بحالی کے لیے تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ تمام غیرفعال قرضے ری اسٹرکچر کرکے ان کی ادائیگی صفرشرح سود پر3 سال کے لیے موخر کی جائے، جمع ہونے والا سود معاف کیا جائے، اصل زر بھی صفرشرح سود پر ری اسٹرکچر کیا جائے، تجارتی بینکوں کو غیرفعال قرضے 30 دن کے اندر ری اسٹرکچر کرنے کی ہدایت کی جائے، تمام ری اسٹرکچر قرضوں کو سی آئی بی کی درجہ بندی سے فوری ہٹایا جائے، بیمار صنعتوں کو تمام قرضوں کی ادائیگی تک ٹیکس استثنیٰ دیا جائے، قرضوں کی ریکوری کمپنیوں کی فروخت کی آمدنی سے منسلک کی جائے جس کی زیادہ سے زیادہ حد5 فیصد ہو، بینک بیمار صنعتوں کو 3 سال کے لیے غیرفعال قرضوں کے 25 کے مساوی ایکسپورٹ ری فنانس مارک اپ ریٹ پررننگ فنانس فراہم کریں، بینکوں کی جانب سے ضبط کی گئی جائیدادیں مالکان کو واپس کی جائیں تاکہ وہ بیمار صنعتوں کی آمدنی کو بڑھانے کیلیے استعمال کرسکیں، اسٹیٹ بینک کی جانب سے برآمدکنندگان پر عائد شدہ جرمانے بیمار صنعتوں کو ریلیف کی فراہمی کیلیے ختم کیے جائیں اور ایکسپورٹرز کو اپنی برآمدات کے عوض ڈالر وطن لانے کے لیے ایک مرتبہ استثنیٰ دیا جائے۔
دوسری جانب اجلاس کے دوران سینیٹرنہال ہاشمی نے کہا کہ حکومت تنہا ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بیل آؤٹ نہیں کرسکتی ہے بلکہ نجی شعبے کو بھی آگے آکر ٹیکسٹائل سیکٹرکومالی مدد فراہم کرنی چاہیے۔ سینیٹرنسرین جلیل نے کہا کہ تمام بینکوں کو ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ریلیف فراہم کرتے ہوئے قرضے دینے چاہئیں اور قرضوں کو ری شیڈول کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنا کاروبار چلا سکیں۔
ادھر شعبہ بینکاری کے نمائندوں نے دوران اجلاس کہا کہ اگرٹیکسٹائل انڈسٹری چاہتی ہے کہ بینک انہیں بچانے کے لیے آئیں تو اسے اپنی مسابقتی صلاحیتوں کو ثابت کرنا ہوگا، حکومت ایکسپورٹرز کو زرتلافی دے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری مردہ حالت میں نہیں بلکہ بعض ٹیکسٹائل گروپوں نے اس کاروبار سے بڑا منافع کمایا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے بعض ٹیکسٹائل گروپوں کے نام بھی اجلاس میں ظاہر کیے۔
اسٹیٹ بینک کے نمائندوں نے کمیٹی کو بتایا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر پر واجب الاداقرضوں کی مالیت728 ارب روپے ہے جس میں سے 196.5 ارب روپے کے قرضے غیرفعال ہیں جو مجموعی قرضوں کا27 فیصد ہیں، ٹیکسٹائل انڈسٹری کیلیے مارک اپ کی شرح3 فیصد ہے، اسٹیٹ بینک کے ریگولیشنز ری اسٹرکچرنگ اور ری شیڈولنگ کیلیے انتہائی واضح سہولتی اورحوصلہ افزا ہیں، بینکس مرکزی بینک کے رہنما اصولوں کی روشنی میں اس شعبے کے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ یا ری شیڈولنگ کرسکتے ہیں، مرکزی بینک نے وصول نہ کیے جاسکنے والے قرضوں کی معافی کیلیے جامع ہدایت جاری کی ہیں، قرضوں کی ایڈجسٹمنٹ کیلیے بینکوں نے بہت کوششیں کی ہیں مگر تمام کیسز کیلیے ایک ہی فارمولا ناممکن ہے، بینکس ان معاملات کا کیس ٹو کیس بنیادوں پر حل تلاش کریں گے۔
گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمودوتھرا نے بحث کو نمٹاتے ہوئے اسٹیک ہولڈرز کو اپنے ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی اور بینکاری شعبے کے نمائندوں پر زور دیا کہ وہ ایکسپورٹرز کونرم قرضے جاری کرتے ہوئے ٹیکسٹائل صنعت کی بحالی میں کردار ادا کریں اور یہ پوری کاروباری برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے بیرونی اثاثے اور سرمایہ ملک میں واپس لائیں تاکہ ٹیکسٹائل کی صنعت مضبوط ہوسکے۔ انہوں نے ٹیکسٹائل سیکٹر کو مدد کی یقین دہانی کراتے ہوئے ڈائریکٹر ڈی پی آر اسٹیٹ بینک شوکت زمان کونادہندگان کے قرضوں کی کیس ٹوکیس بنیادوں پر ہنگامی طور پر ری شیڈولنگ کیلیے فوکل پرسن نامزد کر دیا۔
کمیٹی نے فوکل پرسن کیلیے گورنراسٹیٹ بینک کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے ٹیکسٹائل کے صنعتکاروں کو بینکوں کے ساتھ اپنے قرضوں کے معاملات نامزد فوکل پرسن کے تعاون سے نمٹانے کی ہدایت کی۔