افغانستان سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 97 شدت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ
کارروائیاں ملک کے مختلف علاقوں میں کی گئیں، 60 شدت پسند زخمی، 2 غیرملکیوں سمیت 10 گرفتار
افغانستان میں امریکی ڈرون حملے اور سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران 97 شدت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے جبکہ طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے عسکری کارروائیو ں میں مزید شدت لانے کیلیے 16فرضی گورنروں سمیت 24 عہدیداران کو تبدیل کر دیا۔
افغان میڈیا کے مطابق شمالی صوبہ سرائے پل میں افغان فورسز کے آپریشن میں 80 شدت پسند ہلاک اور 60 دیگر زخمی ہوگئے جبکہ 2 غیر ملکیوں سمیت 10کو گرفتارکر لیا گیا ہے جبکہ سیکیورٹی ڈائریکٹر اور قائمقام سیکیورٹی کمانڈرکرنل عنایت اللہ حبیبی کا کہنا ہے کہ سرائے پل سٹی، سوزما قلعہ، سینچارک، سیاد اضلاع میں کیے جانیوالے آپریشنز کا مقصد علاقے میں امن واستحکام کو یقینی بنانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 20 طالبان عسکریت پسند ہتھیار ڈال کر امن عمل میں شامل ہوگئے۔ مشرقی صوبہ ننگرہار میں ڈرون حملے اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں داعش اور لشکر اسلام کے 10شدت پسند ہلاک ہوگئے۔
دوسری جانب صوبائی پولیس کمانڈنٹ نے ایک بیان میں بتایا کہ ضلع آچن میں کیے جانے والے ڈرون حملے میں داعش کے 2 اور لشکر اسلام کے 5 شدت پسند مارے گئے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ گروپ کے کمانڈر کی شناخت قاضی شاہد کے نام سے ہوئی ہے جو ہلاک ہونے والوں میں شامل ہے۔
دریں اثنا ضلع ہیسکا مینا میں فورسز کے ساتھ جھڑپ میں داعش کے 3جنگجو مارے گئے۔ صوبہ ہلمند میں طالبان کے فوجی بیس پر حملے کے دوران جھڑپوں کے دوران طالبان کو جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ طالبان نے ضلع ناد علی فوجی کیمپ پر حملہ کیا جسے فورسز نے ناکام بنادیا۔ جوابی کارروائی میں 7 طالبان جنگجو ہلاک ہوگئے۔ دوسری جانب طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے عسکری کارروائیو ں میں مزید شدت لانے کے لیے 24 فرضی عہدیداران کو تبدیل کردیا ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق تبدیل کیے جانے والوں میں 16فرضی گورنر اور 8 دیگر صوبائی سطح کے حکام شامل ہیں جن میں سے ایک کی ذمے داری شہری علاقوں پر بڑے حملے کے لیے تکنیکی مدد فراہم کرنا ہوگا۔ طالبان کے مرکزی ترجمان کی طرف سے نئی تقرریوں کی تصدیق کی گئی ہے اور کہا ہے کہ نئی تقرریوں سے ملا محمد کی موت کی سے گروپ میں پڑنے والے شگاف کو پر کرنے میں مدد دے گی ۔
علاوہ ازیں محکمہ تعلیم کے حکام نے افغان سیکیورٹی فورسز اور شدت پسند گروہوں کی طرف سے مختلف علاقوں میں 30اسکولوں کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال نہ صرف بچوں کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہے بلکہ وہ تعلیم کے حصول سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
افغان میڈیا کے مطابق شمالی صوبہ سرائے پل میں افغان فورسز کے آپریشن میں 80 شدت پسند ہلاک اور 60 دیگر زخمی ہوگئے جبکہ 2 غیر ملکیوں سمیت 10کو گرفتارکر لیا گیا ہے جبکہ سیکیورٹی ڈائریکٹر اور قائمقام سیکیورٹی کمانڈرکرنل عنایت اللہ حبیبی کا کہنا ہے کہ سرائے پل سٹی، سوزما قلعہ، سینچارک، سیاد اضلاع میں کیے جانیوالے آپریشنز کا مقصد علاقے میں امن واستحکام کو یقینی بنانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 20 طالبان عسکریت پسند ہتھیار ڈال کر امن عمل میں شامل ہوگئے۔ مشرقی صوبہ ننگرہار میں ڈرون حملے اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں داعش اور لشکر اسلام کے 10شدت پسند ہلاک ہوگئے۔
دوسری جانب صوبائی پولیس کمانڈنٹ نے ایک بیان میں بتایا کہ ضلع آچن میں کیے جانے والے ڈرون حملے میں داعش کے 2 اور لشکر اسلام کے 5 شدت پسند مارے گئے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ گروپ کے کمانڈر کی شناخت قاضی شاہد کے نام سے ہوئی ہے جو ہلاک ہونے والوں میں شامل ہے۔
دریں اثنا ضلع ہیسکا مینا میں فورسز کے ساتھ جھڑپ میں داعش کے 3جنگجو مارے گئے۔ صوبہ ہلمند میں طالبان کے فوجی بیس پر حملے کے دوران جھڑپوں کے دوران طالبان کو جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ طالبان نے ضلع ناد علی فوجی کیمپ پر حملہ کیا جسے فورسز نے ناکام بنادیا۔ جوابی کارروائی میں 7 طالبان جنگجو ہلاک ہوگئے۔ دوسری جانب طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ نے عسکری کارروائیو ں میں مزید شدت لانے کے لیے 24 فرضی عہدیداران کو تبدیل کردیا ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق تبدیل کیے جانے والوں میں 16فرضی گورنر اور 8 دیگر صوبائی سطح کے حکام شامل ہیں جن میں سے ایک کی ذمے داری شہری علاقوں پر بڑے حملے کے لیے تکنیکی مدد فراہم کرنا ہوگا۔ طالبان کے مرکزی ترجمان کی طرف سے نئی تقرریوں کی تصدیق کی گئی ہے اور کہا ہے کہ نئی تقرریوں سے ملا محمد کی موت کی سے گروپ میں پڑنے والے شگاف کو پر کرنے میں مدد دے گی ۔
علاوہ ازیں محکمہ تعلیم کے حکام نے افغان سیکیورٹی فورسز اور شدت پسند گروہوں کی طرف سے مختلف علاقوں میں 30اسکولوں کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال نہ صرف بچوں کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہے بلکہ وہ تعلیم کے حصول سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔