چوری زیادہ اور تخلیقیت کم ہو گئی ہے
کچھ لوگ واقعی امر ہونے کے لیے جنم لیتے ہیں اور وہ ایسے کار ہائے نمایاں انجام دیتے ہیں کہ مشعل راہ بن جاتے ہیں
لمبا تڑنگا قد، سرخ وسفید رنگت کا امتزاج، جہاں دیدہ سُرخ آنکھیں اور حرکات و سکنات میں نظر آنے والی پھرتی جہاں ان کی شخصیت کے چند پردے اٹھاتی ہے وہیں ان کی عمر پر ایک دبیز تہ چڑھائے ہوئے ہے، دیکھنے والا ان کی عمر کے بارے میں اپنے ذہن میں جو اندازہ کرتا ہے وہ اس سے ماشاء اللٰہ دو گنا نکلتی ہے۔
انٹرویو کے وقت بھی ایسی ہی ایک غلطی ہم سے سرزد ہوئی کہ ہم ان کے قریب بیٹھے ان کے صاحب زادے ڈاکٹر جواد اور افتخار کو ان کے چھوٹے بھائی سمجھ بیٹھے تاہم دورانِ گفت گو بات جب ان کی جوانی تک پہنچی تو ہماری غلط فہمی ہمیں نادم کر گئی اور حیرت نے گھیر لیا۔ رعب دار مگراصل صوابی وال یوسف زئی چہرہ، ہاتھ ہلا ہلا کر بات کرنے کا انداز کسی بہترین مقرر سے مشابہ، یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے ہونٹوں سے نکلی ہر بات جہاں معلومات میں اضافہ کرتی ہے وہیں سوچ کے کواڑوں کو بھی دھڑ دھڑا دیتی ہے۔
پشتولکھاریوں میں وہ واحد شخصیت ہیں جو ہمہ وقت کسی نہ کسی تخلیق، تحقیق یا مطالعے میں مگن دکھائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے ہر کام میں پرفیکشن نظر آتی ہے۔ ان کے سراپا پر تحقیق کا ایسا گاڑھا رنگ چڑھا ہے کہ ان کا بہترین شاعر ہونا اس کے نیچے دب گیا لیکن ایسا نہیں کہ ان کی شاعری کے معترفین کی تعداد بھی کم ہے۔ ہر چھوٹے بڑے کو احترام دینا اور شفقت و محبت سے بات کرنا ان کی فطرت میں شامل ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ ان کو بھی ہر جگہ ہر کوئی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ عرصۂِ دراز سے ہر شعبہ میں چلنے والی گروپ بندی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
ہر طرف لابی سسٹم ہونے کے باوجود وہ کسی سے منسلک نہیں، ان کی تمام تر توجہ صرف اپنے کام کی طرف رہتی ہے اور ان کی کامیابی کا راز بھی شاید یہ ہی ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ شہر میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود وہ ایک سیدھے سادے اور کھرے پختون ہیں، ان کے طور اطوار سے پختون ولی جھلکتی ہے،کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
کچھ لوگ واقعی امر ہونے کے لیے جنم لیتے ہیں اور وہ ایسے کار ہائے نمایاں انجام دیتے ہیں کہ مشعل راہ بن جاتے ہیں، ایسے گوہر نایاب کی تلاش مشکل نہیں اک ذرا سعیِٔ پیہم سے ہو تو ہمیں ایسے در دانے مل سکتے ہیں۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ بہت سے نابغے گم نامیوں کی دُھند میں گم ہو جاتے ہیں اور زمانہ ان کی صلاحیتوں سے بے بہرہ رہتا ہے لیکن آج کی ہماری شخصیت نے اپنی بے پناہ خدادادصلاحیتوں پر نہ صرف نیک نامی سمیٹی بل کہ ریڈیو، فلم اور ٹی وی کے حوالے سے خود کو ایک اکادمی کی حیثیت سے بھی منوایا، اپنی ثقافت اور اقدار کو سینے سے لگائے ایسی تخلیقات پیش کیں جو دوسروں کے لیے نمونہ بن گئیں۔
خیبر پختون خوا کی زرخیز اور مردم خیز مٹی ضلع صوابی کے تاریخی گائوں شاہ منصور میں جنم لینے والے نثار محمد خان کی شخصیت ہمہ جہت ہے، کسی بھی کثیر پہلو شخصیت کا احاطہ چند سطور میں کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے لیکن کوشش کی جا سکتی ہے۔
ریڈیوپاکستان پشاورکے سابق سٹیشن ڈائریکٹر پشتوزبان کے معروف شاعر، ادیب، ڈرامہ نگار، براڈ کاسٹراورماہرموسیقی نثار محمد خان صوابی کے معروف گائوں شاہ منصور میں خواجہ محمد خان کے ہاں 1942 میں پیدا ہوئے، شاہ منصور مدرسے سے مروّجہ علوم میں ابتدائی تعلیم پائی ،اس کے بعد 1959 میں گورنمنٹ ہائی اسکول زیدہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، 1961 میں اکبر میموریل کالج مردان سے انٹر کیا، 1963 میں صوبے کی تاریخی اور معروف درس گاہ اسلامیہ کالج پشاور سے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے کراچی چلے گئے اور وہاں آئی جی اے سے ایم بی اے امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔ 1967 میں سی ایس ایس کرنے کے بعد انفارمیشن گروپ میں چلے گئے۔ ان کی پہلی پوسٹنگ ڈھاکا میں ہوئی جہاں سنٹرل نیوز آرگنائزیشن میں پشتو زبان میں خبریں پڑھتے رہے۔
1969 میں ریڈیو پاکستان راول پنڈی ٹو، جس میں مظفر آباد بھی شامل تھا، وہاں بہ حیثیت پروڈیوسر تعینات ہوئے، مظفر آباد کے تین سالہ دورِ ملازمت میں ریڈیو آزاد کشمیر کے معروف ماہ نامہ ''بانگ'' میڈیا کے حوالے سے لکھنا شروع کیا، یہاں سے ان کے تخلیقی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلا ڈراما ''میرے چاند'' تخلیق کیا۔ اس دوران جنت نظیر وادی کشمیر کی سیر گاہوں چکار، چکوٹھی، بانڈو، زیات، اٹھ مقام، پلندری اور باغ کے علاقوں پر دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جن کو بہت پذیرائی ملی۔
اسی طرح ہیلون گاش (صبح کی کرنیں) پروگرام نے مقبولیت کی سند حاصل کی۔ محنت لگن اور شوق کا یہ سلسلہ لاہور تک پہنچا اور یہاں بھی تخلیقی صلاحیتوں کو گزند پہنچنے نہ دی۔ لاہور ہی میں پاکستانی فلموں کے بین الاقوامی شہرت یافتہ مزاحیہ اداکار رنگیلا سے پہلی ملاقات بہت یادگار تھی، اس عرصے میں لاہور فلم انڈسٹری میں پشتو میں فلم لکھنے کا شوق چرایا اور 1971 میں ''مفرور'' اور ''اوربل'' جیسی کام یاب فلموں کی کہانیاں لکھیں۔ اس کے بعد پشاور میں مرحوم پروفیسر پریشان خٹک کے کہنے پر پشتو ادب میں ماسٹر کیا جو آگے چل کر پشتو فلمیں اور ڈرامے لکھنے میں کافی مددگار ثابت ہوا۔
انہوں نے 52 یادگاری فلموں کی کہانیاں اور گیت بھی تخلیق کیے۔ 1973 میں ڈراما سیکشن جب ان کے حوالے کیا گیا تو پشتو ڈرامے کو نئے آہنگ اور جدیدیت سے روشناس کرانے کے لیے بہت محنت کی۔ اس دوران ''شگے سرے شوے'' (ریت سرخ ہو گئی) جب عوام کی سماعت و بصارت سے ٹکرایا تو اسے داد و تحسین کے ڈونگرے برس پڑے اسی عرصہ میں یک شخصی کردار پر مبنی ڈراما ''چغہ'' (چیخ) نے، جس میں صوبے کے ممتاز اداکار ممتار علی شاہ نے اپنے فن کے جوہر دکھائے تھے، کام یابی کے ریکارڈ قائم کیے، اس سے پشتو ڈرامے کو ایک نئی جہت ملی جسے دوسرے تخلیق کاروں نے آگے بڑھایا۔
نثار محمد خان نے جب ایک سوال پر ماضی کے اوراق کو ٹٹولا تو کہنے لگے ایک بار ہمارے صوبے کی پہچان بابائے جدید پشتوغزل امیر حمزہ خان شِنواری سے (شین) ڈراما لکھوایا لیکن جب نشر کرنے کا وقت آیا تو سکرپٹ غائب تھا اس پریشانی کے عالم میں حمزہ شِنواری وہاں آنکلے، انہوں نے حالات بھانپ لیے اور فرمایا فکر کی کوئی ضرورت نہیں اور وہیں بیٹھ کر سکرپٹ لکھنا شروع کر دیا جب سکرپٹ ان کے حوالے کیا گیا تو ان کی حیرت کی حد نہ رہی کیوں کہ حمزہ بابا نے جو سکرپٹ ابھی ابھی صفحۂِ قرطاس پر منتقل کیا تھا وہ لفظ بہ لفظ گم شدہ سکرپٹ ہی تھا۔ نثار محمد خان نے اپنے کیریئر کے دوران تقریباً ڈیڑھ سو ڈرامے تخلیق کیے جو عوام کے سلگتے مسائل کی نشان دہی اور پختون روایات کے امین ہیں۔
ہماری مہمان شخصیت کی ہمہ جہت شخصیت کی خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ وہ بیک وقت ٹی وی، ریڈیو اور فلم نگری کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔ نثار محمد خان بہ طور اداکار بھی مقبول رہے۔ 1973 میں ٹیلی ویژن پر شہزاد خلیل کے ڈرامے ''ولے شاہے'' میں مرکزی کردار نبھایا اسی طرح پی ٹی وی سے ڈراموں کے مقابلے میں ''جو اماں ملی تو کہاں ملی'' میں فردوس جمال کے ساتھ جیل سپرنٹنڈنٹ کا کردار نبھایا اس کے ساتھ ہند ہی کو ڈرامے ''کونج'' میں مرکزی کردار ادا کیا، اس دوران 1975 میں ڈراما کے سلسلے میں کورس کے لیے ہالینڈ گئے جہاں جدید ڈرامے کے بارے میں جان کاری حاصل کی۔ نثار محمد خان کا کہنا ہے ''تربیت حاصل کرنے کے بعد مجھے کوئٹہ سنٹر ٹرانسفر کیا گیا جہاں فوک موسیقی کو نئے آہنگ کے ساتھ پیش کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی جب کہ ڈراما سیکشن بھی میرے حوالے کر دیا گیا۔
اس دوران فوک موسیقی کے حوالے سے جمال شاہ، عیسیٰ خان اور ملخوزہ سمیت کئی اداکاروں، صدا کاروں اور گلوکاروں کو متعارف کرایا، اسی تسلسل کو لاہور میں بھی برقرار رکھا۔ سنٹرل پروڈکشن کے شعبے میں پشتو کی 350 بھولی بسری آوازوں کی ری مکسینگ کر کے ان کی کوالٹی کو بہتر بنایا۔ ان کا کہنا ہے ''لاہور میں دیگر کے علاوہ گلوکاروں میں اے نیئر اور ماہ جبین قزلباش کو میں نے ہی متعارف کرایا ہے۔ اپنی یادداشتوں میں سے ایک کا ذکر وہ کچھ اس طرح کرتے ہیں ''ایک شام بارش ہو رہی تھی جس کے باعث سٹوڈیو میں بیٹھا تھا تو مہدی حسن میرے پاس آئے اور جیب سے ایک روپیہ نکال کر دکھایا کہ یہ آپ نے کراچی میں مجھے انعام میں دیا تھا جو میں نے ابھی تک سنھبال کے رکھا ہوا ہے''۔
نثار محمد خان کی تخلیقات کا سفر نہ صرف اندرونِ ملک جاری رہا بل کہ دیار غیر میں بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ بی بی سی کے لیے لکھے گئے ڈرامے پیس ہاربر (امن کا ساحل) نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی اسی طرح ورجینایونی ورسٹی میں بہ طور انسٹرکٹر ڈرامے کے حوالے سے بہت کام کیا جب کہ امن کے حوالے سے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں پچیس ڈرامے تحریر کیے جن کو کافی پذیرائی ملی۔
ذاتی زندگی کے حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ میری شادی ماموں زاد بیٹی سے بیس اکتوبر انیس سو اڑسٹھ میں روایتی انداز میں ہوئی اور اللہ تعالی نے مجھے گیارہ بچوں سے نوازا ہے جن میں سے اللہ کے فضل سے چھے ڈاکٹر ہیں، دو بیٹے جواد اور افتخار سرجن ہیں''۔ انہوں نے کہا کہ ''اللہ تعالی نے ہر خوشی دی ہے جس پر میں جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے''۔ بچپن کی یادوں کے بارے میں انہوںنے بتایا ''گلی ڈنڈا، کرکٹ اور تیراکی سمیت تمام روایتی کھیل خوب کھیلے، اس کے ساتھ لکھنے پڑھنے کا بھی شوق تھا جو آج تک برقرار ہے۔
آٹھویں جماعت میں ستار سیکھنے کا شوق چرایا اور معروف ستار نواز شاد محمد سے سیکھنا شروع کیا جس کے باعث آج بھی تھوڑا بہت ستار بجا لیتا ہوں۔ خوراک میں گوشت، مٹر، ساگ اورملخوزے ان کا من بھاتا کھا جا ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی جو مل جائے، غنیمت جان کر لطف اٹھاتاہوں۔''، نثار محمدخان کو ہندوستانی اداکاروں میںشاہ رخ خان پسند ہیں، ان کا کہنا ہے ''وہ کسی بھی کردار میں ڈوب کر اداکاری کرتا ہے، ویسے تو اس کی بہت سی فلمیں بہ طور مثال پیش کی جا سکتی ہیں لیکن دیو داس میں اس نے جس اندازمیں ڈوب کر حقیقت کا رنگ بھرا ہے وہ اسی کا ہی حصہ ہے''۔ اسی طرح پشتو فلم انڈسٹری میں بدرمنیر، یاسمین خان اورکامیڈی اداکاروں میںلیاقت میجرکے کام نے انہیں متاثر کیا ہے۔
نثار محمد خان نے ایک واقعہ سنایا کہ فلم اووربل کے سیٹ پر ایک سین میں بدرمنیر نے خود کو بندوق کے بٹ سے مارنا تھا جب سین سٹارٹ ہوا توبدرمنیر اپنے کردار میں اس قدر ڈوب چکا تھا کہ اسے خبر ہی نہ ہوئی اور سچ مچ بندوق اپنے سر میں اس شدت سے مار لی کہ بھل بھل خون بہ نکلا، تب ہی تو ان اداکاروں نے نام پیدا کیا جو اداکاری دل سے کیا کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ موسیقاروںمیںرفیق شینواری کا بڑانام ہے، ان کی بنائی ہوئی دھنوں میں ایسی مٹھاس ہے کہ بار بار سنیے اور جی نہیں بھرتا ، اسی طرح خانہ بدوش اور سریلی آوازکی مالکہ زرسانگہ کا پشتو موسیقی میں ثانی نہیں جب وہ گاتی ہے تو یوں محسوس ہوتاہے کہ پورا کاررواں ان کی آوازکی طرف لپک رہاہے۔ نثارمحمدخان کے مطابق زرسانگہ کے گلے میںسرسوتی کروٹ کروٹ سر تخلیق کر رہی ہے اسی طرح ان کو بھولی بسری آوازوںمیںعبداللہ جان کی آوازبھاتی ہے اور سازندوں میں تاج محمد ان کو کبھی نہیںبھولتے۔
اپنی تخلیقات کے بارے میں ان کا کہنا ہے ''ویسے تو تخلیق اولاد ہی کی طرح ہوتی اور اولاد میں کوئی برا نہیں لگتا لیکن پھر بھی سب کی اپنی اپنی انفرادیت ہوتی ہے اسی طرح ''یو زل بیاپہ دے لار راشہ (اس راہ سے اک بار چلے آؤ) اور خیر پہ خیر (خیر بہ خیر)، جس میں 'مانے' اور 'سانے' کے کردار تخلیق کیے تھے اور ریڈیو کے لیے تخلیق کردہ بغیر کرداروں کے صرف آوازوں پر مبنی ڈرامے ''دا سوک وو'' (یہ کون تھا؟)اب بھی دل گرفتہ کر دیتے ہیں۔ نثار محمد خان پیشہ ورانہ امورکی انجام دہی اور سیروسیاحت کے لیے امریکا، کینیڈا، برطانیہ، سعودی عرب،سوئزرلینڈ، نیدرلینڈ، انڈیا، تھائی لینڈ، سنگاپور، سری لنکا، افغانستان، ایران، متحدہ عرب امارات، بنگلہ دیش، ملیشیا، تائیوان، انڈونیشیا، چین، جنوبی افریقہ،آسٹریلیا اورنیوزی لینڈگھوم پھر آئے ہیں۔ نثارمحمدخان نے چالیس سال سروس کے بعد بھی میڈیا سے اپنا ناتا نہیں توڑا، ان کوکچلر ڈائریکٹریٹ خیبر پختون خواکے پہلے ڈائریکٹر ہونے کابھی اعزازحاصل ہے۔ وہ آج بھی اسی طرح جواں ہمت ہیں جس طرح جوانی میں تھے۔
ورزش اور چہل قدمی کے ساتھ متوازن خوراک کو اپنی زندگی کا معمول بنا رکھا ہے۔ آج بھی ان کے چاہنے والے اور شاگرد ان سے سیکھنے آتے رہتے ہیں اور انہوں نے بلا کم و کاست اپنے فیوض کا سلسلہ دراز رکھا ہوا ہے۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے نئے ساتھیوں کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان کا مشاہدہ اورمطالعہ گہرا ہونا ضروری ہے تب ہی وہ بغیر کسی پرچی کے اپنے لیے مقام پیدا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تخلیق کا عنصر کم اور سرقے کا رواج زیادہ ہے جس کے باعث فلم انڈسٹری زوال پذیر ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فلموں میں اصل کہانی نظر آنے کے بجائے دیگر لوازمات ٹھونسنا فلم کی کام یابی کی ضمانت تصور کیا جاتا ہے۔
جو بھی فلمیں بن رہی ہیں ان پر وہ محنت نہیں کی جارہی جس کی ضرورت ہے اگر چہ چند سال سے کچھ بہترڈرامے بننا شروع ہوگئے ہیں لیکن معیار کی حد کو چھونے کے لیے مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ ریڈیو کا احیاء نیک شگون ہے کیوں کہ انتہائی آسان میڈیم کے ذریعے عوام کو تعلیم اور تفریح کے ساتھ ساتھ معلومات تک رسائی بہتر اندازسے ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ آج کل ریڈیو سیٹ کے ذریعے ہر کوئی اس سے استفادہ کرسکتا ہے جب کہ دنیا بھر میں معلومات کا آسان اور سستا ذریعہ ایف ایم ہے، پاکستان میں بھی اس کے سننے والوں کی تعداد میںروز افزوں اضافے سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ امر خوش آئند بھی ہے کہ میڈیا میں مثبت مقابلے کا رجحان فروغ پارہا ہے۔ اپنے ہم وطنوں اورخصوصاً نوجوان طبقے کے نام پیغام وہ ایک شعر میں دیناچاہتے ہیں کہ
اپنے من میں ڈوب کرپا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
انٹرویو کے وقت بھی ایسی ہی ایک غلطی ہم سے سرزد ہوئی کہ ہم ان کے قریب بیٹھے ان کے صاحب زادے ڈاکٹر جواد اور افتخار کو ان کے چھوٹے بھائی سمجھ بیٹھے تاہم دورانِ گفت گو بات جب ان کی جوانی تک پہنچی تو ہماری غلط فہمی ہمیں نادم کر گئی اور حیرت نے گھیر لیا۔ رعب دار مگراصل صوابی وال یوسف زئی چہرہ، ہاتھ ہلا ہلا کر بات کرنے کا انداز کسی بہترین مقرر سے مشابہ، یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے ہونٹوں سے نکلی ہر بات جہاں معلومات میں اضافہ کرتی ہے وہیں سوچ کے کواڑوں کو بھی دھڑ دھڑا دیتی ہے۔
پشتولکھاریوں میں وہ واحد شخصیت ہیں جو ہمہ وقت کسی نہ کسی تخلیق، تحقیق یا مطالعے میں مگن دکھائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے ہر کام میں پرفیکشن نظر آتی ہے۔ ان کے سراپا پر تحقیق کا ایسا گاڑھا رنگ چڑھا ہے کہ ان کا بہترین شاعر ہونا اس کے نیچے دب گیا لیکن ایسا نہیں کہ ان کی شاعری کے معترفین کی تعداد بھی کم ہے۔ ہر چھوٹے بڑے کو احترام دینا اور شفقت و محبت سے بات کرنا ان کی فطرت میں شامل ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ ان کو بھی ہر جگہ ہر کوئی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ عرصۂِ دراز سے ہر شعبہ میں چلنے والی گروپ بندی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔
ہر طرف لابی سسٹم ہونے کے باوجود وہ کسی سے منسلک نہیں، ان کی تمام تر توجہ صرف اپنے کام کی طرف رہتی ہے اور ان کی کامیابی کا راز بھی شاید یہ ہی ہے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ شہر میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود وہ ایک سیدھے سادے اور کھرے پختون ہیں، ان کے طور اطوار سے پختون ولی جھلکتی ہے،کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
کچھ لوگ واقعی امر ہونے کے لیے جنم لیتے ہیں اور وہ ایسے کار ہائے نمایاں انجام دیتے ہیں کہ مشعل راہ بن جاتے ہیں، ایسے گوہر نایاب کی تلاش مشکل نہیں اک ذرا سعیِٔ پیہم سے ہو تو ہمیں ایسے در دانے مل سکتے ہیں۔ یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ بہت سے نابغے گم نامیوں کی دُھند میں گم ہو جاتے ہیں اور زمانہ ان کی صلاحیتوں سے بے بہرہ رہتا ہے لیکن آج کی ہماری شخصیت نے اپنی بے پناہ خدادادصلاحیتوں پر نہ صرف نیک نامی سمیٹی بل کہ ریڈیو، فلم اور ٹی وی کے حوالے سے خود کو ایک اکادمی کی حیثیت سے بھی منوایا، اپنی ثقافت اور اقدار کو سینے سے لگائے ایسی تخلیقات پیش کیں جو دوسروں کے لیے نمونہ بن گئیں۔
خیبر پختون خوا کی زرخیز اور مردم خیز مٹی ضلع صوابی کے تاریخی گائوں شاہ منصور میں جنم لینے والے نثار محمد خان کی شخصیت ہمہ جہت ہے، کسی بھی کثیر پہلو شخصیت کا احاطہ چند سطور میں کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے لیکن کوشش کی جا سکتی ہے۔
ریڈیوپاکستان پشاورکے سابق سٹیشن ڈائریکٹر پشتوزبان کے معروف شاعر، ادیب، ڈرامہ نگار، براڈ کاسٹراورماہرموسیقی نثار محمد خان صوابی کے معروف گائوں شاہ منصور میں خواجہ محمد خان کے ہاں 1942 میں پیدا ہوئے، شاہ منصور مدرسے سے مروّجہ علوم میں ابتدائی تعلیم پائی ،اس کے بعد 1959 میں گورنمنٹ ہائی اسکول زیدہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، 1961 میں اکبر میموریل کالج مردان سے انٹر کیا، 1963 میں صوبے کی تاریخی اور معروف درس گاہ اسلامیہ کالج پشاور سے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے کراچی چلے گئے اور وہاں آئی جی اے سے ایم بی اے امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔ 1967 میں سی ایس ایس کرنے کے بعد انفارمیشن گروپ میں چلے گئے۔ ان کی پہلی پوسٹنگ ڈھاکا میں ہوئی جہاں سنٹرل نیوز آرگنائزیشن میں پشتو زبان میں خبریں پڑھتے رہے۔
1969 میں ریڈیو پاکستان راول پنڈی ٹو، جس میں مظفر آباد بھی شامل تھا، وہاں بہ حیثیت پروڈیوسر تعینات ہوئے، مظفر آباد کے تین سالہ دورِ ملازمت میں ریڈیو آزاد کشمیر کے معروف ماہ نامہ ''بانگ'' میڈیا کے حوالے سے لکھنا شروع کیا، یہاں سے ان کے تخلیقی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں پہلا ڈراما ''میرے چاند'' تخلیق کیا۔ اس دوران جنت نظیر وادی کشمیر کی سیر گاہوں چکار، چکوٹھی، بانڈو، زیات، اٹھ مقام، پلندری اور باغ کے علاقوں پر دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جن کو بہت پذیرائی ملی۔
اسی طرح ہیلون گاش (صبح کی کرنیں) پروگرام نے مقبولیت کی سند حاصل کی۔ محنت لگن اور شوق کا یہ سلسلہ لاہور تک پہنچا اور یہاں بھی تخلیقی صلاحیتوں کو گزند پہنچنے نہ دی۔ لاہور ہی میں پاکستانی فلموں کے بین الاقوامی شہرت یافتہ مزاحیہ اداکار رنگیلا سے پہلی ملاقات بہت یادگار تھی، اس عرصے میں لاہور فلم انڈسٹری میں پشتو میں فلم لکھنے کا شوق چرایا اور 1971 میں ''مفرور'' اور ''اوربل'' جیسی کام یاب فلموں کی کہانیاں لکھیں۔ اس کے بعد پشاور میں مرحوم پروفیسر پریشان خٹک کے کہنے پر پشتو ادب میں ماسٹر کیا جو آگے چل کر پشتو فلمیں اور ڈرامے لکھنے میں کافی مددگار ثابت ہوا۔
انہوں نے 52 یادگاری فلموں کی کہانیاں اور گیت بھی تخلیق کیے۔ 1973 میں ڈراما سیکشن جب ان کے حوالے کیا گیا تو پشتو ڈرامے کو نئے آہنگ اور جدیدیت سے روشناس کرانے کے لیے بہت محنت کی۔ اس دوران ''شگے سرے شوے'' (ریت سرخ ہو گئی) جب عوام کی سماعت و بصارت سے ٹکرایا تو اسے داد و تحسین کے ڈونگرے برس پڑے اسی عرصہ میں یک شخصی کردار پر مبنی ڈراما ''چغہ'' (چیخ) نے، جس میں صوبے کے ممتاز اداکار ممتار علی شاہ نے اپنے فن کے جوہر دکھائے تھے، کام یابی کے ریکارڈ قائم کیے، اس سے پشتو ڈرامے کو ایک نئی جہت ملی جسے دوسرے تخلیق کاروں نے آگے بڑھایا۔
نثار محمد خان نے جب ایک سوال پر ماضی کے اوراق کو ٹٹولا تو کہنے لگے ایک بار ہمارے صوبے کی پہچان بابائے جدید پشتوغزل امیر حمزہ خان شِنواری سے (شین) ڈراما لکھوایا لیکن جب نشر کرنے کا وقت آیا تو سکرپٹ غائب تھا اس پریشانی کے عالم میں حمزہ شِنواری وہاں آنکلے، انہوں نے حالات بھانپ لیے اور فرمایا فکر کی کوئی ضرورت نہیں اور وہیں بیٹھ کر سکرپٹ لکھنا شروع کر دیا جب سکرپٹ ان کے حوالے کیا گیا تو ان کی حیرت کی حد نہ رہی کیوں کہ حمزہ بابا نے جو سکرپٹ ابھی ابھی صفحۂِ قرطاس پر منتقل کیا تھا وہ لفظ بہ لفظ گم شدہ سکرپٹ ہی تھا۔ نثار محمد خان نے اپنے کیریئر کے دوران تقریباً ڈیڑھ سو ڈرامے تخلیق کیے جو عوام کے سلگتے مسائل کی نشان دہی اور پختون روایات کے امین ہیں۔
ہماری مہمان شخصیت کی ہمہ جہت شخصیت کی خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ وہ بیک وقت ٹی وی، ریڈیو اور فلم نگری کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔ نثار محمد خان بہ طور اداکار بھی مقبول رہے۔ 1973 میں ٹیلی ویژن پر شہزاد خلیل کے ڈرامے ''ولے شاہے'' میں مرکزی کردار نبھایا اسی طرح پی ٹی وی سے ڈراموں کے مقابلے میں ''جو اماں ملی تو کہاں ملی'' میں فردوس جمال کے ساتھ جیل سپرنٹنڈنٹ کا کردار نبھایا اس کے ساتھ ہند ہی کو ڈرامے ''کونج'' میں مرکزی کردار ادا کیا، اس دوران 1975 میں ڈراما کے سلسلے میں کورس کے لیے ہالینڈ گئے جہاں جدید ڈرامے کے بارے میں جان کاری حاصل کی۔ نثار محمد خان کا کہنا ہے ''تربیت حاصل کرنے کے بعد مجھے کوئٹہ سنٹر ٹرانسفر کیا گیا جہاں فوک موسیقی کو نئے آہنگ کے ساتھ پیش کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی جب کہ ڈراما سیکشن بھی میرے حوالے کر دیا گیا۔
اس دوران فوک موسیقی کے حوالے سے جمال شاہ، عیسیٰ خان اور ملخوزہ سمیت کئی اداکاروں، صدا کاروں اور گلوکاروں کو متعارف کرایا، اسی تسلسل کو لاہور میں بھی برقرار رکھا۔ سنٹرل پروڈکشن کے شعبے میں پشتو کی 350 بھولی بسری آوازوں کی ری مکسینگ کر کے ان کی کوالٹی کو بہتر بنایا۔ ان کا کہنا ہے ''لاہور میں دیگر کے علاوہ گلوکاروں میں اے نیئر اور ماہ جبین قزلباش کو میں نے ہی متعارف کرایا ہے۔ اپنی یادداشتوں میں سے ایک کا ذکر وہ کچھ اس طرح کرتے ہیں ''ایک شام بارش ہو رہی تھی جس کے باعث سٹوڈیو میں بیٹھا تھا تو مہدی حسن میرے پاس آئے اور جیب سے ایک روپیہ نکال کر دکھایا کہ یہ آپ نے کراچی میں مجھے انعام میں دیا تھا جو میں نے ابھی تک سنھبال کے رکھا ہوا ہے''۔
نثار محمد خان کی تخلیقات کا سفر نہ صرف اندرونِ ملک جاری رہا بل کہ دیار غیر میں بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ بی بی سی کے لیے لکھے گئے ڈرامے پیس ہاربر (امن کا ساحل) نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی اسی طرح ورجینایونی ورسٹی میں بہ طور انسٹرکٹر ڈرامے کے حوالے سے بہت کام کیا جب کہ امن کے حوالے سے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں پچیس ڈرامے تحریر کیے جن کو کافی پذیرائی ملی۔
ذاتی زندگی کے حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ میری شادی ماموں زاد بیٹی سے بیس اکتوبر انیس سو اڑسٹھ میں روایتی انداز میں ہوئی اور اللہ تعالی نے مجھے گیارہ بچوں سے نوازا ہے جن میں سے اللہ کے فضل سے چھے ڈاکٹر ہیں، دو بیٹے جواد اور افتخار سرجن ہیں''۔ انہوں نے کہا کہ ''اللہ تعالی نے ہر خوشی دی ہے جس پر میں جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے''۔ بچپن کی یادوں کے بارے میں انہوںنے بتایا ''گلی ڈنڈا، کرکٹ اور تیراکی سمیت تمام روایتی کھیل خوب کھیلے، اس کے ساتھ لکھنے پڑھنے کا بھی شوق تھا جو آج تک برقرار ہے۔
آٹھویں جماعت میں ستار سیکھنے کا شوق چرایا اور معروف ستار نواز شاد محمد سے سیکھنا شروع کیا جس کے باعث آج بھی تھوڑا بہت ستار بجا لیتا ہوں۔ خوراک میں گوشت، مٹر، ساگ اورملخوزے ان کا من بھاتا کھا جا ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی جو مل جائے، غنیمت جان کر لطف اٹھاتاہوں۔''، نثار محمدخان کو ہندوستانی اداکاروں میںشاہ رخ خان پسند ہیں، ان کا کہنا ہے ''وہ کسی بھی کردار میں ڈوب کر اداکاری کرتا ہے، ویسے تو اس کی بہت سی فلمیں بہ طور مثال پیش کی جا سکتی ہیں لیکن دیو داس میں اس نے جس اندازمیں ڈوب کر حقیقت کا رنگ بھرا ہے وہ اسی کا ہی حصہ ہے''۔ اسی طرح پشتو فلم انڈسٹری میں بدرمنیر، یاسمین خان اورکامیڈی اداکاروں میںلیاقت میجرکے کام نے انہیں متاثر کیا ہے۔
نثار محمد خان نے ایک واقعہ سنایا کہ فلم اووربل کے سیٹ پر ایک سین میں بدرمنیر نے خود کو بندوق کے بٹ سے مارنا تھا جب سین سٹارٹ ہوا توبدرمنیر اپنے کردار میں اس قدر ڈوب چکا تھا کہ اسے خبر ہی نہ ہوئی اور سچ مچ بندوق اپنے سر میں اس شدت سے مار لی کہ بھل بھل خون بہ نکلا، تب ہی تو ان اداکاروں نے نام پیدا کیا جو اداکاری دل سے کیا کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ موسیقاروںمیںرفیق شینواری کا بڑانام ہے، ان کی بنائی ہوئی دھنوں میں ایسی مٹھاس ہے کہ بار بار سنیے اور جی نہیں بھرتا ، اسی طرح خانہ بدوش اور سریلی آوازکی مالکہ زرسانگہ کا پشتو موسیقی میں ثانی نہیں جب وہ گاتی ہے تو یوں محسوس ہوتاہے کہ پورا کاررواں ان کی آوازکی طرف لپک رہاہے۔ نثارمحمدخان کے مطابق زرسانگہ کے گلے میںسرسوتی کروٹ کروٹ سر تخلیق کر رہی ہے اسی طرح ان کو بھولی بسری آوازوںمیںعبداللہ جان کی آوازبھاتی ہے اور سازندوں میں تاج محمد ان کو کبھی نہیںبھولتے۔
اپنی تخلیقات کے بارے میں ان کا کہنا ہے ''ویسے تو تخلیق اولاد ہی کی طرح ہوتی اور اولاد میں کوئی برا نہیں لگتا لیکن پھر بھی سب کی اپنی اپنی انفرادیت ہوتی ہے اسی طرح ''یو زل بیاپہ دے لار راشہ (اس راہ سے اک بار چلے آؤ) اور خیر پہ خیر (خیر بہ خیر)، جس میں 'مانے' اور 'سانے' کے کردار تخلیق کیے تھے اور ریڈیو کے لیے تخلیق کردہ بغیر کرداروں کے صرف آوازوں پر مبنی ڈرامے ''دا سوک وو'' (یہ کون تھا؟)اب بھی دل گرفتہ کر دیتے ہیں۔ نثار محمد خان پیشہ ورانہ امورکی انجام دہی اور سیروسیاحت کے لیے امریکا، کینیڈا، برطانیہ، سعودی عرب،سوئزرلینڈ، نیدرلینڈ، انڈیا، تھائی لینڈ، سنگاپور، سری لنکا، افغانستان، ایران، متحدہ عرب امارات، بنگلہ دیش، ملیشیا، تائیوان، انڈونیشیا، چین، جنوبی افریقہ،آسٹریلیا اورنیوزی لینڈگھوم پھر آئے ہیں۔ نثارمحمدخان نے چالیس سال سروس کے بعد بھی میڈیا سے اپنا ناتا نہیں توڑا، ان کوکچلر ڈائریکٹریٹ خیبر پختون خواکے پہلے ڈائریکٹر ہونے کابھی اعزازحاصل ہے۔ وہ آج بھی اسی طرح جواں ہمت ہیں جس طرح جوانی میں تھے۔
ورزش اور چہل قدمی کے ساتھ متوازن خوراک کو اپنی زندگی کا معمول بنا رکھا ہے۔ آج بھی ان کے چاہنے والے اور شاگرد ان سے سیکھنے آتے رہتے ہیں اور انہوں نے بلا کم و کاست اپنے فیوض کا سلسلہ دراز رکھا ہوا ہے۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے نئے ساتھیوں کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان کا مشاہدہ اورمطالعہ گہرا ہونا ضروری ہے تب ہی وہ بغیر کسی پرچی کے اپنے لیے مقام پیدا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تخلیق کا عنصر کم اور سرقے کا رواج زیادہ ہے جس کے باعث فلم انڈسٹری زوال پذیر ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فلموں میں اصل کہانی نظر آنے کے بجائے دیگر لوازمات ٹھونسنا فلم کی کام یابی کی ضمانت تصور کیا جاتا ہے۔
جو بھی فلمیں بن رہی ہیں ان پر وہ محنت نہیں کی جارہی جس کی ضرورت ہے اگر چہ چند سال سے کچھ بہترڈرامے بننا شروع ہوگئے ہیں لیکن معیار کی حد کو چھونے کے لیے مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ ریڈیو کا احیاء نیک شگون ہے کیوں کہ انتہائی آسان میڈیم کے ذریعے عوام کو تعلیم اور تفریح کے ساتھ ساتھ معلومات تک رسائی بہتر اندازسے ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ آج کل ریڈیو سیٹ کے ذریعے ہر کوئی اس سے استفادہ کرسکتا ہے جب کہ دنیا بھر میں معلومات کا آسان اور سستا ذریعہ ایف ایم ہے، پاکستان میں بھی اس کے سننے والوں کی تعداد میںروز افزوں اضافے سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ امر خوش آئند بھی ہے کہ میڈیا میں مثبت مقابلے کا رجحان فروغ پارہا ہے۔ اپنے ہم وطنوں اورخصوصاً نوجوان طبقے کے نام پیغام وہ ایک شعر میں دیناچاہتے ہیں کہ
اپنے من میں ڈوب کرپا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن