سرسبز زمین دیکھ کر دل خوش ہوجاتا ہے
آج جو ملکی صورت حال ہے، اُس کے ذمے دار ہمارے سیاست داں ہیں۔
اُن کی شناخت سیاست، برادری یا جاگیر نہیں، بلکہ ملن ساری ہے، جذبۂ خدمت ہے، جو اُنھیں ہمہ وقت مصروف رکھتا ہے!
ہمت علی خان کو ''کماریو ابڑو برادری'' میں مرکزیت حاصل ہے۔ بااثر سردار ہیں، مگر اُن کے ہاں روایتی سرداروں سا تام جھام نہیں۔ سائلین کے مسائل سُننا، اُنھیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا، تصفیہ کروانا اُن کا اکلوتا مقصد ہے۔ وہ سیاسی و سماجی نقطۂ نگاہ سے بالائی سندھ کی اہم شخصیت ہیں۔ 1967 میں اپنے والد، علی حیدر خان کماریو کی معذوری کے سبب کم عمری میں اُنھیں خاندانی گدی سنبھالنی پڑی۔ چیف سردار کی حیثیت سے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے نبھائیں، اور تمام حلقوں کے لیے قابل احترام ٹھہرے۔
ہمت علی کماریو نے 8 نومبر1951 کو گائوں ترائی ابڑو، ضلع شکارپور میں آنکھ کھولی۔ جون1957میں ابتدائی تعلیم کے لیے اُنھیں گائوں کے پرائمری اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ پانچویں جماعت کا مرحلہ طے کرنے کے بعد اُنھوں نے مئی1961میں گورنمنٹ مڈل اسکول، مدیجی کا رخ کیا۔ 1968 میں میٹرک کیا۔ ماضی بازیافت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ والد کا رویہ انتہائی دوستانہ تھا، جس کے طفیل اُن کی شخصیت میں اعتماد پیدا ہوا۔ اُن کے بہ قول،''والد محترم کی معذوری کے بعد، بڑا بیٹا ہونے کے ناتے میں مجھے ہی برادری کے معاملات سنبھالنے تھے، اور اِسی وجہ سے میٹرک کے بعد تعلیم جاری نہیں رکھ سکا، جس کا مجھے شدید قلق ہے۔ اِسی احساس کے پیش نظر آج میں اور میرے بیٹے نظام تعلیم کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔ فروغ علم کے لیے اپنے علاقے میں کام کر رہے ہیں، لوگوں کو یہی نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں، تاکہ وہ ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔''
اوائل عمری ہی میں وہ ازدواجی بندھن میں بندھ گئے تھے۔ 1967 میں اُن کے بڑے بیٹے، ذوالفقار علی خان کماریو ابڑو کی پیدایش ہوئی۔ آنے والے برسوں میں خدا نے اُنھیں نجف علی اور امیر علی کماریو کی صورت مزید دو بیٹوں سے نوازا۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد بچوں کی پرورش کے لیے دوسری شادی کرنی پڑی ۔ دوسری بیوی سے دو بیٹے اسد علی اور منہال علی کماریو ہیں۔
پانچ بہن بھائیوں میں بڑے ہمت علی خان کماریو کے بہ قول، زمانۂ طالب علمی میں اُن کا شمار اوسط درجے کے طلبا میں ہوتا تھا۔ شرارتیں بھی خوب کیں۔ اِس میدان میں اپنے دوست دیدار حسین ابڑو کا ساتھ اُنھیں حاصل رہا۔ ساتھی طلبا اُن کا نشانہ ہوتے۔ شرارتوں کے باعث اساتذہ سے مار بھی کھائی۔ کھیلوں کا ذکر نکلا، تو کہنے لگے،''ہمارا علاقہ انتہائی پس ماندہ تھا، کرکٹ اور ہاکی کا تو تصور ہی نہیں تھا۔ ہم اسکول کے کُھلے میدان میں سندھ کا روایتی کھیل 'کوڈی کوڈی' کھیل کر وقت گزارتے تھے۔'' سندھی کے استاد، لطف علی جونیجو اور انگریزی کے استاد، انور الدین شیخ کا طرز تربیت اور نصیحتیں اُنھیں آج بھی یاد ہیں۔ کہتے ہیں،''اب بھی میں اکثر اُن کی نصیحتوں سے راہ نمائی حاصل کرتا ہوں۔'' 1974کا سن اُنھیں خوب یاد ہے کہ اُسی برس مدیجی شہر سے اُن کے گائوں تک پہلی سڑک تعمیر ہوئی۔
ہمت علی خان، اپنے بڑوں کے مانند، ایک فعال سیاسی شخصیت ہیں۔ بتاتے ہیں، کماریو ابڑو برادری نے قیام پاکستان کے تیرہ سال بعد، ساٹھ کی دہائی میں سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ اُن کے بڑوں نے ہر دور حکومت میں ضلع شکارپور کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یکم اکتوبر 1964 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں نادر حسین خان کماریو پہلی مرتبہ یونین کونسل چھتو منگی سے بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ وہ 1979تا 1983 ٹائون کمیٹی مدیجی کے چیئرمین رہے۔
جہاں تک ہمت علی خان کماریو کے سیاسی سفر کا تعلق ہے، وہ 1988 تا 1992ٹائون کمیٹی مدیجی کے چیئرمین رہے۔ بہ قول اُن کے، اُس دور میں علاقے میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے۔ 1998 میں شکارپور میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے کام یاب ہوئے۔ بعدازاں اُنھوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرلی۔ چند ماہ بعد نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ بعد کے برسوں میں وہ انتخابی سیاست سے دُور رہے، یہ میدان بیٹوں نے سنبھال لیا۔ بڑے صاحب زادے، ذوالفقار علی کماریو مشرف دور میں یونین کونسل مدیجی کے ناظم رہے، دوسرے بیٹے تعلقہ گڑھی یاسین کے ناظم منتخب ہوئے۔ ذوالفقار علی خان نے یونین کونسل مدیجی کے ناظم کے عہدے سے استعفیٰ دے کر 2002 میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر حصہ لیا، اور رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ بعدازاں اُنھوں نے وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر کے طور پر فرائض انجام دیے۔ اِس تعلق سے وہ کہتے ہیں،''عوامی خدمت اور سیاست کے میدان میں ہماری کام یابیوں کا سفر آج بھی جاری ہے۔ میرے اہل خانہ سیاسی میدان میں فعال ہیں، عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔''
ملکی مسائل کا موضوع نکلا، تو کہنے لگے، آج جو ملکی صورت حال ہے، اُس کے ذمے دار ہمارے سیاست داں ہیں، جو اپنا رسوخ استعمال کر کے افسران کی تعیناتی اور تبادلے کرواتے ہیں، بعض تو جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج سندھ سمیت پورے ملک کے حالات انتہائی خراب ہیں۔'' ملک کی بہتری اور خوش حالی کے لیے، اُن کے نزدیک ضروری ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر کرپشن ختم کر کے شفاف انتخابات کروائے جائیں۔ ''حقیقی نمایندوں کے اسمبلی میں پہنچنے سے تمام مسائل خودبہ خود حل ہوجائیں گے۔'' شکایت ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کرنے والوں نے عوامی مسائل کے حل کے لیے وہ اقدامات نہیں کیے، جو اُنھیں کرنے چاہیے تھے۔ آج بھی عوام اپنے مسائل کے حل اور روزگار کی فراہمی کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں، جو اِس بات کی نشانی ہے کہ اُن کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے توقعات پر پورے نہیں اترے۔
اُن کا کہنا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور تفتیشی عمل کی خامیوں کے باعث عوام بااثر شخصیات اور سرداروں سے اپنے تنازعات کا تصفیہ کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہ قول اُن کے،''متاثرین خود ہی اِس سسٹم کو بہتر سمجھ کر ہمارے پاس آتے ہیں، کیوں کہ اُنھیں معلوم ہے کہ ایک یا دو ملاقاتوں میں ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔'' قبائلی جھگڑوں کا موضوع آیا، تو کہنے لگے، بعض اوقات قبائلی تصادم انتہا کو پہنچ جاتا ہے، مگر اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ پُرامن طریقے سے مسائل حل کروائیں، اور قبائلی جھگڑے ختم کر کے محبت کو فروغ دیا جائے۔ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ آج بھی جمعے اور ہفتے کے روز باقاعدگی سے عوام کے مسائل سُنتے ہیں۔
شکار کا شوق رکھتے ہیں۔ دسمبر اور جنوری میں بیرون ملک اور پاکستان کے دیگر شہروں سے آنے والے مہمان اُن کے ہاں ٹھہرتے ہیں۔ تیتر اور بٹیر کا شکار کیا جاتا ہے۔ اپنے اجداد کی طرح اعلیٰ نسل کے کبوتر اور بھینسیں بھی پال رکھی ہیں۔ ''ہم نے اپنے بڑوں کی روایت برقرار رکھتے ہوئے مویشی پالنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اُن کی دیکھ بھال کے لیے خصوصی انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔''
ہمت علی خان حروں کے روحانی پیشوا، پیرسائیں پگارا اور سردار ممتاز بھٹو سے متاثر ہیں۔ شکایت ہے کہ آج چند دیانت دار سیاست دانوں کو چھوڑ کر بیش تر عوام کی بہتری کے بجائے اپنا پیٹ بھرنے میں مصروف ہیں۔
سیاحت کا شوق ہے۔ ایران، عراق، دمشق اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک کا رخ کیا۔ سب سے زیادہ ایران پسند آیا کہ وہاں اُنھیں صفائی ستھرائی کا معیاری انتظام اور انصاف پر مبنی نظام نظر آیا۔ گائیکی کے میدان میں عابدہ پروین کی آواز بھاتی ہے۔ من پسند پہناوے کا ذکر نکلا، تو ماضی میں پہنچ گئے۔ اپنے علاقے کے ایک فقیر کی نصیحت کا ذکر کیا، جس پر عمل کرتے ہوئے پینٹ شرٹ سے اجتناب برتا۔ شلوار قمیص پہلا انتخاب ہے۔ ساتھ سندھی ٹوپی اور اجرک لیتے ہیں۔ یوم عاشور، اُن کے نزدیک انسانی تاریخ کا سب سے کرب ناک دن ہے۔ کہتے ہیں،''محرم کا چاند نظر آتے ہی میں 40 روز کے لیے اپنی تمام سرگرمیاں ترک کردیتا ہوں۔''
بہار کے موسم میں وہ خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ بکرے کا گوشت من پسند ڈش ہے۔ ڈاکٹروں کی جانب سے گوشت کے استعمال پر پابندی عاید ہونے کے بعد اب دال اُن کی پہلی ترجیح ہوگئی ہے۔ روزمرہ کے معمولات کچھ یوں ہیں کہ صبح کا آغاز عبادت سے ہوتا ہے، ناشتے کے بعد سائلین سے ملاقات کرتے ہیں۔ وقت ملے، تو زمینوں کے معاینے پر نکل جاتے ہیں۔ سرسبز زمین دیکھ کر انتہائی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ کہتے ہیں،''زمیں داری اور پریشان حال لوگوں کے مسائل حل کرنے کے ساتھ میری بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں اور گھر کو زیادہ سے زیادہ وقت دوں۔''
ہمت علی خان کو ''کماریو ابڑو برادری'' میں مرکزیت حاصل ہے۔ بااثر سردار ہیں، مگر اُن کے ہاں روایتی سرداروں سا تام جھام نہیں۔ سائلین کے مسائل سُننا، اُنھیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا، تصفیہ کروانا اُن کا اکلوتا مقصد ہے۔ وہ سیاسی و سماجی نقطۂ نگاہ سے بالائی سندھ کی اہم شخصیت ہیں۔ 1967 میں اپنے والد، علی حیدر خان کماریو کی معذوری کے سبب کم عمری میں اُنھیں خاندانی گدی سنبھالنی پڑی۔ چیف سردار کی حیثیت سے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے نبھائیں، اور تمام حلقوں کے لیے قابل احترام ٹھہرے۔
ہمت علی کماریو نے 8 نومبر1951 کو گائوں ترائی ابڑو، ضلع شکارپور میں آنکھ کھولی۔ جون1957میں ابتدائی تعلیم کے لیے اُنھیں گائوں کے پرائمری اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ پانچویں جماعت کا مرحلہ طے کرنے کے بعد اُنھوں نے مئی1961میں گورنمنٹ مڈل اسکول، مدیجی کا رخ کیا۔ 1968 میں میٹرک کیا۔ ماضی بازیافت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ والد کا رویہ انتہائی دوستانہ تھا، جس کے طفیل اُن کی شخصیت میں اعتماد پیدا ہوا۔ اُن کے بہ قول،''والد محترم کی معذوری کے بعد، بڑا بیٹا ہونے کے ناتے میں مجھے ہی برادری کے معاملات سنبھالنے تھے، اور اِسی وجہ سے میٹرک کے بعد تعلیم جاری نہیں رکھ سکا، جس کا مجھے شدید قلق ہے۔ اِسی احساس کے پیش نظر آج میں اور میرے بیٹے نظام تعلیم کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔ فروغ علم کے لیے اپنے علاقے میں کام کر رہے ہیں، لوگوں کو یہی نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں، تاکہ وہ ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔''
اوائل عمری ہی میں وہ ازدواجی بندھن میں بندھ گئے تھے۔ 1967 میں اُن کے بڑے بیٹے، ذوالفقار علی خان کماریو ابڑو کی پیدایش ہوئی۔ آنے والے برسوں میں خدا نے اُنھیں نجف علی اور امیر علی کماریو کی صورت مزید دو بیٹوں سے نوازا۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد بچوں کی پرورش کے لیے دوسری شادی کرنی پڑی ۔ دوسری بیوی سے دو بیٹے اسد علی اور منہال علی کماریو ہیں۔
پانچ بہن بھائیوں میں بڑے ہمت علی خان کماریو کے بہ قول، زمانۂ طالب علمی میں اُن کا شمار اوسط درجے کے طلبا میں ہوتا تھا۔ شرارتیں بھی خوب کیں۔ اِس میدان میں اپنے دوست دیدار حسین ابڑو کا ساتھ اُنھیں حاصل رہا۔ ساتھی طلبا اُن کا نشانہ ہوتے۔ شرارتوں کے باعث اساتذہ سے مار بھی کھائی۔ کھیلوں کا ذکر نکلا، تو کہنے لگے،''ہمارا علاقہ انتہائی پس ماندہ تھا، کرکٹ اور ہاکی کا تو تصور ہی نہیں تھا۔ ہم اسکول کے کُھلے میدان میں سندھ کا روایتی کھیل 'کوڈی کوڈی' کھیل کر وقت گزارتے تھے۔'' سندھی کے استاد، لطف علی جونیجو اور انگریزی کے استاد، انور الدین شیخ کا طرز تربیت اور نصیحتیں اُنھیں آج بھی یاد ہیں۔ کہتے ہیں،''اب بھی میں اکثر اُن کی نصیحتوں سے راہ نمائی حاصل کرتا ہوں۔'' 1974کا سن اُنھیں خوب یاد ہے کہ اُسی برس مدیجی شہر سے اُن کے گائوں تک پہلی سڑک تعمیر ہوئی۔
ہمت علی خان، اپنے بڑوں کے مانند، ایک فعال سیاسی شخصیت ہیں۔ بتاتے ہیں، کماریو ابڑو برادری نے قیام پاکستان کے تیرہ سال بعد، ساٹھ کی دہائی میں سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ اُن کے بڑوں نے ہر دور حکومت میں ضلع شکارپور کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یکم اکتوبر 1964 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں نادر حسین خان کماریو پہلی مرتبہ یونین کونسل چھتو منگی سے بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ وہ 1979تا 1983 ٹائون کمیٹی مدیجی کے چیئرمین رہے۔
جہاں تک ہمت علی خان کماریو کے سیاسی سفر کا تعلق ہے، وہ 1988 تا 1992ٹائون کمیٹی مدیجی کے چیئرمین رہے۔ بہ قول اُن کے، اُس دور میں علاقے میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے۔ 1998 میں شکارپور میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے کام یاب ہوئے۔ بعدازاں اُنھوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرلی۔ چند ماہ بعد نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ بعد کے برسوں میں وہ انتخابی سیاست سے دُور رہے، یہ میدان بیٹوں نے سنبھال لیا۔ بڑے صاحب زادے، ذوالفقار علی کماریو مشرف دور میں یونین کونسل مدیجی کے ناظم رہے، دوسرے بیٹے تعلقہ گڑھی یاسین کے ناظم منتخب ہوئے۔ ذوالفقار علی خان نے یونین کونسل مدیجی کے ناظم کے عہدے سے استعفیٰ دے کر 2002 میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر حصہ لیا، اور رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ بعدازاں اُنھوں نے وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر کے طور پر فرائض انجام دیے۔ اِس تعلق سے وہ کہتے ہیں،''عوامی خدمت اور سیاست کے میدان میں ہماری کام یابیوں کا سفر آج بھی جاری ہے۔ میرے اہل خانہ سیاسی میدان میں فعال ہیں، عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔''
ملکی مسائل کا موضوع نکلا، تو کہنے لگے، آج جو ملکی صورت حال ہے، اُس کے ذمے دار ہمارے سیاست داں ہیں، جو اپنا رسوخ استعمال کر کے افسران کی تعیناتی اور تبادلے کرواتے ہیں، بعض تو جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج سندھ سمیت پورے ملک کے حالات انتہائی خراب ہیں۔'' ملک کی بہتری اور خوش حالی کے لیے، اُن کے نزدیک ضروری ہے کہ ہنگامی بنیادوں پر کرپشن ختم کر کے شفاف انتخابات کروائے جائیں۔ ''حقیقی نمایندوں کے اسمبلی میں پہنچنے سے تمام مسائل خودبہ خود حل ہوجائیں گے۔'' شکایت ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کرنے والوں نے عوامی مسائل کے حل کے لیے وہ اقدامات نہیں کیے، جو اُنھیں کرنے چاہیے تھے۔ آج بھی عوام اپنے مسائل کے حل اور روزگار کی فراہمی کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں، جو اِس بات کی نشانی ہے کہ اُن کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے توقعات پر پورے نہیں اترے۔
اُن کا کہنا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر اور تفتیشی عمل کی خامیوں کے باعث عوام بااثر شخصیات اور سرداروں سے اپنے تنازعات کا تصفیہ کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہ قول اُن کے،''متاثرین خود ہی اِس سسٹم کو بہتر سمجھ کر ہمارے پاس آتے ہیں، کیوں کہ اُنھیں معلوم ہے کہ ایک یا دو ملاقاتوں میں ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔'' قبائلی جھگڑوں کا موضوع آیا، تو کہنے لگے، بعض اوقات قبائلی تصادم انتہا کو پہنچ جاتا ہے، مگر اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ پُرامن طریقے سے مسائل حل کروائیں، اور قبائلی جھگڑے ختم کر کے محبت کو فروغ دیا جائے۔ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ آج بھی جمعے اور ہفتے کے روز باقاعدگی سے عوام کے مسائل سُنتے ہیں۔
شکار کا شوق رکھتے ہیں۔ دسمبر اور جنوری میں بیرون ملک اور پاکستان کے دیگر شہروں سے آنے والے مہمان اُن کے ہاں ٹھہرتے ہیں۔ تیتر اور بٹیر کا شکار کیا جاتا ہے۔ اپنے اجداد کی طرح اعلیٰ نسل کے کبوتر اور بھینسیں بھی پال رکھی ہیں۔ ''ہم نے اپنے بڑوں کی روایت برقرار رکھتے ہوئے مویشی پالنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اُن کی دیکھ بھال کے لیے خصوصی انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔''
ہمت علی خان حروں کے روحانی پیشوا، پیرسائیں پگارا اور سردار ممتاز بھٹو سے متاثر ہیں۔ شکایت ہے کہ آج چند دیانت دار سیاست دانوں کو چھوڑ کر بیش تر عوام کی بہتری کے بجائے اپنا پیٹ بھرنے میں مصروف ہیں۔
سیاحت کا شوق ہے۔ ایران، عراق، دمشق اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک کا رخ کیا۔ سب سے زیادہ ایران پسند آیا کہ وہاں اُنھیں صفائی ستھرائی کا معیاری انتظام اور انصاف پر مبنی نظام نظر آیا۔ گائیکی کے میدان میں عابدہ پروین کی آواز بھاتی ہے۔ من پسند پہناوے کا ذکر نکلا، تو ماضی میں پہنچ گئے۔ اپنے علاقے کے ایک فقیر کی نصیحت کا ذکر کیا، جس پر عمل کرتے ہوئے پینٹ شرٹ سے اجتناب برتا۔ شلوار قمیص پہلا انتخاب ہے۔ ساتھ سندھی ٹوپی اور اجرک لیتے ہیں۔ یوم عاشور، اُن کے نزدیک انسانی تاریخ کا سب سے کرب ناک دن ہے۔ کہتے ہیں،''محرم کا چاند نظر آتے ہی میں 40 روز کے لیے اپنی تمام سرگرمیاں ترک کردیتا ہوں۔''
بہار کے موسم میں وہ خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ بکرے کا گوشت من پسند ڈش ہے۔ ڈاکٹروں کی جانب سے گوشت کے استعمال پر پابندی عاید ہونے کے بعد اب دال اُن کی پہلی ترجیح ہوگئی ہے۔ روزمرہ کے معمولات کچھ یوں ہیں کہ صبح کا آغاز عبادت سے ہوتا ہے، ناشتے کے بعد سائلین سے ملاقات کرتے ہیں۔ وقت ملے، تو زمینوں کے معاینے پر نکل جاتے ہیں۔ سرسبز زمین دیکھ کر انتہائی خوشی محسوس ہوتی ہے۔ کہتے ہیں،''زمیں داری اور پریشان حال لوگوں کے مسائل حل کرنے کے ساتھ میری بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں اور گھر کو زیادہ سے زیادہ وقت دوں۔''