ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے مشکلات کا آغاز

امریکا پہنچنے والے متعدد مسلمانوں کو ائیرپورٹس پر گرفتار کر لیا گیا یا انھیں امریکی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا گیا


Editorial January 29, 2017
۔ فوٹو؛ فائل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شامی مہاجرین سمیت سات مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکا داخلے پر پابندی کے انتظامی حکمنامے پر دستخط کر دیے۔ ان ممالک سے امریکا پہنچنے والے متعدد مسلمانوں کو ائیرپورٹس پر گرفتار کر لیا گیا یا انھیں امریکی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ اس متعصبانہ پالیسی کے خلاف امریکا میں ٹرمپ کے خلاف مظاہروں کا نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ امریکی عدالت بھی حرکت میں آگئی ہے اور صدر کی راہ میں کھڑی ہوگئی ہے۔

ادھر ایران نے بھی ردعمل میں امریکیوں کے ملک میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔اس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اندرونی اور بیرونی مشکلات کا بھی آغاز ہوگیا ہے۔ ایگزیکٹو آرڈر کے تحت امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو 120دن کے لیے معطل کر دیا گیا۔ دوسری جانب7مسلمان ممالک ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں کو 90 دن تک امریکا کے ویزے جاری نہیں کیے جائیں گے۔ نئے آرڈر کے تحت شامی مہاجرین کے امریکا میں داخلے پر تاحکم ثانی پابندی عائد کر دی گئی۔2017ء میں صرف 50 ہزار پناہ گزینوں کو داخلہ دیا جائے گا۔

پینٹاگون میں وزیر دفاع جمیز میٹس کی تقریب حلف برادری کے بعد صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو حکمنامے پر دستخط کیے جس کے تحت 'انتہاپسند اسلامی دہشتگردوں' کو ملک سے دور رکھنے کے لیے جانچ پڑتال کے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ صرف ان لوگوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے دیں جو ہمارے ملک کی حمایت اور دل سے ہمارے لوگوں سے پیار کریں۔ انھوں نے کہا کہ وہ امریکا کو بنیاد پرست اسلامی دہشتگردوں سے محفوظ کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے7مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا داخل ہونے پر لگائی جانے والی پابندی کا اطلاق گرین کارڈ رکھنے والوں پر بھی ہو گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات کے دوران اپنے جس انتخابی منشور اور جن پالیسیوں کا اعلان کیا تھا اب صدر بننے کے فوری بعد انھوں نے ان پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا ہے۔انھوں نے بدھ کو صدارتی حکم ناموں پر دستخط کیے تھے جن کی رو سے ملک کی جنوبی سرحد پر میکسیکو کے ساتھ دیوار تعمیر کی جائے گی اور غیرقانونی طور پر موجود تارکین وطن کو ملک بدر کیا جائے گا۔اب انھوں نے نئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کا مقصد انھوں نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکا کو بنیاد پرست اسلامی دہشت گردوں سے محفوظ کر رہے ہیں۔

امریکا میں ایک عرصے سے دو مختلف الرائے کے حامل طبقات کے درمیان کشمکش جاری ہے' ایک طبقہ ورلڈ آرڈر کے نام پر پوری دنیا میں اپنا نظام نافذ کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے اس نے باقاعدہ جنگی مہمات شروع کر رکھی ہیں جس پر سالانہ اربوں ڈالر صرف کیے جا رہے ہیں' دوسرا طبقہ اس کے برعکس خیالات کا حامل ہے جو دوسرے ممالک میں بے جا اور بے محل مداخلت کے نام پر جنگی کارروائیوں کے خلاف ، داخلی سطح پر امریکی معاشی نظام مضبوط بنانے اور عالمی سطح پر کینیڈا کی طرزکا کردار ادا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

ایک عرصے بعد ثانی الذکر طبقہ برسراقتدار آیا ہے جس کی قیادت ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھ میں ہے۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ پالیسیاں یکطرفہ طور پر مسلمانوں کے خلاف معلوم ہوتی ہیں لیکن صورت حال کا گہرائی اور تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو ایک مختلف منظرنامہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ان خامیوں کو دور کرنے کے متمنی ہیں جن کے باعث داخلی سطح پر امریکا میں دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے۔ انھوں نے تمام مسلم ممالک پر پابندی نہیں لگائی بلکہ ان چند خاص ممالک پر پابندی عائد کی ہے جن سے ان کو خطرات محسوس ہوتے ہیں' انھوں نے میکسیکو کے باشندوں کی آمد بھی روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں حتیٰ کہ یہ باشندے مسلمان نہیں بلکہ عیسائی ہیں' معاشی میدان میں انھوں نے چین کا مقابلہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے ان اقدامات کے باعث امریکا میں مختلف رائے رکھنے والے طبقات کے درمیان تقسیم مزید گہری ہو گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے مخالف لوگوں نے باقاعدہ مظاہرے شروع کر دیے ہیں' انسانی حقوق کی تنظیموں نے سات مسلم ممالک کے باشندوں کی آمد پر پابندی کے فیصلے کو امتیازانہ اور متعصبانہ قرار دیا ہے' بعض تنظیمیں اس نئے ایگزیکٹو آرڈر کو غیرآئینی قرار دے رہی ہیں' کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ادھر نیویارک کی ایک عدالت نے صدر ٹرمپ کے اس نئے حکم نامے پر عبوری طور پر عملدرآمد روک دیا ہے۔ اس صورت حال کے پس منظر میں خدشہ ہے کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کا دور صدارت عوامی ہنگاموں اور احتجاج کی نذر ہو جائے گا اور ان کو اپنے ان فیصلوں پر عالمی سطح پر بھی تنقید اور احتجاج کا سامنا رہے گا جیسا کہ ایران نے بھی جواباً امریکیوں کا داخلہ بند کرنے کا اعلان کیاہے۔ یوں دیکھا جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے مشکلات کا آغاز ہو گیا ہے اور انھیں اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لیے جہاں عوامی مخالفت کا سامنا ہے' وہاں عدالتی کارروائی بھی آڑ ے آ رہی ہے جب کہ امریکی کانگریس کے ردعمل کا ابھی انتظار ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں