عمران خان کا دہرا معیار
ایک گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ آنے جانے والوں پر روک ٹوک نہیں تھی
ایک گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ آنے جانے والوں پر روک ٹوک نہیں تھی۔ سب کام اعتماد پر ہو رہا تھا۔ ایسے میں ایک اجنبی اندر آ گیا۔ اور اندر آ کر خوب ا دھم مچایا۔ پورے گھر کا ماحول تلخ کر دیا۔ سب گھر والے پریشان ہو گئے۔ یہ بحث شروع ہو گئی کہ یہ اجنبی اندرکیسے آیا۔ کچھ کا خیال ہے کہ دروازہ کھلا تھا۔ اس لیے اندر آگیا۔ کچھ کا خیال ہے کہ گھر والوں کی نا اہلی ہے لیکن کوئی بھی اس اجنبی کو قصور وار ٹھہرانے کو تیار نہیں کہ وہ کیوں اندر آیا۔
یہی صورتحال قومی اسمبلی کی بھی ہے محترم شہریا خان آفریدی کی رکنیت الیکشن کمیشن کو اثاثہ جات کی تفصیلات جمع نہ کرانے پر معطل ہے۔ الیکشن کمیشن نے انھیں بطور رکن قومی اسمبلی کوئی بھی کردار ادا کرنے سے رو ک دیا ہوا ہے۔ اس معطلی کی خبریں میڈیا میں نشر ہوئیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ وہ اکیلے رکن قومی اسمبلی نہیں تھے جن کی اس وجہ سے ر کنیت معطل ہوئی۔ لیکن مزہ کی بات یہ ہے کہ اب وہ اکیلے رکن قومی اسمبلی ہیں جن کی رکنیت اس وجہ سے معطل ہے۔ باقی سب نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرا دی ہیں۔ لیکن شہر یار خان آفریدی سب سے لیٹ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب شہر یار خان آفریدی کی رکنیت معطل تھی تو وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں کیسے شریک ہو گئے۔ یہ نا اہلی کس کی ہے۔ میرے کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ یہ اسپیکر قومی اسمبلی کی نا اہلی ہے کہ ایک معطل رکن ایوان کی کاروائی میں شریک ہو گیا۔ کیونکہ وہ ایوان کے لیے اجنبی تھا اور ایک اجنبی ایوان کی کاروائی میں شریک نہیں ہو سکتا۔ لیکن حیرانی کی بات ہے کہ کوئی بیچارے شہر یار خان آفریدی سے نہیں پوچھ رہا کہ بھائی ایک تو آپ نے اثاثہ جات کی تفصیلات جمع نہیں کرائیں حالانکہ آپ کی جماعت اس جرم میں وزیر اعظم کی جان لینے کے درپے ہے۔ اور دوسرا آپ بطور اجنبی ایوان کی کارروائی میں کیوں شریک ہو گئے۔ خواجہ آصف کی زبان میں ''آخر کوئی...''
تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان کے دوہرے معیار پر بھی قربان جانے کو دل چاہتا ہے۔ ایک طرف تو شریف خاندان کی نسلوں سے اثاثہ جات کی تفصیلات طلب کی جا رہی ہیں۔ تلاشی تلاشی کا شور ہے۔ دوسری طرف اپنے رکن کے اثاثہ جات فراہم نہ کرنے پر خاموشی ہے۔ دوسرا کرے تو چوری اپنا کرنے تو سینہ زوری۔ کمال تو یہ تھا کہ بر وقت اثاثہ جات کی تفصیلات جمع نہ کرانے پر عمران خان شہر یار خان آفریدی باز پرس کرتے لیکن لگتا ہے کہ ان کی جماعت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ دوسرا معطل رکنیت پر ایوان کی کارروائی میں شریک ہونے پر تحریک انصاف کو خود ہی ڈسپلنری کارروائی کرنی چاہیے تھی کہ شہر یار خان آفریدی ایک مثال بن جاتے۔
اس ضمن میں شہر یار خان آفریدی اور تحریک انصاف کا موقف کافی دلچسپ ہے کہ اول تو رکن اسمبلی کو اپنی رکنیت معطل ہونے کا علم ہی نہیں تھا۔ اس لیے جب انھیں علم ہی نہیں تھا تو ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ان کے مطابق الیکشن کمیشن کو رکنیت معطل کرنے سے پہلے نوٹس دینا چاہیے تھا۔ جو الیکشن کمیشن نے نہیں دیا۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ کئی سالوں سے یہی طریقہ کار ہے کہ جو بھی ان مقررہ تاریخ تک اپنے اثاثہ جات کی تفصیلات جمع نہیں کراتے ان کی رکنیت معطل کی جاتی ہے۔ یہ کوئی پہلی دفعہ تو نہیں ہوا۔ جو خصوصی طریقہ کار بنایا جاتا۔
عمران خان ایک طرف تو ایوان میں غلط بیانی پر وزیراعظم کے خلاف تحریک استحقاق پر کارروائی پر مصر ہے تو دوسری طرف اثاثہ جات کی تفصیلات نہ جمع کروانے اور معطل رکنیت کے باوجود ایوان کی کارروائی میں شرکت پر شہر یار خان آفریدی کے خلاف کارروائی کے لیے تیار نہیں۔ بلکہ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو بھی کارروائی سے روک رہا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تحریک انصاف شہر یار خان آفریدی کی غلطی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن رہی ہے۔ یہ کس حد تک درست ہے یہ اپنی جگہ ایک سوال ہے۔
شہر یا رآفریدی سے تحریک انصاف کی محبت اپنی جگہ لیکن کرکٹ اسٹار شاہد آفریدی سے بھی عمران خان کی ناراضی کافی دلچسپ ہے۔ شاہد آفرید ی سے عمران خان کی محبت بھی لازوال اور یکطرفہ ہی ہے۔دھرنے کے دنوں میں بھی کنٹینر سے وہ شاہد آفرید ی کو پکارتے تھے کہ کنٹینر پر آجاؤ لیکن وہ بار بار پکارنے کے باوجود بھی نہ آئے۔ شاہد آفریدی نے گزشتہ دنوں سیاست میں آنے سے ہی انکار کر دیا۔
سونے پر سہاگہ اس نے ایک ٹی وی پروگرام میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو ملک کا نمبر ون وزیر اعلیٰ قرار دے دیا ہے۔ اس کا موقف ہے شہباز شریف کا کام پنجاب کی ترقی میں واضح نظر آرہا ہے۔ شاہد آفریدی کی نظر میں پنجاب کی ترقی کی وجہ سے شہباز شریف پاکستان کے نمبر ون وزیر اعلیٰ کے حقدار ہیں۔ لیکن عمران خان کو شاہد آفریدی کی یہ رائے پسند نہیں آئی۔ اسی لیے کرکٹ کی ایک تقریب میں عمران خان نے شاہد آفریدی کو بار بار مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرویز خٹک نمبر ون وزیر اعلیٰ ہیں۔
میں حیران ہوں کہ کس نے عمران خان کو سمجھایا ہے کہ ان کے پرویز خٹک کو بار بار نمبر ون کہنے سے وہ نمبر ون بن جائیں گے۔ کوئی ماں اپنے بچے کے جتنے مرضی واری صدقے جائے اس سے اس بچے کی امتحان میں کارکردگی میں فرق نہیں پڑتا۔ امتحان میں کارکردگی اس کے کام اور محنت سے ہی ہوتی ہے۔ اس میں وارے صدقے جانے کا کوئی عمل دخل نہیں۔
اگر شاہد آفریدی کی یہ آزادانہ رائے ہے کہ ملک کے موجودہ جمہوری نظام میں شہباز شریف نمبر ون وزیر اعلیٰ ہیں۔ تو اس کو اس طرح طعنہ زنی سے بدلا نہیں جا سکتا۔کسی کے نمبر ون کہنے سے کوئی نمبر ون نہیں ہو گا۔ اس کے لیے عوامی رائے ہی واحد معیار ہے۔عمران خان کا ان دو آفریدیوں کے حو الہ سے رویہ نا قابل فہم ہے۔ ایک طرف وہ ایک کے گناہ بھی معاف جب کہ دوسرے پر طنز۔