اک بات جو سمجھ میں آتی ہے
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائیٹ سے تمام معلومات حاصل کرنا بہت آسان ہے
خیبر پختون خوا کے ضلع مردان سے تعلق رکھنے والے خواجہ محمد خان ہوتی کا شمار پاکستان کے سینئر سیاست دانوں میں ہوتا ہے، اب سیاست دان سینئر اور جونئیر کیا ہوں گے اگر یہ کہا جائے کہ ان کا شمار معتبر ترین سیاست دانوں میں ہوتا ہے یہ بے جا نہ ہو گا۔
اگرچہ سیاسی پارٹیاں بدلنے کے حوالے سے ان کے بارے میں ان کے ہم عصر سیاست دان کچھ زیادہ اچھا نہیں کہتے مگر خواجہ محمد خان ہوتی کے پاس پارٹیاں بدلنے کے بڑے مؤثر دلائل ہیں جن سے اتفاق بھی کیا جا سکتا ہے اور تو اور ان کے فرزند خواجہ فاروق ہوتی بھی اس سلسلے میں واضح مؤقف رکھتے ہیں کہ پارٹیاں بدلنے سے کسی سیاست دان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا جب لیڈر ڈلیور ہی نہ کر رہا ہو تو پارٹی بدلنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
خواجہ ہوتی نے ایک بات بڑی دل چسپ کہی جس پر لمبی بات ہو سکتی ہے اور ارباب اختیار کی توجہ بھی اس جانب مبذول کروائی جا سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کبھی کسی نے سوچا کہ نواز شریف اور عمران خان اپوزیشن میں ہیں؟ یعنی خیبر پختون خوا میں میاں نواز شریف اور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت نہیں!ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتخابات کچھ اس طرح سے ہوتے ہیں کہ پاپولر ووٹ بہت کم پڑنے کے باوجود کوئی ایک جماعت یا دو جماعتیں مل کر حکومت بنا لیتی ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں اپوزیشن جماعتوں نے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہوتے ہیں لیکن وہ حکومت کی بجائے اپوزیشن میں شمار ہوتی ہیں۔
خواجہ ہوتی نے کئی اعداد و شمار بھی پیش کیے کہ اگر کسی ایک حلقے میں کل ووٹرز کی تعداد دو لاکھ ہے ،ایک لاکھ ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اورجیتنے والے امیدوارکے کل ووٹو ں کی تعداد تیس ہزار ہے۔اس طرح ہارنے والی ایک ،دو یا تین پارٹیوں نے ستر ہزار ووٹ حاصل کیے تو آخر جیتنے والا امیدوار کس طرح سے سارے حلقے کی نمایندگی کر سکتا ہے؟اس گفت گو کے بعد مجھے بھی تجسس تھا کہ 2013 ء کے عام انتخابات کا جائزہ لیا جائے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائیٹ سے تمام معلومات حاصل کرنا بہت آسان ہے اب ملاحظہ کیجیے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے ون کا مختصر سا جائزہ کہ اس حلقے میں انتخابات کے دوران مجموعی طورپر53 ہزار640 ووٹ درست شمار کیے گئے جیتنے والے امیدوار پاکستان تحریک انصاف کے ضیاء اللہ آفریدی نے 22 ہزار 932 ووٹ حاصل کیے جب کہ دیگر26 امیدواروں نے 30 ہزار708 ووٹ لیے اب اسمبلی میں ضیاء اللہ آفریدی پہنچے لیکن یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے حلقے کی اکثریت کے ترجمان ہیں؟
پی کے دو کے نتائج بھی کچھی اسی طرح ہیں کہ شوکت یوسف زئی جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے کومجموعی60 ہزار397 ووٹوں میں سے27 ہزار456 ووٹ ملے جب کہ ان کے مخالف امیدواروں نے29 ہزارسے زیادہ ووٹ حاصل کیے لیکن شوکت یوسفزئی اسمبلی پہنچ گئے۔اسی طرح جوں جوں انتخابی نتائج پر نگاہ دوڑائی جائے تو مزید دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ نوشہرہ دو سے انتخابی دنگل میں حصہ لیا اس حلقے میں 69 ہزار984 ووٹ پول ہوئے جن میں سے پرویز خٹک نے27 ہزار12 ووٹ لیے جب کہ مجموعی طورپر بارہ مخالف امیدواروں نے42 ہزار972 ووٹ لیے جو ان کے خلاف پڑے اس کے باوجود وہ فاتح قرار پاتے ہیں اور اسمبلی پہنچنے کے ساتھ ساتھ صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی بن جاتے ہیں۔
اگر آپ اپوزیشن کے کسی ایک امیدوار کی بات کریں مثلا مردان میں امیر حیدر خان ہوتی نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے23 مردان ون سے کامیابی حاصل کی وہ پانچ سال تک صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے اور بے شمار ترقیاتی کام کیے انھوں نے پانچ سال حکومت میں رہتے ہوئے ہر ہفتے اور اتوار کا دن مردان میں گذارنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی لیکن مردان کے عوام ان سے کتنی محبت کرتے ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ مجموعی طور پر 51 ہزار82 ووٹ پول ہوئے جن میں سے امیر حیدر ہوتی نے 16 ہزار81 ووٹ لیے وہ یہ نشست جیت گئے لیکن انھوں نے قومی اسمبلی کی نشست رکھی اور صوبائی اسمبلی میں نہیں آئے تاہم حیرت انگیز طور پر ان کے خلاف پڑنے والے ووٹوں کی تعداد35 ہزار 1 رہی۔سارے صوبے کے نتائج کا جائزہ لینا اگرچہ مشکل نہیں لیکن چند ایک امیدوار ضرور ایسے بھی ہیں جنہوں نے پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لیے۔
اب اگر قومی اسمبلی کے نتائج پر نظر دوڑائیں تو یہاں بھی صورت حال کچھ ویسی ہی دکھائی دیتی ہے جو صوبائی اسمبلی میں تھی۔قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ایک اور این اے دو سے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور انجینئر حامد الحق نے پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لیے مگر این اے تین میں ایک لاکھ 73 ہزار647 ووٹ پول ہوئے، فاتح پاکستان تحریک انصاف کے امیدوارساجد نواز نے66 ہزار527 ووٹ لیے جب کہ ان کے مخالف امیدواروں نے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ لیے اس کے باوجود وہ قومی اسمبلی میں ہیں اس سوال کے ساتھ کہ وہ کس طرح اکثریت کی نمایندگی کر سکتے ہیں؟
اگر برسراقتدار پاکستان مسلم لیگ کے ایک امیدوار جن کا تعلق ملتان سے ہے انھوں نے95 ہزار ووٹ لیے تو ان کے مخالفین کو ایک لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔ممکن ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کے زیادہ تر امیدواروں نے پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے ہوں مگر یہ نتائج ہیں خاصے دلچسپ اور توجہ کے حامل بھی، جب ہم جمہوریت کے استحکام کی بات کرتے ہیں تو کیا ایسی صورت حال میں جمہورت مستحکم ہو سکتی ہے اور کس طرح سے پاپولر ووٹ لیے بغیر کوئی بھی امیدوار اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ انصاف کر سکتا ہے۔
اب سوال ہے ہونا کیا چاہیے تو اس بارے میں صدارتی نظام حکومت کی تجویز بھی ہے ،یہ تجویز بھی ہے کہ شخصیات کی بجائے پارٹیوں کو ووٹ دیے جائیں ،کم ووٹ لینے والی پارٹیوں پر نظر ثانی کی جائے، اس طرح کی کئی اور تجاویز بھی ہیں جن پر غور کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس سارے معاملے کو دیکھنے کے بعد پاکستان میں عام انتخابات کے نتیجے میں حکومت بنانے والی پارٹیاں کس طرح انصاف کے تقاضے پورا کر سکتی ہیں اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
خواجہ محمد خان ہوتی سے سیاسی معاملات پر بھی بات ہوئی اور ان کا مؤقف تھا کہ آیندہ انتخابات کے نتائج 2013 کے نتائج سے مختلف ہوں گے اور حسب سابق کوئی ایک پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی جب کہ بیس سے بائیس نشستیں جیتنے والی پارٹی وزارت اعلیٰ کا منصب نزدیک پائے گی اور تین چار پارٹیاں مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوں گی۔
ہمارا ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ حکومت بننے کے بعد دوسری حکومت کا انتظار شروع کر دیتے ہیں اور اس کی شاید بڑی وجہ پاکستانی قوم میں عدم برداشت کی کمی ہے جس کے پیش نظر ایک تجویز یہ بھی کہ اگر حکومت کا دورانیہ پانچ سال کی بجائے چار سال ہو جائے تو ممکن ہے کہ آنے کے بعد جانے کی باتیں کرنے والے چار سال تک انتظار کریں اور آنے والوں کو ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی کے لیے کام کرنے دیں۔
اگرچہ سیاسی پارٹیاں بدلنے کے حوالے سے ان کے بارے میں ان کے ہم عصر سیاست دان کچھ زیادہ اچھا نہیں کہتے مگر خواجہ محمد خان ہوتی کے پاس پارٹیاں بدلنے کے بڑے مؤثر دلائل ہیں جن سے اتفاق بھی کیا جا سکتا ہے اور تو اور ان کے فرزند خواجہ فاروق ہوتی بھی اس سلسلے میں واضح مؤقف رکھتے ہیں کہ پارٹیاں بدلنے سے کسی سیاست دان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا جب لیڈر ڈلیور ہی نہ کر رہا ہو تو پارٹی بدلنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
خواجہ ہوتی نے ایک بات بڑی دل چسپ کہی جس پر لمبی بات ہو سکتی ہے اور ارباب اختیار کی توجہ بھی اس جانب مبذول کروائی جا سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کبھی کسی نے سوچا کہ نواز شریف اور عمران خان اپوزیشن میں ہیں؟ یعنی خیبر پختون خوا میں میاں نواز شریف اور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت نہیں!ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتخابات کچھ اس طرح سے ہوتے ہیں کہ پاپولر ووٹ بہت کم پڑنے کے باوجود کوئی ایک جماعت یا دو جماعتیں مل کر حکومت بنا لیتی ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں اپوزیشن جماعتوں نے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہوتے ہیں لیکن وہ حکومت کی بجائے اپوزیشن میں شمار ہوتی ہیں۔
خواجہ ہوتی نے کئی اعداد و شمار بھی پیش کیے کہ اگر کسی ایک حلقے میں کل ووٹرز کی تعداد دو لاکھ ہے ،ایک لاکھ ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اورجیتنے والے امیدوارکے کل ووٹو ں کی تعداد تیس ہزار ہے۔اس طرح ہارنے والی ایک ،دو یا تین پارٹیوں نے ستر ہزار ووٹ حاصل کیے تو آخر جیتنے والا امیدوار کس طرح سے سارے حلقے کی نمایندگی کر سکتا ہے؟اس گفت گو کے بعد مجھے بھی تجسس تھا کہ 2013 ء کے عام انتخابات کا جائزہ لیا جائے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائیٹ سے تمام معلومات حاصل کرنا بہت آسان ہے اب ملاحظہ کیجیے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے ون کا مختصر سا جائزہ کہ اس حلقے میں انتخابات کے دوران مجموعی طورپر53 ہزار640 ووٹ درست شمار کیے گئے جیتنے والے امیدوار پاکستان تحریک انصاف کے ضیاء اللہ آفریدی نے 22 ہزار 932 ووٹ حاصل کیے جب کہ دیگر26 امیدواروں نے 30 ہزار708 ووٹ لیے اب اسمبلی میں ضیاء اللہ آفریدی پہنچے لیکن یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے حلقے کی اکثریت کے ترجمان ہیں؟
پی کے دو کے نتائج بھی کچھی اسی طرح ہیں کہ شوکت یوسف زئی جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے کومجموعی60 ہزار397 ووٹوں میں سے27 ہزار456 ووٹ ملے جب کہ ان کے مخالف امیدواروں نے29 ہزارسے زیادہ ووٹ حاصل کیے لیکن شوکت یوسفزئی اسمبلی پہنچ گئے۔اسی طرح جوں جوں انتخابی نتائج پر نگاہ دوڑائی جائے تو مزید دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ نوشہرہ دو سے انتخابی دنگل میں حصہ لیا اس حلقے میں 69 ہزار984 ووٹ پول ہوئے جن میں سے پرویز خٹک نے27 ہزار12 ووٹ لیے جب کہ مجموعی طورپر بارہ مخالف امیدواروں نے42 ہزار972 ووٹ لیے جو ان کے خلاف پڑے اس کے باوجود وہ فاتح قرار پاتے ہیں اور اسمبلی پہنچنے کے ساتھ ساتھ صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی بن جاتے ہیں۔
اگر آپ اپوزیشن کے کسی ایک امیدوار کی بات کریں مثلا مردان میں امیر حیدر خان ہوتی نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے23 مردان ون سے کامیابی حاصل کی وہ پانچ سال تک صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے اور بے شمار ترقیاتی کام کیے انھوں نے پانچ سال حکومت میں رہتے ہوئے ہر ہفتے اور اتوار کا دن مردان میں گذارنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی لیکن مردان کے عوام ان سے کتنی محبت کرتے ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ مجموعی طور پر 51 ہزار82 ووٹ پول ہوئے جن میں سے امیر حیدر ہوتی نے 16 ہزار81 ووٹ لیے وہ یہ نشست جیت گئے لیکن انھوں نے قومی اسمبلی کی نشست رکھی اور صوبائی اسمبلی میں نہیں آئے تاہم حیرت انگیز طور پر ان کے خلاف پڑنے والے ووٹوں کی تعداد35 ہزار 1 رہی۔سارے صوبے کے نتائج کا جائزہ لینا اگرچہ مشکل نہیں لیکن چند ایک امیدوار ضرور ایسے بھی ہیں جنہوں نے پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لیے۔
اب اگر قومی اسمبلی کے نتائج پر نظر دوڑائیں تو یہاں بھی صورت حال کچھ ویسی ہی دکھائی دیتی ہے جو صوبائی اسمبلی میں تھی۔قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ایک اور این اے دو سے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور انجینئر حامد الحق نے پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لیے مگر این اے تین میں ایک لاکھ 73 ہزار647 ووٹ پول ہوئے، فاتح پاکستان تحریک انصاف کے امیدوارساجد نواز نے66 ہزار527 ووٹ لیے جب کہ ان کے مخالف امیدواروں نے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ لیے اس کے باوجود وہ قومی اسمبلی میں ہیں اس سوال کے ساتھ کہ وہ کس طرح اکثریت کی نمایندگی کر سکتے ہیں؟
اگر برسراقتدار پاکستان مسلم لیگ کے ایک امیدوار جن کا تعلق ملتان سے ہے انھوں نے95 ہزار ووٹ لیے تو ان کے مخالفین کو ایک لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔ممکن ہے کہ پاکستان مسلم لیگ کے زیادہ تر امیدواروں نے پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے ہوں مگر یہ نتائج ہیں خاصے دلچسپ اور توجہ کے حامل بھی، جب ہم جمہوریت کے استحکام کی بات کرتے ہیں تو کیا ایسی صورت حال میں جمہورت مستحکم ہو سکتی ہے اور کس طرح سے پاپولر ووٹ لیے بغیر کوئی بھی امیدوار اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ انصاف کر سکتا ہے۔
اب سوال ہے ہونا کیا چاہیے تو اس بارے میں صدارتی نظام حکومت کی تجویز بھی ہے ،یہ تجویز بھی ہے کہ شخصیات کی بجائے پارٹیوں کو ووٹ دیے جائیں ،کم ووٹ لینے والی پارٹیوں پر نظر ثانی کی جائے، اس طرح کی کئی اور تجاویز بھی ہیں جن پر غور کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس سارے معاملے کو دیکھنے کے بعد پاکستان میں عام انتخابات کے نتیجے میں حکومت بنانے والی پارٹیاں کس طرح انصاف کے تقاضے پورا کر سکتی ہیں اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
خواجہ محمد خان ہوتی سے سیاسی معاملات پر بھی بات ہوئی اور ان کا مؤقف تھا کہ آیندہ انتخابات کے نتائج 2013 کے نتائج سے مختلف ہوں گے اور حسب سابق کوئی ایک پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی جب کہ بیس سے بائیس نشستیں جیتنے والی پارٹی وزارت اعلیٰ کا منصب نزدیک پائے گی اور تین چار پارٹیاں مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوں گی۔
ہمارا ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ حکومت بننے کے بعد دوسری حکومت کا انتظار شروع کر دیتے ہیں اور اس کی شاید بڑی وجہ پاکستانی قوم میں عدم برداشت کی کمی ہے جس کے پیش نظر ایک تجویز یہ بھی کہ اگر حکومت کا دورانیہ پانچ سال کی بجائے چار سال ہو جائے تو ممکن ہے کہ آنے کے بعد جانے کی باتیں کرنے والے چار سال تک انتظار کریں اور آنے والوں کو ملک و قوم کی ترقی و خوش حالی کے لیے کام کرنے دیں۔