برقی کچرے کی تباہ کاری
کرۂ ارض کے ماحول کو آلودہ کرنے والے مختلف عوامل میں سے ایک بڑا خطرہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والا برقی کچرا ہے
بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریاں مختلف طریقوں سے کرۂ ارض میں بسنے والے ہر ذی روح پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ خاص طور پر ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں ماحولیاتی آلودگی کے بڑھتے ہوئے اثرات ان ملکوں کی اقتصادی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کا ماحولیاتی ادارہ ہو یا بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی، سائنسدان ہوں یا ماحولیاتی ماہرین یا دیگر بین الاقوامی تحقیقی ادارے سب دنیا کی حکومتوں کو بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والے مختلف عوامل سے آگاہ کررہے ہیں۔
کرۂ ارض کی فضا کو آلودہ کرنے والے مختلف عوامل کے بارے میں عالمی اداروں کی تحقیقاتی رپورٹیں گاہے بگاہے منظرعام پر آتی رہتی ہیں۔ بے پناہ اندرونی مسائل کا شکار تیسری دنیا کے ملکوں میں ان مسائل کے حوالے سے تحقیق کا شدید فقدان پایا جاتا ہے، اس لیے یہ ممالک بھی اقوام متحدہ سمیت ترقی یافتہ دنیا میں موجود اداروں کی تحقیق پر انحصار کرتے ہیں۔
کرۂ ارض کے ماحول کو آلودہ کرنے والے مختلف عوامل میں سے ایک بڑا خطرہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والا برقی کچرا ہے۔ اس میں برقی مصنوعات اور چھوٹے گھریلو آلات کا کچرا شامل ہے جس کا شکار سب سے زیادہ انھی ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے عوام بن رہے ہیں۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں رہائش پذیر آبادی کی اکثریت کچروں کے ڈھیر کے نزدیک رہائش پذیر ہے، جن سے خطرناک گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔ ان ملکوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین ماحولیات اپنی حکومتوں کو خبردار کرتے رہتے ہیں کہ وہ ناکارہ برقی کچرے کی مصنوعات کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کریں۔
برقی کچرے میں زیادہ بڑی تعداد میں جلایا جانے والا مواد کمپیوٹر سے متعلق ہوتا ہے، جس میں شامل کیڈمیم، مرکری اور لیڈ نظام تنفس، گردے اور دماغی امراض سے متعلق شدید قسم کی بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔ واضح رہے کہ کمپیوٹر آئٹمز میں سے صرف 10 فیصد سامان ایسا ہوتا ہے جسے ری سائیکل کیا جاسکتا ہے، بقیہ بچا ہوا سامان کچرے کے ڈھیروں میں پھینک دیا جاتا ہے، جسے دنیا میں شدید ماحولیاتی خطرات میں سے ایک شمار کیا جارہا ہے۔
اقوام متحدہ یونیورسٹی جس کا ہیڈ کوارٹر جاپان میں واقع ہے، ایک عالمی تھنک ٹینک ہے، جو اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کے ساتھ مل کرکام کرتی ہے، اس کی رہنمائی میں ''سو لونگ دی ای۔ ویسٹ پرابلم انیشٹو'' کے نام سے ایک عالمی منصوبہ 2007 میں شروع کیا گیا جو دسمبر 2017 تک جاری رہے گا۔ برقی فضلے کے حوالے سے عالمی سطح پر کیا جانے والا یہ سب سے بڑا تحقیقی منصوبہ ہے، جس میں برقی فضلے کے حوالے سے مختلف جہتوں پر کام کیا جارہا ہے۔
اس منصوبے میں متعدد عالمی ادارے یو این ڈی پی، یونائیٹدو، آئی ٹی یو، باسل کنونشن کوآرڈینیشن افریقہ اور ایسٹ ایشیا، امریکی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات، چائنیز اکیڈمی آف سائنسز، جاپانی وزارت ماحولیات، سینٹر فار ماحولیات اور ترقی برائے عرب ریجن اور یورپ کے علاوہ کثیرالقومی کمپنیوں سمیت متعدد تعلیمی ادارے اور تنظیمیں شامل ہیں، جن کی جانب سے پہلی مرتبہ برقی فضلے کے حوالے سے قابل اعتماد اعداد وشمار دنیا کے سامنے لائے گئے ہیں۔
اس جاری تحقیقی منصوبے کی رپورٹ دسمبر 2013 میں بتایا گیا کہ 2013 میں عالمی سطح پر 48.9 ملین ٹن برقی فضلہ پیدا ہوا جوکہ اوسطاً 7 کلو گرام فی فرد بنتا ہے۔ رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی 2017 تک یہ مقدار 33 فیصد اضافے کے ساتھ 65.4 ملین ٹن ہوجائے گی جس کا وزن 200 ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگز کے برابر ہوگا۔
وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا کے حوالے سے جنوری 2017 کے دوسرے ہفتے میں جاری کی جانے والی اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا کہ وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں میں 2010 ، 2015 کے درمیان برقی فضلے کے حجم میں دو تہائی یعنی 63 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو کہ 12.3 ملین ٹن بنتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق خطے کے 12 ممالک جن میں چین، کمبوڈیا، ہانگ کانگ، انڈونیشیا، جاپان، فلپائن، سنگاپور، کوریا، تائیوان، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ویت نام شامل ہیں، میں 2015 کے اختتام تک 63 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ خطے میں فی کس اوسط فضلہ 10 کلو گرام رہا جب کہ ایشیا میں زیادہ برقی فضلہ پیدا کرنے والے ملکوں میں ہانگ کانگ 21.7 کلوگرام فی کس، سنگاپور 19.95 کلو گرام، چین کا صوبہ تائیوان 19.13 کلو گرام فی کس برقی فضلہ پیدا کررہا ہے۔
2015 میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی جاری کردہ رپورٹ ''ویسٹ کرائمز، ویسٹ رسکس، ویسٹ سیکٹر میں خلا اور چیلنجز'' میں بتایا گیا کہ دنیا میں ہر سال برقی فضلے کی 90 فیصد تجارت غیر قانونی ہوتی ہے جس کی مالیت 19 بلین ڈالر بنتی ہے، جس میں سے 14 ملین ٹن فضلہ اسمارٹ فونز اور کمپیوٹر کا ہوتا ہے جس کا حجم 2017 تک 50 ملین ٹن تک پہنچ جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق ایشیا میں پاکستان، انڈیا، ملائیشیا اور چین جب کہ افریقہ میں گھانا اور نائیجیریا غیر قانونی برقی کچرے کی تجارت کا مرکز بن چکے ہیں۔ برصغیر کا علاقہ یورپی یونین سے نکلنے والے فضلے کی اہم ترین جگہ بن چکا ہے جن میں برقی فضلے کے علاقہ گھریلو فضلہ، میٹل، ٹیکسٹائل اور ٹائر بھی شامل ہیں، جو پاکستان اور انڈیا ایکسپورٹ کردیے جاتے ہیں۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والے برقی فضلے کا سالانہ اوسط حجم 0.6 ملین ٹن ہے جس کا بیشتر حصہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور ہانگ کانگ کو برآمدکیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے ممالک 9 ملین ٹن سالانہ برقی فضلہ پیدا کرتے ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا سے افریقہ اور ایشیا کے ترقی پذیر اور غریب ملکوں کو بھیجے جانے والے برقی فضلے کے تباہ کن اثرات 1980 کی دہائی میں سامنے آنے لگے جس کے نتیجے میں افریقی ملکوں میں خاص طور پر عوامی مظاہرے ہونے لگے، یہ مظاہرے اتنے موثر ثابت ہوئے کہ افریقی ملکوں کو برقی کچرے کی درآمد پر پابندی عائد کرنی پڑی، جب کہ ایشیائی ملکوں میں بھی اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں، جس کے نتیجے میں 22 مارچ 1989 کو سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والی کانفرنس میں خطرناک فضلے اور اس کے ڈسپوزل کے بین السرحدی نقل و حمل پر کنٹرول سے متعلق معاہدہ طے پایا، جسے باسل کنونشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس معاہدے کا نفاذ اپریل 1992 میں ہوا، جس کے ممبر ممالک کی تعداد 185 ہے۔ پاکستان نے باسل کنونشن سے اگست 94 میں الحاق کیا، جو اکتوبر 94 میں نافذ ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں پیدا ہونے والا برقی کچرا بڑے پیمانے پر ہر سال قانونی اور غیر قانونی طور پر پاکستان میں ڈمپ کیا جارہا ہے۔
ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی برقی کچرے کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جہاں سے یہ کچرا ملک کے مختلف حصوں میں جاتا ہے۔ کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں برقی کچرے کی مارکیٹیں موجود ہیں جہاں مجموعی طور پر لاکھوں لوگ جن میں بچے، بڑے اور خواتین شامل ہیں اس کچرے کے سنگین اثرات سے بے خبر اپنے کام میں مصروف نظر آتے ہیں۔
پاکستان انوائرمینٹل ایکٹ مجرد 1997 کا سیکشن 3 خطرناک فضلے کی درآمد کی ممانعت کرتا ہے اور سیکشن 14 خطرناک اجزا کی نقل وحرکت کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ اصل صورتحال اس کے بالکل برعکس نظرآتی ہے کیونکہ 1997 کا یہ قانون ان معاملات کی روک تھام میں مکمل طور پر ناکام نظر آتا ہے۔
انسانی صحت اور ماحولیات پر سنگین اثرات مرتب کرنے والے برقی کچرے کی درآمد، اس کی ری سائیکلنگ اور ڈمپنگ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اس وقت مرکزی و صوبائی سطح پر کوئی موثر قانون موجود نہیں ہے، جب کہ چین، ہندوستان اور بنگلہ دیش نے اس حوالے سے موجود قوانین پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے مزید موثر بنایا ہے۔ برقی کچرے کے کاروبار سے وابستہ ملک بھرکے لاکھوں غریب خاندانوں کے بچے، بوڑھے اور خواتین مہلک امراض کا شکار ہورہے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ برقی کچرے کی غیر قانونی برآمد کو روکا جائے۔
اقوام متحدہ کا ماحولیاتی ادارہ ہو یا بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی، سائنسدان ہوں یا ماحولیاتی ماہرین یا دیگر بین الاقوامی تحقیقی ادارے سب دنیا کی حکومتوں کو بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والے مختلف عوامل سے آگاہ کررہے ہیں۔
کرۂ ارض کی فضا کو آلودہ کرنے والے مختلف عوامل کے بارے میں عالمی اداروں کی تحقیقاتی رپورٹیں گاہے بگاہے منظرعام پر آتی رہتی ہیں۔ بے پناہ اندرونی مسائل کا شکار تیسری دنیا کے ملکوں میں ان مسائل کے حوالے سے تحقیق کا شدید فقدان پایا جاتا ہے، اس لیے یہ ممالک بھی اقوام متحدہ سمیت ترقی یافتہ دنیا میں موجود اداروں کی تحقیق پر انحصار کرتے ہیں۔
کرۂ ارض کے ماحول کو آلودہ کرنے والے مختلف عوامل میں سے ایک بڑا خطرہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والا برقی کچرا ہے۔ اس میں برقی مصنوعات اور چھوٹے گھریلو آلات کا کچرا شامل ہے جس کا شکار سب سے زیادہ انھی ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کے عوام بن رہے ہیں۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں رہائش پذیر آبادی کی اکثریت کچروں کے ڈھیر کے نزدیک رہائش پذیر ہے، جن سے خطرناک گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔ ان ملکوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین ماحولیات اپنی حکومتوں کو خبردار کرتے رہتے ہیں کہ وہ ناکارہ برقی کچرے کی مصنوعات کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کریں۔
برقی کچرے میں زیادہ بڑی تعداد میں جلایا جانے والا مواد کمپیوٹر سے متعلق ہوتا ہے، جس میں شامل کیڈمیم، مرکری اور لیڈ نظام تنفس، گردے اور دماغی امراض سے متعلق شدید قسم کی بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔ واضح رہے کہ کمپیوٹر آئٹمز میں سے صرف 10 فیصد سامان ایسا ہوتا ہے جسے ری سائیکل کیا جاسکتا ہے، بقیہ بچا ہوا سامان کچرے کے ڈھیروں میں پھینک دیا جاتا ہے، جسے دنیا میں شدید ماحولیاتی خطرات میں سے ایک شمار کیا جارہا ہے۔
اقوام متحدہ یونیورسٹی جس کا ہیڈ کوارٹر جاپان میں واقع ہے، ایک عالمی تھنک ٹینک ہے، جو اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کے ساتھ مل کرکام کرتی ہے، اس کی رہنمائی میں ''سو لونگ دی ای۔ ویسٹ پرابلم انیشٹو'' کے نام سے ایک عالمی منصوبہ 2007 میں شروع کیا گیا جو دسمبر 2017 تک جاری رہے گا۔ برقی فضلے کے حوالے سے عالمی سطح پر کیا جانے والا یہ سب سے بڑا تحقیقی منصوبہ ہے، جس میں برقی فضلے کے حوالے سے مختلف جہتوں پر کام کیا جارہا ہے۔
اس منصوبے میں متعدد عالمی ادارے یو این ڈی پی، یونائیٹدو، آئی ٹی یو، باسل کنونشن کوآرڈینیشن افریقہ اور ایسٹ ایشیا، امریکی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات، چائنیز اکیڈمی آف سائنسز، جاپانی وزارت ماحولیات، سینٹر فار ماحولیات اور ترقی برائے عرب ریجن اور یورپ کے علاوہ کثیرالقومی کمپنیوں سمیت متعدد تعلیمی ادارے اور تنظیمیں شامل ہیں، جن کی جانب سے پہلی مرتبہ برقی فضلے کے حوالے سے قابل اعتماد اعداد وشمار دنیا کے سامنے لائے گئے ہیں۔
اس جاری تحقیقی منصوبے کی رپورٹ دسمبر 2013 میں بتایا گیا کہ 2013 میں عالمی سطح پر 48.9 ملین ٹن برقی فضلہ پیدا ہوا جوکہ اوسطاً 7 کلو گرام فی فرد بنتا ہے۔ رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی 2017 تک یہ مقدار 33 فیصد اضافے کے ساتھ 65.4 ملین ٹن ہوجائے گی جس کا وزن 200 ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگز کے برابر ہوگا۔
وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا کے حوالے سے جنوری 2017 کے دوسرے ہفتے میں جاری کی جانے والی اقوام متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا کہ وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں میں 2010 ، 2015 کے درمیان برقی فضلے کے حجم میں دو تہائی یعنی 63 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو کہ 12.3 ملین ٹن بنتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق خطے کے 12 ممالک جن میں چین، کمبوڈیا، ہانگ کانگ، انڈونیشیا، جاپان، فلپائن، سنگاپور، کوریا، تائیوان، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ویت نام شامل ہیں، میں 2015 کے اختتام تک 63 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ خطے میں فی کس اوسط فضلہ 10 کلو گرام رہا جب کہ ایشیا میں زیادہ برقی فضلہ پیدا کرنے والے ملکوں میں ہانگ کانگ 21.7 کلوگرام فی کس، سنگاپور 19.95 کلو گرام، چین کا صوبہ تائیوان 19.13 کلو گرام فی کس برقی فضلہ پیدا کررہا ہے۔
2015 میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی جاری کردہ رپورٹ ''ویسٹ کرائمز، ویسٹ رسکس، ویسٹ سیکٹر میں خلا اور چیلنجز'' میں بتایا گیا کہ دنیا میں ہر سال برقی فضلے کی 90 فیصد تجارت غیر قانونی ہوتی ہے جس کی مالیت 19 بلین ڈالر بنتی ہے، جس میں سے 14 ملین ٹن فضلہ اسمارٹ فونز اور کمپیوٹر کا ہوتا ہے جس کا حجم 2017 تک 50 ملین ٹن تک پہنچ جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق ایشیا میں پاکستان، انڈیا، ملائیشیا اور چین جب کہ افریقہ میں گھانا اور نائیجیریا غیر قانونی برقی کچرے کی تجارت کا مرکز بن چکے ہیں۔ برصغیر کا علاقہ یورپی یونین سے نکلنے والے فضلے کی اہم ترین جگہ بن چکا ہے جن میں برقی فضلے کے علاقہ گھریلو فضلہ، میٹل، ٹیکسٹائل اور ٹائر بھی شامل ہیں، جو پاکستان اور انڈیا ایکسپورٹ کردیے جاتے ہیں۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والے برقی فضلے کا سالانہ اوسط حجم 0.6 ملین ٹن ہے جس کا بیشتر حصہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور ہانگ کانگ کو برآمدکیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے ممالک 9 ملین ٹن سالانہ برقی فضلہ پیدا کرتے ہیں۔
ترقی یافتہ دنیا سے افریقہ اور ایشیا کے ترقی پذیر اور غریب ملکوں کو بھیجے جانے والے برقی فضلے کے تباہ کن اثرات 1980 کی دہائی میں سامنے آنے لگے جس کے نتیجے میں افریقی ملکوں میں خاص طور پر عوامی مظاہرے ہونے لگے، یہ مظاہرے اتنے موثر ثابت ہوئے کہ افریقی ملکوں کو برقی کچرے کی درآمد پر پابندی عائد کرنی پڑی، جب کہ ایشیائی ملکوں میں بھی اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں، جس کے نتیجے میں 22 مارچ 1989 کو سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والی کانفرنس میں خطرناک فضلے اور اس کے ڈسپوزل کے بین السرحدی نقل و حمل پر کنٹرول سے متعلق معاہدہ طے پایا، جسے باسل کنونشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس معاہدے کا نفاذ اپریل 1992 میں ہوا، جس کے ممبر ممالک کی تعداد 185 ہے۔ پاکستان نے باسل کنونشن سے اگست 94 میں الحاق کیا، جو اکتوبر 94 میں نافذ ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں پیدا ہونے والا برقی کچرا بڑے پیمانے پر ہر سال قانونی اور غیر قانونی طور پر پاکستان میں ڈمپ کیا جارہا ہے۔
ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی برقی کچرے کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جہاں سے یہ کچرا ملک کے مختلف حصوں میں جاتا ہے۔ کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں میں برقی کچرے کی مارکیٹیں موجود ہیں جہاں مجموعی طور پر لاکھوں لوگ جن میں بچے، بڑے اور خواتین شامل ہیں اس کچرے کے سنگین اثرات سے بے خبر اپنے کام میں مصروف نظر آتے ہیں۔
پاکستان انوائرمینٹل ایکٹ مجرد 1997 کا سیکشن 3 خطرناک فضلے کی درآمد کی ممانعت کرتا ہے اور سیکشن 14 خطرناک اجزا کی نقل وحرکت کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ اصل صورتحال اس کے بالکل برعکس نظرآتی ہے کیونکہ 1997 کا یہ قانون ان معاملات کی روک تھام میں مکمل طور پر ناکام نظر آتا ہے۔
انسانی صحت اور ماحولیات پر سنگین اثرات مرتب کرنے والے برقی کچرے کی درآمد، اس کی ری سائیکلنگ اور ڈمپنگ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اس وقت مرکزی و صوبائی سطح پر کوئی موثر قانون موجود نہیں ہے، جب کہ چین، ہندوستان اور بنگلہ دیش نے اس حوالے سے موجود قوانین پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے مزید موثر بنایا ہے۔ برقی کچرے کے کاروبار سے وابستہ ملک بھرکے لاکھوں غریب خاندانوں کے بچے، بوڑھے اور خواتین مہلک امراض کا شکار ہورہے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ برقی کچرے کی غیر قانونی برآمد کو روکا جائے۔