روایت بھرا سنگھار
منہدی کو برصغیر کی خواتین کا مقبول ترین شوق کہا جاتا ہے۔
سجنے سنورنے کے باب میں منہدی کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ جس طرح ہر خطے میں آرائش کے الگ الگ ڈھنگ ہوتے ہیں بالکل اسی طرح خواتین کی زیب وزینت کے ڈھب بھی بالکل جداگانہ ہوتے ہیں۔
مشرقی خطے میں زمانہ قدیم سے استعمال ہونے والی منہدی کو یہاں کی خواتین میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ خواتین اہم مواقع کے ساتھ عام زندگی میں بھی اس کا استعمال رکھتی ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں منہدی کئی طرح سے استعمال کی جاتی ہے اور ہر طریقے سے اپنا الگ فائدہ اور خوب صورتی رکھتا ہے۔ منہدی کا مزاج معتدل ہے۔ اس کا استعمال خوب صورتی ہی نہیں بلکہ راحت کا باعث بھی ہوتا ہے۔
بہت سی خواتین منہدی کے پتوں کو پیس کر بالوں میں اس کا لیپ کرتی ہیں، جو کہ ایک قدرتی کنڈیشنر کا کام دیتا ہے۔ یہ لیپ بالوں کو گھنا، لمبا، نرم و ملائم اور قوی کرتا ہے۔ چائے کے قہوے میں منہدی کا پاؤڈر ملا کر بالوں پر لگانے سے بال کالے سیاہ اور گھنے ہوتے ہیں۔ یہی نہیں مندہی بالوں میں اترتی چاندنی کو بھی خوب اچھی طرح ڈھانپ دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی دوسرے خضاب کے بہ جائے برصغیر میں منہدی کا استعمال اب بھی زیادہ ہے۔ خواتین ہی نہیں بہت سے مرد حضرات بھی اپنے سفید بال منہدی سے رنگتے ہیں۔
ایسے موقع پر جب رنگا رنگ قسم کے 'ہیئر کلر' بازار میں دست یاب ہیں، تب بھی لوگ منہدی کے سرخ اور سرخی مائل رنگ سے رنگے بالوں کو پسند کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ روایتی طور پر اس کا استعمال کئی نسلوں سے چلا آرہا ہے، پھر خواتین اس کے استعمال سے مطمئن رہتی ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کے مضر اثرات سے محفوظ ہیں۔ بعض اوقات منہدیوں میں بھی چوکھا رنگ دینے کے لیے تیز کیمیائی اجزا ڈالے جاتے ہیں، جس سے بال اور تیزی سے سفید ہوتے ہیں، تاہم اس کے باوجود بھی منہدی کو ہی سب سے اہم رنگ کی حیثیت حاصل ہے۔
اسی طرح نوجوان لڑکیوں اور بچیوں میں منہدی کو کون کی مدد سے بھی ہاتھوں پر خوب صورت نقش و نگار بنائے جاتے ہیں، جس سے ہاتھ پرکشش اور خوب صورت دکھائی دیتے ہیں۔ عید، تہوار، شادی، منگنی اور دیگر تقریبات میں منہدی ہاتھوں پر سجا کر خوشی کا اظہار برصغیر پاک و ہند کی خواتین کو بہت مرغوب ہے۔
فی زمانہ منہدی کے نقش و نگار اور ڈیزائن کے مخصوص نام اور انداز ہیں اور اس کی ماہر خواتین کی خاص پہچان بن گئے ہیں۔ عربی، سوڈانی، راجستھانی اور دلہن منہدی ان میں سرفہرست ہیں۔ یہی نہیں ماہر ڈیزائنر ان نقش ونگار میں حسب منشا تبدیلیاں کرکے انہیں مزید پرکشش بنا دیتے ہیں۔ ایسے منہدی ڈیزائنر اپنی خدمات کا خطیر معاوضہ بھی لیتے ہیں۔
چند سال پہلے کالی اور سرخ منہدی بھی متعارف کرائی گئی۔ کچھ منہدیوں میں بہتر نتائج کے لیے مضر صحت کیمیکل بھی شامل کردیے جاتے ہیں، جس سے جلد کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔
خواتین نے اگر آدھی آستینوں والے لباس پہننے ہوں تو پھر صرف ہتھیلی اور ہاتھ کی پشت پر ہی نہیں بلکہ کلائیوں سے کہنیوں تک بھی منہدی کے دیدہ زیب نقش ونگار سجا لیے جاتے ہیں۔ آج کل تو پیر کے تلوؤں پر بھی بھری ہوئی منہدی کے لیپ کے بہ جائے مختلف دل کش ڈیزائن بنائے جا رہے ہی، جس کا انداز بے حد نرالا ہے۔
بچیاں خصوصاً چھٹیوں میں بیوٹی پارلرز اور منہدی سینٹرز میں اس کے مختلف کورسز کر کے اس فن میں مہارت حاصل کرتی ہیں۔ مذہبی طور پر بھی منہدی کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ منہدی لگانا سنت ہے، جب کہ خواتین کو بھی اپنے ہاتھ مردوں سے ممتاز رکھنے کے لیے منہدی کے استعمال کی تلقین ہے۔ الغرض یہ ایک قدیم روایت سہی، مگر جدید دور میں بھی منہدی کو پسند کیا جاتا ہے۔ اور اس کو خوشی اور خوب صورتی کی علامت گردانا جاتا ہے۔ برصغیر پاک وہند کے علاوہ اس کے قرب وجوار کے بہت سے ممالک جن میں سری لنکا، مالدیپ اور نیپال شامل ہیں، میں بھی خواتین اپنے سنگھار کے لیے منہدی کا استعمال کرتی ہیں۔
منہدی کے سنگھار کے علاوہ بھی بہت سے طبی خواص ہیں۔ اس کے پتوں کو اگر کپڑوں کی تہہ میں رکھا جائے، تو یہ کپڑوں کو نہ صرف خوش بو دار بنا دیتا ہے، بلکہ مختلف قسم کے حشرات الارض سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے بھی پیر کے تلوؤں میں منہدی کا لیپ کیا جاتا ہے۔ اس عمل سے دماغ کی گرمی اور موسم گرما کے مختلف امراض سے بچاؤ رہتا ہے۔
جلدی بیماریوں یعنی خارش سے بننے والے زخم، ناسور اور جلنے کے باعث پڑنے والے آبلوں پر منہدی کا لیپ کرنے سے ٹھنڈک اور آرام کا احساس ہوتا ہے اور جلد ہی ان سے شفا ملتی ہے۔ الغرض روایات سے سجی منہدی مختلف انداز سے صدیوں سے ہمارے مستقل استعمال میں ہے۔
مشرقی خطے میں زمانہ قدیم سے استعمال ہونے والی منہدی کو یہاں کی خواتین میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ خواتین اہم مواقع کے ساتھ عام زندگی میں بھی اس کا استعمال رکھتی ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں منہدی کئی طرح سے استعمال کی جاتی ہے اور ہر طریقے سے اپنا الگ فائدہ اور خوب صورتی رکھتا ہے۔ منہدی کا مزاج معتدل ہے۔ اس کا استعمال خوب صورتی ہی نہیں بلکہ راحت کا باعث بھی ہوتا ہے۔
بہت سی خواتین منہدی کے پتوں کو پیس کر بالوں میں اس کا لیپ کرتی ہیں، جو کہ ایک قدرتی کنڈیشنر کا کام دیتا ہے۔ یہ لیپ بالوں کو گھنا، لمبا، نرم و ملائم اور قوی کرتا ہے۔ چائے کے قہوے میں منہدی کا پاؤڈر ملا کر بالوں پر لگانے سے بال کالے سیاہ اور گھنے ہوتے ہیں۔ یہی نہیں مندہی بالوں میں اترتی چاندنی کو بھی خوب اچھی طرح ڈھانپ دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی دوسرے خضاب کے بہ جائے برصغیر میں منہدی کا استعمال اب بھی زیادہ ہے۔ خواتین ہی نہیں بہت سے مرد حضرات بھی اپنے سفید بال منہدی سے رنگتے ہیں۔
ایسے موقع پر جب رنگا رنگ قسم کے 'ہیئر کلر' بازار میں دست یاب ہیں، تب بھی لوگ منہدی کے سرخ اور سرخی مائل رنگ سے رنگے بالوں کو پسند کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ روایتی طور پر اس کا استعمال کئی نسلوں سے چلا آرہا ہے، پھر خواتین اس کے استعمال سے مطمئن رہتی ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کے مضر اثرات سے محفوظ ہیں۔ بعض اوقات منہدیوں میں بھی چوکھا رنگ دینے کے لیے تیز کیمیائی اجزا ڈالے جاتے ہیں، جس سے بال اور تیزی سے سفید ہوتے ہیں، تاہم اس کے باوجود بھی منہدی کو ہی سب سے اہم رنگ کی حیثیت حاصل ہے۔
اسی طرح نوجوان لڑکیوں اور بچیوں میں منہدی کو کون کی مدد سے بھی ہاتھوں پر خوب صورت نقش و نگار بنائے جاتے ہیں، جس سے ہاتھ پرکشش اور خوب صورت دکھائی دیتے ہیں۔ عید، تہوار، شادی، منگنی اور دیگر تقریبات میں منہدی ہاتھوں پر سجا کر خوشی کا اظہار برصغیر پاک و ہند کی خواتین کو بہت مرغوب ہے۔
فی زمانہ منہدی کے نقش و نگار اور ڈیزائن کے مخصوص نام اور انداز ہیں اور اس کی ماہر خواتین کی خاص پہچان بن گئے ہیں۔ عربی، سوڈانی، راجستھانی اور دلہن منہدی ان میں سرفہرست ہیں۔ یہی نہیں ماہر ڈیزائنر ان نقش ونگار میں حسب منشا تبدیلیاں کرکے انہیں مزید پرکشش بنا دیتے ہیں۔ ایسے منہدی ڈیزائنر اپنی خدمات کا خطیر معاوضہ بھی لیتے ہیں۔
چند سال پہلے کالی اور سرخ منہدی بھی متعارف کرائی گئی۔ کچھ منہدیوں میں بہتر نتائج کے لیے مضر صحت کیمیکل بھی شامل کردیے جاتے ہیں، جس سے جلد کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔
خواتین نے اگر آدھی آستینوں والے لباس پہننے ہوں تو پھر صرف ہتھیلی اور ہاتھ کی پشت پر ہی نہیں بلکہ کلائیوں سے کہنیوں تک بھی منہدی کے دیدہ زیب نقش ونگار سجا لیے جاتے ہیں۔ آج کل تو پیر کے تلوؤں پر بھی بھری ہوئی منہدی کے لیپ کے بہ جائے مختلف دل کش ڈیزائن بنائے جا رہے ہی، جس کا انداز بے حد نرالا ہے۔
بچیاں خصوصاً چھٹیوں میں بیوٹی پارلرز اور منہدی سینٹرز میں اس کے مختلف کورسز کر کے اس فن میں مہارت حاصل کرتی ہیں۔ مذہبی طور پر بھی منہدی کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ منہدی لگانا سنت ہے، جب کہ خواتین کو بھی اپنے ہاتھ مردوں سے ممتاز رکھنے کے لیے منہدی کے استعمال کی تلقین ہے۔ الغرض یہ ایک قدیم روایت سہی، مگر جدید دور میں بھی منہدی کو پسند کیا جاتا ہے۔ اور اس کو خوشی اور خوب صورتی کی علامت گردانا جاتا ہے۔ برصغیر پاک وہند کے علاوہ اس کے قرب وجوار کے بہت سے ممالک جن میں سری لنکا، مالدیپ اور نیپال شامل ہیں، میں بھی خواتین اپنے سنگھار کے لیے منہدی کا استعمال کرتی ہیں۔
منہدی کے سنگھار کے علاوہ بھی بہت سے طبی خواص ہیں۔ اس کے پتوں کو اگر کپڑوں کی تہہ میں رکھا جائے، تو یہ کپڑوں کو نہ صرف خوش بو دار بنا دیتا ہے، بلکہ مختلف قسم کے حشرات الارض سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے بھی پیر کے تلوؤں میں منہدی کا لیپ کیا جاتا ہے۔ اس عمل سے دماغ کی گرمی اور موسم گرما کے مختلف امراض سے بچاؤ رہتا ہے۔
جلدی بیماریوں یعنی خارش سے بننے والے زخم، ناسور اور جلنے کے باعث پڑنے والے آبلوں پر منہدی کا لیپ کرنے سے ٹھنڈک اور آرام کا احساس ہوتا ہے اور جلد ہی ان سے شفا ملتی ہے۔ الغرض روایات سے سجی منہدی مختلف انداز سے صدیوں سے ہمارے مستقل استعمال میں ہے۔