کرنسی ڈیلرز نے امریکی فیڈرل ریزرو کے نام کے پر پرانے ڈالر کی قیمت گرادی
شہریوں کومشکلات کا سامنا، ڈیلرز کیخلاف کارروائی کا مطالبہ
کرنسی ڈیلرز اور فارن ایکس چینج کمپنیوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ہدایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکی فیڈرل ریزرو کے نام پر پرانے ڈالرز کی قیمت گرادی ہے جس سے ڈالرز کی شکل میں سرمایہ محفوظ رکھنے والے افراد، تعلیم اور علاج معالجے کے لیے بیرون ملک رقوم ارسال کرنے والے شہریوں اور کاروباری طبقے کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
شہریوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وزارت خزانہ سے مطالبہ کیا ہے کہ پرانے ڈیزائن کے ڈالرز کی از خود قیمت گرانے والے ڈیلرز کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے اور اس حوالے سے فی الفور واضح ہدایات جاری کی جائیں تاکہ شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیا جاسکے۔ کرنسی ڈیلرز نے پرانے امریکی ڈالرز کی قیمت گرادی ہے جس سے امریکی ڈالرز کو پاکستانی روپے میں تبدیل کروانے والے عام شہریوں اور کاروباری افراد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
ادھر فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولنے والے بینکوں نے بھی پرانے امریکی ڈالرز وصول کرنے سے انکار کردیا ہے جس کی وجہ سے تعلیمی فیس، علاج معالجے اور دیگر ضروریات کے لیے رقوم کی منتقلی اور بیرون ملک ادائیگیوں میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایکس چینج کمپنیز مینویل کے مطابق ڈالر کی خرید اور فروخت کے نرخ میں ایک فیصد سے زائد کا فرق نہیں ہوسکتا تاہم کراچی میں کرنسی ڈیلرز پرانے امریکی ڈالر کے نوٹ (فی ڈالر) 4سے 5روپے کم قیمت پر خریدرہے ہیں۔
دوسری جانب کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ امریکا کے فیڈرل ریزرو(مرکزی بینک) کی جانب سے 100ڈالر مالیت کے پرانے کرنسی نوٹ کی جگہ نئے سیکیورٹی فیچرز پر مشتمل 100ڈالر کا کرنسی نوٹ جاری کیا گیا ہے جس کی طباعت کے ساتھ کاغذ کی رنگت بھی نیلگوں سفید ہے اس لیے ہلکے پیلے رنگ کے کاغذ پر چھپے ہوئے پرانے ڈالرز کا عالمی سطح پر لین دین ختم ہوگیا ہے۔ کرنسی ڈیلرز کی جانب سے اپنا منافع بڑھانے کے لیے کم قیمت کی ادائیگی کا غلط جواز گھڑتے ہوئے شہریوں کو امریکی مرکزی بینک کے نام پر گمراہ کن معلومات فراہم کی جارہی ہیں اور ڈیلرز شہریوں کو یہ کہتے ہوئے کم قیمت ادا کرتے ہیں کہ پرانے کرنسی نوٹ دبئی کے راستے امریکا میں کلیم کیے جاتے ہیں جن کے عوض نئی کرنسی ملتی ہے اور اس عمل کے دوران ڈیلرز کو اضافی اخراجات کرنا پڑتے ہیں جس کا بوجھ کسٹمرز پر ڈالا جارہا ہے۔
امریکی قوانین کے مطابق امریکا کے مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کی جانب سے 1914سے جاری کیے گئے تمام مالیت کے کرنسی نوٹوں کی قانونی حیثیت تاحال برقرار ہے تاہم پاکستان میں کرنسی ڈیلرز اور بینکوں نے کسٹمرز کو پریشانی سے دوچار کررکھا ہے۔کرنسی ڈیلرز پاکستان میں پرانے ڈالرز کم قیمت پر خرید کر دبئی، امریکا اورانٹرنیشنل مارکیٹ میں رائج الوقت قیمت پر فروخت کررہے ہیں اور پرانے ڈالرز کی آڑ میں بھرپور منافع کمارہے ہیں۔
واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بھی کرنسی ڈیلرز کو اس قسم کی کوئی ہدایت نہیں کی گئی جس میں پرانے ڈالرز کو مارکیٹ سے کم قیمت پر خریدا جاسکے۔ اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے مطابق صرف کٹے پھٹے، کثرت استعمال سے خراب ہوچکے کرنسی نوٹوں کی وصولی پر پابندی عائد کی گئی ہے، اس میں رنگت یا اجرا کی مدت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
شہریوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وزارت خزانہ سے مطالبہ کیا ہے کہ پرانے ڈیزائن کے ڈالرز کی از خود قیمت گرانے والے ڈیلرز کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے اور اس حوالے سے فی الفور واضح ہدایات جاری کی جائیں تاکہ شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیا جاسکے۔ کرنسی ڈیلرز نے پرانے امریکی ڈالرز کی قیمت گرادی ہے جس سے امریکی ڈالرز کو پاکستانی روپے میں تبدیل کروانے والے عام شہریوں اور کاروباری افراد کو مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
ادھر فارن کرنسی اکاؤنٹ کھولنے والے بینکوں نے بھی پرانے امریکی ڈالرز وصول کرنے سے انکار کردیا ہے جس کی وجہ سے تعلیمی فیس، علاج معالجے اور دیگر ضروریات کے لیے رقوم کی منتقلی اور بیرون ملک ادائیگیوں میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایکس چینج کمپنیز مینویل کے مطابق ڈالر کی خرید اور فروخت کے نرخ میں ایک فیصد سے زائد کا فرق نہیں ہوسکتا تاہم کراچی میں کرنسی ڈیلرز پرانے امریکی ڈالر کے نوٹ (فی ڈالر) 4سے 5روپے کم قیمت پر خریدرہے ہیں۔
دوسری جانب کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ امریکا کے فیڈرل ریزرو(مرکزی بینک) کی جانب سے 100ڈالر مالیت کے پرانے کرنسی نوٹ کی جگہ نئے سیکیورٹی فیچرز پر مشتمل 100ڈالر کا کرنسی نوٹ جاری کیا گیا ہے جس کی طباعت کے ساتھ کاغذ کی رنگت بھی نیلگوں سفید ہے اس لیے ہلکے پیلے رنگ کے کاغذ پر چھپے ہوئے پرانے ڈالرز کا عالمی سطح پر لین دین ختم ہوگیا ہے۔ کرنسی ڈیلرز کی جانب سے اپنا منافع بڑھانے کے لیے کم قیمت کی ادائیگی کا غلط جواز گھڑتے ہوئے شہریوں کو امریکی مرکزی بینک کے نام پر گمراہ کن معلومات فراہم کی جارہی ہیں اور ڈیلرز شہریوں کو یہ کہتے ہوئے کم قیمت ادا کرتے ہیں کہ پرانے کرنسی نوٹ دبئی کے راستے امریکا میں کلیم کیے جاتے ہیں جن کے عوض نئی کرنسی ملتی ہے اور اس عمل کے دوران ڈیلرز کو اضافی اخراجات کرنا پڑتے ہیں جس کا بوجھ کسٹمرز پر ڈالا جارہا ہے۔
امریکی قوانین کے مطابق امریکا کے مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کی جانب سے 1914سے جاری کیے گئے تمام مالیت کے کرنسی نوٹوں کی قانونی حیثیت تاحال برقرار ہے تاہم پاکستان میں کرنسی ڈیلرز اور بینکوں نے کسٹمرز کو پریشانی سے دوچار کررکھا ہے۔کرنسی ڈیلرز پاکستان میں پرانے ڈالرز کم قیمت پر خرید کر دبئی، امریکا اورانٹرنیشنل مارکیٹ میں رائج الوقت قیمت پر فروخت کررہے ہیں اور پرانے ڈالرز کی آڑ میں بھرپور منافع کمارہے ہیں۔
واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے بھی کرنسی ڈیلرز کو اس قسم کی کوئی ہدایت نہیں کی گئی جس میں پرانے ڈالرز کو مارکیٹ سے کم قیمت پر خریدا جاسکے۔ اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے مطابق صرف کٹے پھٹے، کثرت استعمال سے خراب ہوچکے کرنسی نوٹوں کی وصولی پر پابندی عائد کی گئی ہے، اس میں رنگت یا اجرا کی مدت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔