دہشت گردی کا سر کچل ڈالیے
یوں محسوس ہوتا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے ملک میں تشدد کی سیاست اور انتہا پسندی کا لائسنس مل گیا ہے
ملکی سلامتی ،قومی یکجہتی ، عوام کے روشن مستقبل اور خوش حالی کی ضمانت دینا ہر جمہوری حکومت کے اولین فرائض میں شامل ہے جب کہ قومی ترقی اور جمہوری، تہذیبی اور فکری استحکام کے لیے عوام کو معاشی طمانیت اور زندگی کے تحفظ کا احساس نہ ملے تو کوئی حکومت عوام کی نبض شناس اور درد آشنا کہلانے کی مستحق نہیں ہوتی ، یہ آفاقی اصول ہے،دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں کے سیاسی نظام عوام کی درد آشنائی کے بغیر نہیں چل سکتے، لیکن عجب ستم ہے کہ دہشت گردوں نے وطن عزیز اور اس کے 18 کروڑ شہریوں کا ناطقہ بند کرنے کے لیے خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا ایسا ہولناک سلسلہ شروع کردیا ہے کہ غالباً اہل وطن کے پاس ماسوائے لاشیں اٹھانے اور اشک بہانے کے اور کچھ مال ومتاع رہا ہی نہیں۔
گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی قومی اعصاب کو مسلسل جھنجھوڑ رہی ہے، خون آشام قوتیں انسانوں کی جانیں لے رہی ہیں اور اب دہشت گردی کے شعلے ملک کے بڑے شہروں تک آپہنچے ہیں ۔ عوام بے چینی سے منتظر ہیں کہ دہشت گردی کے تابوت میں اب آخری کیل ٹھکنے والی ہی ہے جس کے بعد انسانیت سوز واقعات کا تسلسل اپنی موت آپ مر جائے گا مگر افسوس ہے کہ پولیس ،رینجرز اور انٹیلی جنس اداروں کی مسلسل کاوشوں اور ہائی الرٹ اقدامات و انتظامات کے باوجود دہشت گردی کے واقعات رکنے کے بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ اگرچہ پاک فوج ملک کے مخدوش حصوں میں دہشت گردی سے نبرد آزما ہے ، بلوچستان میں قانون شکنوں کے خلاف کارروائیاں کررہی ہے، فاٹا کے علاقے کی اندوہ ناک صورتحال کو کنٹرول کرنے میں حکومت کی مدد کررہی ہے مگر دہشت گردی ایک عفریت ہے،القاعدہ اور طالبان سمیت کئی کالعدم تنظیموں نے وطن عزیز کو میدان جنگ بنا دیا ہے۔
منگل کو کراچی کے علاقے عائشہ منزل کے قریب موٹرسائیکل میں نصب بم خوفناک دھماکے سے پھٹ گیاجس کے نتیجے میں4افراد جاں بحق اور 50 زخمی ہوگئے ۔ کچھ ہی روز قبل کینٹ اسٹیشن پر بم دھماکا کیا گیا تھا جس میں 7 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوئے تھے، ستم بالائے ستم یہ کہ کسی واردات اور خوفناک خود کش حملے یا بم دھماکے میں ملوث یا ان کے ماسٹر مائنڈ گرفت میں نہیں آتے، جب کہ بھارت میں ایک طالبہ کی بے حرمتی کی گئی تو سارے ملزمان جیل میں ڈالے گئے،کراچی میں ایک ڈی ایس پی کا جوان بیٹا قتل کیا گیا ،اس کے قاتل مفرور ہیں ۔
ڈی ایس پی دھکے کھا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے جلسے میں بم دھماکا 14 جنوری کو اسلام آباد تک لانگ مارچ کے حوالہ سے طالبان کا الٹی میٹم ہی ہے۔ایک طرف اسلام آباد کو تحریر اسکوائر بنانے کے دعوے ہیں تو دوسری طرف دہشت گرد اپنا طبل جنگ بجا رہے ہیں۔عوام بیچارے کہاں جائیں۔ وزیر داخلہ رحمن ملک یہ تو بتاتے ہیں کہ اتنے بم دہشت گردوں کے پاس ہیں جو وہ ابھی استعمال کریں گے مگر ان کے ٹھکانے کہاں ہیں ،وہ کیسے چل کر اپنے ہدف تک با آسانی آجاتے ہیں،اس راز پر سے پردہ نہیں اٹھاتے ۔ کراچی بلاشبہ لاوارث شہر بن چکا ہے اس لیے طالبان اس میں داخل ہوگئے ۔ ادھر صوابی میں ایک این جی او کی گاڑی پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے چھ خواتین سمیت سات افراد جاں بحق ہوگئے ۔
خیبر پختونخوا کو امن ،صنعتی ترقی، تعلیم ،صحت اور جدید انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے، اسلحہ فیکٹریوں سے تیار شدہ اسلحہ کی بین الصوبائی خریدوفروخت اور غیر قانونی نقل وحمل کی روک تھام ناگزیر ہے ۔ اسلحہ نے امن اور ترقی کی راہیں مسدود کر رکھی ہیں ، کراچی کے ہر تیسرے چوتھے گھر میںاسلحہ کو اب قبائلی شناخت اور روایات کے طور پر رکھنے کا رواج عام ہے۔ کراچی کے علاقے لیاری میں 4 تھانے ہیں مگر دہشت گرد اور بھتہ خور کھلے عام قانون شکنی میں مصروف ہیں۔ وہ خود کو قانون سے بالاترuntouchables سمجھتے ہیں۔رینجرز اور پولیس تماشائی بنی ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں فاٹا کے سیکیورٹی حکام نے سڑک کے کنارے رکھے 70کلو وزنی بم کوناکارہ بنا دیاانتہا پسندوں کا ہدف اور مقصد ہے کہ ملک میں انارکی پیدا کی جائے اور ریاستی انتظام کو تہس نہس کیا جائے۔
یہ ہولناک ہدف ارباب اختیار کے لیے کب لمحہ فکریہ کا درجہ حاصل کرے گا؟ ڈی آئی جی ویسٹ کراچی نے میڈیا کو بتایا کہ کراچی میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات تھے تاہم جلسے میں لوگوں کی بڑی تعداد آئی ہوئی تھی ہم سے جوکوشش ہو سکتی تھی وہ ہم نے پوری کی، ظاہر ہے کسی بے رحم اور سفاک آدمی نے پوری منصوبہ بندی سے دھماکا کیا۔ وہ کسی کی نظر میں نہ آسکا ۔ اسی قسم کی مستعدی اور چوکسی کا مظاہرہ عوام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رکھتے ہیں ۔ خود کش بمبار اور بم دھماکا کرنے والوں کو واردات سے پہلے گرفتار کرنا ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پہلا قدم ہے۔ بعد از مرگ واویلا بہت ہوچکا۔ دوسری جانب پشاور پولیس نے مقامی لوگوں کی اطلاع پر نواحی علاقے سربنداچینی میں تباہی کا بڑا منصوبہ ناکام بنا کر80 کلو بارودی مواد بی ڈی ایس کی مدد سے ناکارہ بنا دیا۔
ادھر کوئٹہ اور اندرون صوبہ ٹارگٹ کلنگ ،فائرنگ اور دستی بم حملے کے واقعات میں این جی او کے ڈسٹرکٹ آفیسر اور مچھ جیل کے الیکٹریشن سمیت پانچ افراد جاں بحق اور14زخمی ہوگئے،پولیس کے مطابق منگل کو بسیمہ میں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی گاڑی پر فائرنگ سے این جی او، پی پی ایچ آئی کے ڈسٹرکٹ سپورٹ منیجر قلعہ عبداللہ ،سیف الدین اور ان کا ڈرائیور عزیز احمد جاں بحق اور ایک ساتھی خدائے رام زخمی ہوگیا ،مچھ میں عدالت روڈ پر نامعلوم افرادکی فائرنگ سے سینٹرل جیل مچھ کا ملازم محمد علی جاں بحق ہوگیا ، خضدار میںفائرنگ سے غلام نبی شیخ نامی شخص جاں بحق ہوگیا ۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے ملک میں تشدد کی سیاست اور انتہا پسندی کا لائسنس مل گیا ہے ۔امید کی جانی چاہیے کہ سلامتی پر مامور فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مربوط حکمت عملی اختیار کریں گے ، امریکا بھی افغان جنگ سے دامن چھڑانے کے لیے نئی اسٹریٹجی پر عمل درآمد کی سوچ رہا ہے۔ اوباما کے ماہرین مرحلہ وار فوجوں کی واپسی چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اب جنگی حکمت عملی اور وار آن ٹیرر کے خاتمہ کے لیے ٹرننگ پوائنٹ آگیا ہے۔
ہمارے دفاعی ماہرین اور ارباب اختیار بھی سوچیں کہ دہشت گردی سے جان چھڑانے کے لیے کس طرح کی منصوبہ بندی ناگزیر ہے، دہشت گرد ہمیں الجھائے رکھنا چاہتے ہیں، اب یہ ہماری دانشمندی ہوگی کہ ہم نئے عزم کے ساتھ دہشت گردوں کا ان کی قبر تک پیچھا کریں ۔تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی قومی اعصاب کو مسلسل جھنجھوڑ رہی ہے، خون آشام قوتیں انسانوں کی جانیں لے رہی ہیں اور اب دہشت گردی کے شعلے ملک کے بڑے شہروں تک آپہنچے ہیں ۔ عوام بے چینی سے منتظر ہیں کہ دہشت گردی کے تابوت میں اب آخری کیل ٹھکنے والی ہی ہے جس کے بعد انسانیت سوز واقعات کا تسلسل اپنی موت آپ مر جائے گا مگر افسوس ہے کہ پولیس ،رینجرز اور انٹیلی جنس اداروں کی مسلسل کاوشوں اور ہائی الرٹ اقدامات و انتظامات کے باوجود دہشت گردی کے واقعات رکنے کے بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔ اگرچہ پاک فوج ملک کے مخدوش حصوں میں دہشت گردی سے نبرد آزما ہے ، بلوچستان میں قانون شکنوں کے خلاف کارروائیاں کررہی ہے، فاٹا کے علاقے کی اندوہ ناک صورتحال کو کنٹرول کرنے میں حکومت کی مدد کررہی ہے مگر دہشت گردی ایک عفریت ہے،القاعدہ اور طالبان سمیت کئی کالعدم تنظیموں نے وطن عزیز کو میدان جنگ بنا دیا ہے۔
منگل کو کراچی کے علاقے عائشہ منزل کے قریب موٹرسائیکل میں نصب بم خوفناک دھماکے سے پھٹ گیاجس کے نتیجے میں4افراد جاں بحق اور 50 زخمی ہوگئے ۔ کچھ ہی روز قبل کینٹ اسٹیشن پر بم دھماکا کیا گیا تھا جس میں 7 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہوئے تھے، ستم بالائے ستم یہ کہ کسی واردات اور خوفناک خود کش حملے یا بم دھماکے میں ملوث یا ان کے ماسٹر مائنڈ گرفت میں نہیں آتے، جب کہ بھارت میں ایک طالبہ کی بے حرمتی کی گئی تو سارے ملزمان جیل میں ڈالے گئے،کراچی میں ایک ڈی ایس پی کا جوان بیٹا قتل کیا گیا ،اس کے قاتل مفرور ہیں ۔
ڈی ایس پی دھکے کھا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے جلسے میں بم دھماکا 14 جنوری کو اسلام آباد تک لانگ مارچ کے حوالہ سے طالبان کا الٹی میٹم ہی ہے۔ایک طرف اسلام آباد کو تحریر اسکوائر بنانے کے دعوے ہیں تو دوسری طرف دہشت گرد اپنا طبل جنگ بجا رہے ہیں۔عوام بیچارے کہاں جائیں۔ وزیر داخلہ رحمن ملک یہ تو بتاتے ہیں کہ اتنے بم دہشت گردوں کے پاس ہیں جو وہ ابھی استعمال کریں گے مگر ان کے ٹھکانے کہاں ہیں ،وہ کیسے چل کر اپنے ہدف تک با آسانی آجاتے ہیں،اس راز پر سے پردہ نہیں اٹھاتے ۔ کراچی بلاشبہ لاوارث شہر بن چکا ہے اس لیے طالبان اس میں داخل ہوگئے ۔ ادھر صوابی میں ایک این جی او کی گاڑی پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے چھ خواتین سمیت سات افراد جاں بحق ہوگئے ۔
خیبر پختونخوا کو امن ،صنعتی ترقی، تعلیم ،صحت اور جدید انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے، اسلحہ فیکٹریوں سے تیار شدہ اسلحہ کی بین الصوبائی خریدوفروخت اور غیر قانونی نقل وحمل کی روک تھام ناگزیر ہے ۔ اسلحہ نے امن اور ترقی کی راہیں مسدود کر رکھی ہیں ، کراچی کے ہر تیسرے چوتھے گھر میںاسلحہ کو اب قبائلی شناخت اور روایات کے طور پر رکھنے کا رواج عام ہے۔ کراچی کے علاقے لیاری میں 4 تھانے ہیں مگر دہشت گرد اور بھتہ خور کھلے عام قانون شکنی میں مصروف ہیں۔ وہ خود کو قانون سے بالاترuntouchables سمجھتے ہیں۔رینجرز اور پولیس تماشائی بنی ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں فاٹا کے سیکیورٹی حکام نے سڑک کے کنارے رکھے 70کلو وزنی بم کوناکارہ بنا دیاانتہا پسندوں کا ہدف اور مقصد ہے کہ ملک میں انارکی پیدا کی جائے اور ریاستی انتظام کو تہس نہس کیا جائے۔
یہ ہولناک ہدف ارباب اختیار کے لیے کب لمحہ فکریہ کا درجہ حاصل کرے گا؟ ڈی آئی جی ویسٹ کراچی نے میڈیا کو بتایا کہ کراچی میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات تھے تاہم جلسے میں لوگوں کی بڑی تعداد آئی ہوئی تھی ہم سے جوکوشش ہو سکتی تھی وہ ہم نے پوری کی، ظاہر ہے کسی بے رحم اور سفاک آدمی نے پوری منصوبہ بندی سے دھماکا کیا۔ وہ کسی کی نظر میں نہ آسکا ۔ اسی قسم کی مستعدی اور چوکسی کا مظاہرہ عوام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رکھتے ہیں ۔ خود کش بمبار اور بم دھماکا کرنے والوں کو واردات سے پہلے گرفتار کرنا ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پہلا قدم ہے۔ بعد از مرگ واویلا بہت ہوچکا۔ دوسری جانب پشاور پولیس نے مقامی لوگوں کی اطلاع پر نواحی علاقے سربنداچینی میں تباہی کا بڑا منصوبہ ناکام بنا کر80 کلو بارودی مواد بی ڈی ایس کی مدد سے ناکارہ بنا دیا۔
ادھر کوئٹہ اور اندرون صوبہ ٹارگٹ کلنگ ،فائرنگ اور دستی بم حملے کے واقعات میں این جی او کے ڈسٹرکٹ آفیسر اور مچھ جیل کے الیکٹریشن سمیت پانچ افراد جاں بحق اور14زخمی ہوگئے،پولیس کے مطابق منگل کو بسیمہ میں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی گاڑی پر فائرنگ سے این جی او، پی پی ایچ آئی کے ڈسٹرکٹ سپورٹ منیجر قلعہ عبداللہ ،سیف الدین اور ان کا ڈرائیور عزیز احمد جاں بحق اور ایک ساتھی خدائے رام زخمی ہوگیا ،مچھ میں عدالت روڈ پر نامعلوم افرادکی فائرنگ سے سینٹرل جیل مچھ کا ملازم محمد علی جاں بحق ہوگیا ، خضدار میںفائرنگ سے غلام نبی شیخ نامی شخص جاں بحق ہوگیا ۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ نائن الیون کے بعد سے ملک میں تشدد کی سیاست اور انتہا پسندی کا لائسنس مل گیا ہے ۔امید کی جانی چاہیے کہ سلامتی پر مامور فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مربوط حکمت عملی اختیار کریں گے ، امریکا بھی افغان جنگ سے دامن چھڑانے کے لیے نئی اسٹریٹجی پر عمل درآمد کی سوچ رہا ہے۔ اوباما کے ماہرین مرحلہ وار فوجوں کی واپسی چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اب جنگی حکمت عملی اور وار آن ٹیرر کے خاتمہ کے لیے ٹرننگ پوائنٹ آگیا ہے۔
ہمارے دفاعی ماہرین اور ارباب اختیار بھی سوچیں کہ دہشت گردی سے جان چھڑانے کے لیے کس طرح کی منصوبہ بندی ناگزیر ہے، دہشت گرد ہمیں الجھائے رکھنا چاہتے ہیں، اب یہ ہماری دانشمندی ہوگی کہ ہم نئے عزم کے ساتھ دہشت گردوں کا ان کی قبر تک پیچھا کریں ۔تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔