چھوٹی چھوٹی خوشیاں
ہماری نفسیات کچھ اس طرح کی بن چکی ہے کہ بھارت سے جیت کی خوشی اور ہار کا غم کسی بھی اور ہار جیت سے زیادہ ہوتا ہے۔
ہماری خوشیوں کی عمر کیا ہے! ہمارے دکھ کی بساط کیا ہے
ہم اپنے ہاتھوں میں شمع لے کر ہوا کے رستے پہ چل رہے ہیں
نئے سال کا پہلا دن دھند سے دھند تک کے درمیان ہی کٹ گیا مگر اس کے باوجود لوگوں کے چہروں پر جو ہلکی ہلکی مسکراہٹ کی لہر سی گیس اور بجلی کی آنکھ مچولی کے باوجود قائم ہے تو اس کی وجہ وہ چند چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں جو کرکٹ' ہاکی اور اسنوکر کے میدانوں سے دسمبر کے آخری چند دنوں میں آئی ہیں اور اگرچہ انھی دنوں میں سیاسی محاذ پر بلاول بھٹو زرداری اور ڈاکٹر طاہر القادری (جو اپنے نام کے ساتھ کسی نامعلوم وجہ سے شیخ الاسلام بھی لکھتے اور لکھواتے ہیں) کی رونمائیاں بھی ہوئیں لیکن یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ان نام نہاد انقلابات کو سہہ گئیں ۔
ہاکی پاکستان کا قومی اور کرکٹ عوامی کھیل ہے لیکن عالمی رینکنگ میں ہم ہر دو میدانوں میں جزوی کامیابیوں سے قطع نظر آہستہ آہستہ نہ تو گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے چیمپئن رہے ہیں اور نہ ہی ہمارے عزائم اور کارکردگی ایسی ہے کہ مستقبل قریب میں اس خواب کی کوئی باقاعدہ تعبیری شکل نکل سکے مگر اس کے باوجود ان حالیہ کامیابیوں نے (اسنوکر سمیت) دلوں میں ایک حوصلے کی لہر سی دوڑا دی ہے اور ہمیں یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں اپنے اصل حجم سے زیادہ بڑی دکھائی دے رہی ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے ہر دو صورتوں میں مقابلہ بھارت سے ہی تھا اور ہماری اجتماعی قومی نفسیات کچھ اس طرح کی بن چکی ہے کہ بھارت سے جیت کی خوشی اور ہار کا غم کسی بھی اور ہار جیت سے زیادہ ہوتا ہے۔
ابھی ابھی دہلی سے برادرم عازم گروندر سنگھ کوہلی کا نئے سال کی مبارکباد کا فون آیا تو وہ بھی یہی بات کررہے تھے کہ ان دنوں بھارت میں ان کے کرکٹرز پر بہت سخت وقت آیا ہوا ہے کہ ہار کی شکل میں وہی میڈیا ان کا جینا حرام کردیتا ہے جو دو دن قبل اُن کے قصیدے پڑھ رہا تھا ۔میں نے انھیں بتایا کہ یہ وہ آگ ہے جو دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے کہ یہاں بھی کسی کے ہیرو سے زیرو اور زیرو سے ہیرو بننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ اتنا فرق البتہ ضرور دیکھنے میں آرہا ہے کہ اب فضا اخلاقی اور جمالیاتی حوالوں سے مسلسل بہتر ہو رہی ہے جس کا ایک خوبصورت مظاہرہ پچھلے دنوں پی ٹی وی کے اسپورٹس پروگرام کے دوران کمپیئر محمد علی سانول اور سابق کھلاڑی اور حالیہ تجزیہ کار عامر سہیل نے اس وقت کیا جب وہ عظیم بھارتی کھلاڑی سچن ٹنڈولکر کی ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے موضوع پر بات کررہے تھے۔ دونوں نے ان کیمرہ کھڑے ہوکر اس کی خدمات کو سیلوٹ پیش کیا اور بتایا کہ کس طرح عظیم کھلاڑی اپنی قوم کے ساتھ ساتھ ایک بین الاقوامی سرمایہ اور ورثہ بھی بن جاتے ہیں۔ اتفاق سے میں پہلا ون ڈے براہ راست نہ دیکھ سکا کہ ہمارے علاقے کے کیبل آپریٹر کو بوجوہ یہ منظور نہ تھا مگر 31 دسمبر کی رات اس کی جھلکیاں اس وقت آن ایئر ہوئیں جب کئی ماہ کے وقفے کے بعد ایک نظم بھی مجھ پر اپنا چہرہ کشا کررہی تھی سو نظم کے مصرعے اور کھیل کے منظر بہت دیر تک آپس میں گڈمڈ ہوتے رہے اور یوں مجھے باقی کی ساری رات انھیں سیدھا کرنے میں لگانا پڑی۔ میں چاہتا ہوں کہ نظم کی صورت میں ملنے والی اس خوشی کو بھی آپ کے ساتھ شیئر کروں کہ مجھے یہ نظم جس کا عنوان 2012" کی آخری رات''، ہے کچھ دیر آید، درست آید سی لگ رہی ہے۔
کیا عجب رات ہے یہ
اپنے آیندہ و رفتہ کے خم و پیچ میں گم
سال کی آخری شب
سال کی آخری شب
جس کے ماتھے پہ لکھا رکھا ہے
جاچکے سال کے پل پل کا حساب
بخت خوابیدہ کی ہمراہی میں جاگتی آنکھ کے خواب
کورے کاغذ کی طرح جس کی سحر
اب نئے سال کے ایوان میں حاضر ہوگی
لے کے ایک اور کتاب!
سال کی آخری شب' جس کے قدموں کے تلے
ڈھیر سا ایک لگا جاتا ہے
ان تمنا سے بھرے خوابوں کا
کوئی تعبیر نہ مل پائی جنھیں
نہ کوئی راہ' نہ منزل، نہ کسی بھید کا حل
اور تاحد نظر
جس کی آنکھوں میں کھلے اور مٹے جاتے ہیں
لمحہ لمحہ نئی امید کے' آسوں کے کنول
بھیڑ اتنی ہے ستاروں کی فلک پر' کوئی
ہر قدم کان میں کہتا ہے، ذرا دیکھ کے چل
رات کے وسط میں ٹھہرے ہوئے اس پل کے ادھر
ہر طرف شور ہے اور گونجتے آوازے ہیں
اور اُس پار وہاں
اجنبی شہر ہے کوئی' جس میں
نیم وا کھڑکیاں، رازوں بھرے دروازے ہیں
(2)
اس زمیں پر ہیں کئی شہر کہ جن میں اب تک
اک نئے دن میں بکھرتی ہوئی اس رات کا جسم
ہے ابھی پچھلے برس میں زندہ
اور وہ دوست کہ جو دور بہت دور کہیں
اجنبی دیسوں کے بے مہر در و بام کے بیچ
مجھ سے ایک سال پرے بیٹھے ہیں
کون بتلائے انھیں
وہ اسی طرح ہیں اب تک موجود
میرے دل میں، مری یادوں میں، مرے خوابوں میں!
میں اگر یاد ہوں اب تک ان کو !
تو انھیں میری قسم، میری محبت کی قسم
ایک لمحے کو سہی، پھر سے مجھے یاد کریں
اس برس میں جو ابھی ان کے لیے زندہ ہے
اور کہاں بیت گیا، جا بھی چکا
کیا عجب رات ہے یہ
جس کے آیندہ و رفتہ کے خم و پیچ میں گم
ایسے منظر ہیں جہاں
ایک ہی رنگ کو ہم
کبھی غنچے تو کبھی گل کی طرح دیکھتے ہیں
ایسے لمحے ہیں جنھیں
کبھی دریا تو کبھی پل کی طرح دیکھتے ہیں
ہم اپنے ہاتھوں میں شمع لے کر ہوا کے رستے پہ چل رہے ہیں
نئے سال کا پہلا دن دھند سے دھند تک کے درمیان ہی کٹ گیا مگر اس کے باوجود لوگوں کے چہروں پر جو ہلکی ہلکی مسکراہٹ کی لہر سی گیس اور بجلی کی آنکھ مچولی کے باوجود قائم ہے تو اس کی وجہ وہ چند چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں جو کرکٹ' ہاکی اور اسنوکر کے میدانوں سے دسمبر کے آخری چند دنوں میں آئی ہیں اور اگرچہ انھی دنوں میں سیاسی محاذ پر بلاول بھٹو زرداری اور ڈاکٹر طاہر القادری (جو اپنے نام کے ساتھ کسی نامعلوم وجہ سے شیخ الاسلام بھی لکھتے اور لکھواتے ہیں) کی رونمائیاں بھی ہوئیں لیکن یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ان نام نہاد انقلابات کو سہہ گئیں ۔
ہاکی پاکستان کا قومی اور کرکٹ عوامی کھیل ہے لیکن عالمی رینکنگ میں ہم ہر دو میدانوں میں جزوی کامیابیوں سے قطع نظر آہستہ آہستہ نہ تو گزشتہ تقریباً تین دہائیوں سے چیمپئن رہے ہیں اور نہ ہی ہمارے عزائم اور کارکردگی ایسی ہے کہ مستقبل قریب میں اس خواب کی کوئی باقاعدہ تعبیری شکل نکل سکے مگر اس کے باوجود ان حالیہ کامیابیوں نے (اسنوکر سمیت) دلوں میں ایک حوصلے کی لہر سی دوڑا دی ہے اور ہمیں یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں اپنے اصل حجم سے زیادہ بڑی دکھائی دے رہی ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے ہر دو صورتوں میں مقابلہ بھارت سے ہی تھا اور ہماری اجتماعی قومی نفسیات کچھ اس طرح کی بن چکی ہے کہ بھارت سے جیت کی خوشی اور ہار کا غم کسی بھی اور ہار جیت سے زیادہ ہوتا ہے۔
ابھی ابھی دہلی سے برادرم عازم گروندر سنگھ کوہلی کا نئے سال کی مبارکباد کا فون آیا تو وہ بھی یہی بات کررہے تھے کہ ان دنوں بھارت میں ان کے کرکٹرز پر بہت سخت وقت آیا ہوا ہے کہ ہار کی شکل میں وہی میڈیا ان کا جینا حرام کردیتا ہے جو دو دن قبل اُن کے قصیدے پڑھ رہا تھا ۔میں نے انھیں بتایا کہ یہ وہ آگ ہے جو دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے کہ یہاں بھی کسی کے ہیرو سے زیرو اور زیرو سے ہیرو بننے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ اتنا فرق البتہ ضرور دیکھنے میں آرہا ہے کہ اب فضا اخلاقی اور جمالیاتی حوالوں سے مسلسل بہتر ہو رہی ہے جس کا ایک خوبصورت مظاہرہ پچھلے دنوں پی ٹی وی کے اسپورٹس پروگرام کے دوران کمپیئر محمد علی سانول اور سابق کھلاڑی اور حالیہ تجزیہ کار عامر سہیل نے اس وقت کیا جب وہ عظیم بھارتی کھلاڑی سچن ٹنڈولکر کی ون ڈے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے موضوع پر بات کررہے تھے۔ دونوں نے ان کیمرہ کھڑے ہوکر اس کی خدمات کو سیلوٹ پیش کیا اور بتایا کہ کس طرح عظیم کھلاڑی اپنی قوم کے ساتھ ساتھ ایک بین الاقوامی سرمایہ اور ورثہ بھی بن جاتے ہیں۔ اتفاق سے میں پہلا ون ڈے براہ راست نہ دیکھ سکا کہ ہمارے علاقے کے کیبل آپریٹر کو بوجوہ یہ منظور نہ تھا مگر 31 دسمبر کی رات اس کی جھلکیاں اس وقت آن ایئر ہوئیں جب کئی ماہ کے وقفے کے بعد ایک نظم بھی مجھ پر اپنا چہرہ کشا کررہی تھی سو نظم کے مصرعے اور کھیل کے منظر بہت دیر تک آپس میں گڈمڈ ہوتے رہے اور یوں مجھے باقی کی ساری رات انھیں سیدھا کرنے میں لگانا پڑی۔ میں چاہتا ہوں کہ نظم کی صورت میں ملنے والی اس خوشی کو بھی آپ کے ساتھ شیئر کروں کہ مجھے یہ نظم جس کا عنوان 2012" کی آخری رات''، ہے کچھ دیر آید، درست آید سی لگ رہی ہے۔
کیا عجب رات ہے یہ
اپنے آیندہ و رفتہ کے خم و پیچ میں گم
سال کی آخری شب
سال کی آخری شب
جس کے ماتھے پہ لکھا رکھا ہے
جاچکے سال کے پل پل کا حساب
بخت خوابیدہ کی ہمراہی میں جاگتی آنکھ کے خواب
کورے کاغذ کی طرح جس کی سحر
اب نئے سال کے ایوان میں حاضر ہوگی
لے کے ایک اور کتاب!
سال کی آخری شب' جس کے قدموں کے تلے
ڈھیر سا ایک لگا جاتا ہے
ان تمنا سے بھرے خوابوں کا
کوئی تعبیر نہ مل پائی جنھیں
نہ کوئی راہ' نہ منزل، نہ کسی بھید کا حل
اور تاحد نظر
جس کی آنکھوں میں کھلے اور مٹے جاتے ہیں
لمحہ لمحہ نئی امید کے' آسوں کے کنول
بھیڑ اتنی ہے ستاروں کی فلک پر' کوئی
ہر قدم کان میں کہتا ہے، ذرا دیکھ کے چل
رات کے وسط میں ٹھہرے ہوئے اس پل کے ادھر
ہر طرف شور ہے اور گونجتے آوازے ہیں
اور اُس پار وہاں
اجنبی شہر ہے کوئی' جس میں
نیم وا کھڑکیاں، رازوں بھرے دروازے ہیں
(2)
اس زمیں پر ہیں کئی شہر کہ جن میں اب تک
اک نئے دن میں بکھرتی ہوئی اس رات کا جسم
ہے ابھی پچھلے برس میں زندہ
اور وہ دوست کہ جو دور بہت دور کہیں
اجنبی دیسوں کے بے مہر در و بام کے بیچ
مجھ سے ایک سال پرے بیٹھے ہیں
کون بتلائے انھیں
وہ اسی طرح ہیں اب تک موجود
میرے دل میں، مری یادوں میں، مرے خوابوں میں!
میں اگر یاد ہوں اب تک ان کو !
تو انھیں میری قسم، میری محبت کی قسم
ایک لمحے کو سہی، پھر سے مجھے یاد کریں
اس برس میں جو ابھی ان کے لیے زندہ ہے
اور کہاں بیت گیا، جا بھی چکا
کیا عجب رات ہے یہ
جس کے آیندہ و رفتہ کے خم و پیچ میں گم
ایسے منظر ہیں جہاں
ایک ہی رنگ کو ہم
کبھی غنچے تو کبھی گل کی طرح دیکھتے ہیں
ایسے لمحے ہیں جنھیں
کبھی دریا تو کبھی پل کی طرح دیکھتے ہیں