یہ ڈرامے دکھائیں گے سین کیا
آپ بہت کچھ دیکھنے کے لیے تیار رہیں اور ابھی کئی خطرناک ردعمل دیکھنے ہیں۔ یہ ڈراما دکھائے گا سین کیا ۔
کچھ ہی پہلے وہ دن تھے جب صبح کے اخبار کوئی ایسی خبر نہیں دیتے تھے جس میں ملک کے مستقبل کا کوئی سوال ہو۔ بد امنی دنیا بھر میں ہے اور جس ملک کے پڑوس میں واقع ملک میں امریکا اپنے مغربی اتحادیوں کی فوجوں سمیت برسرپیکار ہو اور کونوں کھدروں میں چھپے طالع آزما بھی تیر وتفنگ لے کر قسمت آزمائی کے لیے میدان میں نکل آئیں ایسے ملک میں بدامنی کسی بھی سطح تک پھیل سکتی ہے۔ لیکن پاکستانیوں نے اس بدامنی کو ہمیشہ عارضی سمجھا کہ یہ مغربی ملکوں کے پیدا کردہ حالات کی وجہ سے ہے جب یہ حالات سدھریں گے جیسا کہ اب آیندہ سال یہ امید کی جا رہی ہے تو پاکستان میں امن کا دور شروع ہو سکتا ہے۔
اس سے قبل اسی ملک میں روسی فوجیں سرگرم رہیں اور انھوں نے ہماری بدامنی کا سامان کیا اگرچہ خود بھی اپنے نام تک سے محروم ہو گیا لیکن ہمیں بہت دکھ دے گیا اور اب پاکستان کے اخبارات ہر روز چیخ چلا کر ہماری بربادی کی خبر دے رہے ہیں۔ ابھی صرف 66 برس گزرے ہیں اور ہم اس بھلے چنگے ملک کو سنبھال کر نہیں رکھ سکے۔ میں ایک پاکستانی اخبار میں پڑھ رہا تھا کہ دو جنوری سنہ 1492 میں ہماری ہسپانیہ کی آخری آبادی غرناطہ ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ سات سو برس بعد ہمارا اقتدار زوال پذیر ہوا اور عیسائی ملکہ ازابیلا اول کی فوجوں نے غرناطہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔
ہماری آج کی نسل کا کوئی جوان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہم نے یورپ کے ایک ملک پر صدیوں تک حکومت کی اور اس میں علم و دانش کے دریا بہا دیے جدید علوم اور فلسفہ کی بنیاد رکھی اور یورپ میں عربی زبان اس لیے پڑھائی جاتی رہی کہ طلبہ عربوں کے ان علمی کارناموں سے آگاہ ہو کر آگے بڑھ سکیں مگر ہم آج صرف 66 برس کی عمر کے اس آزاد ملک کے وجود کو بھی سنبھال نہیں سکے۔ کسی علمی ترقی اور کمال کی بات تو خواب و خیال کی بات ہے ہم دنیا کی ایک بڑی جاہل قوم ہیں۔
ایسی قومی پستی اور زوال بھی دنیا نے کم ہی دیکھا ہے ،کروڑوں انسانوں کی کتنی ہی ناقابل بیان پرجوش آرزوئوں نے اس ملک کو جنم دیا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس ملک کے قیام پر جشن منایا اپنی برادری میں ایک آزاد ملک کے اضافے پر وہ حیرت زدہ رہ گئے کہ یہ تو پہلے سے موجود ہی نہیں تھا اللہ کی زمین پر یہ ملک نہ جانے کہاں سے دریافت کر لیا گیا۔ پاکستان کے مسلمانوں نے بھی اپنے اس ملک کو اللہ تعالیٰ کا ایک انعام اور تحفہ سمجھ کر اس کی خدمت شروع کی لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ دشمن تو آرام سے نہ بیٹھے لیکن ہم سب لمبی تان کر سو گئے کہ سب کچھ خود بخود ہی چلتا رہے گا۔ لیکن آج کے اخبار ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمیں نہ صرف ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا ہوگا مستقبل کے تعمیری منصوبے بھی بنانے ہوں گے ورنہ چھٹی۔
پاکستان کے دو لیڈر جو پورے پاکستانی بھی نہیں اور دونوں غیر مسلم ملکوں کی شہریت کا اعزاز بھی رکھتے ہیں بوریوں میں نوٹ بھر کر لائے ہیں اور پورے ملک میں پھیل کر انھوں نے لاکھوں کو لاہور کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ایک دیہاتی کی بلا جانے کہ طاہر القادری صاحب کون ہیں یا الطاف صاحب کہاں ہیں۔ خود لاہور کے تمام شہری بھی قادری صاحب کو جانتے نہیں ہیں وہ اس شہر کے یکے از علمائے کرام تھے مگر دوسروں سے زیادہ ذہین اور زبردست خواہشات کے مالک چنانچہ وہ باہر کے ایک ملک میں چلے گئے اور پھر کمال یہ کیا کہ اپنی گمنامی کے باوجود ایک سیاسی لیڈر بن کر پورے جاہ و جلال کے ساتھ نمودار ہوئے۔
لوگوں نے ان کے سر پر مفتی اعظم فلسطین کی ٹوپی کی طرز کی ٹوپی دیکھی جو کبھی ترکی کی عثمانی خلافت کے علماء کا لباس ہوا کرتی تھی۔ پاکستانی علماء کے اس نئے لباس کے ساتھ وہ مینار پاکستان کے سائے میں طلوع ہوئے، لوگوں نے حیران کن مجمع دیکھا، ان کی تقریر ملک بھر میں دکھائی اور سنائی گئی۔ اس طرح ملک کا بڑا حصہ ان کی جلسہ گاہ بن گیا اور ان کے سامعین اور حاضرین کی تعداد بھی کئی گنا ہو گئی۔ عرض یہ ہے کہ پاکستان کی کسی بڑی ہی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر یہ نیم پاکستانی بھی اس ملک کے سیاسی قائد اور مستقبل کے حکمران بن کر سامنے آنے کی جرات کرنے لگے اور جو پاکستانی اس شعبدہ بازی کو سمجھ رہے تھے وہ دیکھتے رہ گئے۔ ہماری سیاسی دنیا کے نمایندے یہ سب دیکھ کر دم بخود رہ گئے اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کہیں اور کس ردعمل کا اظہار کریں۔
عمران خان کی زبردست مقبولیت دیکھ کر کہا تھا کہ یہ سب ہماری اشرافیہ کی بدترین حکومت کا ردعمل ہے یہی ردعمل جاری ہے اور اس کا ایک اور نمونہ اور ایک بڑا مظاہرہ اس مقام مینار پاکستان کے میدان میں دکھایا گیا ہے اور اطلاع یہ ہے کہ یہ سلسلہ جاری ہے اور کسی بڑے ہی طمطراق کے ساتھ دارالحکومت پہنچے گا۔ اب ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی شروع ہو گئی ہیں جو ہماری سیاسی زبان میں کبھی نہیں سنی گئیں۔ بہرکیف آپ بہت کچھ دیکھنے کے لیے تیار رہیں اور ابھی کئی خطرناک ردعمل دیکھنے ہیں۔ یہ ڈراما دکھائے گا سین کیا ۔
اس سے قبل اسی ملک میں روسی فوجیں سرگرم رہیں اور انھوں نے ہماری بدامنی کا سامان کیا اگرچہ خود بھی اپنے نام تک سے محروم ہو گیا لیکن ہمیں بہت دکھ دے گیا اور اب پاکستان کے اخبارات ہر روز چیخ چلا کر ہماری بربادی کی خبر دے رہے ہیں۔ ابھی صرف 66 برس گزرے ہیں اور ہم اس بھلے چنگے ملک کو سنبھال کر نہیں رکھ سکے۔ میں ایک پاکستانی اخبار میں پڑھ رہا تھا کہ دو جنوری سنہ 1492 میں ہماری ہسپانیہ کی آخری آبادی غرناطہ ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ سات سو برس بعد ہمارا اقتدار زوال پذیر ہوا اور عیسائی ملکہ ازابیلا اول کی فوجوں نے غرناطہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔
ہماری آج کی نسل کا کوئی جوان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہم نے یورپ کے ایک ملک پر صدیوں تک حکومت کی اور اس میں علم و دانش کے دریا بہا دیے جدید علوم اور فلسفہ کی بنیاد رکھی اور یورپ میں عربی زبان اس لیے پڑھائی جاتی رہی کہ طلبہ عربوں کے ان علمی کارناموں سے آگاہ ہو کر آگے بڑھ سکیں مگر ہم آج صرف 66 برس کی عمر کے اس آزاد ملک کے وجود کو بھی سنبھال نہیں سکے۔ کسی علمی ترقی اور کمال کی بات تو خواب و خیال کی بات ہے ہم دنیا کی ایک بڑی جاہل قوم ہیں۔
ایسی قومی پستی اور زوال بھی دنیا نے کم ہی دیکھا ہے ،کروڑوں انسانوں کی کتنی ہی ناقابل بیان پرجوش آرزوئوں نے اس ملک کو جنم دیا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس ملک کے قیام پر جشن منایا اپنی برادری میں ایک آزاد ملک کے اضافے پر وہ حیرت زدہ رہ گئے کہ یہ تو پہلے سے موجود ہی نہیں تھا اللہ کی زمین پر یہ ملک نہ جانے کہاں سے دریافت کر لیا گیا۔ پاکستان کے مسلمانوں نے بھی اپنے اس ملک کو اللہ تعالیٰ کا ایک انعام اور تحفہ سمجھ کر اس کی خدمت شروع کی لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ دشمن تو آرام سے نہ بیٹھے لیکن ہم سب لمبی تان کر سو گئے کہ سب کچھ خود بخود ہی چلتا رہے گا۔ لیکن آج کے اخبار ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمیں نہ صرف ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا ہوگا مستقبل کے تعمیری منصوبے بھی بنانے ہوں گے ورنہ چھٹی۔
پاکستان کے دو لیڈر جو پورے پاکستانی بھی نہیں اور دونوں غیر مسلم ملکوں کی شہریت کا اعزاز بھی رکھتے ہیں بوریوں میں نوٹ بھر کر لائے ہیں اور پورے ملک میں پھیل کر انھوں نے لاکھوں کو لاہور کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ایک دیہاتی کی بلا جانے کہ طاہر القادری صاحب کون ہیں یا الطاف صاحب کہاں ہیں۔ خود لاہور کے تمام شہری بھی قادری صاحب کو جانتے نہیں ہیں وہ اس شہر کے یکے از علمائے کرام تھے مگر دوسروں سے زیادہ ذہین اور زبردست خواہشات کے مالک چنانچہ وہ باہر کے ایک ملک میں چلے گئے اور پھر کمال یہ کیا کہ اپنی گمنامی کے باوجود ایک سیاسی لیڈر بن کر پورے جاہ و جلال کے ساتھ نمودار ہوئے۔
لوگوں نے ان کے سر پر مفتی اعظم فلسطین کی ٹوپی کی طرز کی ٹوپی دیکھی جو کبھی ترکی کی عثمانی خلافت کے علماء کا لباس ہوا کرتی تھی۔ پاکستانی علماء کے اس نئے لباس کے ساتھ وہ مینار پاکستان کے سائے میں طلوع ہوئے، لوگوں نے حیران کن مجمع دیکھا، ان کی تقریر ملک بھر میں دکھائی اور سنائی گئی۔ اس طرح ملک کا بڑا حصہ ان کی جلسہ گاہ بن گیا اور ان کے سامعین اور حاضرین کی تعداد بھی کئی گنا ہو گئی۔ عرض یہ ہے کہ پاکستان کی کسی بڑی ہی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر یہ نیم پاکستانی بھی اس ملک کے سیاسی قائد اور مستقبل کے حکمران بن کر سامنے آنے کی جرات کرنے لگے اور جو پاکستانی اس شعبدہ بازی کو سمجھ رہے تھے وہ دیکھتے رہ گئے۔ ہماری سیاسی دنیا کے نمایندے یہ سب دیکھ کر دم بخود رہ گئے اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کہیں اور کس ردعمل کا اظہار کریں۔
عمران خان کی زبردست مقبولیت دیکھ کر کہا تھا کہ یہ سب ہماری اشرافیہ کی بدترین حکومت کا ردعمل ہے یہی ردعمل جاری ہے اور اس کا ایک اور نمونہ اور ایک بڑا مظاہرہ اس مقام مینار پاکستان کے میدان میں دکھایا گیا ہے اور اطلاع یہ ہے کہ یہ سلسلہ جاری ہے اور کسی بڑے ہی طمطراق کے ساتھ دارالحکومت پہنچے گا۔ اب ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی شروع ہو گئی ہیں جو ہماری سیاسی زبان میں کبھی نہیں سنی گئیں۔ بہرکیف آپ بہت کچھ دیکھنے کے لیے تیار رہیں اور ابھی کئی خطرناک ردعمل دیکھنے ہیں۔ یہ ڈراما دکھائے گا سین کیا ۔