دال دلیے کی بات کرو
مذہبی جنون کی قدریں تمام مذاہب میں ایک ہی جیسی ہوتی ہیں۔
ہمارے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا سیاسی رہنماؤں کے بیانات اور جوابی بیانات سے بھرے رہتے ہیں، ان میں بیشتر بیانات نان ایشوز پر ہوتے ہیں، اسی طرح احتجاج اور ہڑتالیں بھی، مگر یہ بھی نان ایشوز پر۔ کسی بھی جماعت نے دال دلیہ کے مسئلے پر، بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف یا خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف یا مزدوروں کے کام کے دوران اور بھوک سے ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کیا ہے اور نہ ہڑتال۔ گزشتہ دنوں سسی پلیجو نے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہیں۔ بات درست ہے، مگر طالبان سے بڑھ کر عالمی دہشت گرد امریکی سامراج اور نیٹو ہے۔
اس دہشت گردی کے خلاف نہ بولنا سامراج کی خاموش حمایت کا اظہار ہے۔ مجلس وحدت المسلمین کا ایک مطالبہ چھپا کہ حکومت کالعدم تنظیموں کے خلاف فوجی آپریشن کرے۔ بات درست ہے لیکن کالعدم تنظیموں کے علاوہ جو تنظیمیں کالعدم نہیں ہیں اور جن کے پاس اسلحہ ہے اور ان کی وہ نمائش بھی کرتی ہیں، لوگوں کو قتل کرتی پھرتی ہیں، اور خود مجلس وحدت المسلمین سمیت ساری تنظیموں کے خلاف اگر آپریشن ہو تو مناسب رہے گا۔ گزشتہ دنوں صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان ڈاکٹر عبدالقادر، منور لال اور سیف الدین نے 25 دسمبر کے حوالے سے عیسائیوں میں راشن تقسیم کیا۔
پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ عیسائی بستے ہیں۔ جن میں 90 لاکھ غریب، بے کس، بے بس اور بھوک و افلاس سے دو چار ہیں۔ انھیں صرف ایک دن راشن کی تقسیم کرنے سے غربت میں کوئی کمی نہیں آئے گی ہاں مگر اسمبلی ارکان کی تصویریں ضرور چھپ جائیں گی۔ (ق) لیگ کے علیم عادل شیخ نے کہا ہے کہ قائد اعظم کے فرمودات پر عمل کر رہے ہیں۔ اب ان کی نظروں میں قائد اعظم کے فرمودات کیا ہیں یہ تو مجھے نہیں معلوم، مگر یہ معلوم ہے کہ انھوں نے سیکولر اور سوشلسٹ پاکستان کی بات کی تھی اور برصغیر کی جنگ آزادی کے ہیرو سوشلسٹ بھگت سنگھ کے مقدمے میں دو بار بحیثیت قانون داں عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں لاہور میں ایک چوک کا نام ''بھگت سنگھ'' چوک رکھ دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے فرمایا کہ پاکستان دنیا میں امن کے لیے کردار ادا کرتا رہے گا۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنے ملک میں امن قائم کر لیں جہاں روز درجنوں لوگ قتل ہو رہے ہیں اور افغانستان میں انسانوں کو قتل کرنے کے لیے امریکی کنٹینرز کو راہداری کی سہولت دے رکھی ہے، اسے روک کر پھر دنیا بھر میں امن کی بات کریں تو ایک حد تک سنی جا سکتی ہے۔ فاروق ستار نے کہا کہ اقتدار نہیں پاکستان کو بچانے کی جدوجہد کرنا ہو گی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان یا کوئی اور ملک (ریاست) جبر کا ادارہ ہے اور ریاستی ادارے ہی بنیادی طور پر عوام کا استحصال کرتے ہیں اور دوسری بات اقتدار کی ہے، وہ تو ایم کیو ایم ہمیشہ اقتدار ہی میں رہتی ہے۔ اقتدار کے پانی سے باہر کہاں رہ سکے گی۔ پھر اقتدار کو یوں چیلنج کرنا نہ صرف غیر یقینی بلکہ غیر آئینی بھی ہے۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ تبدیلی بیلٹ باکس سے آئے گی۔ یہ تبدیلی ہم گزشتہ 65 برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ووٹ پڑتے ہیں اور ڈالنے والے بھی 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہوتے، باقی ووٹ فرشتے ڈال جاتے ہیں۔
انتخابات دنیا بھر میں ہو رہے ہیں مگر دنیا بھر میں بھوک، افلاس اور غربت میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، اور امیر، امیر تر ہو رہے ہیں۔ اس لیے انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے اور یہ تبدیلی ریاست کی موجودگی میں ممکن نہیں۔ اس کی بہترین مثال ہے کہ پاکستان میں مسلسل غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور اب 70 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بقول قمر الزماں کائرہ شریف برادران کے صرف برطانیہ میں 500 ملین ڈالر کے بینک بیلنس اور اثاثے موجود ہیں۔ آصف علی زرداری بھی مبینہ طور پر اربوں ڈالر کے مالک ہیں۔
عثمان بلور نے بیان دیا ہے کہ بشیر بلور صوبے میں امن کے لیے شہید ہوئے۔ اب اے این پی کے رہنماؤں کو دہشت گردی کے خلاف بولنے کے ساتھ ساتھ عالمی سامراج، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے استحصال کے خلاف بھی بولنا ہو گا اور یہ مطالبہ کرنا ہو گا کہ نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائے۔ اس لیے بھی کہ امریکی سامراج یہ کام عراق، بحرین، یمن، ہیٹی، ایکواڈور اور کولمبیا میں بھی کر رہا ہے۔ اور وہاں اس کی دہشت گردی کی وجہ سے لاکھوں انسان قتل ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کہتی ہے کہ پاکستان کو بھارت کی منڈی نہیں بنانے دیں گے، یہ بات درست ہے، پاکستان کو بھارت سمیت کسی بھی ملک کی منڈی نہیں بننے دینا چاہیے۔
مگر امریکا، چین، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی منڈی بننے پر دفاع پاکستان کونسل کیوں خاموش ہے؟ ہمارے ملک کا عالمی سامراجیوں میں سب سے زیادہ معاشی استحصال امریکا، برطانیہ، چین اور عرب سرمایہ دار کر رہے ہیں۔ ہماری تجارت کا 80 فیصد امریکا اور برطانیہ سے وابستہ ہے۔ ہندوستان سے ہماری سب سے کم تجارت ہے۔ خبر ملی ہے کہ روس نے بھارت سے 3 ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے۔ روس بھارت کو 71 فوجی ہیلی کاپٹر اور 42 لڑاکا جیٹ طیارے دے گا۔ ادھر اسی ہندوستان میں 34 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں اور صرف تپ دق سے روزانہ 10 ہزار انسان مر رہے ہیں۔ مصر کے جعلی ریفرنڈم پر ایران کی مبارکباد نے ثابت کر دیا کہ ایران بھی آلہ کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔
ایک افریقی ملک سوازی لینڈ (بادشاہت) میں لڑکیوں کے چست کپڑے پہننے پر 6 ماہ قید کرنے کا قانون پاس کیا ہے (جب کہ بادشاہ ننگے پاؤں پھرتا ہے) ۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ وہاں بھی عیسائی طالبان نازل ہو گئے ہیں۔ درحقیقت مذہبی جنون کی قدریں تمام مذاہب میں ایک ہی جیسی ہوتی ہیں۔ کابل میں خاتون افغان اہلکار نے امریکی مشیر کو ہلاک کر دیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ افغان خواتین میں اتنی جرأت اور بہادری ہے کہ وہ غیرملکی حملہ آوروں کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔ نوید قمر فرماتے ہیں کہ امریکا کے ساتھ سیاسی اور عسکری تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں۔
امریکا کے بجائے تعلقات کیوبا، وینزویلا، بولیویا، ایران، شمالی کوریا، بیلاروس، ایکواڈور اور ارجنٹاین سے کیوں نہیں استوار کرتے؟ ایرانی صدر احمدی نژاد کہتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی تیز کرے۔ اگر ایرانی حکومت سامراج مخالف ہے تو اسے یہ بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائیں اس لیے کہ وہ دنیا بھر میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ اور اسے پاکستان سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ امریکی آلہ کاروں اور ایجنٹوں کو پاکستان سے نکال باہر کرے۔
جماعت اسلامی پر الزام ہے کہ اس نے جنرل یحییٰ رجمنٹ کے ساتھ مل کر بنگالیوں کا قتل عام کیا اور اب وہ بنگلہ دیش کی عدالت کو یہ باور کروا رہی ہے کہ اس نے ایسا نہیں کیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے سزائے موت کے خاتمے کو خلاف شریعت قرار دیا ہے۔ دنیا کے 100 ملکوں میں سزائے موت نہیں ہے جن میں یورپ کے تقریباً سبھی ممالک شامل ہیں۔ جب کہ 100 ملکوں میں سزائے موت ہے۔ ان میں امریکا، چین، بھارت، عرب باشاہتیں، سوازی لینڈ، افغانستان، ایران اور بھوٹان (بادشاہ) شامل ہیں۔ جہاں سزائے موت نہیں ہے وہاں کرپشن اور قتل کم ہے اور جہاں سزائے موت ہے وہاں قتل و غارت گری زیادہ ہے۔ ان میں سب سے زیادہ قتل پاکستان، افغانستان، عراق، کولمبیا، امریکا، چین، ایران اور سعودی عرب میں ہوتا ہے۔
شفقت شیرازی نے بیان دیا ہے کہ جاگیردار غریب کو غلام سمجھتے ہیں۔ انھوں نے بات تو درست کی ہے اس لیے بھی کہ انتخابات قریب آ رہے ہیں۔ مگر وہ خود ایک جاگیردار ہیں اور کیا وہ غریب کسان کے ساتھ بیٹھ کر ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں؟ ایم کیو ایم کے رہنما محمد شریف نے بیان دیا ہے کہ ملکی بقا کو جاگیردارانہ نظام سے خطرہ ہے تو کیا اس خطرے کو مسلسل برداشت کرتے ہوئے اسفند یار ولی اور نواز شریف کے ساتھ کیسے گزارا کرتے آ رہے ہیں؟ ضلع نواب شاہ کی زیادہ زمین صدر زرداری کے پاس ہے اور قصور کی بیشتر زمین نواز شریف کے پاس ہے اور اسفند یار ولی باغ میں رہتے ہیں جن کی زیادہ زمین چارسدہ میں ہے۔
جاگیرداری کے خاتمے کے لیے جاگیرداروں کے چھتر سایہ سے نکلنا ہو گا۔ اورکزئی میں کوئلے کی کان میں گیس بھر جانے سے 7 مزدور لاچارگی اور بے کسی میں شہید ہوئے۔ اس واقعے پر سارے لیڈران کیوں خاموش ہیں؟ اس سے پہلے لاہور، ڈھاکا اور کراچی میں سیکڑوں مزدور آگ میں جھلس کر ہلاک ہوئے، ان سب کا انتقام ریاست کے بجائے غیر طبقاتی پنچایتی نظام کے قیام میں مضمر ہے۔ جہاں دنیا کی ساری دولت سارے لوگوں کی ہو گی۔ کوئی بھوکا نہ ہو گا اور بیماری سے لاعلاج رہے گا۔ ایک آسمان تلے ایک خاندان ہو گا، نہ کوئی طبقہ، صرف انسانی برادری ہو گی۔