آزادی اور آوارگی
جب مرد، عورت اور قانون اپنے اپنے مقام پر ہوں گے تو پھر خواتین کی بے حرمتی کے واقعات کم سے کم ہوں گے
نئی دہلی کی نوجوان لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، پورے بھارت میں ہنگامہ مچ گیا، لڑکی کو علاج کے لیے سنگاپور بھیجا گیا، بیچاری کی نہ عزت بچ سکی اور نہ جان۔ 23 سالہ طالبہ کی موت کو قومی سانحہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ہزاروں خواتین اور لاکھوں لوگ سڑکوں پر آ گئے، اس سے قبل بھارت اور سعودی عرب میں طالبات کے جینز اور ٹی شرٹ پہن کر کالجوں میں آنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ انڈیا کے گرلز کالجز میں لباس کی پابندی کی خلاف ورزی پر سو روپے جرمانہ عائد کیا جاتا۔ عورت کی عزت بچانے کا کیا فارمولا ہے؟ یہ نکتہ ہے آج کے اس کالم کا۔ آزادی کب اپنی حد سے نکل کر آوارگی کا روپ دھار لیتی ہے؟
مرد اور عورت کے تعلقات کی بنیاد پر یہ دنیا کھڑی ہے۔ اس میں احترام اور توازن ہو تو کسی کو شکایت نہ ہو۔ مرد کا عورت سے رویہ کیا ہونا چاہیے؟ عورت کو کس طرح گھر سے باہر آنا چاہیے، یہ ہیں وہ سوالات جن کی بنیاد پر معاشرے پرسکون یا بے چین ہوتے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے ہمیں ہیجان انگیز معاشرے چاہئیں یا اطمینان بخش؟ آزادی کے نام پر آوارگی چاہیے یا پابندیوں میں راحت ہمیں قبول ہے؟
منی اسکرٹ اور خیمہ نما برقعہ۔ یہ دو اصطلاحیں مغرب کی آزادی اور افغان معاشرے کی پابندی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان کے درمیان توازن کی کیفیت کہاں ہے؟ یہ ہمیں پاکستان، ایران، ترکی اور مصر کے معاشروں میں اکّا دکّا نظر آتی ہیں، اگر ہم مغرب کی نقالی نہ کریں، ہمارے معاشرے مغرب و جدیدیت میں فرق کریں تو ایسے واقعات نہ ہوں، خواتین کی بے حرمتی کے پے درپے واقعات ہونے لگے ہیں، بھارتی معاشرے میں کہ وہ بغیر سوچے سمجھے مغرب کی نقالی کرنے لگے ہیں۔طالبہ اور اس کی ساتھی کو نیم بے ہوشی کی حالت میں ایئرپورٹ کے پل کے قریب پھینک دیا گیا۔ چھ ملزمان کو دہلی کی تہار جیل میں سخت حفاظت میں رکھا گیا ہے، پہلے ان پر بے حرمتی کا مقدمہ بنایا گیا تھا پھر لڑکی کے انتقال کرجانے پر قتل کا مقدمہ بھی قائم کیا گیا ہے۔
یہ اجتماعی بے حرمتی کا پہلا واقعہ تو نہیں کہ دہلی والے باہر نکل آئے ہیں۔ اگر اعداد و شمار دیکھے جائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اب بھارتی لڑکیوں کا مزاج اپنی ساتھیوں کی بے عزتی پر پھٹ پڑا ہے۔ وہ لڑکوں اور مردوں کی زیادتی پر آپے سے باہر ہو گئی ہیں۔ انھیں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ برداشت کا مظاہرہ کر چکی ہیں۔ اس ایک واقعے نے بھارتی معاشرے کی وحشت کو دنیا کے سامنے ظاہر کر دیا ہے۔ اب ان کے دانشوروں کو سوچنا چاہیے کہ مغرب کی نقالی میں انھیں کس حد تک جانا ہے۔ ہندوستانی لڑکیوں کے جدید نیم عریاں لباس، فلمی اداکاراؤں کی سی ڈریسنگ Dressing عام سی بات ہے۔ بسوں و ٹرینوں میں لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ روز مرہ کا معمول ہے۔ اب ایک طالبہ پر زیادتی کے بعد اس کی موت نے بھارتی ناریوں کو اس کے لیے شمعیں روشن کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آئیے پہلے بھارت میں لڑکیوں پر ہونے والے مظالم کے اعداد و شمار اور اس کے بعد اس روشنی کی جانب جو صرف شمع ہی روشن نہیں کرتی بلکہ دماغ کو بھی منور کر جاتی ہے۔ شرط صرف ایک ہے ہمیں آزادی اور آوارگی میں فرق کو سامنے رکھنا ہو گا۔
635 ریپ کے مقدمات صرف ایک سال میں، یہ دہلی کا ریکارڈ ہے یعنی ہر چودہ گھنٹے بعد ایک زیادتی۔ اگر پورے بھارت کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو یہ ہر بائیس منٹ میں ایک واقعہ بنتا ہے۔ جتنی دیر میں آپ دو کالم پڑھیں گے اتنی دیر میں ایک بھارتی دوشیزہ اپنے ہم وطن درندے کی درندگی کا شکار ہو چکی ہو گی۔ جب ایسے ہی ریکارڈ یورپ اور امریکا کے پیش کیے جاتے ہیں تو ہمارے ملک کی ''حقوق نسواں'' کی علمبردار اس کی تردید کرنے کو آگے آ جاتی ہیں۔ ان کی دلیل ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے لیکن رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ ہم بھی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے بھارتی و مغربی معاشروں کی نقل کرنے لگے ہیں۔ ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کے متلاشی ہیں لیکن ابھی اس مقام تک نہیں پہنچے۔ ہم اچھل اچھل کر بھارت اور پھر امریکا کے ریکارڈ حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن کچھ مشرقی اور کچھ اسلامی روایات رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ یہ ہے وہ سبب کہ تمام تر معاشرتی خرابیوں اور اکّا دکّا واقعات کے باوجود ہمارا سماجی معاشرہ بڑی حد تک ان برائیوں سے بچا ہوا ہے جس سے بھارتی ناری اور گوری میڈم کو سامنا ہے۔ہندوستانی ناری اور مغربی میم کیوں اپنے پڑوسیوں، ساتھی طلبا اور ساتھ کام کرنیوالے مردوں کی ہوس کا شکار ہے؟ دونوں طرف کچھ نہ کچھ غلطی ہے۔ مرد و عورت کی غلطی اور قانون کی غلطی۔ جب قانون مرد اور عورت کی نفسیات کو نہیں سمجھتا تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو ہم ان دونوں مقامات پر دیکھتے ہیں۔ مرد کی ''بدمعاش'' فطرت کو جکڑنے کی پہلی زنجیر مقدس رشتے ہیں۔ فطرت اسے بیٹی کا باپ، ماں کا بیٹا، بہن کا بھائی اور بیوی کا شوہر بنا کر جکڑ لیتی ہے۔ اب دنیا بھر کی عورتیں تو اس کی ماں، بہن، بیٹی نہیں ہو سکتیں۔ دوسری جکڑ بندی قانون کی ہوتی ہے۔ جب وہ کسی غیر عورت کو دیکھے تو اس کی بہتر تربیت ہو یا اندر کا شیطان، اسے قانون سے خوف دلا دے۔ مرد کی طرح وہ جکڑ بندیاں عورت پر بھی ہیں۔ پہلی یہ کہ مہذب معاشرہ اسے غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نکلنے سے روکتا ہے۔ جب ضرورتاً باہر نکلنے کی اجازت دیتا ہے تو مناسب لباس میں۔ اگر مرد اور عورت ان دو پابندیوں کو قبول نہ کریں تو پھر ایسے مظاہرے ہوتے ہیں اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ بے حرمتی کا شکار ہونے والی لڑکیوں کے مجرموں کو گرفتار کر کے سزا دی جائے، لڑکیاں اداس آنکھوں سے شمعیں روشن کرتی ہیں۔
کیا ہو رہا ہے؟ عورت کھلے بال اور نامناسب لباس کے ساتھ بازار میں آتی ہے، مخصوص محفلیں سجائی جاتی ہیں، مرد باس لیڈی سیکریٹری رکھتے ہیں، ایئرلائنز میں خوشحال مہمانوں کو خوش کرنے کے لیے خوبصورت، جوان اور اسمارٹ لڑکیوں کو میزبان بنایا جاتا ہے۔ حسن کے مقابلے سجائے جاتے ہیں، فلموں اور ڈراموں میں عورت کو شمع محفل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی نقل کچے ذہن کی لڑکیاں کرتی ہیں۔ مغربی و بھارتی معاشروں میں عورت کم سے کم، چست سے چست اور باریک سے باریک لباس زیب تن کیے ہوئے ہوتی ہیں۔ یوں دنیا کا کون سا قانون اور معاشرہ مرد کی ''بدطینت'' فطرت کو جکڑ سکتا ہے؟ حفیظ جالندھری نے اس کی منظر کشی یوں کی تھی:
حسین جلوہ ریز ہوں' ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطربیز ہوں' تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
یوں ایک طرف بیماری کے جراثیم پھیلائے جاتے ہیں اور دوسری طرف مرض کا رونا رویا جاتا ہے۔ کیا ہونا چاہیے؟ عورت اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرے، اونچے سے اونچے مقام تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ بنے، یہ سب کچھ مہذب لباس اور شائستہ انداز میں ہو، یہاں ایک پابندی عورت پر ہے تو یوں ایک پابندی مرد پر بھی ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھے، غیر عورت سے بات کرنے کی ضرورت پیش آ جائے تو نگاہوں میں حیا ہو، تمام احتیاطوں کے باوجود جب کوئی ''بدفطرت مرد'' باز نہ آئے اور کسی بھی انداز میں خواتین کی بے حرمتی پر آمادہ ہو تو ایسے درندہ صفت مرد کو قانون کی جکڑ بندیوں میں جکڑ دیا جائے۔ بھنورے نما مردوں کی چمڑی ادھیڑ دی جائے اور اسے کم سے کم وقت میں سزا دے کر عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ اگر عورت شمع محفل نہ بنے تو مردانگی دکھانے والے مردوں کی چیخیں سنائی دیں نہ کہ عورت کی فریاد کی چیخیں۔
جب مرد، عورت اور قانون اپنے اپنے مقام پر ہوں گے تو پھر خواتین کی بے حرمتی کے واقعات کم سے کم ہوں گے، ہر بائیس منٹ میں ایک عورت بے حرمت نہ ہو گی، اگر ہم محرم و نامحرم کا خیال رکھیں۔ زیادتی کے واقعات نہ ہوں گے، اگر مخلوط محفلیں نہ سجائیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ اس فرق کو سمجھے کہ کیا ہے آزادی اور آوارگی؟
مرد اور عورت کے تعلقات کی بنیاد پر یہ دنیا کھڑی ہے۔ اس میں احترام اور توازن ہو تو کسی کو شکایت نہ ہو۔ مرد کا عورت سے رویہ کیا ہونا چاہیے؟ عورت کو کس طرح گھر سے باہر آنا چاہیے، یہ ہیں وہ سوالات جن کی بنیاد پر معاشرے پرسکون یا بے چین ہوتے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے ہمیں ہیجان انگیز معاشرے چاہئیں یا اطمینان بخش؟ آزادی کے نام پر آوارگی چاہیے یا پابندیوں میں راحت ہمیں قبول ہے؟
منی اسکرٹ اور خیمہ نما برقعہ۔ یہ دو اصطلاحیں مغرب کی آزادی اور افغان معاشرے کی پابندی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان کے درمیان توازن کی کیفیت کہاں ہے؟ یہ ہمیں پاکستان، ایران، ترکی اور مصر کے معاشروں میں اکّا دکّا نظر آتی ہیں، اگر ہم مغرب کی نقالی نہ کریں، ہمارے معاشرے مغرب و جدیدیت میں فرق کریں تو ایسے واقعات نہ ہوں، خواتین کی بے حرمتی کے پے درپے واقعات ہونے لگے ہیں، بھارتی معاشرے میں کہ وہ بغیر سوچے سمجھے مغرب کی نقالی کرنے لگے ہیں۔طالبہ اور اس کی ساتھی کو نیم بے ہوشی کی حالت میں ایئرپورٹ کے پل کے قریب پھینک دیا گیا۔ چھ ملزمان کو دہلی کی تہار جیل میں سخت حفاظت میں رکھا گیا ہے، پہلے ان پر بے حرمتی کا مقدمہ بنایا گیا تھا پھر لڑکی کے انتقال کرجانے پر قتل کا مقدمہ بھی قائم کیا گیا ہے۔
یہ اجتماعی بے حرمتی کا پہلا واقعہ تو نہیں کہ دہلی والے باہر نکل آئے ہیں۔ اگر اعداد و شمار دیکھے جائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اب بھارتی لڑکیوں کا مزاج اپنی ساتھیوں کی بے عزتی پر پھٹ پڑا ہے۔ وہ لڑکوں اور مردوں کی زیادتی پر آپے سے باہر ہو گئی ہیں۔ انھیں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ برداشت کا مظاہرہ کر چکی ہیں۔ اس ایک واقعے نے بھارتی معاشرے کی وحشت کو دنیا کے سامنے ظاہر کر دیا ہے۔ اب ان کے دانشوروں کو سوچنا چاہیے کہ مغرب کی نقالی میں انھیں کس حد تک جانا ہے۔ ہندوستانی لڑکیوں کے جدید نیم عریاں لباس، فلمی اداکاراؤں کی سی ڈریسنگ Dressing عام سی بات ہے۔ بسوں و ٹرینوں میں لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ روز مرہ کا معمول ہے۔ اب ایک طالبہ پر زیادتی کے بعد اس کی موت نے بھارتی ناریوں کو اس کے لیے شمعیں روشن کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ آئیے پہلے بھارت میں لڑکیوں پر ہونے والے مظالم کے اعداد و شمار اور اس کے بعد اس روشنی کی جانب جو صرف شمع ہی روشن نہیں کرتی بلکہ دماغ کو بھی منور کر جاتی ہے۔ شرط صرف ایک ہے ہمیں آزادی اور آوارگی میں فرق کو سامنے رکھنا ہو گا۔
635 ریپ کے مقدمات صرف ایک سال میں، یہ دہلی کا ریکارڈ ہے یعنی ہر چودہ گھنٹے بعد ایک زیادتی۔ اگر پورے بھارت کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو یہ ہر بائیس منٹ میں ایک واقعہ بنتا ہے۔ جتنی دیر میں آپ دو کالم پڑھیں گے اتنی دیر میں ایک بھارتی دوشیزہ اپنے ہم وطن درندے کی درندگی کا شکار ہو چکی ہو گی۔ جب ایسے ہی ریکارڈ یورپ اور امریکا کے پیش کیے جاتے ہیں تو ہمارے ملک کی ''حقوق نسواں'' کی علمبردار اس کی تردید کرنے کو آگے آ جاتی ہیں۔ ان کی دلیل ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے لیکن رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ ہم بھی فلموں اور ڈراموں کے ذریعے بھارتی و مغربی معاشروں کی نقل کرنے لگے ہیں۔ ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کے متلاشی ہیں لیکن ابھی اس مقام تک نہیں پہنچے۔ ہم اچھل اچھل کر بھارت اور پھر امریکا کے ریکارڈ حاصل کرنا چاہتے ہیں، لیکن کچھ مشرقی اور کچھ اسلامی روایات رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ یہ ہے وہ سبب کہ تمام تر معاشرتی خرابیوں اور اکّا دکّا واقعات کے باوجود ہمارا سماجی معاشرہ بڑی حد تک ان برائیوں سے بچا ہوا ہے جس سے بھارتی ناری اور گوری میڈم کو سامنا ہے۔ہندوستانی ناری اور مغربی میم کیوں اپنے پڑوسیوں، ساتھی طلبا اور ساتھ کام کرنیوالے مردوں کی ہوس کا شکار ہے؟ دونوں طرف کچھ نہ کچھ غلطی ہے۔ مرد و عورت کی غلطی اور قانون کی غلطی۔ جب قانون مرد اور عورت کی نفسیات کو نہیں سمجھتا تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو ہم ان دونوں مقامات پر دیکھتے ہیں۔ مرد کی ''بدمعاش'' فطرت کو جکڑنے کی پہلی زنجیر مقدس رشتے ہیں۔ فطرت اسے بیٹی کا باپ، ماں کا بیٹا، بہن کا بھائی اور بیوی کا شوہر بنا کر جکڑ لیتی ہے۔ اب دنیا بھر کی عورتیں تو اس کی ماں، بہن، بیٹی نہیں ہو سکتیں۔ دوسری جکڑ بندی قانون کی ہوتی ہے۔ جب وہ کسی غیر عورت کو دیکھے تو اس کی بہتر تربیت ہو یا اندر کا شیطان، اسے قانون سے خوف دلا دے۔ مرد کی طرح وہ جکڑ بندیاں عورت پر بھی ہیں۔ پہلی یہ کہ مہذب معاشرہ اسے غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نکلنے سے روکتا ہے۔ جب ضرورتاً باہر نکلنے کی اجازت دیتا ہے تو مناسب لباس میں۔ اگر مرد اور عورت ان دو پابندیوں کو قبول نہ کریں تو پھر ایسے مظاہرے ہوتے ہیں اور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ بے حرمتی کا شکار ہونے والی لڑکیوں کے مجرموں کو گرفتار کر کے سزا دی جائے، لڑکیاں اداس آنکھوں سے شمعیں روشن کرتی ہیں۔
کیا ہو رہا ہے؟ عورت کھلے بال اور نامناسب لباس کے ساتھ بازار میں آتی ہے، مخصوص محفلیں سجائی جاتی ہیں، مرد باس لیڈی سیکریٹری رکھتے ہیں، ایئرلائنز میں خوشحال مہمانوں کو خوش کرنے کے لیے خوبصورت، جوان اور اسمارٹ لڑکیوں کو میزبان بنایا جاتا ہے۔ حسن کے مقابلے سجائے جاتے ہیں، فلموں اور ڈراموں میں عورت کو شمع محفل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی نقل کچے ذہن کی لڑکیاں کرتی ہیں۔ مغربی و بھارتی معاشروں میں عورت کم سے کم، چست سے چست اور باریک سے باریک لباس زیب تن کیے ہوئے ہوتی ہیں۔ یوں دنیا کا کون سا قانون اور معاشرہ مرد کی ''بدطینت'' فطرت کو جکڑ سکتا ہے؟ حفیظ جالندھری نے اس کی منظر کشی یوں کی تھی:
حسین جلوہ ریز ہوں' ادائیں فتنہ خیز ہوں
ہوائیں عطربیز ہوں' تو شوق کیوں نہ تیز ہوں
یوں ایک طرف بیماری کے جراثیم پھیلائے جاتے ہیں اور دوسری طرف مرض کا رونا رویا جاتا ہے۔ کیا ہونا چاہیے؟ عورت اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرے، اونچے سے اونچے مقام تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ بنے، یہ سب کچھ مہذب لباس اور شائستہ انداز میں ہو، یہاں ایک پابندی عورت پر ہے تو یوں ایک پابندی مرد پر بھی ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھے، غیر عورت سے بات کرنے کی ضرورت پیش آ جائے تو نگاہوں میں حیا ہو، تمام احتیاطوں کے باوجود جب کوئی ''بدفطرت مرد'' باز نہ آئے اور کسی بھی انداز میں خواتین کی بے حرمتی پر آمادہ ہو تو ایسے درندہ صفت مرد کو قانون کی جکڑ بندیوں میں جکڑ دیا جائے۔ بھنورے نما مردوں کی چمڑی ادھیڑ دی جائے اور اسے کم سے کم وقت میں سزا دے کر عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ اگر عورت شمع محفل نہ بنے تو مردانگی دکھانے والے مردوں کی چیخیں سنائی دیں نہ کہ عورت کی فریاد کی چیخیں۔
جب مرد، عورت اور قانون اپنے اپنے مقام پر ہوں گے تو پھر خواتین کی بے حرمتی کے واقعات کم سے کم ہوں گے، ہر بائیس منٹ میں ایک عورت بے حرمت نہ ہو گی، اگر ہم محرم و نامحرم کا خیال رکھیں۔ زیادتی کے واقعات نہ ہوں گے، اگر مخلوط محفلیں نہ سجائیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ اس فرق کو سمجھے کہ کیا ہے آزادی اور آوارگی؟