بشیر بلور کا خون رائیگا ں نہ جائے
کچھ لوگ دہشت گردی کے بارے میں کنفیوژن پھیلا رہے ہیں اور مذہب کی طرف جھکائو رکھنے والوں کے ووٹ پر نظر رکھے ہوئے ہیں
پچھلے دنوں دہشت گردوں نے اے این پی کے ایک نڈر، بے باک اور بہادر رہنما بشیر بلور کو ایک خودکش بم دھماکے میں شہید کر دیا (اللہ تعالیٰ ان کو غریقِ رحمت کریں)۔ موت کا یہ وحشیانہ رقص پچھلے کئی برسوں سے اسلام کے مقدس نام پر جاری ہے اس جنگ میں عوام اور سیکیورٹی اداروں کے علاوہ جو سیاسی پارٹی سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے وہ عوامی نیشنل پارٹی ہے، اس پارٹی نے اب تک چھ ہزار سے زائد کارکن اور ہمدردوں کے سروں کا نذرانہ پیش کیا ہے جس میں میاں افتخار حسین کا جوان سال بیٹا، ا فضل خان لالا کے گھرانے کے افراد اور سوات و پشاور کے ایم پی ایز بھی شامل ہیں۔
ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مرکزی اور صوبائی حکومتوں دونوں نے کوئی جامع، مربوط، واضح اور Proactive پالیسی نہیں بنائی جس پر اپنی ساری توجہ مرکوز کر کے عمل کیا جاتا، اس کے بجائے ردعمل کا اظہار کر کے کچھ کیا جاتا رہا ہے یا اپنے آپ کو بچانے کی خاطر پوری توانائیاں خرچ کی جاتی رہی ہیں۔ اپنے اسی ڈھلمل رویے کی وجہ سے کبھی سمجھوتے کیے جاتے اور کبھی لڑنے کی باتیں کرتے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مذاکرات کے ساتھ جہاں کئی آپریشن ہونے چاہیں وہاں بندوبستی (صوبائی) علاقہ ہو یا قبائلی، ان علاقوں سے بے گھر ہونے والے افراد کی دلجوئی کی جاتی، انھیں ہنگامی بنیادوں پر امداد دی جاتی، جلد سے جلد انھیں واپس اپنے علاقوں میں نئے سرے سے آباد کیا جاتا اور پھر سول انتظامیہ اس علاقے کو پوری طرح سنبھال لیتی۔
کیونکہ فوج کو مستقل کسی بھی علاقے میں رکھنا ہر حوالے سے نقصان دہ ہوا کرتا ہے البتہ اس سے بوقت ضرورت کام لیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مرکزی اور صوبائی دونوں سطح پر ایسی قانون سازی کی جاتی جس سے گرفتار دہشت گردوں کو جلد اور سخت ترین سزائیں دی جاتیں۔ جب کہ یہاں پر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ پہلے تو آپریشن بہت کم وقت کے نوٹس پر کیے جاتے ہیں اس کے بعد انھیں آباد کرنے، ان کی امداد کرنے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے انھیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ طالبان کی مخالفت کے ساتھ وہ حکومت سے بھی شاکی ہیں جب کہ ایسی جنگیں دوسرے اقدامات کے ساتھ جیسا کہ عوامی حمایت، سخت ترین قانون سازی، دہشت گردوں کو عبرت ناک سزائیں، لاجسٹک سپورٹ اور مضبوط انٹیلی جنس نیٹ ورک کے ساتھ جیتی جاتی ہیں۔
یہاں پر تو حالت یہ ہے کہ افتادگان خاک کے مارے جانے کی صورت میں ان کا ذکر تک نہیں ہوتا، ایسا بھی ہوا ہے کہ رہنمائوں کو بچانے کی خاطر جن افراد نے اپنی جانیں نچھاور کیں وہی رہنما ان کی فاتحہ پڑھنے ان کے گھروں تک نہیں گئے جب کہ ایسی جنگیں عوام کی بھر پور مدد اور وسیع تر حمایت کے بغیر جیتنا ممکن نہیں اور نہ ہی حفاظت کے نام پر بینکرز میں بیٹھ کر یا ملک سے باہر جا کر جیتی جا سکتی ہیں۔ اس سے ہمارا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہمارے رہنمایانِ قوم کو حفاظتی تدابیر اختیار نہیں کرنی چاہیئں بلکہ جہاں تک ممکن ہو حفاظتی اقدامات کرنے چاہیئں لیکن عوام میں بیٹھ کر، عوام کے درمیان اور ان کو حوصلہ دے کر، بھلے وہ بلٹ پروف جیکٹ پہن کر، بلٹ پروف گاڑیوں کا استعمال کر کے، بلٹ پروف شیشوں کے پیچھے سے لوگوں سے خطاب کریں، واک تھرو گیٹس جیسے اقدامات اور غیر ضروری جگہوں پر جانے سے اجتناب وغیرہ سے کوئی بھی ذی شعور اختلاف نہیں کر سکتا۔ لیکن اسکرین سے سیکیورٹی کے نام پر غائب ہونا میدان چھوڑنے کے مترادف ہے۔ سیاست میں رسک لینا پڑتا ہے جیسے فلپائن کے اکینونے مارکوس نے دھمکیوں کے باوجود رسک لیا اسے منیلا ائیرپورٹ ہی پر گولی مار دی گئی۔ بے نظیر بھٹو شہید کو دھمکیاں دی جاتی تھیں لیکن انھوں نے اس کی پرواہ نہیں کی اسطرح کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ پشتو کا ایک شعر ہے
دلتہ دم او قدم دواڑہ پہ حساب دی
پل غلط دَلاریی مژدہ بے حسابہ
ترجمہ ! یہاں سانس اور قدموں دونوں کا حساب رکھا جاتا ہے لہٰذا سوچے سمجھے بغیر قدم نہیں اٹھانا۔ اسی شعر کے مصداق ہم مانتے ہیں کہ احتیاط ملحوظِ خاطر رہے لیکن اگر سیاست کرنا ہی ہے تو آفتاب شیرپائو، مولانا فضل الرحمٰن، امیر مقام وغیرہ کی طرح (جو اسی خیبر پختونخوا میں خودکش دھماکوں کا سامنا کرنے کے باوجود رسک لے کر سیاست کر رہے ہیں) میدان میں آنا پڑے گا۔ لیکن بدقسمتی سے اے این پی کی حد تک چند رہنمائوں نے یہ فرض پورا کیا ہے جن میں افضل خان لالا، بشیر بلور، میاں افتخار حسین، لطیف آفریدی ایڈوکیٹ اور حاجی عدیل شامل ہیں، ان لوگوں نے اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے، لطیف لالا اور حاجی عدیل اب تک محفوظ ہیں (اللہ تعالیٰ انھیں اوروں کے ساتھ اپنے امان میں رکھیں)۔ سوات میں جب آپریشن زوروں پر تھا تو یہ افضل خان لالا تھے جو ڈٹ کر ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے لوگوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے جب کہ باقی قیادت ساتھ دینے کے برعکس افضل خان لالا پر دبائو ڈالتی رہی کہ سوات سے ہجرت کریں۔ بشیر بلور کی شہادت سے اے این پی کی باقی قیادت کو بھی رسک لے کر میدان میں آنا پڑے گا تب ہی دوسرے اقدامات کے ساتھ دہشت گردوں کو شکست دی جا سکے گی۔
کچھ لوگ اس دہشت گردی کے بارے میں کنفیوژن پھیلا رہے ہیں اور مذہب کی طرف جھکائو رکھنے والوں کے ووٹ پر نظر رکھے ہوئے ہیں کبھی اسے ڈرون سے (ڈرون حملوں کے ہم بھی سخت مخالف ہیں) اور کبھی اسے افغان طالبان سے گڈمڈ کرنے کی کوشش کرتے ہیں افغان صورتحال اور ڈرون حملوں کے اثرات اپنی جگہ پر لیکن ملا عمر کا فتویٰ ریکارڈ پر ہے جس میں انھوں نے پاکستان میں مسلح جدوجہد اور خودکش حملوں کی مخالفت کی تھی۔ اس کے علاوہ افغان طالبان کے پاکستانی طالبان کی حمایت میں کسی ایک بیان کی نشاندہی بھی نہیں کی جا سکتی، دوسرا یہ کہ افغان طالبان کا ایک واضح ایجنڈا ہے اپنے ملک سے غیر ملکی فورسز کا نکالنا، چاہے آپ اس سے اختلاف کریں یا اتفاق۔
جب کہ ہمارے طالبان سوائے دہشت پھیلانے کے اور کچھ نہیں کر رہے، علاوہ ازیں ملا عمر سے بہت پہلے صوفی محمد تحریک نفاذِ شریعت کی آڑ میں سوات اور دیر کے سیاسی منظر نامے پر نمودار ہو کر پوری طرح چھا چکے تھے، اس کے علاوہ افغان طالبان، امریکا اور افغان رجیم مذاکرات کر رہے ہیں حالیہ قطر اور پیرس کے مذاکرات اس کا ثبوت ہے تو یہ کہاں جا رہے ہیں۔ ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ اس مسئلے کی جڑیں یہی پر ہیں ان پر مثبت اور منفی اثرات اردگرد کے ماحول کے ہو سکتے ہیں۔ ہمیں اب ماننا ہو گا کہ یہ اب پوری طرح ہماری جنگ ہے اس جنگ میں اے این پی کو اپنی قوم پرست سیاست، تاریخی روایات، قربانیوں اور ان کی حکومت ہونے کی وجہ سے قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا، محدود پارٹی مفادات سے بالا تر ہو کر سب کو ساتھ لے کر اسے پوری قوت سے لڑنا ہو گا۔ ورنہ یہ پورے معاشرے کو تباہ و برباد کر دے گا۔ جو لوگ اس جنگ میں غیر جانبداری کا ڈھونگ رچاتے ہیں ان کے لیے مارٹن لوتھر کنگ کے بقول، ایسی صورتحال میں دوزخ میں سب سے گرم جگہ انھی کے لیے مخصوص ہوتی ہے۔