مہذب قوم اور مائی باپ ریاست

ریاست اور قوم کا باہم راست تعلق ہے یعنی ریاست مضبوط اور مستحکم ہو تو قوم کو تہذیب کے جامے میں رکھ سکتی ہے


Zahida Javaid January 02, 2013
زاہدہ جاوید

پروپیگنڈے نما ابلاغ کی سائنس میں رائج اصطلاحوں پر غور کیا جائے تو اپنے وجود میں ان کی حیثیت شوشوں سے مختلف قرار نہیں دی جا سکتی، مہذب زبان میں شوشوں کو مفروضے بھی کہا جا سکتا ہے یعنی کسی ایسی بات کا پرچار کرنا جس کا فی الحقیقت کوئی وجود نہ ہو اور پھر اس ناموجود سے موجود کا جواز تراشنا، اس جواز کے پٹارے میں لعن طعن اور ڈانٹ پھٹکار ، تجزیے، تبصرے اور حربی معرکے تک داخل سمجھیے۔ ابلاغ کی دنیا میں ایسی کسی اصطلاح کو اس شدت سے گردش میں لایا جاتا ہے کہ اپنے کھوکھلے پن کے با وصف یہ بڑی جڑیلی اور ٹھوس معلوم ہوتی ہے، عام شعور اول تو اس کی گہرائی میں اترنے کا تصور نہیں کرتا اور اگر اس کے سامنے اس کی سچائی کی تشریح کر بھی دی جائے تو وہ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا یہی نہیں بلکہ بتدریج ان اصطلاحوں کو استعمال کرنے والے بھی انھیں ان مفروضہ تناظر میں ہی برت رہے ہوتے ہیں۔

ایسا ہی ایک طنطنہ ''مہذب قوم'' کی صورت میں سنائی دیتا ہے، مہذب قوم کی فہم پذیر اصطلاح کو لفظوں میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ایک ایسی قوم جو قانون کا احترام کرتی ہے اور قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے نظاموں میں خلل ڈالنے کا جرم نہیں کرتی، عادات و اطوار کے لحاظ سے جسے شریف کہا جا سکتا ہے، تعلیم جس کی ترجیح مطالعہ جس کا شوق اور تصنیف و تحقیق جس کی روایت ہوتی ہے، دیانت جس کا مزاج ہوتی ہے، اپنی خو میں جو شائستگی کا مظہر ہوتی ہے اور خوش لباسی جس کی خصوصیت، یہ قوم اختراعات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور جستجو کو نئے میدان مہیا کرتی ہے، فرد کے ذاتی معاملات کو تقدس کا درجہ دیتی ہے، نظم و ضبط جس کی شناخت اور روشن خیالی جس کا بنیادی حوالہ ہوتا ہے، ان جملہ محاسن کے بعد یہ سوچا جا سکتا ہے کہ یہ قوم تعصب جیسے فکر آلود مرض کی مبتلا تو ہو ہی نہیں سکتی، یعنی خیر اور نسل انسانی کی برکت کے تصور کو بے فکری سے اس قوم سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔

قوم کے تذکرے میں ریاست لا محالہ زیر بحث آتی ہے اور جب بات مہذب قوم کی ہو تو اس حوالے سے ذہن ایک مضبوط اور مستحکم ریاست کا تصور قائم کرتا ہے جہاں اپنی ساکھ کی حرمت کی پاسداری انتظامیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کا نصب العین ہوتا ہے، جہاں حکومتوں کی تبدیلی نظام کے تسلسل پر اثرانداز نہیں ہوتی یعنی ملکی پالیسی شخصیات اور جماعتوں کی سیاست پر مقدم ہوتی ہیں، جہاں قوم کی ایجنڈے کے تحت باقاعدہ ذہنی تربیت کی جاتی ہے جس کا مشاہدہ قوم کی اجتماعی نفسیات سے لگایا جا سکتا ہے، جہاں نہ صرف ریاستی پالیسیوں کو قوم کی متفقہ حمایت کی طاقت حاصل ہوتی ہے بلکہ قومی امور میں اختلاف رائے کا بھی فریقین باہمی اعتماد کی فضا میں اتفاق اور اشتراک سے حل نکالتے ہیں۔

ریاست کا استحکام ہو یا قوم کی تہذیب ہر دو کے سرچشمے جس مرکز سے پھوٹتے ہیں اس کا نام معیشت ہے۔ معیشت ہی دراصل وہ عامل ہے جو ریاست اور قوم کے ساتھ مل کر اس تکون کی تکمیل کرتا ہے جس میں قوم کی تہذیب اپنے خدوخال وضع کرتی ہے، ریاست، قوم اور معیشت کے یہ رنگ ڈھنگ دو چار دنوں کے قصے والی کوئی انقلابی داستان نہیں ہوتی بلکہ تشکیل کا یہ سلسلہ نسلوں اور تہذیبوں کے دورانیوں پر محیط ہوتا ہے، ریاست کے تھنک ٹینک اور پالیسی ساز داخلی اور خارجی حوالے سے دور اندیشی پر مبنی انتہائی مربوط اور منظم پروگرام طے کرتے ہیں جو بالخصوص انتظامیہ کے چال چلن اور انداز و اطوار کے معاملے میں قبلے کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ قانون کو عملاً مرکزیت حاصل ہوتی ہے اور ادارہ ہو یا فرد ہر کی بے لگامی کے سامنے قانون کی خندق منہ پھاڑے دبوچنے کو تیار ہوتی ہے۔ اس سارے منظر نامے کو ''تصور فلاح'' کے خوشنما لبادے میں سما دینا تصویر کا ظاہری رخ ہے، فلاحی ریاست کے حوالے سے عام نظریں یقینا غیر اسلامی ممالک کی جانب اٹھتی ہیں بین الاقوامی طور پر جن کا ایک تعارف سامراجی اور استعماری طاقتوں کے طور پر بھی ہے۔ اپنی حد پھلانگنے کا دوسرا مطلب دوسرے کی حد کی پامالی بھی ہے خواہ اس کے لیے جواز کا کوئی بھی پتہ پھینکا جائے، اغیار کے وسائل پر تسلط یا طاقت کے پھیلاؤ کے لیے ریاست کی داخلی طاقت اور معیشت کی مضبوطی لازمی ہے لہٰذا ریاست اپنے شہریوں کی فلاح اور انبساط کے معاملے میں کسی کسلمندی کی مرتکب ہونے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی، عوامی بہبود کے اس تقدم کو صرف ریاست کی ذمے داری کے حوالے سے نہ دیکھا جائے بلکہ اسے اس خدمت کا عوضانہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ایسی ریاست کا ہر ہر فرد ملکی مشینری میں ایک پرزے کی سی حیثیت رکھتا ہے اور معیشت کی طاقت اور اہداف کے حصول میں افرادی قوت کی فراہمی میں تسلسل کا یہ نظام انفرادی آزادی کے فلسفے پر استوار ہے، خاندانی نظام پر ضرب کاری اور افراد معاشرہ کو اکائیوں میں بانٹ کر افرادی قوت کو بھرپور طریقے سے برتنے کا راستہ نکالا گیا۔ غاصبانہ اور جارحانہ عزائم کے جرم پر مبنی اس مصنوعی تبدیلی کو انسانی شعور اور تمدن کے ارتقاء کا ایک خودکار طریقہ قرار دینا درست معلوم نہیں ہوتا چہ جائیکہ اسے جدت اور تہذیب کے روشن حوالے کے طور پر پیش کیا جائے۔

یہ مائی باپ ریاست انتہائی مربوط و منظم پروگرام کے تحت فرد کی پیدائش سے ہی اسے گود لے لیتی ہے اور ایسا نظام پیش کرتی ہے جس میں والدین پر اولاد کی پرورش کا بوجھ اور ذمے داری نہیں لادی جاتی، نظام کی آسانیوں کی وجہ سے وہ جذباتی جھنجھٹوں کا شکار نہیں ہوتے، رشتوں سے آزاد فرد معاشی سرگرمیوں میں اپنا حصہ تن دہی اور یکسوئی سے ڈال سکتا ہے، افراد معاشرہ کی اس مادی خدمت کے عوض اور فطری خانگی نظام کے متبادل کے بطور ریاست اپنی مختلف اقدار شکنیوں اور شائستگی کو قانوناً جائز اور قبول عام کا درجہ دے کر ادا کرتی ہے تا کہ آزادی اور بے فکری کی ہوا انفرادیت کا جھنڈا لہراتی رہے۔ صنفی امتیاز کی عدم قبولیت بھی اسی رجحان کا شاخسانہ قرار دی جا سکتی ہے۔ اس سراسر بالغ تہذیب میں توازن کو برقرار رکھنے کی غرض سے قانون کی طاقت مجبوری کی حد تک ضروری ہے تا کہ مہذب قوم کی تخریب کار ذہانت، چھلکتی ہوئی توانائی اور سرکش رویوں کو بغیر کسی تمیز تفریق کے فوری اور نمایاں طریقے سے قابو کیا جا سکتا ہے۔

جن معاشروں اور قوموں کو تمدن اور آداب معاشرت کی بلند اور قابل تقلید مثالوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ان ہی قوموں کی آشکار سچائی یہ بھی ہے کہ بظاہر یہ مہذب قوم ننگ انسانی خرافات کی دلدادہ اور پیروکار ہوتی ہے، اس مہذب قوم کا تضاد دیکھیے کہ اس انسان دوست اور صلح جو اور امن پسند قوم کو حکومتوں کی انسان دشمن سرگرمیاں اور غاصبانہ کارروائیاں کیوں نظر نہیں آتیں جب کہ تعلیم اس قوم کی امتیازی خوبی اور ٹیکنالوجی جس کا مشغلہ ہے، دنیا کا منظر نامہ اس کے سامنے ہے، توہین رسالت کے معاملے میں یہ مہذب قوم مسلم دنیا کے اشتعال کو حیران حیران بیزاری اور حقارت نما کوفت سے کیوں دیکھتی ہے؟ حکومتوں کے دہرے معیار اور رویوں پر پیش کی جانے والی بھونڈی تاویلوں پر اس قوم کی زیرک ذہانت اور جدید ذہن کس کونے میں جا کر سو پڑتا ہے؟ کیوں اس مہذب قوم کی تہذیبی حس نہیں کسمساتی اور یہ حکومتوں کے متعصبانہ اور دوغلے معیار کے خلاف آواز بلند نہیں کرتیں، حالات کی جس سچائی کو پوری دنیا ایک نظر سے دیکھتی ہے اس مہذب قوم کو وہ سچائی کیوں نظر نہیں آتی؟

زندہ انسانوں کی آپس میں لاتعلقی، سرد مہری اور یخ بستہ رویوں کی مشینی حرکات کو اگر قابل رشک نمونہ سمجھا جائے تو یہ احساس کمتری کی دلیل ہے، سچائی تو یہ ہے کہ ریاست اور قوم کا باہم راست تعلق ہے یعنی ریاست مضبوط اور مستحکم ہو تو قوم کو تہذیب کے جامے میں رکھ سکتی ہے وگرنہ کمزور معیشت کی حامل کمزور سیاست کے افراد بھی نحوست کی اس گردش میں برابر کے سانجھی ہوتے ہیں جس کا طعنہ انھیں غیر مہذب قوم کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں