ہمارا کیا قصور تھا
اے قائد اعظم! ہم آپ کے دیے ہوئے اس پاک وطن کو ’’خاک وطن‘‘ نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟
زندگی بھی عجب شے ہے کسی کو بے مانگے ملتی ہے کسی کو مانگے سے بھی نہیں ملتی اور وقت کا پہیہ چلتا رہتا ہے، بعض خبریں اخبار کی زینت بنتی ہیں اور پھر ٹشو پیپر بن جاتی ہیں، جن میں راشن سامان اور بن کباب ملتے ہیں، لیکن ان میں پیوست سیاہ سطریں دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہیں کسی اندھے کنوئیں میں گر جانے والے بچے کی طرح۔
گزشتہ دنوں پولیو مہم میں ماری جانے والی خواتین کی کہانی بھی اس سے کچھ مختلف نہیں، زندگی بانٹنے والیاں خود ہی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئیں اور اہل اقتدار اس کا کچھ مداوا نہ کر سکے، بس چند فقرے، دو کالمی تصویریں ڈیپ کیپشن کے ساتھ اپنے قامت کی طرح چھوٹے چھوٹے چیک۔
اس وقت معاشرے کا کون سا ایسا پہلو یا شعبہ ہے جہاں سکون ہے؟ ملیں بند، کارخانے بند، گیس بند، بجلی بند اور اس پر مستزاد کہ حکمرانوں کی آنکھیں بند، ان معصوم بچیوں کو کس جرم میں مارا گیا؟ یہ کوئی نہیں جانتا بجز اس کے جہالت کا عفریت اہل وطن کو نگل چکا ہے، پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ستارہ بن کر ابھرا تھا اور سورج بن کر وقت کے آسمان پر گہناتا جا رہا ہے۔ قائد اعظم کا پاکستان اپنے تخلیق کار سے اپنے وجود پر شرمندہ ہے کہ یہاں زندگی دینے والے ہاتھوں کو قلم کر دیا جاتا ہے، ننھے ننھے کومل بچوں کے مستقبل سے کھیلا جا رہا ہے تا کہ آنے والے وقت میں ایک مفلوج نسل پروان چڑھے اور یہ درندہ صفت دہشت گرد ان کے مرجھائے ہوئے ہاتھ پیروں کو دیکھ کر فتح و ظفر کے نعرے لگا سکیں۔
ہم صحت اور تعلیم کے نام پر کروڑوں اربوں روپے وصول کرتے ہیں، غیر ملکی این جی اوز سے بے حساب فنڈز کھاتے ہیں، وزارت صحت اپنی تشہیر پر بے حساب خرچ کرتی ہے، پھر بھی اس گلستاں سے ورثے میں ملتے ہیں بیمار اور خزاں رسیدہ درخت، سب جانتے ہیں کہ پولیو کے مارے ہوئے لوگ عمر بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں جنھیں دیکھ کر معاشرہ تاسف کا اظہار تو کرتا ہے مگر ان کی مدد کو کتنے لوگ آگے بڑھتے ہیں، سب کہتے ہیں کہ ''ہمارے ہاں غربت کی شرح بڑھ رہی ہے، مہنگائی نے جینا دوبھر کر دیا ہے، لوگوں کو ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے دستیاب ہے، مگر آپ ذرا کراچی کے پوش ایریاز میں چلے جائیں ۔
جہاں الٹرا ماڈرن خواتین رات گئے تک بڑی بڑی سپر مارکیٹوں میں خریداری کرتی ہیں، فائیو اسٹار ہوٹلز کے ڈائننگ رومز بھرے رہتے ہیں، کھانے پینے کی دکانوں میں رش رہتا ہے، ایک بنگلے میں کم از کم دو گاڑیاں ہوتی ہیں، بعض جگہ ان محل نما مکانوں میں صرف دو تین افراد رہتے ہیں، بھارت سے ہم اس لحاظ سے بہت آگے ہیں کہ بمبئی کی طرح یہاں پر فٹ پاتھ بکتے نہیں ہیں اللہ کے فضل سے ہمارے فٹ پاتھ بہت آباد ہیں، چرسی ہوں یا ہیروئنچی، بے در، بے گھر افراد ہوں یا خانہ بدوش آرام سے ہاتھوں کا تکیہ بنا کر سکون کی نیند سو تو جاتے ہیں، حیرت اس بات پر ہے کہ ان افراد پر حکومت نے اب تک کوئی ٹیکس کیوں نہیں لگایا حالانکہ اگر ایسا ہو جائے تو قومی خزانے کو خاصی خطیر رقم مل سکتی ہے۔''
بات ہو رہی تھی پولیو مہم میں جاں بحق ہونے والی خواتین کی جن کے فرشتوں کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ زندگی کے قطرے ان کے لیے خون کے قطرے بن جائیں گے جن دیوں کو وہ روشن کرنے جا رہی ہیں وہ ہمیشہ کے لیے بجھ جائیں گے۔ اس اقدام سے اب کتنی خواتین ہوں گی جو اس کار خیر میں شامل ہونے کی جرأت کر سکیں گی؟ اتنا سب کچھ ہو گیا مگر حکومت آج بھی ان قاتلوں کا سراغ لگانے میں ناکام ہے اور اگر اتفاق سے ان میں سے چند پکڑے بھی گئے تو وہ ''اوپر'' سے آئے ہوئے کسی فون کی بدولت رہا ہو جائیں گے۔
آج بھی اس سفاکانہ قتل کا نشانہ بننے والی بعض خواتین کے گھر میں ان کے ننھے ننھے بچے دہلیز پر ماؤں کی آمد کے منتظر ہیں اور مائیں یہ سوچ رہی ہیں کہ وہ اپنی بچیوں کو اس مہم میں بھیجیں یا نہ بھیجیں، ہر سمت ایک خوف ہے، یاس ہے کسی کو خبر نہیں کہ کس سمت سے گولی ان کی منتظر ہے۔
دکھ تو اس بات کا ہے کہ اس جمود کو توڑنے والا کوئی مرد آہن، کوئی لیڈر، کوئی رہنما ابھی تک سامنے نہیں آیا تو اے قائد اعظم! ہم آپ کے دیے ہوئے اس پاک وطن کو ''خاک وطن'' نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟