بندۂ مومن کی اذاں

سکوتِ شام ہے خاموش بستی ہوتی جاتی ہے


Shakeel Farooqi January 31, 2017
[email protected]

ابھی چند روز قبل روزنامہ ''ایکسپریس'' میں جب ایک دلچسپ اور روح پرور خبر پڑھی تو منفرد لب و لہجے کے شاعر سلیم احمد کا یہ مشہور شعر یک بہ یک یاد آگیا:

شاید کوئی بندۂ خدا آجائے

صحرا میں اذان دے رہا ہوں

مذکورہ خبر بھارت کی مشہور و معروف اداکارہ اور سابقہ مس ورلڈ پریانکا چوپڑا کے حوالے سے ہے جنھوں نے اپنی شخصیت کا یہ خوشگوار اور چونکا دینے والا پہلوگزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کے دوران آشکار کیا۔ انھوں نے بتایا کہ شام کے وقت جب اذان سنتی ہوں تو دل کو بڑا سکون ملتا ہے۔ انھوں نے اپنا احوال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ شام کے وقت جب وہ اپنے مکان کے ٹیرس پر بیٹھی ہوئی ہوتی ہیں تو شہر میں بہ یک وقت کئی مسجدوں میں مغرب کی اذانیں شروع ہوجاتی ہیں۔ جب پانچ چھ مساجد سے اذانوں کی آوازیں ان کے کانوں تک پہنچتی ہیں تو اس وقت انھیں سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے اور ان اذانوں کو سن کر سکون قلب حاصل ہوتا ہے۔ اس پر ہمیں بچپن میں پڑھی ہوئی ایک خوبصورت نظم کا درج ذیل شعر یاد آرہا ہے جس میں بلا کی کشش ہے:

سکوتِ شام ہے خاموش بستی ہوتی جاتی ہے

موذن کی صدا ہلکی ہوا کے ساتھ آتی ہے

اس شعر نے ہماری زندگی کے ان ابتدائی ایام کی یاد بھی تازہ کردی ہے جو بھارت کے صوبے اتر پردیش (یوپی) کے ایک چھوٹے سے قصبے گھرہ میں گزرے تھے جو ضلع مظفر نگر میں واقع ہے۔ اس قصبے کی دو خصوصیات بڑی نمایاں ہیں۔ اول مولانا محمد یونس جو برصغیر کے مشہور و معروف عالم دین حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے انتہائی مقربین میں شامل تھے۔

دوم یہ کہ اس قصبے کی امن و آشتی کی فضا کا عالم یہ ہے کہ یہاں آج تک کبھی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوئے۔ ہمارے اس ننھیالی قصبے میں محمد فاضل نام کے ایک بزرگ ہوا کرتے تھے جو قطعی ناخواندہ تھے جس کی بنا پر لوگ ازراہ مذاق یہ کہا کرتے تھے کہ ''میاں پڑھے نہ لکھے مگر نام محمد فاضل''۔ ہم انھیں انتہائی احترام اور محبت سے ماموں فاضل کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے اور وہ بھی جواباً بے پایاں شفقت سے ہمارے ساتھ پیش آتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں لحن داؤدی کے وصف سے نوازا تھا۔

اذان ہی کے حوالے سے اس وقت ہمیں ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے جس کا تعلق ہمارے والد بزرگوار کے ایک ہم عمر دوست سے ہے جن کا نام کنور محمد یونس تھا۔ ان کا ابتدائی نام تو ہندوانہ تھا جو ہمارے حافظے میں محفوظ نہیں رہا کیونکہ موصوف اذان سے متاثر ہونے کے نتیجے میں ہی مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ یہ قصہ انھوں نے ہمارے غریب خانے پر ہی ہماری موجودگی میں بیان کیا تھا جسے سن کر ہم ہکا بکا رہ گئے تھے۔ کنور صاحب ہندوستان کے مشہور و معروف ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے جو نہ صرف چھریوں اور قینچیوں کی صنعت کی وجہ سے بلکہ 1857کی جنگ آزادی میں اپنے تاریخی کردار کی وجہ سے بھی بڑا مشہور ہے۔

اس کے علاوہ حضرت بوم میرٹھی اور ڈاکٹر بشیر بدر جیسے نامور شعرا اور کلن خاں قوال جیسے بے مثل فنکار بھی اس کی وجہ شہرت ہیں۔قصہ مختصر کنور صاحب کا تعلق میرٹھ کے ایک متمول ہندو راجپوت گھرانے سے تھا جو کٹر مذہبی تھا۔ کنور صاحب کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا وہ ان کے خواب و خیال اور وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ خاندان کی سب سے بڑی اولاد ہونے کے ناتے ان کے پتا جی کی شدید خواہش اور دلی آرزو یہ تھی کہ ان کا سپوت بڑا وِدوان بن کر اپنے خاندان کا نام روشن کرے۔ چنانچہ ان کے پتا جی نے اپنے پیارے بیٹے کو ہندوؤں کے مذہبی مرکز بِندرایَن بھیجنے کا پروگرام بنایا جو ہندوؤں کے مقدس مقام متھرا میں واقع ہے۔ مگر قدرت کو یہ نہیں بلکہ کچھ اور ہی منظور تھا۔

کنور صاحب نے جس پاٹھ شالا (اسکول) میں داخلہ لیا اس کے نزدیک ہی ایک مسجد بھی واقع تھی۔ اس مسجد سے صبح و شام پانچوں وقت کی اذانیں بلند ہوا کرتی تھیں۔ کنور صاحب کا کہنا تھا کہ ان اذانوں کی آواز سے ان کے قلب و ذہن پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی۔ پاٹھ شالا میں جو کچھ پڑھایا جاتا تھا اس سے ان کا دل اچاٹ ہی رہتا تھا۔ یہ وہ کڑوی گولی تھی جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتی تھی۔ ان پر ایک اضطرابی کیفیت طاری تھی اور ان کا دل یہی چاہتا تھا کہ جتنا جلد ممکن ہوسکے وہاں چلے جائیں جہاں سے یہ آوازیں انھیں بلاتی تھیں۔ ان کی حالت رسی سے باندھے گئے۔

اس جانور کی سی تھی جو موقع ملتے ہی رسی تڑا کر بھاگ جانا چاہتا تھا۔ برداشت کی بھی ایک آخری حد ہوتی ہے جس کے بعد فرار کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔ کنور صاحب کے ساتھ بھی ایک روز یہی ہوا۔ اذان فجر سن کر انھیں ایک دن اپنے آپ پر قابو نہ رہا اور وہ بِندراین کی پاٹھ شالا سے اپنا پنڈ چھڑا کر پڑوس کی مسجد میں چلے گئے۔

مسجد کے پیش امام صاحب سے انھوں نے اپنی کیفیت قلب بیان کی جسے سن کر پہلے تو ہندو مسلم فساد کے اندیشے سے امام صاحب بڑے پریشان ہوئے لیکن دین اسلام سے شدید رغبت کو دیکھتے ہوئے بالآخر انھوں نے کنور صاحب کو مشرف بہ اسلام کرلیا اور محمد یونس ان کا نام رکھ دیا۔ اس واقعہ نے کنور صاحب کی زندگی کا رخ ہی بدل دیا۔ واقعی جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ کایا پلٹ اسی کو کہتے ہیں۔ یہ کنور صاحب کی زندگی کا Turning Point تھا جس کا انھوں نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا۔ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے ان کی آنکھیں چھلک آئیں اور آنسو ان کے رخساروں سے بہتے ہوئے ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت جب جوش میں آتی ہے تو پھر انسان کے ساتھ وہ کچھ پیش آتا ہے کہ جو عقل و خرد سے ماورا ہوتا ہے۔ بے شک ایمان کی دولت سب سے بڑھ کر ہے۔ بقول اقبال:

من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں

تَن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن

اپنی یہ دل سوز آپ بیتی سناتے ہوئے کنور صاحب گلوگیر ہوگئے اور رقت قلب سے ان کی آواز بھرا گئی اور گلا رندھ گیا۔ بے شک ایمان کی دولت ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جن پر رب کریم کا فضل و کرم ہوتا ہے۔

ہم نے دلی میں کانگریس پارٹی کے سرگرم رہنما آنجہانی گوپی ناتھ امن لکھنوی صاحب کو بڑے قریب سے دیکھا ہے جن کا دین اسلام کا مطالعہ بڑا وسیع و عمیق تھا اور جن کا مسلمانوں کا حلقہ احباب بھی بے حد وسیع تھا۔ امن لکھنوی کی سیرت طیبہ دل سوز تقریریں ہمارے کانوں میں آج بھی گونجتی ہیں۔ ان کی خوبصورت نعتیں سن کر سیرت پاک کے جلسوں میں سامعین جھوم جھوم اٹھتے تھے اور حب نبیؐ سے دل مسحور اور سرشار ہوجایا کرتے تھے۔ تاہم ہدایت کی دولت سے محرومی کے باعث موصوف مشرف بہ اسلام نہ ہوسکے۔

دلی میں جہاں لاہورکی طرح جاڑے کے موسم میں کڑاکے کی ٹھنڈ ہوتی ہے ایک صبح جب ہم کالج پہنچے تو اپنے ایک ہم جماعت اور انتہائی قریبی دوست ویریندر کمار ویشٹ کو انتہائی اضطرابی کیفیت میں اپنا منتظر پایا۔ اس کی یہ کیفیت اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ کافی دیر سے ہماری راہ دیکھ رہا تھا اور ہر گھڑی اس سے کاٹے نہیں کٹ رہی تھی۔ ہم نے جب اس سے اس کی وجہ دریافت کی تو اس نے ہم سے قرآن شریف اور نماز پڑھانے پر اصرار کیا۔ ہماری حیرانی اور تجسس کی کوئی انتہا نہ تھی کیونکہ ہم جانتے تھے کہ وہ ایک برہمن تھا اور ایک کٹر ہندو گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہمارے استفسار پر اس نے جو آپ بیتی بیان کی وہ ہمارے گمان اور تصور سے باہر تھی۔

اس کا کہنا تھا اس رات سردی کی شدت بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے وہ چوتھی منزل پر واقع اپنی بلڈنگ کے آخری فلیٹ میں بھاری بھرکم لحاف اوڑھ کر اپنے بستر میں گہری نیند میں سویا ہوا تھا۔دفعتاً اسے ایک آواز سنائی دی جس نے اس پر اک ایسا سحر سا طاری کردیا کہ وہ ایک مقناطیسی کشش کے زیر اثر اپنے گرم و گداز بستر سے نکل کر محویت اور بے خودی کے عالم میں زینہ چڑھتا ہوا فلیٹ کی کھلی چھت پر چلا گیا۔ فلیٹ کی کھلی چھت پر اسے اپنی موجودگی اور کھلی چھت پر لگنے والے ہوا کے سرد تھپیڑوں کا احساس اس وقت ہوا جب یہ آواز آنا بند ہوگئی۔

بندۂ مومن کی اذان فجر کی یہ آواز نزدیک کی ایک مسجد سے بلند ہوئی تھی جسے دلی کے محکمہ اوقاف نے بڑی جدوجہد کے بعد برصغیر کی تقسیم کے موقع پر 1947 میں مسلم کش فسادات کے دوران ہونے والے ہندوؤں کے قبضے سے واگزار کرایا تھا۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود

ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔