سیاسی ساکھ اور حمایتی
عوامی عدالت کے عام ججوں کا حال تو سب کو ہی پتا ہے کہ انھیں کتنا سیاسی شعور ہے
روزنامہ ایکسپریس کی خبرکے مطابق ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''میں اور مولانا'' میں علامہ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کیس کے باعث عمران خان کو فائدہ ہوا ہے اور عوام میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور اس مسئلے پر عوام بھی کچھ سوچنے لگے ہیں۔
قبل ازیں وزیر اعظم کے مخالفین اور خصوصاً عمران خان تو وزیر اعظم کے لیے انتہائی سخت زبان استعمال کررہے ہیں اور مخالفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔ دال میں کچھ کالا ہو یا دال ہی کالی ہو مگر حقیقت میں ملک میں پہلی بارکرپشن کی بازگشت ملک کے کونے کونے میں سنائی دے رہی ہے ۔ سپریم کورٹ کے باہر فریقین کی غیر قانونی عدالت میں ایک دوسرے کے متعلق جوکچھ کہا جا رہا ہے، اسے سن کر لوگ سر پکڑ لیتے ہیں اور فیصلہ نہیں کرپاتے کہ کون سچا ہے اورکون جھوٹا ہے۔ عمران خان کے وزیراعظم پر سنگین الزامات کے جواب میں انھیں یوٹرن خان، بہتان خان اور نہ جانے کیا کچھ کہا جا رہا ہے اور سپریم کورٹ کے باہر موجود پیپلز پارٹی کے اصل سربراہ تو خاموش ہیں مگر نوجوان چیئرمین سے حکومتی کارکردگی اور کرپشن کے لیے سب کچھ کہلوایا جا رہا ہے۔
جس کے جواب میں مسلم لیگی رہنما طلال چوہدری نے بلاول زرداری سے درخواست کی ہے کہ جبتک ان کے نام کے ساتھ زرداری لگا ہے ان کی طرف سے کرپشن کی بات کرنا شرمناک ہے۔ طلال چوہدری یہ بات بھی جانتے ہیں کہ بلاول زرداری نے لاہور تا فیصل آباد ریلی میں خود کو زرداری نہیں بلکہ بھٹوآگیا ہے کے حوالے سے اپنی سیاسی سرگرمی شروع کی ہے اور بلاول زیادہ تر خود کو بلاول بھٹو ہی کہتے ہیں جب کہ ذات ہمیشہ باپ سے کہلاتی ہے ماں سے نہیں ۔ آصف زرداری نے محترمہ کی شہادت کے بعد مبینہ وصیت میں اپنے صاحبزادے کو سیاسی نام بلاول زرداری نہیں بلکہ بلاول بھٹو زرداری کا منفرد نام دے دیا تھا جس پر خود بھٹو خاندان نے برائے نام ہی احتجاج کیا تھا ۔جس کے بعد پی پی کے چیئرمین کو زیادہ تر بلاول بھٹو ہی کے نام سے پکارا جا رہا ہے اور ممکن ہے سیاست میں انھیں یہی نام اختیار کرنا پڑے۔
جماعت اسلامی کا بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا پانامہ میں نام آنے سے ساکھ متاثر ہوئی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر قومی رہنما کی ساکھ اس کی اپنی پارٹی اور حامیوں تک محدود ہوچکی ہے اور ملک میں کوئی قومی رہنما ایسا نہیں رہا ہے جس کی مجموعی طور ساکھ اچھی قرار دی جا سکے۔ سیاسی طور پرکہا جارہا ہے کہ ملک میں کس رہنما کی ساکھ اچھی ہے اور وہ ملک گیر مقبولیت کا حامل ہے یا نہیں اس کا فیصلہ صرف عوامی عدالت میں ہونا ہے جو اگلے سال لگے گی جس میں ابھی ڈیڑھ سال باقی ہے۔ عمران خان بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ پانامہ لیکس پر عوامی عدالت میں وزیراعظم کو ضرور لے کر جائیں گے جب کہ پیپلز پارٹی نے اپنے نوجوان چیئرمین کو آگے اور آصف زرداری کو پیچھے کرکے پنجاب میں عوامی عدالت لگانا شروع کردی ہے۔
1988 کے بعد سے قوم تو یہ دیکھ رہی ہے کہ 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے اور دونوں اپنا اقتدار ختم ہونے کے بعد جو پانچ سالہ نہیں تھا جب بھی عوامی عدالت میں گئے عوام نے انھیں مسلسل دوبارہ منتخب نہیں کیا اور 1990 میں پیپلز پارٹی کو مسترد کرکے (ن) لیگ کے حق میں فیصلہ دیا۔ 1993 میں پی پی کے حق میں ،1997 میں پھر (ن) لیگ کے حق میں فیصلہ آیا جو 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے ختم کرکے بعد میں 2001 میں دونوں کی باریاں ختم کردیں اور دونوں کو اقتدار میں نہیں آنے دیا۔
عوام کی یہی چاروں عدالتیں تھیں جو ایک کے بعد دوسرے کو منتخب کرتی رہیں اور اگر 2007 میں پی پی اپنی قائد سے محروم نہ ہوتی تو فیصلہ یقینی طور پر (ق) لیگ کے حق میں ہونا تھا جس کی حکومت جنرل پرویز مشرف نے پی پی اور (ن) لیگ کے رہنما توڑ کر بنوائی تھی اور (ق) لیگ کے 5 سال مکمل کرائے تھے جس کے بعد عوام کی عدالت 2008 میں پی پی کو اور 2013 میں مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں لاکر دونوں کی ہیٹ ٹرک مکمل کراچکی ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دونوں پارٹیاں اقتدار میں رہ کر اپنی ساکھ کھوتی رہی ہیں۔
انتخابات میں عوامی عدالت میں جانا عوام کو دھوکا دے کر ان سے ووٹ لینا ہوتا ہے جب کہ عوام کا یہ حال ہے کہ انھیں بھولنے کی عادت بہت زیادہ ہے وہ کبھی پی پی کی ناقص کارکردگی پر برہم ہوکر مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیتے ہیں پھر (ن) لیگ سے مایوس ہو کر پی پی کی جھولی ووٹوں سے بھر دیتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو باشعور سمجھے جاتے ہیں جب کہ محکوم بن کر ووٹ دینے والوں کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی۔
وہ صرف اپنے علاقے کے زمینداروں، جاگیرداروں، خانوں، سرداروں، ملکوں، وراثتی ارکان اسمبلی وڈیروں بلکہ شہری وڈیروں اور اپنے سیاسی مذہبی رہنماؤں کے حکم پر ووٹ دیتے ہیں۔ جن کا حکمرانوں اور سیاسی پارٹی کی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ انھوں نے اپنے بڑوں کے حکم کی تعمیل کرنا ہوتی ہے جب کہ تھوڑی بہت تعداد اپنے ووٹ فروخت کرنے والے افراد اور موقعہ پرستوں اور مفاد پرستوں کی بھی ہوتی ہے جنھیں عوامی رہنما اور سیاسی قائدین عوام کی عدالت کے ججوں کا نام دیتے ہیں۔
عوامی عدالت کے عام ججوں کا حال تو سب کو ہی پتا ہے کہ انھیں کتنا سیاسی شعور ہے۔ سندھ میں کہا جاتا ہے کہ سر سید کا اور ووٹ بھٹو کا جب کہ جلسے عمران خان کے بڑے ہو رہے ہیں مگر ضمنی الیکشن میں کامیابیاں مسلم لیگ (ن) سمیٹ رہی ہے۔ ملک میں کرپشن کو نمایاں کرنے میں عمران خان کو کامیابی ضرور ملی ہے مگر انھوں نے کے پی کے میں احتساب کمیشن کا جو حشر کیا ہے اس پر انھیں اپنے مخالفین کی شکایات کا بھی سامنا ہے۔
ملک کے عوام کو چھوڑیں یہاں تو ایک ضلع کے وکلا کا یہ حال ہے کہ 28 سال قبل ایک اہم سیاسی شخصیت کی خبریں میڈیا میں آئی تھیں کہ انھوں نے مبینہ طور پر ایک غیر ملکی تاجرکی ٹانگ پر بم بندھوا کر رقم نکلوانے بینک بھیجا تھا جس کی تفصیل جب مذکورہ بالا وکلا کو بتائی گئی تو انھوں نے سیاسی رہنما کی مذمت کرنے کی بجائے ان کے دماغ کی بڑی تعریف کی تھی کہ انھوں نے کیا زبردست کام کیا ہے۔
آج کل عوام جس کسی کو بھی اپنا قائد مان لیں پھر وہ اس کی برائیوں کو بھی برا نہیں سمجھتے خواہ اس پر ملک دشمنی ہی کا الزام ہو۔ جس کی مثال ایک جلا وطن رہنما کی بھی ہے جسے بعض لوگ بے قصور سمجھتے ہیں اوراب بھی اپنا قائد مانتے ہیں۔
آج کل کی مفاداتی سیاست میں جو کسی کو اچھا سمجھتا ہے ۔ اس کو اچھا ہی سمجھتا رہے گا اور اپنے مفاد کے لیے غلط کو غلط کبھی نہیں کہے گا بلکہ غلط کام کی بھی تائید کرے گا۔ اب نظریاتی سیاست کم اور مفاداتی سیاست زیادہ ہورہی ہے کیونکہ اب سیاست عوام کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ ذاتی مفاد کا نشان بن چکی ہے اور ملک میں کسی رہنما کی اگر ساکھ خراب بھی ہو اس کے حمایتی اسے اچھا ہی سمجھیں گے اور یہی اب سیاست کا المیہ ہے۔