فلم بینی کی یادیںدوسرا حصہ

پرانی سبزی منڈی میں واقع چاندنی سینما، فیڈرل بی ایریا میں اوپرا سینما بند ہوچکے ہیں


Shabbir Ahmed Arman January 31, 2017
[email protected]

کراچی کے مضافاتی علاقوں کے دیگر مرحومین سینما گھروں میں لسبیلہ کا سوسائٹی سینما، جہاں پشتو فلمیں چلتی تھیں، تین ہٹی کے فلمستان اور ناولٹی سینما، بلدیہ سعید آباد کے الف لیلیٰ اور روبی سینما، صدر لکی اسٹار میں واقع نیوی کا فلیٹ کلب سینما (جہاں اب کبھی کبھار اسٹیج ڈرامہ ہوتے ہیں) پاک فضائیہ کا پی اے ایف سینما، پی این ایس کے سینما، بہادر، منوڑہ، دلاور، ہمالیہ، کارساز، شفا، یہ سب بند ہوچکے ہیں، کورنگی کے زینت سینما، غالب سینما، نسرین سینما، نسیم سینما، شہزاد سینما اور تصویر سینما چل رہے ہیں، لیکن مسعود اور شیریں بند ہوچکے ہیں، ناظم آباد کے لبرٹی، ریجنٹ، ریلیکس، نایاب سینما، پاک کالونی کا چمن سینما، سائٹ کا دلشاد سینما بھی بند ہوچکے ہیں، نیو کراچی کے صبا اور شیریں سینما چل رہے ہیں۔

پرانی سبزی منڈی میں واقع چاندنی سینما، فیڈرل بی ایریا میں اوپرا سینما بند ہوچکے ہیں، شیر شاہ میں ڈیلائٹ، راج محل اور رنگ محل سینما چل رہے ہیں، ماری پور میں واقع ڈیلیکس اور فالکن سینما بھی بند ہوچکے ہیں، منگھو پیر کا کرن سینما حیات ہے، ملیر کے کیسینو، گلشن، گلزار، نفیس صنم اور شبانہ سینما بھی اپنا وجود کھو چکے ہیں، ملیر کینٹ کا پکاڈلی سینما، بہادر آباد کے دو سینما امبر اور ہالی ووڈ بھی بند ہوگئے ہیں، لیاقت آباد کے فردوس، گلیکسی، ارم، نیرنگ اور وینس میں سے صرف وینس زندہ ہے، قائدآباد کے نرگس اور لالہ زار سینما موجود ہیں، جہاں پشتو فلمیں نمائش ہوتی ہیں، لانڈھی کے سینما مہتاب، گلستان اور شیش محل مہر بند ہوچکے ہیں۔

شاہراہ فیصل پر نرسری سے لے کر ایئرپورٹ تک خیام سینما، لگژری سینما، شمع سینما، سنگم سینما، شاہ فیصل کالونی میں واقع شبنم شامل ہیں، ان میں سے شبنم اور سنگم اب بھی چل رہے ہیں، باقی قصہ پارینہ ہیں۔ اسی طرح کراچی کے تقریباً 46 سینما گھر غیر قانونی طور پر مسمار کیے جاچکے ہیں۔ غیر قانونی اس لیے کہ قانون کے مطابق سینما گھر فلاحی پلاٹ ہوتے ہیں، جہاں صرف عوامی تفریحات تعمیر کی جاسکتی ہیں، کے ڈی اے کے لاء میں موجود ہے کہ اگر کوئی سینما گھر مسمار کرکے اس کی جگہ فلیٹ یا پلازہ تعمیر کیا جائے گا تو اس کے اندر ایک منی سینما بھی تعمیر کرنا لازمی ہے۔ لیکن شہر کراچی کی لینڈ مافیا نے سرکاری افسران کی ملی بھگت سے ایسا نہیں کیا۔

آج صورت حال یہ ہے کہ سینما گھروں کی کمی کی وجہ سے پاکستان کی فلم انڈسٹری زوال پذیر ہے۔ بعد میں کراچی میں جو نئے سینما گھر تعمیر ہوئے ان میں یونیورس، سنی پیلکس (سی ویو کلفٹن)، سنی نیوپلیکس (خیابان شاہین فیز ایٹ)، سنی پیلکس نمبر ون (اوشین ٹاور)، خیابان شاہین (ڈی ایچ اے)، سنی پیلکس نمبر ٹو (کلفٹن)، میگا سنی پلیکس (ملینیئم مال گلشن حدید)، سنی پیلکس (سٹی آڈیٹوریم صدر) اور ایٹریم (صدر) شامل ہیں۔

پاکستانی پرانی فلمیں گھریلو، سبق آموز، تاریخی ہوا کرتی تھیں، جنھیں فلم بین بار بار دیکھا کرتے تھے، فلمی اشتہارات پر اکثر لکھا جاتا تھا کہ آخری چند دن، پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی۔ ان پاکستانی فلموں کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی بھر کے تمام سینما گھر ہاؤس فل جاتے تھے، ٹکٹ لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوا کرتا تھا، رش اتنا رہتا تھا کہ آج کا نوجوان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ پیداگیر اور جمعدار جن کی اکثریت بلوچ ہوتے تھے، جن کا تعلق لیاری سے ہوا کرتا تھا، یہ ٹکٹ فروخت کرنے، ٹکٹ لائن سیدھا کرنے، لائٹ مین اور گیٹ کیپر ہوا کرتے تھے، ان سے فلم بین اس لیے گھبرایا کرتے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں ہنٹر، چابک یا ڈنڈا ہوا کرتا تھا، جو فلم بین لائن توڑنے کی کوشش کرتا تو اس پر برسا دیا جاتا تھا یا پھر ڈرانے کے لیے زمین پر مار دیا جاتا تھا۔

اس طریقے سے ٹکٹ لائن سیدھی ہوجایا کرتی تھی، لیکن جنونی فلم بین اس ڈر و خوف سے بے نیاز ہوکر لائن پر کھڑے لوگوں کو روندتے ہوئے ٹکٹ گھر کی کھڑکی تک پہنچ جایا کرتے تھے، ٹکٹ رش کے اس عمل کو کھڑکی توڑ رش کہا جاتا تھا، اسی رش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض سینماؤں کے ملازم ٹکٹ کی اصل قیمت سے دگنی رقم میں ٹکٹ بیچتے تھے، جسے بلیک اور اوور چارجنگ کہا جاتا تھا، اسی عمل کی بنا پر سینماؤں کے ان ملازمین کو پیداگیر کہا جاتا تھا۔ نشاط سینما کی انتظامیہ نے اس رش کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر شو کے لیے ٹکٹ گھر کی کھڑکی کھلنے سے تین گھنٹے قبل فلم بینوں کے دائیں ہاتھوں پر مہر لگوانے کا انتظام کیا تھا، جب ٹکٹ گھر کھلتا تو اسی کو ٹکٹ دیا جاتا تھا جس کے ہاتھ پر مہر لگی ہوتی تھی۔ آج کل شناختی کارڈ کے حصول کے لیے نادرا کے لیاری دفتر میں آدھی رات کو ایجنٹ حضرات سائل کے ہاتھوں پر یا ایک چھوٹی پرچی پر پہلے مہر لگادیتے ہیں، صبح جب دفتر کھلتا ہے تو اسی کو ٹوکن دیا جاتا ہے جس کے ہاتھوں پر یا چھوٹی پرچی پر مہر لگا ہوتا ہے، یہ منظر دیکھ کر مجھے نشاط سینما کی یاد آجاتی ہے۔

وحید مراد جسے چاکلیٹی ہیرو بھی کہا جاتا تھا، کی فلمیں خواتین میں بہت مقبول ہوا کرتی تھیں، جس سینما میں وحید مراد کی فلم چلتی تھی اس سینما میں خواتین کا رش لگا رہتا تھا، گھریلو فلمیں دیکھنے کے لیے بھی خواتین کا رش لگا رہتا تھا۔

پھر ایک ایسا دور آیا کہ سینما گھروں کے ماحول خراب ہونے لگے، فلم بین جو کہ گھنٹوں شدید دھوپ میں کھڑے ہوکر ٹکٹ گھر کھلنے کا انتظار کرتے تھے اور پھر انھیں اس انتظار کا یہ صلہ ملتا تھا کہ ٹکٹ بکنگ گھر کے بجائے پیداگیروں سے خریدنا پڑتا تھا یعنی بلیک سے، اور فلم بین یہ سوچ کر اپنے دل کوتسکین دے لیتے تھے کہ اگر چند روپے شرح ٹکٹ سے زیادہ دیتے ہیں تو کیا ہوا، سینما کے اندر جاکر نرم نرم فوم اور سرد ایئرکنڈیشن میں بیٹھ کر آرام سے اپنی پسندیدہ فلم دیکھیں گے، لیکن اندر جاکر معلوم ہوتا تھا کہ نہ نرم نرم فوم ہے اور نہ ہی ایئرکنڈیشن چلایا گیا ہے اور فلم بین صرف اس لیے کہ انھوں نے پیسے خرچ کیے ہوتے تھے یہ تین گھنٹے جس حال میں گزار تے تھے اس کا عذاب صرف وہی جانتے تھے۔

اور پھر فلم بینی کے دوران اس کسمپرسی کے عالم میں فلم بینوں کو باہر کی یاد ستاتی تھی اور وہ یہی سوچتا رہتا تھا کہ کب وقفہ ہو اور وہ باہر جاکر ہوا میں سانس لے، لیکن جب انٹرویل ہوتا تھا تو پتہ چلتا کہ باہر جانے کا گیٹ بند ہے، لہٰذا جو کچھ کھانا پینا ہے وہ سینما کے اسٹال ہی سے خریدو، چاہے وہ کسی بھی معیار کا کیوں نہ ہو اور اس کی قیمت چاہے کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسی مشکلات سینماؤں پر جاکر فلم بینی کے دوران پیش آتی تھیں لیکن اس کے باوجود یہ فلم بینوں کی عنایت اور مہربانی تھی کہ وہ ان مشکلات کو برداشت کرکے بھی سینماؤں کا رخ کیا کرتے تھے۔

ان تمام باتوں کے باوجود سینما مالکان اپنے سینما گھروں کی حالت زار پر توجہ نہیں دیتے تھے اور بالآخر ویڈیو کا وہ دور شروع ہوا جو آگے چل کر سینما گھروں کے زوال کا باعث بن گیا۔ سینما مالکان شکوہ کرنے لگے کہ سینماؤں کے ماحول کو سینما مالکان نے خراب نہیں کیا ہے بلکہ سینما انڈسٹری ویڈیو کے ناجائز کاروبار، ٹیکسوں کی شرح میں بے حد اضافہ ہونے کی وجہ سے سخت بحران کا شکار ہے۔

یاد رہے کہ اس دور میں پاکستان میں وی سی آر اور ویڈیو پر پابندی عائد تھی۔ کئی سال بعد اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ غلام اسحاق خان جو بعد میں صدر پاکستان بن گئے تھے، نے وی سی آر رکھنے پر سالانہ دو سو روپے لائسنس کا اجرا کیا تھا اور وی سی آر پر انڈین فلمیں دیکھنے پر بھی پابندی عائد تھی، لوگ چوری چھپے وی سی آر کے ذریعے بھارتی فلمیں دیکھا کرتے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ سینما مالکان کی نظریں اپنے سینماؤں کی حالت بہتر کرنے کے بجائے اپنی تجوریوں پر زیادہ تھی۔ اسی وجہ سے فلم بین وی سی آر پر آرام سے گھر بیٹھے اپنی پسند کی فلمیں دیکھنے لگے اور اس عذاب سے بچتے رہے جو انھیں سینماؤں پر جاکر برداشت کرنا پڑتا تھا۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں