آر ایل این جی ٹرمینل کے معاہدے میں سنگین بے قاعدگیوں کی نشاندہی
نجی کمپنی نے فی ایم ایم بی ٹی یو یوٹیلائزیشن چارجز کی شرائط پر125 ملین ڈالرلگائے
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ایل این جی کی درآمد کے لیے اینگرو ایلنجی ٹرمینل پاکستان لمیٹڈ اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے مابین طے کیے گئے معاہدے میں سنگین بے قاعدگیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے سوئی سدرن گیس کمپنی کے لیے خسارے کا سودا قرار دے دیا ہے۔
نجی کمپنی اینگرو ایلنجی ٹرمینل پاکستان لمیٹڈ 125 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے لگایا گیا تاہم اس معاہدے کے نتیجے میں سوئی سدرن گیس کمپنی کی آمدن میں کوئی اضافہ نہ ہوسکا بلکہ مارچ تا دسمبر 2015کے دوران صرف 10 ماہ کی مدت میں 83.924 ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ برائے سال 2015-16کے مطابق ری گیسیفائڈ ایل این جی کی درآمد کے لیے کیے گئے معاہدے میں بے ضابطگیوں اور سروس ایگریمنٹ کی شرائط پوری نہ کیے جانے سے سوئی سدرن گیس کمپنی کو کم وبیش9ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
ادھر سوئی سدرن گیس کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے 28جنوری 2014کو ایل این جی سروس ایگریمنٹ کی مشروط منظوری دی تھی، بورڈ کی جانب سے شرائط عائد کی گئی تھیں کہ گیس کمپنیاں خریدی گئی ایل این جی کی قیمت (سیل پرائس) پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی جبکہ سروس ایگریمنٹ چارجز اور انتظامی اخراجات سوئی سدرن گیس کمپنی کو ادا کرنے کی پابند ہوں گی، بورڈ نے پی ایس او یا وفاقی حکومت کی جانب سے ایل این جی درآمد نہ ہونے کی صورت میں سوئی سدرن گیس کمپنی پر کوئی کیپیسٹی چارجز لاگو نہ ہونے کی تحریری ضمانت کو بھی لازمی قراد دیا تھا جبکہ سوئی ناردرن گیس کمپنی سے بھی اس پروجیکٹ سے اپنے حصے کی ایل این جی وصول کرنے کی تحریری ضمانت طلب کی گئی تھی۔
سوئی سدرن گیس کمپنی اور اینگرو ایلنجی ٹرمینل کے مابین ایل این جی سپلائی ایگریمنٹ پر 30 اپریل 2014کو دستخط کیے گئے جس میں یہ شرط بھی عائد کی گئی کہ سوئی سدرن گیس کمپنی اینگرو ایلنجی ترمینل کمپنی کو یومیہ 2لاکھ 72ہزار 479ڈالر کیپیسٹی فیس کی مد میں اداکرے گی، دوسرے سال سے آئندہ 15سال تک 2لاکھ 28ہزار 16ڈالر یومیہ ادا کیے جائیں گی جبکہ معاہدے کی مدت پوری ہونے تک 0.06273 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے یوٹٰیلائزیشن چارجز بھی ادا کرنا ہوں گے۔
دوسری جانب رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی پر تمام شرائط کا اطلاق کردیا گیا تاہم سوئی سدرن گیس کمپنی کے بورڈ کی جانب سے 28 جنوری 2014کو منظور شدہ ایگریمنٹ کے لیے لازمی قرار پانے والی شرائط پر 30جون 2016 تک بھی عمل درآمد نہ ہوسکا۔
رپورٹ میں پروجیکٹ سے متعلق تکنیکی اور فنانشل تخمینہ جاتی رپورٹس پر بھی شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہوئے انکشاف کیا گیاکہ پروجیکٹ سے متعلق تکنیکی تخمینہ رپورٹ اور کمرشل /فنانشل تخمینہ رپورٹ پر کسی کنسلٹنٹ یا متعلقہ کمیٹی نے دستخط نہیں کیے جس کی وجہ سے آڈٹ کے دوران ان رپورٹس کی صداقت ثابت نہ ہوسکی، اینگروایلنجی ٹرمینل پرائیوٹ لمیٹڈ کی جانب سے دیے گئے پرائس پرپوزل کا نہ تو کوئی تجزیہ کیا گیا اور نہ ہی کسی دوسرے ٹرمینل سے موازنے کی رپورٹ کمرشل تخمینہ جاتی رپورٹ کے ساتھ منسلک کی گئی۔
رپورٹ میں ٹرمینل لگانے کے لیے منعقدہ بولی میں 1پارٹی اینگروایلنجی ٹرمینل کو ٹینڈر ایوارڈ کیے جانے کے عمل کو بھی پیپرا قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ سنگل بڈ کی صورت میں ٹینڈر صرف اس ہی صورت میں ایوارڈ کیا جاسکتا ہے جبکہ اسی مالیاتی سال کے دوران اسی طرز کا کوئی اور معاہدہ طے کیا گیا ہو تاکہ مسابقتی ریٹ (چارجز) کو پرکھا جا سکے، اس صورتحال میں سوئی سدرن گیس کمپنی کو یہ ٹینڈر دوبارہ جاری کرنا چاہیے تھا تاکہ بہتر اور مسابقانہ چارجز پر خدمات حاصل کی جاسکیں۔
معاہدے میں بے ضابطگیوں کا معاملہ مارچ 2015میں ٹرمینل کی تکمیل کے 1سال بعد جون 2016میں کمپنی کی انتظامیہ کو بھیجا گیا تاہم انتظامیہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں اس معاملے کی تحقیقات پر زور دیتے ہوئے ری گیسیفائڈ ایل این جی کے لیے خلاف ضابطہ فزیبلیٹی رپورٹس، لاگت اور فوائد کا تجزیہ کیے بغیر کنٹریکٹ ایوارڈ کرنے والے عناصر کو سامنے لانے کی سفارش کی ہے۔
نجی کمپنی اینگرو ایلنجی ٹرمینل پاکستان لمیٹڈ 125 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے لگایا گیا تاہم اس معاہدے کے نتیجے میں سوئی سدرن گیس کمپنی کی آمدن میں کوئی اضافہ نہ ہوسکا بلکہ مارچ تا دسمبر 2015کے دوران صرف 10 ماہ کی مدت میں 83.924 ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ برائے سال 2015-16کے مطابق ری گیسیفائڈ ایل این جی کی درآمد کے لیے کیے گئے معاہدے میں بے ضابطگیوں اور سروس ایگریمنٹ کی شرائط پوری نہ کیے جانے سے سوئی سدرن گیس کمپنی کو کم وبیش9ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
ادھر سوئی سدرن گیس کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے 28جنوری 2014کو ایل این جی سروس ایگریمنٹ کی مشروط منظوری دی تھی، بورڈ کی جانب سے شرائط عائد کی گئی تھیں کہ گیس کمپنیاں خریدی گئی ایل این جی کی قیمت (سیل پرائس) پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی جبکہ سروس ایگریمنٹ چارجز اور انتظامی اخراجات سوئی سدرن گیس کمپنی کو ادا کرنے کی پابند ہوں گی، بورڈ نے پی ایس او یا وفاقی حکومت کی جانب سے ایل این جی درآمد نہ ہونے کی صورت میں سوئی سدرن گیس کمپنی پر کوئی کیپیسٹی چارجز لاگو نہ ہونے کی تحریری ضمانت کو بھی لازمی قراد دیا تھا جبکہ سوئی ناردرن گیس کمپنی سے بھی اس پروجیکٹ سے اپنے حصے کی ایل این جی وصول کرنے کی تحریری ضمانت طلب کی گئی تھی۔
سوئی سدرن گیس کمپنی اور اینگرو ایلنجی ٹرمینل کے مابین ایل این جی سپلائی ایگریمنٹ پر 30 اپریل 2014کو دستخط کیے گئے جس میں یہ شرط بھی عائد کی گئی کہ سوئی سدرن گیس کمپنی اینگرو ایلنجی ترمینل کمپنی کو یومیہ 2لاکھ 72ہزار 479ڈالر کیپیسٹی فیس کی مد میں اداکرے گی، دوسرے سال سے آئندہ 15سال تک 2لاکھ 28ہزار 16ڈالر یومیہ ادا کیے جائیں گی جبکہ معاہدے کی مدت پوری ہونے تک 0.06273 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے یوٹٰیلائزیشن چارجز بھی ادا کرنا ہوں گے۔
دوسری جانب رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی پر تمام شرائط کا اطلاق کردیا گیا تاہم سوئی سدرن گیس کمپنی کے بورڈ کی جانب سے 28 جنوری 2014کو منظور شدہ ایگریمنٹ کے لیے لازمی قرار پانے والی شرائط پر 30جون 2016 تک بھی عمل درآمد نہ ہوسکا۔
رپورٹ میں پروجیکٹ سے متعلق تکنیکی اور فنانشل تخمینہ جاتی رپورٹس پر بھی شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہوئے انکشاف کیا گیاکہ پروجیکٹ سے متعلق تکنیکی تخمینہ رپورٹ اور کمرشل /فنانشل تخمینہ رپورٹ پر کسی کنسلٹنٹ یا متعلقہ کمیٹی نے دستخط نہیں کیے جس کی وجہ سے آڈٹ کے دوران ان رپورٹس کی صداقت ثابت نہ ہوسکی، اینگروایلنجی ٹرمینل پرائیوٹ لمیٹڈ کی جانب سے دیے گئے پرائس پرپوزل کا نہ تو کوئی تجزیہ کیا گیا اور نہ ہی کسی دوسرے ٹرمینل سے موازنے کی رپورٹ کمرشل تخمینہ جاتی رپورٹ کے ساتھ منسلک کی گئی۔
رپورٹ میں ٹرمینل لگانے کے لیے منعقدہ بولی میں 1پارٹی اینگروایلنجی ٹرمینل کو ٹینڈر ایوارڈ کیے جانے کے عمل کو بھی پیپرا قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ سنگل بڈ کی صورت میں ٹینڈر صرف اس ہی صورت میں ایوارڈ کیا جاسکتا ہے جبکہ اسی مالیاتی سال کے دوران اسی طرز کا کوئی اور معاہدہ طے کیا گیا ہو تاکہ مسابقتی ریٹ (چارجز) کو پرکھا جا سکے، اس صورتحال میں سوئی سدرن گیس کمپنی کو یہ ٹینڈر دوبارہ جاری کرنا چاہیے تھا تاکہ بہتر اور مسابقانہ چارجز پر خدمات حاصل کی جاسکیں۔
معاہدے میں بے ضابطگیوں کا معاملہ مارچ 2015میں ٹرمینل کی تکمیل کے 1سال بعد جون 2016میں کمپنی کی انتظامیہ کو بھیجا گیا تاہم انتظامیہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں اس معاملے کی تحقیقات پر زور دیتے ہوئے ری گیسیفائڈ ایل این جی کے لیے خلاف ضابطہ فزیبلیٹی رپورٹس، لاگت اور فوائد کا تجزیہ کیے بغیر کنٹریکٹ ایوارڈ کرنے والے عناصر کو سامنے لانے کی سفارش کی ہے۔