ٹرمپ کے اقدام پر شدید رد عمل 7 مسلم ممالک کے گرین کارڈ ہولڈرز کو امریکا آنے کی اجازت
داخلے کے مقام پر جانچ کی جاسکتی ہے،ہوم لینڈ سیکیورٹی، گائیڈلائنز تبدیل نہیں کیں، وضاحت کی، ٹرمپ کی مشیر کا انٹرویو
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے 7مسلم اکثریتی ممالک سے آنے والے تارکین وطن کیخلاف اقدامات پر دنیا بھر میں ہونے والے ردعمل کے بعد امریکی حکومت نے گرین کارڈ ہولڈرافراد کے ملک میں دوبارہ داخلے پر لگائی گئی پابندیوںکو نرم کردیا ہے۔
جعے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت سات مسلم اکثریتی ممالک سے آنے والے افراد کے ساتھ ایئر پورٹس پر کسٹم اور امیگریشن کے نئے قوانین لاگو ہونا تھے لیکن حکام قوانین کے حوالے سے موجود کنفیوژن سے نمٹنے کی کوششیں کرتے رہے۔ملک بھر میں ہوائی اڈوں پر احتجاج اس کے علاوہ تھا۔ ایک وفاقی جج نے انتظامی حکمنامے کے خلاف حکم امتناع جاری کر دیا جس کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں کے علاوہ سرکردہ ڈیموکریٹ اور ریبپلکن ارکان کانگریس نے بھی اس فیصلے پر تنقید کی۔
ادھر امریکی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئر مین سینیٹر باب کروکرجو ٹرمپ کے حامی رہے ہیں انھوں نے بھی ٹرمپ کے حکمنامے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'صدارتی حکم بڑے خراب طریقے سے نافذکیا گیا بالخصوص گرین کارڈ رکھنے والوں کے حوالے سے!'۔ ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی جو کسٹم کے معاملات، سرحدی اور امیگریشن ایجنسیوں کی نگرانی کرتا ہے اس سارے عرصے میں نئے قوانین کی تشریح اور ان کا نفاذ کرنے کی کشش کرتا رہا۔ گرین کارڈ رکھنے والوں کا معاملہ خصوصی طور پر کنفیوژن کا موضوع تھا کیونکہ انتظامی حکام ہفتے کو کہہ چکے تھے کہ جن سات مسلم ممالک کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان کے وہ افراد جو گرین کارڈ رکھتے ہیں اور اپنے آبائی ملکوں کو گئے ہوئے ہیں انھیں بھی دوبارہ سے جائزے کے عمل سے گزارے بغیر واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔
دوسری جانب اتوار کے روز ہوم لینڈ سیکیورٹی نے کہا کہ قانونی طور پر مستقل رہایش رکھنے والے کو سیکیورٹی چیکنگ کے بعد داخلے کی اجازت دے دی جائے گی۔ہوم لینڈ سیکیورٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ '' اہم چیز یہ ہے کہ قانونی طور پر امریکا میں مستقل رہائش رکھنے والے وہ افراد جن کے پاس کارآمد ون فائیو فائیوون (گرین کارڈ) ہے انھیں امریکا آنے والی پروازوں میں بیٹھنے کی اجازت ہوگی لیکن امریکا میں داخلے کے مقام پر حسب ضرورت ان کی جانچ کی جاسکتی ہے۔
ٹرمپ کی ایک سینئر مشیر کیلیانی کانوے نے پیر کو امریکی ٹی وی سی این بی سے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ گرین کارڈ کے حوالے سے گائیڈلائنز تبدیل نہیں کی گئیں لیکن ان کی وضاحت کی ضرورت تھی۔ اس حوالے سے دیکھاجائے تو فیصلہ واپس نہیں لیا گیا۔ ٹرمپ ایگزیکٹو آرڈر کو قومی سلامتی کامعاملہ قرار دے چکے ہیں۔کیلیفورنیا، پنسلوانیا، ای نوائے، نیو میکسکیو، میساچیوسٹس سے اور ہوائی سمیت16 امریکی ریاستوں کے اٹارنی جنرلز نے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرکیخلاف دائرمقدمہ لڑنے کا اعلان کردیا، مشترکہ بیان میں صدارتی حکمنامہ کوغیرآئینی، غیرقانونی اورامریکی اقدار کے منافی قراردیتے ہوئے کہاگیا کہ مذہبی آزادی بنیادی امریکی اقدار میں سے ایک ہے جسے کوئی صدر تبدیل نہیں کر سکتا۔
کیلیفورنیا سے ڈیموکریٹک پارٹی کی سینیٹر ڈائین فائن سٹین نے اعلان کیا ہے کہ وہ آج صدارتی حکمنامے کیخلاف دو بل متعارف کرائینگی، ایک بل حکم نامہ منسوخ کرنے اوردوسرا تارکینِ وطن کی آمد پر پابندی روکنے کا ہوگا۔امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے وزیر جان کیلی نے پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ گرین کارڈ ہولڈرزکا امریکا میں داخلہ قومی مفاد میں ہے، ان افرادکو ملک میں داخلے کی اجازت دیدی اورگزشتہ چند گھنٹوں کے دوران سیکڑوں شہری امریکہ میں داخل ہوئے تاہم ان کی سخت پڑتال جاری ہے۔
ادھرسخت تنقید کے باوجودٹرمپ اپنے موقف پرڈٹے نظر آتے ہیں، امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ صدارتی حکم نامے کے خلاف مختلف امریکی شہروں اورایئرپورٹس پر احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، صدارتی حکم نامے کے مطابق مسلم اکثریت کے حامل شام، عراق، ایران سمیت 7ممالک کے شہریوں کے امریکامیں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے جس کے بعد ان ممالک سے آنے والے کوبے دخل یاحراستی مراکز میں محبوس کردیا گیا ہے۔
نیویارک، واشنگٹن اوربوسٹن میںدوسرے ہفتے کو بھی جاری مظاہرے دیگر شہروں تک پھیل گئے۔ نیویارک میں کسٹمز اوربارڈرپروٹیکشن ایجنسی کے دفترکی جانب 10ہزارسے زائد افرادنے مارچ کیا، نیویارک سے منتخب ہونے والے ڈیموکریٹک سینیٹر چارلس شومرنے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ٹرمپ کے احکام امریکی اقدارکے خلاف ہیں، یہ بہت سارے لوگوں کی زندگی اورموت کا مسئلہ ہے، ہم صدارتی حکم کی منسوخی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے قریب ہزاروں افراد نے مارچ کیا اور 'نفرت نہیں، پناہ گزینوں کو خوش آمدید' کے نعرے لگاتے رہے۔ مظاہرین جب ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل کے قریب پہنچے تو انھوں نے شیم شیم کے آوازے لگائے، مظاہرین جب کینیڈین سفارت خانے کے قریب پہنچے تو انھوں نے کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے اقدامات پرخیرمقدمی نعرے لگائے اور کہا کہ لیڈر ایسا ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ جسٹن ٹروڈونے اپنے ٹویٹرپیغام میں پناہ گزینوں کے خیرمقدم کی پالیسی جاری رکھنے کا اعلان کیاتھا۔ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر بھی ہزاروں افراد جمع ہوگئے جہاں بیرون ملک سے آمد پرحراست میں لیے گئے افرادکے اہل خانہ بھی موجود تھے۔ لاس اینجلس ایئرپورٹ پربھی ہزاروں مظاہرین پہنچ گئے اور 'پناہ گزینوں کوخوش آمدید'کے نعرے لگاتے رہے۔
دوسری جانب بوسٹن میں ہزاروں افراد نے صدارتی حکم کے خلاف احتجاج کیا، مظاہرین سے سینیٹرالزبتھ وارن ، ڈیموکریٹک پارٹی کے لبرل ونگ کے رہنماؤں اوردیگرمقررین نے خطاب کیا۔ مختلف شہروں میں احتجاج میں مسلمانوں نے بھی شرکت کی اور اس دوران نمازبھی اداکی۔ ہیوسٹن میں بھی احتجاجی مظاہرہ کیاگیا۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی کی خاتون پروفیسرجنیفر فیگن نے کہاکہ میں یہودی ہوں اور جو(ہولوکاسٹ)ہمارے ساتھ ہوا کبھی نہیں ہوناچاہیے، مسلمانوں کے تحفظ کیلیے یہودی سب سے پہلے آگے آئیں گے کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ جوہمارے ساتھ ہوا وہ ٹرمپ کے دورمیں کسی کے ساتھ دہرایاجائے۔ ڈیٹرائٹ ایئرپورٹ پربھی ہزاروں افراد پہنچ گئے اور 'نفرت نہیں، خوف نہیں، پناہ گزینوں کاخیرمقدم' کے نعرے لگائے جب کہ لندن کی ڈاؤننگ اسٹریٹ پر سیکڑوں افراد نے ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں اور احکام کے خلاف مظاہرہ کیا۔
جعے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت سات مسلم اکثریتی ممالک سے آنے والے افراد کے ساتھ ایئر پورٹس پر کسٹم اور امیگریشن کے نئے قوانین لاگو ہونا تھے لیکن حکام قوانین کے حوالے سے موجود کنفیوژن سے نمٹنے کی کوششیں کرتے رہے۔ملک بھر میں ہوائی اڈوں پر احتجاج اس کے علاوہ تھا۔ ایک وفاقی جج نے انتظامی حکمنامے کے خلاف حکم امتناع جاری کر دیا جس کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں کے علاوہ سرکردہ ڈیموکریٹ اور ریبپلکن ارکان کانگریس نے بھی اس فیصلے پر تنقید کی۔
ادھر امریکی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئر مین سینیٹر باب کروکرجو ٹرمپ کے حامی رہے ہیں انھوں نے بھی ٹرمپ کے حکمنامے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'صدارتی حکم بڑے خراب طریقے سے نافذکیا گیا بالخصوص گرین کارڈ رکھنے والوں کے حوالے سے!'۔ ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی جو کسٹم کے معاملات، سرحدی اور امیگریشن ایجنسیوں کی نگرانی کرتا ہے اس سارے عرصے میں نئے قوانین کی تشریح اور ان کا نفاذ کرنے کی کشش کرتا رہا۔ گرین کارڈ رکھنے والوں کا معاملہ خصوصی طور پر کنفیوژن کا موضوع تھا کیونکہ انتظامی حکام ہفتے کو کہہ چکے تھے کہ جن سات مسلم ممالک کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان کے وہ افراد جو گرین کارڈ رکھتے ہیں اور اپنے آبائی ملکوں کو گئے ہوئے ہیں انھیں بھی دوبارہ سے جائزے کے عمل سے گزارے بغیر واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔
دوسری جانب اتوار کے روز ہوم لینڈ سیکیورٹی نے کہا کہ قانونی طور پر مستقل رہایش رکھنے والے کو سیکیورٹی چیکنگ کے بعد داخلے کی اجازت دے دی جائے گی۔ہوم لینڈ سیکیورٹی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ '' اہم چیز یہ ہے کہ قانونی طور پر امریکا میں مستقل رہائش رکھنے والے وہ افراد جن کے پاس کارآمد ون فائیو فائیوون (گرین کارڈ) ہے انھیں امریکا آنے والی پروازوں میں بیٹھنے کی اجازت ہوگی لیکن امریکا میں داخلے کے مقام پر حسب ضرورت ان کی جانچ کی جاسکتی ہے۔
ٹرمپ کی ایک سینئر مشیر کیلیانی کانوے نے پیر کو امریکی ٹی وی سی این بی سے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ گرین کارڈ کے حوالے سے گائیڈلائنز تبدیل نہیں کی گئیں لیکن ان کی وضاحت کی ضرورت تھی۔ اس حوالے سے دیکھاجائے تو فیصلہ واپس نہیں لیا گیا۔ ٹرمپ ایگزیکٹو آرڈر کو قومی سلامتی کامعاملہ قرار دے چکے ہیں۔کیلیفورنیا، پنسلوانیا، ای نوائے، نیو میکسکیو، میساچیوسٹس سے اور ہوائی سمیت16 امریکی ریاستوں کے اٹارنی جنرلز نے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرکیخلاف دائرمقدمہ لڑنے کا اعلان کردیا، مشترکہ بیان میں صدارتی حکمنامہ کوغیرآئینی، غیرقانونی اورامریکی اقدار کے منافی قراردیتے ہوئے کہاگیا کہ مذہبی آزادی بنیادی امریکی اقدار میں سے ایک ہے جسے کوئی صدر تبدیل نہیں کر سکتا۔
کیلیفورنیا سے ڈیموکریٹک پارٹی کی سینیٹر ڈائین فائن سٹین نے اعلان کیا ہے کہ وہ آج صدارتی حکمنامے کیخلاف دو بل متعارف کرائینگی، ایک بل حکم نامہ منسوخ کرنے اوردوسرا تارکینِ وطن کی آمد پر پابندی روکنے کا ہوگا۔امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے وزیر جان کیلی نے پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ گرین کارڈ ہولڈرزکا امریکا میں داخلہ قومی مفاد میں ہے، ان افرادکو ملک میں داخلے کی اجازت دیدی اورگزشتہ چند گھنٹوں کے دوران سیکڑوں شہری امریکہ میں داخل ہوئے تاہم ان کی سخت پڑتال جاری ہے۔
ادھرسخت تنقید کے باوجودٹرمپ اپنے موقف پرڈٹے نظر آتے ہیں، امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ صدارتی حکم نامے کے خلاف مختلف امریکی شہروں اورایئرپورٹس پر احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، صدارتی حکم نامے کے مطابق مسلم اکثریت کے حامل شام، عراق، ایران سمیت 7ممالک کے شہریوں کے امریکامیں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے جس کے بعد ان ممالک سے آنے والے کوبے دخل یاحراستی مراکز میں محبوس کردیا گیا ہے۔
نیویارک، واشنگٹن اوربوسٹن میںدوسرے ہفتے کو بھی جاری مظاہرے دیگر شہروں تک پھیل گئے۔ نیویارک میں کسٹمز اوربارڈرپروٹیکشن ایجنسی کے دفترکی جانب 10ہزارسے زائد افرادنے مارچ کیا، نیویارک سے منتخب ہونے والے ڈیموکریٹک سینیٹر چارلس شومرنے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ٹرمپ کے احکام امریکی اقدارکے خلاف ہیں، یہ بہت سارے لوگوں کی زندگی اورموت کا مسئلہ ہے، ہم صدارتی حکم کی منسوخی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے قریب ہزاروں افراد نے مارچ کیا اور 'نفرت نہیں، پناہ گزینوں کو خوش آمدید' کے نعرے لگاتے رہے۔ مظاہرین جب ٹرمپ انٹرنیشنل ہوٹل کے قریب پہنچے تو انھوں نے شیم شیم کے آوازے لگائے، مظاہرین جب کینیڈین سفارت خانے کے قریب پہنچے تو انھوں نے کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے اقدامات پرخیرمقدمی نعرے لگائے اور کہا کہ لیڈر ایسا ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ جسٹن ٹروڈونے اپنے ٹویٹرپیغام میں پناہ گزینوں کے خیرمقدم کی پالیسی جاری رکھنے کا اعلان کیاتھا۔ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر بھی ہزاروں افراد جمع ہوگئے جہاں بیرون ملک سے آمد پرحراست میں لیے گئے افرادکے اہل خانہ بھی موجود تھے۔ لاس اینجلس ایئرپورٹ پربھی ہزاروں مظاہرین پہنچ گئے اور 'پناہ گزینوں کوخوش آمدید'کے نعرے لگاتے رہے۔
دوسری جانب بوسٹن میں ہزاروں افراد نے صدارتی حکم کے خلاف احتجاج کیا، مظاہرین سے سینیٹرالزبتھ وارن ، ڈیموکریٹک پارٹی کے لبرل ونگ کے رہنماؤں اوردیگرمقررین نے خطاب کیا۔ مختلف شہروں میں احتجاج میں مسلمانوں نے بھی شرکت کی اور اس دوران نمازبھی اداکی۔ ہیوسٹن میں بھی احتجاجی مظاہرہ کیاگیا۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی کی خاتون پروفیسرجنیفر فیگن نے کہاکہ میں یہودی ہوں اور جو(ہولوکاسٹ)ہمارے ساتھ ہوا کبھی نہیں ہوناچاہیے، مسلمانوں کے تحفظ کیلیے یہودی سب سے پہلے آگے آئیں گے کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ جوہمارے ساتھ ہوا وہ ٹرمپ کے دورمیں کسی کے ساتھ دہرایاجائے۔ ڈیٹرائٹ ایئرپورٹ پربھی ہزاروں افراد پہنچ گئے اور 'نفرت نہیں، خوف نہیں، پناہ گزینوں کاخیرمقدم' کے نعرے لگائے جب کہ لندن کی ڈاؤننگ اسٹریٹ پر سیکڑوں افراد نے ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں اور احکام کے خلاف مظاہرہ کیا۔