ساکت نظام سے لڑنے والی مائی جوری جمالی
مائی جوری نے اس ساکت نظام میں ایک ایسا پتھر پھینکا جسکی بازگشت دنیا نے سنی مگر افسوس کہ انکے علاقے کو کچھ فائدہ نہ ہوا
KOHISTAN:
مائی جوری جمالی پاکستان کی پہلی محنت کش اور ناخواندہ خاتون ہے، جس نے گاؤں کے بااثر سردار کے خلاف انتخابات میں حصہ لیا۔ افسوس یہ کہ بلوچستان بطور صوبہ معاشرہ میں عورت کی آزادی اور مرد کے شانہ بشانہ مصروفِ عمل رہنے کا سخت مخالف ہے، اور ایک ایسے معاشرے میں پاکستان کی پہلی کسان اور ناخواندہ خاتون مائی جوری جمالی نے بااثر سردار کے خلاف الیکشن میں حصہ لے کر ایک ایسی تاریخ رقم کردی جو مثال بن گئی۔ مائی جوری نے اس ساکت نظام میں ایک ایسا پتھر پھینکا جس کی بازگشت دنیا نے سنی۔
مائی جوری گوٹھ غلام محمد جمالی کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھتی ہے، مائی جوری نے 2010ء کے ضمنی الیکشن میں پہلی مرتبہ جب کاغذات جمع کروائے تو پورے پاکستانی میڈیا نے بلوچستان کے اِس چھوٹے سے دیہات کا رُخ کیا۔ یہ گاؤں مسائل کے انبار میں گِھرا تھا، جہاں کی عورتیں آج بھی 2 کلومیٹر دور جا کر پیدل پانی بھرتی ہیں۔ یہ گاؤں محنت کشوں کا گاؤں ہے اور یہاں کے لوگ اپنا گزارہ کھیتی باڑی کرکے کرتے ہیں۔ اِس گاؤں کے کچھ لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں، جبکہ اکثر بچے پرائمری تک پڑھ کر پھر بھیڑ، بکریاں چرا کر اپنے والدین کا گزارہ کرتے ہیں۔
مائی جوری کا گاؤں سندھ بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے، اِس گاؤں کی آبادی تقریباً 6 ہزار کے لگ بھگ ہے اور گاؤں کے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 2100 کے قریب ہے۔ یہ گاؤں کمیونسٹ پارٹی کا مرکز ہوا کرتا تھا، جب سردار رستم خان جمالی کا کراچی میں گلستان جوہر کے علاقے میں قتل ہوا تو اُس کی نشست خالی ہوگئی اور اُس پر الیکشن کا اعلان ہوا تو مائی جوری جمالی نے بھی عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر کاغذاتِ نامزدگی جمع کروا دیئے، جس کے صدر حسن ناصر سید تھے اور کامریڈ رمضان سندھ کے صدر تھے۔ یہ پارٹی اِس وقت سیاست میں نووارد تھی، جب مائی جوری جمالی نے اپنے کاغذات اِس پارٹی کے ٹکٹ پر جمع کرادئیے تو پورے پاکستانی میڈیا نے اِس پارٹی کو چند روز میں عروج پر پہنچا دیا۔ اِس عروج کی ایک وجہ اُس وقت یہ بھی تھی کہ اُسی علاقے کے قریب 5 لڑکیوں کو زندہ درگور کیا ہوا تھا، اور اِسی خبر کی وجہ سے میڈیا کی نظریں پہلے ہی یہاں تھیں اور پھر ایسے ہی ایک علاقے سے عورت کا انتخابات میں حصہ لینا جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔
آج میں اُسی مائی جوری جمالی سے ملنے جب اُن کے گھر پہنچا تو مائی جوری پانی بھرنے دو کلو میٹر دور سیف اللہ مگسی کینال پر پینے کا پانی بھرنے کے لئے گئی ہوئی تھی۔ مسلسل آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد مائی جوری 30 لیٹر کے کنستر میں پانی لاچکی تھی، میں نے اُس کے سر سے پانی کا کنستر نیچے اتارا اور ایک ٹوٹی چارپائی پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگا۔
مائی جوری جمالی بہت مایوس نظر آرہی تھی۔ اُس کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی پہلی کسان عورت تو بنی جس نے صوبائی الیکشن میں حصہ لیا مگر آج تک کسی بھی ادارے کو یا کسی بھی اعلیٰ حکام کو میرے گوٹھ کی کچی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور ایک اسکول تک تعمیر کرنے کا خیال نہ آیا، اور نہ اسپتال کی ضرورت کا احساس کسی کو ہوا۔
افسوس ہوتا ہے اِس ملک کے حکمرانوں پر، میری ایک بیٹی جو بول نہیں سکتی، کچھ ڈاکٹر کہتے ہیں اِس کا علاج ممکن ہے لیکن میں دو وقت کا کھانا کھاؤں یا علاج کراؤں؟ میں نے یہ سوچ کر الیکشن میں حصہ لیا تھا کہ میں اگر ہار بھی جاؤں تو میرے گاؤں کے مسائل منظرِ عام پر آجائیں گے، اور اُن کے حل کیلئے کام شروع ہوں گے مگر یہاں تو اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ میرے گاؤں میں سردارں کا راج کل بھی تھا، آج بھی ہے، یہاں پر اُن کی عدالتیں، اُن کی ہی پولیس اور تو اور دہشت گرد بھی اُن کے ہی ہیں۔ یہاں پر پیروں تلے گِرے ہوئے لوگ زیادہ ہیں اور آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کرنے والے صرف چند لوگ ہوں گے۔
مائی جوری جذباتی لہجے میں بول رہی تھی اور میں خاموشی سے مائی جوری کی باتیں سُن رہا تھا۔ اب میڈیا کو میرا گاوں نظر نہیں آتا، اب بھی لوگ اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے مر رہے ہیں، اسکول نہ ہونے کی وجہ سے بچے کھیل کود میں زندگی گزار دیتے ہیں اور سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے بارش میں پورا گاؤں دلدل بن جاتا ہے۔ جب 3 فروری 2010ء کو میں نے کاغذات جمع کروائے تو اُس روز میں سمجھی تھی کہ میں الیکشن کے کاغذات جمع نہیں کروا رہی ہوں بلکہ اپنے گاؤں کی ترقی کے دن شروع کررہی ہوں، مگر آج تک کچھ بھی نہ ہوا جس کا مجھے بہت دُکھ ہوتا ہے، اُس وقت مجھے بہت لالچ دیا گیا تھا اور دباؤ بھی ڈالا گیا تھا مگر میں نے ان سب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر اب مجھے لگتا ہے میں ہار گئی ہوں۔
مائی جوری جمالی کے والد ایک غریب کسان تھے، جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو اُن کے والد نے اُن کا نام جوری رکھ دیا، جس کے لفظی معنی کڑوا پھل ہے۔ یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اُن کی بیٹی کبھی محنت کشوں اور محکوموں کیلئے مثال بن جائے گی۔ مائی جوری جمالی غربت اور اسکول کے نہ ہونے کی وجہ سے ناخواندہ ہے مگر تہذیبی شعور رکھتی ہے۔ خاندانی روایات کے مطابق کم عمری میں شادی کے بندھن میں باندھ دی گئی اور آج اس غریب کی چار بیٹیاں اور پانچ بیٹے ہیں جن میں سے صرف ایک بیٹا دسویں تک تعلم حاصل کرچکا ہے، باقی سب ناخواندہ ہیں۔
مائی جوری جمالی مستقبل کے حوالے سے کہتی ہے کہ اِس کا گاؤں ترقی کرے، کسانوں کو وقت پر کھیتوں کیلئے پانی دیا جائے، شہروں کی طرح اُن کے گاؤں میں سڑکیں ہوں اور پینے کا پانی گھر گھر پہنچایا جائے۔ اسکول بنیں، اسپتال بنیں، مہنگائی اور کرپشن کا خاتمہ کیا جائے اور بیروزگار خواتین کیلئے گاؤں گاؤں کام دیا جائے، خواتین کو حقوق دلوائے جائیں اور سی پیک کو جعفرآباد سے ملانے کیلئے لنک روڑ بھی دئیے جائیں تاکہ بلوچستان کے قریبی چھوٹے بڑے شہر ترقی کرسکیں۔ مائی جوری کہتی ہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچی مگر بلوچستان کے باسی ابھی بھی پتھروں کے زمانے میں رہ رہے ہیں، آج بھی بلوچستان سے نکلنے والی گیس اُن کے گھر تک نہیں آسکی اور آج بھی بلوچستان سے نکلنے والے پتھروں سے سڑکیں نہ تعمیر ہوسکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مائی جوری جمالی پاکستان کی پہلی محنت کش اور ناخواندہ خاتون ہے، جس نے گاؤں کے بااثر سردار کے خلاف انتخابات میں حصہ لیا۔ افسوس یہ کہ بلوچستان بطور صوبہ معاشرہ میں عورت کی آزادی اور مرد کے شانہ بشانہ مصروفِ عمل رہنے کا سخت مخالف ہے، اور ایک ایسے معاشرے میں پاکستان کی پہلی کسان اور ناخواندہ خاتون مائی جوری جمالی نے بااثر سردار کے خلاف الیکشن میں حصہ لے کر ایک ایسی تاریخ رقم کردی جو مثال بن گئی۔ مائی جوری نے اس ساکت نظام میں ایک ایسا پتھر پھینکا جس کی بازگشت دنیا نے سنی۔
مائی جوری گوٹھ غلام محمد جمالی کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھتی ہے، مائی جوری نے 2010ء کے ضمنی الیکشن میں پہلی مرتبہ جب کاغذات جمع کروائے تو پورے پاکستانی میڈیا نے بلوچستان کے اِس چھوٹے سے دیہات کا رُخ کیا۔ یہ گاؤں مسائل کے انبار میں گِھرا تھا، جہاں کی عورتیں آج بھی 2 کلومیٹر دور جا کر پیدل پانی بھرتی ہیں۔ یہ گاؤں محنت کشوں کا گاؤں ہے اور یہاں کے لوگ اپنا گزارہ کھیتی باڑی کرکے کرتے ہیں۔ اِس گاؤں کے کچھ لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں، جبکہ اکثر بچے پرائمری تک پڑھ کر پھر بھیڑ، بکریاں چرا کر اپنے والدین کا گزارہ کرتے ہیں۔
مائی جوری کا گاؤں سندھ بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے، اِس گاؤں کی آبادی تقریباً 6 ہزار کے لگ بھگ ہے اور گاؤں کے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 2100 کے قریب ہے۔ یہ گاؤں کمیونسٹ پارٹی کا مرکز ہوا کرتا تھا، جب سردار رستم خان جمالی کا کراچی میں گلستان جوہر کے علاقے میں قتل ہوا تو اُس کی نشست خالی ہوگئی اور اُس پر الیکشن کا اعلان ہوا تو مائی جوری جمالی نے بھی عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر کاغذاتِ نامزدگی جمع کروا دیئے، جس کے صدر حسن ناصر سید تھے اور کامریڈ رمضان سندھ کے صدر تھے۔ یہ پارٹی اِس وقت سیاست میں نووارد تھی، جب مائی جوری جمالی نے اپنے کاغذات اِس پارٹی کے ٹکٹ پر جمع کرادئیے تو پورے پاکستانی میڈیا نے اِس پارٹی کو چند روز میں عروج پر پہنچا دیا۔ اِس عروج کی ایک وجہ اُس وقت یہ بھی تھی کہ اُسی علاقے کے قریب 5 لڑکیوں کو زندہ درگور کیا ہوا تھا، اور اِسی خبر کی وجہ سے میڈیا کی نظریں پہلے ہی یہاں تھیں اور پھر ایسے ہی ایک علاقے سے عورت کا انتخابات میں حصہ لینا جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔
آج میں اُسی مائی جوری جمالی سے ملنے جب اُن کے گھر پہنچا تو مائی جوری پانی بھرنے دو کلو میٹر دور سیف اللہ مگسی کینال پر پینے کا پانی بھرنے کے لئے گئی ہوئی تھی۔ مسلسل آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد مائی جوری 30 لیٹر کے کنستر میں پانی لاچکی تھی، میں نے اُس کے سر سے پانی کا کنستر نیچے اتارا اور ایک ٹوٹی چارپائی پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگا۔
مائی جوری جمالی بہت مایوس نظر آرہی تھی۔ اُس کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی پہلی کسان عورت تو بنی جس نے صوبائی الیکشن میں حصہ لیا مگر آج تک کسی بھی ادارے کو یا کسی بھی اعلیٰ حکام کو میرے گوٹھ کی کچی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور ایک اسکول تک تعمیر کرنے کا خیال نہ آیا، اور نہ اسپتال کی ضرورت کا احساس کسی کو ہوا۔
افسوس ہوتا ہے اِس ملک کے حکمرانوں پر، میری ایک بیٹی جو بول نہیں سکتی، کچھ ڈاکٹر کہتے ہیں اِس کا علاج ممکن ہے لیکن میں دو وقت کا کھانا کھاؤں یا علاج کراؤں؟ میں نے یہ سوچ کر الیکشن میں حصہ لیا تھا کہ میں اگر ہار بھی جاؤں تو میرے گاؤں کے مسائل منظرِ عام پر آجائیں گے، اور اُن کے حل کیلئے کام شروع ہوں گے مگر یہاں تو اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ میرے گاؤں میں سردارں کا راج کل بھی تھا، آج بھی ہے، یہاں پر اُن کی عدالتیں، اُن کی ہی پولیس اور تو اور دہشت گرد بھی اُن کے ہی ہیں۔ یہاں پر پیروں تلے گِرے ہوئے لوگ زیادہ ہیں اور آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کرنے والے صرف چند لوگ ہوں گے۔
مائی جوری جذباتی لہجے میں بول رہی تھی اور میں خاموشی سے مائی جوری کی باتیں سُن رہا تھا۔ اب میڈیا کو میرا گاوں نظر نہیں آتا، اب بھی لوگ اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے مر رہے ہیں، اسکول نہ ہونے کی وجہ سے بچے کھیل کود میں زندگی گزار دیتے ہیں اور سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے بارش میں پورا گاؤں دلدل بن جاتا ہے۔ جب 3 فروری 2010ء کو میں نے کاغذات جمع کروائے تو اُس روز میں سمجھی تھی کہ میں الیکشن کے کاغذات جمع نہیں کروا رہی ہوں بلکہ اپنے گاؤں کی ترقی کے دن شروع کررہی ہوں، مگر آج تک کچھ بھی نہ ہوا جس کا مجھے بہت دُکھ ہوتا ہے، اُس وقت مجھے بہت لالچ دیا گیا تھا اور دباؤ بھی ڈالا گیا تھا مگر میں نے ان سب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر اب مجھے لگتا ہے میں ہار گئی ہوں۔
مائی جوری جمالی کے والد ایک غریب کسان تھے، جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو اُن کے والد نے اُن کا نام جوری رکھ دیا، جس کے لفظی معنی کڑوا پھل ہے۔ یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اُن کی بیٹی کبھی محنت کشوں اور محکوموں کیلئے مثال بن جائے گی۔ مائی جوری جمالی غربت اور اسکول کے نہ ہونے کی وجہ سے ناخواندہ ہے مگر تہذیبی شعور رکھتی ہے۔ خاندانی روایات کے مطابق کم عمری میں شادی کے بندھن میں باندھ دی گئی اور آج اس غریب کی چار بیٹیاں اور پانچ بیٹے ہیں جن میں سے صرف ایک بیٹا دسویں تک تعلم حاصل کرچکا ہے، باقی سب ناخواندہ ہیں۔
مائی جوری جمالی مستقبل کے حوالے سے کہتی ہے کہ اِس کا گاؤں ترقی کرے، کسانوں کو وقت پر کھیتوں کیلئے پانی دیا جائے، شہروں کی طرح اُن کے گاؤں میں سڑکیں ہوں اور پینے کا پانی گھر گھر پہنچایا جائے۔ اسکول بنیں، اسپتال بنیں، مہنگائی اور کرپشن کا خاتمہ کیا جائے اور بیروزگار خواتین کیلئے گاؤں گاؤں کام دیا جائے، خواتین کو حقوق دلوائے جائیں اور سی پیک کو جعفرآباد سے ملانے کیلئے لنک روڑ بھی دئیے جائیں تاکہ بلوچستان کے قریبی چھوٹے بڑے شہر ترقی کرسکیں۔ مائی جوری کہتی ہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچی مگر بلوچستان کے باسی ابھی بھی پتھروں کے زمانے میں رہ رہے ہیں، آج بھی بلوچستان سے نکلنے والی گیس اُن کے گھر تک نہیں آسکی اور آج بھی بلوچستان سے نکلنے والے پتھروں سے سڑکیں نہ تعمیر ہوسکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔