حسین نواز نے پورا سچ نہیں بولا سپریم کورٹ

قطری شاہی فیملی سے خاندانی تعلقات کی بدولت 1993 سے لندن فلیٹس میں وزیراعظم کے بچے رہتے تھے، وکیل حسین نواز

2006 سے پہلے کمپنیوں کے بیریئر سرٹیفکیٹس الثانی خاندان کے پاس تھے، سلمان اکرم فوٹو؛ فائل

RAWALPINDI:
پاناما کیس کے دوران عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز نے پورا سچ نہیں بولا جب کہ حدیبیہ پیپر مل ریفرنس میں اسحاق ڈار کی معافی کا ریکارڈ پیش کردیا گیا۔



جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ سماعت پاناما کیس کی سماعت کررہا ہے، سماعت کے آغاز پر پراسیکیوٹر جنرل نیب وقاص قدیرڈار نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس پر اپیل دائر نہ کرنے سے متعلق اجلاس کی کارروائی کے منٹس جمع کروا دئیے۔ وقاص ڈار نے منٹس پڑھتے ہوئے بتایا کہ اجلاس میں پراسیکیوٹر نیب نے اپیل دائر نہ کرنے کی تجویز دی اورچیئرمین نیب نے تجویز سے اتفاق کیا۔ ججز کے فیصلے میں اختلاف کی وجہ سے اپیل دائرنہیں کی گئی۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: جسٹس عظمت سعید کی طبیعت ناساز



جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ایسے کتنے مقدمات ہیں جن میں اپیل دائر نہیں کی گئی، جس پر وقاص قدیرنے بتایا کہ ایسے لاتعداد مقدمات ہیں جن میں اپیل دائر نہیں کی گئی۔ جسٹس اعجازنے ریمارکس دیئے کہ ایسے بھی کئی مقدمات ہیں جن میں ججز نے متفقہ فیصلہ دیا لیکن نیب نے اپیل دائر کی۔ جسٹس آصف کهوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جب نیب کی باری آئے گی تو اس پہلو کو زیرغورلائیں گے۔



حسن نوازاورحسین نواز کے وکیل سلیمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل جاری کرتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ سے ثابت ہے کہ فیکٹری کی فروخت سے 12 ملین درہم ملے، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ بینک کے واجبات کس نے ادا کیے۔ کیا 75 فیصد شیئرز کی فروخت پر بینک کو قرضے کی ادائیگی ہوئی۔ سلمان اکرم نے بتایا کہ 75 فیصد حصص کی فروخت سے ملنے والے 21 ملین درہم قرض کی مد میں ادا کیے، جس پرجسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ فیکٹری کے باقی واجبات کا کیا ہوا، جس پر سلمان اکرم نے جواب دیا کہ ہو سکتا ہے فیکٹری کے منافع سے واجبات ادا کیے گئے ہوں۔




سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کی تقریرمیں بھٹو کے دورمیں 6 نئی فیکٹریاں لگانے کا ذکر ہے، جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ پاکستان میں 6 نئی فیکٹریاں لگائیں تو گلف فیکٹری کی کیا ضرورت تھی، وزیراعظم کی تقریرمیں قطری سرمایہ کاری کا ذکرنہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے استفسارکیا کہ مشینری کے خرید و فروخت کا وزیراعظم نے کہیں ذکرنہیں کیا، میں نے کتاب میں صفحہ گم ہونے کی بات کی، جس پر ہمیں ڈانٹا بھی گیا کہ سارے ثبوت موجود ہیں اور ہمیں نظر نہیں آ رہے، غلطی ہو سکتی ہے کہ ہمیں نظر نہ آیا ہو، کیا دبئی فیکٹری کی مشینری حسین نواز نے خریدی تھی، جس پرسلمان اکرم راجا نے بتایا کہ دبئی فیکٹری کی مشینری سے جدہ مل تیار کی گئی، اس کے علاوہ مل میں نئی مشینری بھی لگائی گئی۔

اس خبرکو بھی پڑھیں: اسحاق ڈار کا اعترافی بیان وزیراعظم کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے



جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نوازکے مطابق لندن فلیٹس قطری سرمایہ کاری سے ملے، سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا۔ اس کہانی کا اہم حصہ قطری سرمایہ کاری ہے، وزیراعظم کی تقریر اور طارق شفیع کے بیان حلفی میں قطر میں سرمایہ کاری کا ذکر نہیں، 5 نومبرکو قطری کا خط اور 12 نومبر کو طارق شفیع کا بیان حلفی آیا، دوسرے بیان حلفی میں بہتری لائی گئی، فیکٹری کی رقم کے 12 ملین درہم کیسے ملے طارق شفیع جانتے تھے، انہیں قطری سرمایہ کاری کا علم تھا تو بیان حلفی میں ذکرکردیتے۔



سلمان اکرم نے جواب میں کہا کہ دبئی مل ایک حقیقت ہے،کاروبار پر کنٹرول میاں شریف کا تھا، طارق شفیع گلف فیکٹری کے روزانہ کے معاملات نہیں دیکھتے تھے، طارق شفیع کو بیان حلفی سے پہلے تمام تفصیلات معلوم تھیں، ایسا نہیں کہ ان سوالوں کے جوابات نہیں ہیں، جو سوالات مجھ سے پوچھے جا رہے ہیں وہ طارق شفیع کو بطور گواہ بلا کر پوچھ لیے جائیں، 12 ملین درہم کی رقم الثانی فیملی کو6 اقساط میں سرمایہ کاری کے لیے دی گئی، کرنسی اونٹوں پرلاد کردینے کی بات بعید از قیاس ہے، بڑے نوٹوں میں ادائیگی کی جائے تو کرنسی کا حجم دو کتابوں سے زیادہ نہیں ہوگا۔



سلمان اکرم نے عدالت کو بتایا کہ لندن فلیٹس کی 1993 سے 1996 میں مجموعی پاکستانی مالیت 7 کروڑ بنتی ہے، یہ کوئی راز نہیں کہ شریف فیملی کے بچے شروع سے وہاں رہ رہے ہیں، شریف فیملی نے فلیٹس 2006 میں خریدے، شریف فیملی اس وقت آف شور کمپنیوں کی مالک نہیں تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 1993 سے 1996 کے درمیان یہ فلیٹس کس کی ملکیت تھے، جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ شریف فیملی نے 1993 سے 1996 کے درمیان لندن کے فلیٹس نہیں خریدے۔ 2006 سے پہلے کمپنیوں کے بیریئر سرٹیفکیٹس الثانی خاندان کے پاس تھے، الثانی خاندان نے 1993 سے 1996 میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے فلیٹس خریدے، رحمان ملک رپورٹ کے مطابق 93 میں یہ کمپنیاں انس پارکر کے پاس تھیں۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا ہم رحمان ملک کی رپورٹ درست تسلیم کر لیں۔ کیا حماد بن جاسم سے پوچھ لیں انہوں نے یہ فلیٹس کب خریدے۔ سلمان اکرم نے کہا کہ یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں، شریف فیملی کے بچے وہاں رہ رہے تھے، جس پر جج صاحبان نے استفسار کیا کہ شریف فیملی کے بچے وہاں کیسے رہ رہے تھے، حسن اور حسین نواز کب سے وہاں رہنا شروع ہوئے۔ سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ خاندانی تعلقات کی بدولت 1993 سے ان فلیٹس میں حسن اور حسین رہتے تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بڑے گہرے تعلقات تھے کہ شریف فیملی 13 سال تک فلیٹس میں رہائش پذیر رہی۔ سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ شریف خاندان فلیٹس کا کرایہ ادا کرتا تھا، الثانی خاندان کے پاس لندن میں بہت سے فلیٹس ہیں، عدالت مفروضوں کو نہ دیکھے، لندن فلیٹس التوفیق کمپنی کے پاس گروی نہیں رکھے گئے، شیزی نقوی نے رحمان ملک رپورٹ کی بنیاد پر فلیٹس کی ملکیت شریف خاندان کی بتائی تھی۔



عدالت کے استفسار پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ شیزی نقوی پاکستانی شہری اور التوفیق کمپنی کے ساتھ وابستہ ہے، اس کے بیان کی نقل موجود ہے لیکن تصدیق شدہ نہ ہونے کی وجہ سے فائل نہیں کی۔ جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ شیزی نقوی کے برطانوی عدالت میں پیش بیان حلفی کی نقل جمع کرا دیں کیونکہ برطانوی عدالت نے شیزی نقوی کے بیان حلفی پر ہی فلیٹس ضبطگی کا نوٹس جاری کیا تھا۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ برطانوی عدالت کا حکم عبوری تھا، التوفیق کمپنی کے واجبات 34 ملین ڈلر کے نہیں تھے۔ جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا رقم ادائیگی پر برطانیہ کی عدالت نے چارج واپس لیا۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ التوفیق کیس سے ثابت نہیں ہوتا کہ شریف فیملی 1999 سے پہلے فلیٹس کی مالک تھی،انگلی میرے موکل کی طرف نہیں اٹھ سکتی وہ اپنے موقف پر قائم ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہتے ہیں فلیٹس 2006 میں خریدے گئے، آپ 13 سال فلیٹس میں رہے، انگلی تو آپ کی طرف اٹھے گی۔
Load Next Story