امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی ٹرمپ کے فیصلوں پر بول پڑیں

ٹرمپ کے متنازعہ اعلانات کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹیں بھی کریش ہونا شروع ہوگئی ہیں۔


ویب ڈیسک January 31, 2017
ٹرمپ کے متنازعہ اعلانات کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹیں بھی کریش ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ فوٹو؛ فائل

امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں اور تنظیموں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو خبردار کیا ہے کہ پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن کی امریکا آمد پر پابندیاں لگانے سے وہاں کی ٹیکنالوجی انڈسٹری کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

7 مسلم ممالک سے آنے والوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی اور ویزا پالیسیاں سخت کرنے سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ حکم ناموں کو ''غیر امریکی'' قرار دیتے ہوئے ان کمپنیوں کا مؤقف ہے کہ امریکا میں ٹیکنالوجی انڈسٹری کو عروج پر پہنچانے میں تارکینِ وطن کا کردار تاریخی طور پر سب سے اہم رہا ہے۔

محتاط اندازوں کے مطابق اس وقت بھی امریکا میں سائنس، تحقیق، ٹیکنالوجی اور ایجادات سے تعلق رکھنے والے کم از کم 40 فیصد ماہرین دوسرے ممالک سے آئے ہوئے ہیں جب کہ ''فوربس'' میگزین کی جاری کردہ ''ٹاپ 500'' فہرست میں بھی 100 سے زائد کمپنیوں کے بانی و مالکان تارکین وطن کے طبقے ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔

گوگل کے ملازمین نے ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی جب کہ کمپنی کے سربراہ سندر پچائی نے اپنے ان تمام ملازمین کے لیے خصوصی فنڈ قائم کردیا جو اس حکم نامے کی زد میں آسکتے ہیں۔

اُدھر ایپل کارپوریشن کے سربراہ ٹِم کُک نے امریکا میں تارکینِ وطن اور پناہ گزینوں پر پابندی کے مذکورہ حکم نامے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا کہ یہ کمپنی (ایپل) تارکینِ وطن کے بغیر قائم ہی نہیں ہوسکتی تھی (کیونکہ ایپل کارپوریشن کے بانی اسٹیو جابز کے والد شام سے امریکا آئے تھے)۔

ٹرمپ کو ایسا ہی جواب فیس بُک کے بانی اور روحِ رواں مارک زکربرگ نے اپنی فیس بُک پوسٹ میں دیا جس میں انہوں نے لکھا کہ خود زکربرگ کے ''دادا پڑدادا بھی جرمنی، آسٹریا اور پولینڈ سے آئے تھے۔ پریسیلا (زکربرگ کی بیوی) کے والدین بھی چین اور ویتنام سے آنے والے پناہ گزین تھے۔ امریکی قوم تارکینِ وطن ہی پر مشتمل ہے۔''

اسی طرح ٹوئٹر نے بھی خود کو ایک ایسی کمپنی قرار دیا جسے ''ہر مذہب کے تارکینِ وطن نے بنایا ہے۔''

اوبر کے سربراہ ٹراوِس کیلانک ابتداء میں ٹرمپ کے حامی تھے لیکن تارکینِ وطن اور پناہ گزینوں پر پابندی کے صدارتی حکم کے بعد انہوں نے بھی اپنی راہیں ڈونلڈ ٹرمپ سے جدا کرلی ہیں۔

مائیکروسافٹ کے بھارتی نژاد سربراہ ستیا نڈیلا نے بھی اس حکم نامے پر شدید اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تارکینِ وطن اور پناہ گزینوں کا وجود ان کی کمپنی، امریکا اور دنیا کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

ایمیزون کے سربراہ جیف بیزوز نے تارکینِ وطن اور پناہ گزینوں پر پابندی کے حکم نامے کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے نہ صرف اپنے متاثرہ ملازمین کے لیے خصوصی فنڈ قائم کردیا ہے بلکہ امریکی سینیٹ میں لابی کرنے اور قانونی چارہ جوئی کا اعلان بھی کردیا ہے۔

ٹیکنالوجی کمپنی ''ٹیسلا'' کے بانی و سربراہ ایلون مسک نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ امریکا کو درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کا یہ کوئی مناسب طریقہ ہر گز نہیں۔

انٹیل کارپوریشن کے ترجمان نے اپنی کمپنی کے ہنگری نژاد بانی اینڈریو گروو کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی کمپنی میں کام کرنے والے تارکینِ وطن کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ مشکل کی گھڑی میں انٹیل کارپوریشن ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

سیر و سیاحت کی مشہور امریکی کمپنی ''ایکسپیڈیا'' کے ایرانی نژاد سربراہ دارا خسروشاہی نے (جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ 1978 میں امریکا آگئے تھے) ایک کھلے خط میں لکھا کہ ٹرمپ کی پالیسیوں نے امریکا کو ''مزید غیر محفوظ'' بنادیا ہے۔

ایمیزون، فیس بک، گوگل، یاہو، ای بے، این ویڈیا، اور موزیلا فاؤنڈیشن سمیت ایک ہزار سے زائد امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم ''کمپیوٹر اینڈ کمیونی کیشنز انڈسٹری ایسوسی ایشن'' نے بھی اپنے مشترکہ اعلامیے میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس شعبے میں کئی کامیاب ترین کمپنیاں تارکینِ وطن کی قائم کردہ ہیں اور اس حوالے سے جاری تنازعات کو ٹرمپ انتظامیہ اور کانگریس کے تعاون سے حل کرنا ضروری ہے۔

ایک اور بڑی امریکی تنظیم ''کنزیومر ٹیکنالوجی ایسوسی ایشن'' نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ ٹرمپ کے حکم نامے سے امریکی قوم کو ''صدمہ پہنچا ہے۔''

نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ 400 کمپنیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے نام ایک مشترکہ خط میں لکھا کہ امریکا میں ایک ارب ڈالر یا اس سے زیادہ مالیت والی 50 فیصد سے زیادہ کمپنیاں تارکینِ وطن کی قائم کردہ ہیں اور یہ کہ پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن پر پابندی سے امریکا کی ترقی شدید طور پر متاثر ہوسکتی ہے۔

ان سب سے ہٹ کر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ پالیسیوں اور اعلانات کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹیں کریش ہونا شروع ہوگئی ہیں جب کہ ڈالر کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر بھی کم ہورہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |