زاغ میرا ہمنوا
اگر معتدل بات نہیں کی جاسکتی تو دانش کا تقاضا ہے کہ دماغ پر زور اور زبان کو جنبش نہ دی جائے۔
کون بدبخت کہتا ہے کہ پاکستان امریکہ سے پیچھے ہے؟ امریکہ کے پاس نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے تو پاکستان کے پاس مستقبل کا وزیرِاعظم عمران خان ہے۔ پاکستانی عوام بھی سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری ہوجائے تو وہ وقت دور نہیں جب عمران خان شیروانی زیبِ تن کرکے وزاتِ عظمی کا قلمدان سنبھالیں گے، تب پاکستان میں بھی بنیاد پرستی اور ہیجان کا بول بالا ہوگا۔ کیا نظارہ ہوگا، امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان میں عمران خان۔
مقابلہ دونوں جانوں میں ابھی سے سخت ہے، وجہ جس کی اور کوئی نہیں بلکہ صرف عمران خان کی سنبھالے نہ سنبھلتی ہوئی سیاسی صلاحیت اور بصیرت ہے۔ مملکتِ خدادا پاکستان کی نا موافق صورتحال اور بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی کے باوجود امریکہ کے ڈونلڈ ٹرمپ جیسی طاقتور شحضیت سے مقابلہ کرنا پاکستانی سپوت عمران خان کی صلاحیتوں کا ایک اور منہ بولتا ثبوت ہے۔ اِدھر نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کے مسلمان پناگزینوں سمیت سات مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی تو اُدھر خان صاحب نے دو قدم آگے بڑھ کر پاکستانی شہریوں کو امریکی ویزے کے اجراء پر ہی پابندی کی اُمید ظاہر کرکے امریکہ میں مقیم پاکستانی سمیت امریکہ جانے کے خواہش مند افراد کو حیران و پریشان کرکے چھوڑ دیا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ دھرتی ماں آئندہ ایسا گبرو سیاست دان پیدا کرنے سے پہلے ایک بار سوچے گی ضرور۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنیت تو ہمیشہ سے صاف ہے، وہ تشدد کا مقابلہ تشدد سے کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی تشدد، ہیجان اور بنیاد پرستی اُن کے انتخابی منشور تھے اور اِسی منشور کی بنیاد پر اُن کو جیت ملی ہے۔ گو امریکی انتخابات کے نظام کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ کو نشستوں کے اعتبار سے اکثریت ضرور ملی ہے لیکن ووٹوں کے لحاظ سے وہ کسی طور اکثریت نہیں رکھتے اور امریکی عوام میں برابر کے تناسب سے کافی ناپسندیدگی رکھتے ہیں جبکہ عوامی سطح پر اِس پابندی کے فیصلے پر سخت ردِعمل کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔ اب قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ عمران خان کیا سوچ رکھتے ہیں؟ پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان قومی رہنما کا درجہ رکھتے ہیں اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد بشمول بیرون ملک مقیم افراد انہیں اپنا رہنما مانتے ہیں۔ بطور ایک قومی رہنما اُن کی زبان سے ادا ہوا ہر ایک جملہ بھرپور ذمہ داری کا آئینہ دار ہونا چاہیے لیکن معاملہ اِس بار بھی ہمیشہ کی طرح عین برعکس رہا۔ پاکستانی شہریوں کے لئے امریکی ویزوں پر پابندی سے متعلق بیان میں جو منطق بیان کی گئی ہے وہ سمجھ سے بالکل بالاتر ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیان کم علمی، کج فہمی اور منفی اثرات کو بالائے طاق رکھ کردیا گیا ہے۔
غور طلب نکات یہ ہیں کہ پڑھے لکھے پاکستانی افراد صرف امریکہ نہیں جاتے بلکہ دنیا میں اور بھی بہت سے ممالک موجود ہیں، ترقی یافتہ بھی کم ترقی یافتہ بھی، ترقی پذیر بھی، جہاں پاکستانی افراد ہر سال ہجرت کرتے ہیں لہذا جس شخص نے پاکستان سے باہر جا کر آباد ہونے یا کام کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے وہ امریکہ نہیں جاسکے گا تو کہیں اور کا رخ کرے گا۔ اِسی طرح پاکستان کی ترقی کسی صورت پڑھے لکھے افراد کے باہر چلے جانے سے رک نہیں جاتی بلکہ یہ افراد بیرونِ ملک کام کرکے نہ صرف پاکستان کا نام روشن اور ملک کی مثبت تصویر ابھارتے ہیں بلکہ پیسہ کما کر زرِمبادلہ کی صورت میں پاکستان واپس بجھواتے ہیں جو کہ ملکی وسائل میں ریڑھ کی ہڈی سی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہی افراد ہیں جو بیرونِ ملک آباد ہوکر بھی ملک سے محبت برقرار رکھتے ہیں اور کینسر اسپتال جیسے فلاحی منصوبوں کے لئے دل کھول کر عطیات دیتے ہیں۔
پھر تخیل کی یہ پرواز کہ تمام اعلیٰ دماغ پاکستان سے باہر نکل جانے کے لئے پر تولے بیٹھے رہتے ہیں سراسر غلط ہے۔ وطنِ عزیز میں لاتعداد ایسے افراد موجود ہیں جو نہ صرف یہ کہ اعلی دماغ اور بہترین صلاحیتوں کے مالک ہیں بلکہ پاکستان سے باہر جا کر رہنے کی قدرت رکھنے کے باوجود وطنِ عزیز میں رہ کر اپنے کام سرانجام دیتے ہیں اور ناموافق ترین حالات میں بھی پاکستان میں رہ کر اِس معیشت کا پہیہ چلائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی ترقی کے لئے اندرون و بیرونِ ملک کام کرنے والے تمام افراد اہم ہیں۔ پاکستان کی ترقی نظام کے چلتے رہنے اور حکومت، حزبِ اختلاف اور عوام کی طرف سے فیس بک سے باہر نکل کر زمینی سطح پر ٹھوس اور سنجیدہ نوعیت کے کام کئے جانے سے مشروط ہے نہ کہ کسی کی جانب سے پاکستانیوں کے ویزوں پر پابندی لگوانے سے۔
امریکہ سمیت بیرونِ ملک مقیم پاکستانی پہلے ہی دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی خراب ساکھ کے باعث مشکلات کا شکار رہتے ہیں ایسے میں کسی بھی قومی رہنما کی جانب سے ویزوں پر پابندی کا بیان یقینی طور پر بیرونِ ملک مقیم افراد کے لئے مزید پریشانی کا باعث بنے گا۔ پاکستان کے لئے ایسی کسی پابندی کی صورت میں سوڈان، صومالیہ، عراق، شام، لیبیا، یمن اور ایران جیسے ممالک کی صف میں جا کھڑا ہونا کس قدر باعثِ افتحار ہوگاَ؟ اِس کا جواب خان صاحب بہتر طور پر دے سکتے ہیں۔
ستر ہزار پاکستانی افراد کی قربانی، اربوں ڈالر کے معاشی نقصان، فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر دہشت گردی کے خلاف سالوں پر محیط جنگ لڑنے اور دہشت گردوں سے متعلق بالآخر کسی حد تک قومی بیانیے میں تبدیلی کے بعد پاکستان کے ہر رہنما کو عالمی سطح پر پاکستان کے لئے بہتر حیثیت اور وقار کا مدعا بیان کرنا چاہیے نہ کہ کسی ایسی سپر لیگ کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کرکے غیر ممالک میں موجود وطن مخالف عناصر کے ہاتھ مزید مضبوط اور تارکینِ وطن کے حوصلے پست کردینا!
بات سادہ سی ہے کہ ہیجان کا جواب ہیجان نہیں بلکہ اعتدال پسندی اور معاملہ فہمی ہے۔ اگر معتدل بات نہیں کی جاسکتی تو دانش کا تقاضا ہے کہ دماغ پر زور اور زبان کو جنبش نہ دی جائے۔ ایسے افراد پر صادق آتا ہے کہ:
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مقابلہ دونوں جانوں میں ابھی سے سخت ہے، وجہ جس کی اور کوئی نہیں بلکہ صرف عمران خان کی سنبھالے نہ سنبھلتی ہوئی سیاسی صلاحیت اور بصیرت ہے۔ مملکتِ خدادا پاکستان کی نا موافق صورتحال اور بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی کے باوجود امریکہ کے ڈونلڈ ٹرمپ جیسی طاقتور شحضیت سے مقابلہ کرنا پاکستانی سپوت عمران خان کی صلاحیتوں کا ایک اور منہ بولتا ثبوت ہے۔ اِدھر نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کے مسلمان پناگزینوں سمیت سات مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی تو اُدھر خان صاحب نے دو قدم آگے بڑھ کر پاکستانی شہریوں کو امریکی ویزے کے اجراء پر ہی پابندی کی اُمید ظاہر کرکے امریکہ میں مقیم پاکستانی سمیت امریکہ جانے کے خواہش مند افراد کو حیران و پریشان کرکے چھوڑ دیا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ دھرتی ماں آئندہ ایسا گبرو سیاست دان پیدا کرنے سے پہلے ایک بار سوچے گی ضرور۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی ذہنیت تو ہمیشہ سے صاف ہے، وہ تشدد کا مقابلہ تشدد سے کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی تشدد، ہیجان اور بنیاد پرستی اُن کے انتخابی منشور تھے اور اِسی منشور کی بنیاد پر اُن کو جیت ملی ہے۔ گو امریکی انتخابات کے نظام کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ کو نشستوں کے اعتبار سے اکثریت ضرور ملی ہے لیکن ووٹوں کے لحاظ سے وہ کسی طور اکثریت نہیں رکھتے اور امریکی عوام میں برابر کے تناسب سے کافی ناپسندیدگی رکھتے ہیں جبکہ عوامی سطح پر اِس پابندی کے فیصلے پر سخت ردِعمل کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔ اب قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ عمران خان کیا سوچ رکھتے ہیں؟ پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان قومی رہنما کا درجہ رکھتے ہیں اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد بشمول بیرون ملک مقیم افراد انہیں اپنا رہنما مانتے ہیں۔ بطور ایک قومی رہنما اُن کی زبان سے ادا ہوا ہر ایک جملہ بھرپور ذمہ داری کا آئینہ دار ہونا چاہیے لیکن معاملہ اِس بار بھی ہمیشہ کی طرح عین برعکس رہا۔ پاکستانی شہریوں کے لئے امریکی ویزوں پر پابندی سے متعلق بیان میں جو منطق بیان کی گئی ہے وہ سمجھ سے بالکل بالاتر ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیان کم علمی، کج فہمی اور منفی اثرات کو بالائے طاق رکھ کردیا گیا ہے۔
غور طلب نکات یہ ہیں کہ پڑھے لکھے پاکستانی افراد صرف امریکہ نہیں جاتے بلکہ دنیا میں اور بھی بہت سے ممالک موجود ہیں، ترقی یافتہ بھی کم ترقی یافتہ بھی، ترقی پذیر بھی، جہاں پاکستانی افراد ہر سال ہجرت کرتے ہیں لہذا جس شخص نے پاکستان سے باہر جا کر آباد ہونے یا کام کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے وہ امریکہ نہیں جاسکے گا تو کہیں اور کا رخ کرے گا۔ اِسی طرح پاکستان کی ترقی کسی صورت پڑھے لکھے افراد کے باہر چلے جانے سے رک نہیں جاتی بلکہ یہ افراد بیرونِ ملک کام کرکے نہ صرف پاکستان کا نام روشن اور ملک کی مثبت تصویر ابھارتے ہیں بلکہ پیسہ کما کر زرِمبادلہ کی صورت میں پاکستان واپس بجھواتے ہیں جو کہ ملکی وسائل میں ریڑھ کی ہڈی سی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہی افراد ہیں جو بیرونِ ملک آباد ہوکر بھی ملک سے محبت برقرار رکھتے ہیں اور کینسر اسپتال جیسے فلاحی منصوبوں کے لئے دل کھول کر عطیات دیتے ہیں۔
پھر تخیل کی یہ پرواز کہ تمام اعلیٰ دماغ پاکستان سے باہر نکل جانے کے لئے پر تولے بیٹھے رہتے ہیں سراسر غلط ہے۔ وطنِ عزیز میں لاتعداد ایسے افراد موجود ہیں جو نہ صرف یہ کہ اعلی دماغ اور بہترین صلاحیتوں کے مالک ہیں بلکہ پاکستان سے باہر جا کر رہنے کی قدرت رکھنے کے باوجود وطنِ عزیز میں رہ کر اپنے کام سرانجام دیتے ہیں اور ناموافق ترین حالات میں بھی پاکستان میں رہ کر اِس معیشت کا پہیہ چلائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی ترقی کے لئے اندرون و بیرونِ ملک کام کرنے والے تمام افراد اہم ہیں۔ پاکستان کی ترقی نظام کے چلتے رہنے اور حکومت، حزبِ اختلاف اور عوام کی طرف سے فیس بک سے باہر نکل کر زمینی سطح پر ٹھوس اور سنجیدہ نوعیت کے کام کئے جانے سے مشروط ہے نہ کہ کسی کی جانب سے پاکستانیوں کے ویزوں پر پابندی لگوانے سے۔
امریکہ سمیت بیرونِ ملک مقیم پاکستانی پہلے ہی دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی خراب ساکھ کے باعث مشکلات کا شکار رہتے ہیں ایسے میں کسی بھی قومی رہنما کی جانب سے ویزوں پر پابندی کا بیان یقینی طور پر بیرونِ ملک مقیم افراد کے لئے مزید پریشانی کا باعث بنے گا۔ پاکستان کے لئے ایسی کسی پابندی کی صورت میں سوڈان، صومالیہ، عراق، شام، لیبیا، یمن اور ایران جیسے ممالک کی صف میں جا کھڑا ہونا کس قدر باعثِ افتحار ہوگاَ؟ اِس کا جواب خان صاحب بہتر طور پر دے سکتے ہیں۔
ستر ہزار پاکستانی افراد کی قربانی، اربوں ڈالر کے معاشی نقصان، فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر دہشت گردی کے خلاف سالوں پر محیط جنگ لڑنے اور دہشت گردوں سے متعلق بالآخر کسی حد تک قومی بیانیے میں تبدیلی کے بعد پاکستان کے ہر رہنما کو عالمی سطح پر پاکستان کے لئے بہتر حیثیت اور وقار کا مدعا بیان کرنا چاہیے نہ کہ کسی ایسی سپر لیگ کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کرکے غیر ممالک میں موجود وطن مخالف عناصر کے ہاتھ مزید مضبوط اور تارکینِ وطن کے حوصلے پست کردینا!
بات سادہ سی ہے کہ ہیجان کا جواب ہیجان نہیں بلکہ اعتدال پسندی اور معاملہ فہمی ہے۔ اگر معتدل بات نہیں کی جاسکتی تو دانش کا تقاضا ہے کہ دماغ پر زور اور زبان کو جنبش نہ دی جائے۔ ایسے افراد پر صادق آتا ہے کہ:
بلبلیں کیا ساتھ دے سکتی ہیں نالوں کا میرے
زاغ میرا ہمنوا ہو کر پریشاں ہوگیا
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔