جمہوریت زندہ باد

جمہوریت ہونے کے باوجود جمہوری جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے۔


علی احمد ڈھلوں February 01, 2017
[email protected]

بچوں کی مشہور انگریزی نظم Humpty Dumpty آج ہمارے بچوں کی کتابوں میں مل جاتی ہے۔ نظم کچھ یوں ہے۔

Humpty Dumpty sat on a wall
Humpty Dumpty had a great fall
All the king's horses and all the king's men
could not put humpty togetter again.

پاکستانی بچے مغربی طرز کی درسگاہوں میں یہ نظم بغیر سوچے سمجھے حفظ کرتے اور ورد کرتے نظر آتے ہیں جس کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ ہمپٹی ڈمپٹی دیوار پر بیٹھا تھا جہاں سے وہ بہت بری طرح نیچے گرا۔ شہنشاہ عالم کے سارے گھوڑے اور سارے تیر انداز اسے اس کا مقام واپس نہ دلا سکے۔ اس نظم میں غور کرنے والوں کے لیے عبرت کا بہت سا سامان موجود ہے مگر دقت یہ ہے کہ اسکول کے بچوں کی طرح سارے سیاسی گھڑ سوار اور سارے تیز انداز بلا سمجھے بولے جا رہے ہیں، انھیں خود پتا نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، بالکل اسی طرح سے آج کل جس انداز میں حکمران جماعت کی پوری ٹیم پانامہ اسکینڈل کا دفاع کرتی نظر آتی ہے ۔ یہ دفاع سیاسی حریفوںسے بذریعہ طلالوں، دانیالوں اور نہالوں سے مضبوط بنایا جا رہا ہے۔

خوف، بد حواسی اور سراسیمگی کی کونپل شاخِ اختیارپر پھوٹ چکی ہے۔ میرا آج کا موضوع پانامہ کیس وغیرہ نہیں ہے لیکن اس سے جڑے وہ سیاستدان ضرور ہیں جو برے کو اچھا اور اچھے کو براکہہ کہہ کر عوام کو پریشانی میں مبتلاکیے ہوئے ہیں اور جنہوں نے واقعتاً جمہوریت کو داغدار کردیا ہے۔ تمام پارٹی لیڈران میں ایک دوڑ لگی ہے کہ مخالفوں کے بارے میں ایسی بات کی جائے جو زیادہ سے زیادہ اخلاقی حدود سے گری ہو۔ ان کی نظریں اگلے الیکشن پر ہیں کہ جتنا زیادہ وزیراعظم کی قصیدہ گوئی اور مدحت بیان ہو گی، اتنا ہی وزیراعظم کی جانب سے ''اجر ''ملے گا۔ بقول شاعر

غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے

اگر ہمارا حکمران طبقہ پانامہ لیکس کے معاملے کو الجھانے کے بجائے کھلے دل سے اس کی تحقیقات کرانے پر آمادہ ہو جاتا تو نہ عوام میں کوئی بے چینی پیدا ہوتی اور نہ ہی اپوزیشن حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بنتی۔ مسائل کا انبار ہے، سیاستدان خود ان جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں اور حکمران ان واقعات سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ جمہوریت ہونے کے باوجود جمہوری جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے، ان حالات میں اگر پرائز بانڈ سیاستدان اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کو چھپانے کے لیے نئے نئے مسائل میں الجھا دیں تو عوام میں بے چینی کا پایا جانا بھی لازمی ہے۔

گزشتہ روز جب میں نے حکومتی وزراء کے منہ سے یہ الفاظ سنے کہ ''جمہوریت بہترین انتقام ہے'' تو یقین کریں ایک تو میں کالم لکھنے پر مجبور ہوا اور دوسرا مجھے زرداری کا وہ پانچ سالہ دور یاد آگیا جس میں انھوں نے اور ان کی کابینہ نے 5سال کے دوران پاکستان سے وہ انتقام لیا جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا ۔ جمہوریت کے نام پر مذاق جو اس ملک میں جاری ہے، اسے دیکھ کر عربی شاعر نزار قبانی کی یہ نظم یاد آتی ہے،
میرے وطن میں...
جہاں لوگ آنکھوں کے بغیر جیتے ہیں۔
جہاں سادہ دل لوگ آہ و زاری کرتے ہیں۔

نمازیں پڑھتے ہیںاور توکل پر زندہ رہتے ہیں... جب سے وہ پیدا ہوئے ہیں...توکل ہی ان کی زندگی ہے...وہ لاکھوں انسان ...جن کے پاؤں میں جوتے نہیں...جو ایمان رکھتے ہیں قیامت کے دن پر...وہ لاکھوں انسان جن کو روٹی صرف...خیالوں میں دکھائی دیتی ہے...جو ایسے گھروں میں راتیں گزارتے ہیں... جہاں کھانسی گونجتی رہتی ہے...اور جو دوائی کی صورت نہیں دیکھ پاتے... جب ان کے اندر بربط کاسر ملال پیدا کر دیتا ہے...! جمہوریت زندہ باد...!!

ارے کیا خاک جمہوریت زندہ آباد... !اس جمہوریت نے اپنا کروفر، میگاپراجیکٹس کے ذریعے دکھایا... نندی پور، سولر پارک، میٹرو، اورنج ٹرین وغیرہ یہ وہ منصوبے ہیں جن میں عوامی بہبود کے بجائے ذاتی تشہیر کے پہلو نمایاں ہیں، سرکاری اسپتالوں میں، فرش پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے اور ایک بیڈ پر تین تین مریضوں کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے، عوام کو ٹرینوں، بسوں کے بجائے اسپتالوں کی ضرورت ہے۔ دوائیوں کی ضرورت ہے اور ایسے فلاحی منصوبوں کی ضرورت ہے جن سے بے روزگاری میں کمی ہو!... انھیں گیس ملے، بجلی ملے، پانی ملے...! جب کہ جنوری فروری کے یہ ٹھنڈے دن، گیس کے بغیر گزر رہے ہیں، بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہو چکا ہے، ایسے میں کوئی یہ بتائے کہ عوام کو کیا لگے ایسی جمہوریت سے... افسوس یہ ہے کہ ہم آج اپنا احتساب نیچے سے شروع کرنے کی کوشش کرکررہے ہیں جو شاید کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گا۔

میرے خیال میں اوپر کی جانب سے احتساب ہو تو معاشرہ مثالی معاشرہ بن جاتا ہے۔ انسانی معاشروں کی پوری عمارت اخلاقیات کے بنیادی اصول پر استوار ہوتی ہے، کتنے ہی جامع دستور بنا لیے جائیں، کیسی ہی عمدہ قانون سازی کر لی جائے، کتنے ہی خوبصورت قاعدے اور ضابطے وضع کر لیے جائیں، کیسے ہی مقبول و محبوب حکمران چن لیے جائیں اور کیسا ہی بے لاگ نظامِ عدل و انصاف تشکیل دے لیا جائے اور اس سارے تانے بانے سے اخلاقیات کا عنصر خارج ہو جائے تو معاشرہ جدید دور کے سارے عمرانی تقاضوں سے ہمکنار ہونے کے باوجود ایک جنگل ہی رہے گا اور بھینس اسی کی ہو گی جس کے ہاتھ میں مضبوط لاٹھی ہو گی... اور لوگ گرے ہوئے ہمپٹی ڈمپٹی کو بے سود اُٹھانے کی کوشش کررہے ہوں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اس نظم کو بچوں کی کتاب میں ہی شامل کیوں کیا گیا۔ میرے خیال میں اس نظم کو ''جمہوریت'' کی کتاب میں شامل کیا جانا چاہیے اور عوام و حکمرانوں کو یہ باور کرانا چاہیے کہ جو ایک بار نظر سے گر جائے، اُسے اُٹھانا بے سود ہو اکرتا ہے... !!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں