مزدوروں پر تشدد کیوں
ایسا لگتا تھا کہ منصوبہ بندی کے تحت مزدوروں کے جلوس پر حملہ کرنے کی سازش تیار کی گئی تھی۔
آج کل حکومتی آلہ کار اور افغانستان سے سامراجی حکمرانوں کے کارندے پاکستان میں تشدد، حملے اور قتل وغارت گری کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ حال ہی میں نیشنل ٹریڈیونین فیڈریشن کی جانب سے مزدوروں کے مسائل اور لاپتہ مزدوروں کی بازیابی کے لیے کراچی آرٹس کونسل سے پریس کلب، ایک جلوس کی روانگی کے موقعے پرجلوس پر پتھراؤاورآرٹس کونسل کے گیٹ پر توڑ پھوڑ کی گئی، جب کہ اس موقعے پر پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ مظاہرین کی تعداد اچھی خاصی تھی، وہ چاہتے تو غنڈوں کی دھنائی کر سکتے تھے لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہتے تھے۔
ایسا لگتا تھا کہ منصوبہ بندی کے تحت مزدوروں کے جلوس پر حملہ کرنے کی سازش تیار کی گئی تھی، خاص کر نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناصر منصور پر قاتلانہ حملے کی سازش بنائی گئی تھی لیکن حملہ آورغنڈوں کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ وہی نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن ہے جو بلدیہ ٹاؤن میں تقریبا پونے تین سو مزدوروں کو زندہ جلانے کے خلاف مسلسل جدوجہد کرتی آ رہی ہے اور ان کے لواحقین کو بائیس بائیس لا کھ روپے دلوائے ہیں۔ اسی فیڈریشن نے گڈانی شپ یارڈ میں جب دو سو سے زیادہ مزدور جہاز میں آگ لگنے سے شہید ہوئے تو اس موقعے پر دس ہزار مزدوروں کا جلوس نکالا۔اس فیڈریشن کے انٹرنیشنل ٹریڈ یونین سے بھی روابط ہیں اور عالمی مزدور تحریک کا بھی حصہ ہے۔ سماج دشمن عناصر کے پر امن جلوس پر پتھراؤ کر کے بھاگ جانے سے پاکستان اور دنیا بھر میں مزدور تحریک کا خاتمہ ناممکن ہے۔ اس سے ملک کی شہرت نہیں بدنامی ہو گی، اس سے قبل بھی ایسی نا کام، نامراد اور بیہودہ کوششیں کی گئیں لیکن ہمیشہ ایسی قوتوں کو منہ کی کھانی پڑی۔
کوئی ایسا دن پاکستان میں نہیں گزرتا خواہ پنجاب میں ہو، سندھ میں ہو، کے پی کے یا بلوچستان میں کہ محنت کش اپنے مسائل پرسڑکوں پہ نہ ہوتے ہوں اور وہ بہت سے احتجاج میں کامیابی بھی حاصل کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ دنوں میں نئی رسم چلی ہے، مزدوروں، کسانوں، صحافیوں، دانشوروں، وکلاء، ججوں، حریت پسندوں اور نوجوانوں کو نامعلوم افراد لاپتہ کر دیتے ہیں۔ پھر وہ ہمیشہ کے لیے اپنے پیاروں سے کہیں دور غائب ہو جاتے ہیں، کبھی بازیاب بھی ہو تے ہیں تو کبھی ویران جگہوں پر ان کی لاش ملتی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے ان مسنگ پرسنز پر بہت سخت ریمارکس دیے ہیں اور ذمے دار افسران اور عہدیداران سے جواب طلبی بھی کی ہے، مگر ابھی تک کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ ہاں مگر سیکڑوں کی تعداد میں لاپتہ افرادکو بازیاب کیا گیا ہے لیکن ہزاروں کا ابھی بھی کھوج نہیں لگایا جا سکا ہے۔ یقینا ان لاپتہ افراد کے اہل خانہ چاہیں گے کہ انھیں بازیاب کیا جائے اور اگر ان پر کوئی الزام ہے تو عدالت میں پیش کر کے ثابت کیا جائے ورنہ رہا کیا جائے۔ حال ہی میں ایک مزدور رہنما، ادیب اورصحافی کامریڈ واحد بلوچ کو مہینوں بعد رہائی نصیب ہوئی مگر کچھ نہیں پتہ کہ کس نے،کب اورکیوں غائب کیا اور پھرکیوں چھوڑا۔ بلاگرز کا بھی یہی معاملہ تھا، وہ غائب ہوئے پھر منظر عام پر آئے، حقیقت کیا ہے، کچھ بھی نہیں بتایا جاتا۔
پاکستان ایک بورژوا جمہوری ملک کہلاتا ہے ، جہاں سب کو اپنی رائے دینے کی آزادی ہے، مگر مذہب، فرقہ اور نسل کی بنیاد پر تفریق اور قتل وغارت گری کی ہمارا آئین قطعی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے باوجود نامعلوم قوتوں کی جا نب سے بھیجے گئے، چند ڈالر جہادیوں کے ذریعے مزدوروں کے جلوس پر پتھراؤکرانا انتہائی بزدلی کی علامت ہے۔
اس سلسلے میں حکومت، خفیہ ایجینسیوں، سیاسی جماعتوں اور تمام فیڈریشنوں اور مزدور رہنماؤں کو اس کا نوٹس لینا چا ہیے۔ علاوہ ازیں سینیٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور وفاقی کابینہ اور نیشنل ایکشن پلان میں بات اٹھانی چاہے کہ مزدوروں پر حملہ آور کو کس نے بھیجا اور وہ کون تھے اور بعض میڈیا ہاؤس پر ان قانون شکنوں اور سماج دشمن ٹولوں کی حوصلہ افزا ئی بھی کی جن میں ایک نام نہاد ڈاکٹر، ایکٹر اور خود ساختہ مذہبی اسکالر بھی ہے، جس نے مزدوروں اور بائیں بازو کے خلاف انتہائی گھٹیا اور بیہودہ الفاظ استعمال کیے۔
وہ آزادی صحافت اور آزادی اظہار کا مذاق اراتا ہے، جب گڈانی شپ یارڈ کے جہاز میں آگ لگی تو اسی نیشنل ٹریڈ یو نین کے رہنما ناصرمنصور سے وائس ایڈمرل، وفاقی جہازرانی کے وزیر حاصل بزنجو نے رابطہ کر کے آگ بجھانے کے لیے فائربریگیڈ اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے فوم اور پانی کا چھڑکاؤ کروایا۔ یہ کام نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے لیے قابل ستائش ہے۔ اس لیے بھی حکام کو فیڈریشن کے جلوس پر غنڈوں کے حملے کا نوٹس لینا چا ہیے۔