’کریم‘ اور ’اوبر‘ پر پابندی شاید ٹھیک ہے

ٹرانسپورٹ کی کمی کا سامنا کرتے روشنیوں کے شہر نے اِس سہولت کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور کمپنیوں کا نیٹ ورک بڑھتا چلا گیا۔


کاشف نصیر February 01, 2017
ضرورت اِس امر کی ہے کہ پابندی لگانے کے بجائے اِن سروسز کو قانونی ڈھانچے میں لایا جائے، اور اِس حوالے سے اِن غیر ملکی کمپنوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے مقامی قوانین کا احترام کریں۔ فوٹو: ایکسپریس

دفتر میں کام زیادہ تھا، جسے سمیٹتے سمیٹتے کب رات کے بارہ بجے اندازہ ہی نہ ہوسکا۔ ہم سسٹم آف کرکے جب لائٹیں بند کررہے تھے تو دفعتاً میری نظر کھڑکی کے باہر پڑی۔ سڑک سنسان تھی، دور تک اندھیرا تھا اور رات کے اِس پہر میں سائٹ ایریا سے نکلنے کے لئے کسی سواری کا خیال ہی سوہانِ روح تھا، لیکن اِسی اثناء میں ایک ساتھی کو موبائل ایپ پر چلنے والی کار سروس 'اوبر' کا خیال آیا اور ہم اگلے 10 منٹ میں ایک نئی چمچماتی کرولا کار میں محوِ سفر تھے۔

ادب و آداب سے آراستہ خوش باش ڈرائیور، جس کا مکمل بائیو ڈیٹا ایپ پر موجود تھا۔ گاڑی اِس وقت کہاں سے گزررہی ہے، موبائل اسکرین پر نمایاں نقشے میں باآسانی دیکھا جاسکتا تھا۔ باہر کا موسم کیا تھا، اِس سے بے خبر ہم اندر کی ٹھنڈ محسوس کرتے ہوئے کوئی 20 منٹ میں اپنی منزل کو پہنچ گئے۔ میرا خیال تھا کہ رات گئے 13 کلو میٹر کے اِس سفر کی قیمت ایک سے ڈیڑھ ہزار روپے سے کم نہ ہوگی لیکن اُس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی جب موبائل اسکرین پر صرف ایک سو اسی (180) روپے کا نوٹیفیکشن نمودار ہوا۔ حیرت اور خوشی کے ملے جُلے احساس نے دفتر کی ساری تھکن اُتار دی تھی۔ اُسی رات دوستوں اور خاندان کے اکثر لوگوں کو اِس شاندار اینڈرائیڈ سروس سے آگاہ کیا۔

کراچی جیسے شہر میں جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا تصور ناپید ہوتا جارہا ہو، جہاں بسوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی ہو، جہاں خستہ حال گاڑیاں، بے رحم ڈرائیور، من مانے کرائے اور چھتوں تک لگے مسافر روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن چکے ہو۔ جہاں صبح اور شام کے رش والے اوقات کے سوا، اسٹاپ پر بسوں کا انتظار کسی بیوقوفی سے کم نہ ہو، جہاں موقع کا فائدہ اٹھا کر رکشہ، ٹیکسی کے نخرے دن بدن بڑھتے جارہے ہوں، پیلی اور کالی ٹیکسیاں ہوں یا پھر سی این جی رکشے، میٹر کا کوئی تصور نہ ہو۔ جو دل کرے، کرایہ مانگا جائے، جہاں مرضی آئے جانے سے انکار کردیں، اُس شہر میں موبائل ایپ کے ساتھ کام کرنے والی یہ نجی کمپنیاں کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ روشنیوں کے شہر نے اِس سہولت کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اُن سے وابستہ کمپنیوں کا نیٹ ورک بڑھتا چلا گیا۔ پہلے چند درجن گاڑیاں اور کچھ وینڈرز تھے مگر اب سینکڑوں نئی گاڑیاں اِس سروس کا حصہ بن چکی ہیں۔ سینکڑوں ڈرائیور حضرات جو وینڈرز یا کرائے کی گاڑیاں چلا رہے تھے، ہر مہینے اپنی بڑھتی ہوئی بچت کو دیکھ کر بینکوں سے لیز پر گاڑیاں نکلوا رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف پانچ ماہ میں 1500 سے زائد نئی گاڑیاں لیز پر نکلوائی جاچکی ہیں۔ لیکن سب کچھ اتنا اچھا بھی نہیں ہے۔

نجی گاڑیوں کا تجارتی استعمال، پبلک ڈرائیونگ لائسنس کے بجائے عام لائسنس، قومی ٹیکس نیٹ سے فرار اور حکومتی این او سی کا موجود نہ ہونا، اِس سروس کو ناصرف غیر قانونی بنارہا ہے بلکہ اِس کاروبار میں ہونے والی سرمایہ کاری پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر رہا ہے۔ عوام کو خدشہ یہ بھی ہے کہ اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ غیر ملکی کمپنیاں اچانک اپنا کاروبار لپیٹ کر چلتی نہ بنیں۔

دو روز قبل پنجاب حکومت اور اب سندھ حکومت کی جانب سے ایسی ہی دو غیر ملکی کمپنیوں 'کریم' اور 'اوبر' پر پابندی عائد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اِس پابندی نے اُن خدشات کو مزید توانا کردیا ہے۔ گو تلخ ہی سہی لیکن بادی النظر میں یہ پابندی درست لگ رہی ہے، بشرطیکہ وقتی ہو اور اُس کے نتیجے میں اُنہیں قانونی ڈھانچے میں لایا جائے تاکہ بھاری ٹیکس لگا کر اُنہیں متوسط طبقے کی پہنچ سے دور کردیا جائے۔

جن کمپنیوں پر پابندی لگانے کا عندیہ دیا گیا ہے اُن میں 'اوبر' اور 'کریم' شامل ہیں۔ 'اوبر' امریکی کمپنی ہے، جس کی بنیاد 2012ء میں رکھی گئی تھی اور اِس کمپنی کو ہی اِس تصور کا خالق بھی قرار دیا جاتا ہے۔ 'ابر' کا نیٹ ورک دنیا کے 66 ممالک کے 545 شہروں میں کام کررہا جبکہ اماراتی کمپنی کریم پانچ سال پہلے دبئی سے شروع ہوئی، اب اِن کے آپریشنز 11 ممالک کے 40 شہروں میں ہیں۔ اِن دونوں کمپنیوں پر کسی بھی ملک میں پہلی بار پابندی نہیں لگی ہے بلکہ اُنہیں تقریباً ہر ملک میں کسی نہ کسی دباؤ کا سامنا رہا ہے۔ جرمنی، نیوزی لینڈی، مصر اور ہندوستان میں اِنہیں پابندی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور برلن میں 'اوبر' پر تاحال پابندی ہے۔

اِن سروسز کی عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے امریکہ سمیت بہت سے ممالک میں نئی قانون سازی کے ذریعے اِن سروسز کو قانونی تحفظ مل گیا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں جہاں حکومت پبلک ٹرانسپورٹ کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے سے قاصر ہے، وہاں ضرورت اِس امر کی ہے کہ پابندی لگانے کے بجائے اِن سروسز کو قانونی ڈھانچے میں لایا جائے، اور اِس حوالے سے اِن غیر ملکی کمپنوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے مقامی قوانین کا احترام کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں