دروازے

آدمی جب تک بات نہیں کرتا اس کے عیب اور ہنر چھپے رہتے ہیں

Amjadislam@gmail.com

KARACHI:
سید ضمیر جعفری مرحوم کا ایک بہت مزیدار شعر کچھ یوں ہے کہ

اس کا دروازہ تھا مجھ سے بھی سوا مشتاق دید

میں نے باہر کھولنا چاہا تو وہ اندر کھلا

اب جو میری نظر سے عرفان جاوید کی شخصی خاکوں پر مشتمل کتاب ''دروازے'' گزری ہے تو اس لفظ کے کئی نئے استعاراتی پہلو بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ خاکہ نگاری کی تاریخ بہت پرانی ہے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ فن اس وقت بھی موجود تھا جب ابھی انسان نے لکھنا بھی نہیں سیکھا تھا، کسی شخص کی شناخت اس کے ظاہری حلیے' انداز نشست و برخواست، عمر، آواز اور عادات کے حوالے سے کرانا ایک اعتبار سے شخصی خاکے ہی کی ایک قسم تھی۔

اردو میں خاکہ نگاری کے ابتدائی نمونے ہمیں شاعری کے کچھ ''تذکروں'' میں ملتے ہیں جن میں عام طور پر کسی شاعر کے شعری انتخاب کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت کا بھی ایک مختصر سا تعارف درج کیا جاتا تھا، باقاعدہ خاکہ نگاروں کی فہرست کتنی طویل ہو سکتی ہے اس کا اندازہ مجھے خلیل احمد صاحب کی زیر طبع کتاب ''اردو کے شاہکار خاکے'' میں شامل خاکہ نگاروں کی فہرست میں ہوا جو بلاشبہ بہت حیران کرنے والی ہے کہ تقریباً دو ہزار صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 239 خاکے جمع کیے گئے، اس فہرست کے اہم ترین ناموں کی تعداد بھی اچھی خاصی سے کچھ زیادہ ہی ہے، نمونے کے طور پر چند نام کچھ یوں ہیں۔

سعادت حسن منٹو' شوکت تھانوی' ابن انشا' مجتبیٰ حسین' قرۃ العین حیدر' مستنصر حسین تارڑ' عطاء الحق قاسمی' اے حمید' محمد یونس بٹ' ممتاز مفتی' ڈاکٹر اسلم فرخی' محمد خالد اختر' احمد ندیم قاسمی' رحیم گل' احمد بشیر' جاوید صدیقی' نیئر مسعود' اشفاق احمد ورک' عصمت چغتائی' حمیدہ اختر حسین وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ اس فہرست میں اگر مولانا محمد حسین آزاد حالی' رشید احمد صدیقی' مولوی عبدالحق اور نظیر صدیقی سمیت ان لوگوں کو بھی شامل کر لیا جائے جنہوں نے کچھ شخصیات پر باقاعدہ کتابیں لکھی ہیں یا ان کے فن کے تذکرے میں ان کی شخصیت کو بھی سامنے رکھا ہے تو بات بہت دور تک چلی جائے گی اور یوں عرفان جاوید کی اس تازہ تر اور بہت خوبصورت کتاب کو وہ وقت نہیں مل سکے گا۔

جس کی وہ بجا طور پر اہل اور حق دار ہے۔ عرفان جاوید نے ہر صاحب خاکہ کا ذکر اس کی شخصیت کے کسی خاص پہلو کے حوالے سے کیا ہے اور انھی میں سے خاکوں کے عنوان بھی تخلیق کیے ہیں جو کچھ یوں ہیں پارس( احمد ندیم قاسمی) بارش ' خوشبو اور سماوار (اے حمید) شریر(احمد فراز) کاہن (مستنصر حسین تارڑ) باگھ (عبداللہ حسین) کامریڈ (احمد بشیر) کھلکھلاتا آدمی (عطاالحق قاسمی) بازی گر (شکیل عادل زادہ) نانگا پربت (تصدق سہیل) ٹلا جوگیاں کا مصلی (نصیر کوی) دوسرا آدمی (جاوید چوہدری) دھندلا آدمی( محمد عاصم بٹ) یہ کل ملا کر بارہ خاکے بنتے ہیں جب کہ یہ کتاب 256 صفحات پر مشتمل ہے اس اعتبار سے ان خاکوں کو شخصی مضامین بھی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔


عرفان جاوید کا تعلق پاکستان سول سروسز سے ہے جس سے تعلق رکھنے والے اہل ادب اگرچہ تعداد میں بہت زیادہ نہیں لیکن ان میں سے بیشتر کا شمار اردو زبان و ادب کے نمایندہ لکھاریوں میں ہوتا ہے، ان خاکوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں آپ عرفان جاوید کو بولنے سے زیادہ سننے اور دیکھنے والا انسان پائیں گے، وہ کوئی سوال کرنے کے بعد صرف کہیں کہیں لقمہ دینے کے لیے بولتا ہے کہ اس کی ساری توجہ جواب اور صاحب جواب پر ہوتی ہے، اسے جزئیات نگاری میں ایسا کمال حاصل ہے جو دور حاضر کے بہت کم لکھنے والوں میں دکھائی دیتا ہے۔

وہ کسی شخصیت کے بارے میں اپنی جمع کردہ معلومات کے ساتھ ساتھ اس سے ملاقاتوں اور اس کے فن اور طرز حیات کے بارے میں اپنے تاثرات کو بھی بہت خوب صورتی کے ساتھ اپنی تحریر میں سموتا چلا جاتا ہے لیکن اس ضمن میں وہ کسی پہلے سے طے شدہ یا بنے بنائے فارمولے پر عمل نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مجموعے میں شامل ہر مضمون یا خاکے میں آپ کو کہیں یکسانیت کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ ایک باادب اور محبت کرنے والا انسان ہے لیکن اس محبت پر وہ کہیں عقیدت کو غالب نہیں آنے دیتا اور متعلقہ شخصیات کی زندگیوں کے ایسے پہلوؤں پر بھی بات کرتا ہے جن کے بارے میں ایک سے زیادہ رائے پائی جاتی ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہ یہ واردات ایسے لوگوں کے ساتھ بھی بہت خوش اسلوبی سے کر پایا ہے جو عام حالات میں اپنے روکھے پن کی وجہ سے کسی کو اس کی اجازت ہی نہیں دیتے۔

عام طور پر خاکہ نما ہلکی پھلکی تحریروں میں سنجیدہ اور باقاعدہ تحقیق کو جگہ نہیں دی جاتی کہ مقصود ایک عمومی تاثر کو قائم کرنا ہوتا ہے مگر عرفان جاوید نے یہاں بھی جرات اور انفرادیت سے کام لیا ہے بالخصوص احمد ندیم قاسمی' شکیل عادل زادہ اور تصدق سہیل صاحبان کے خاکوں میں اس نے ان کی شخصیت کے بعض ارتقائی یا زندگی کے کسی خاص دور کے مخصوص رویوں پر نہ صرف کھل کر بات کی ہے بلکہ ان کی نوعیت کو سمجھنے اور سمجھانے کی بھی بھرپور اور کامیاب کوشش کی ہے۔

تخلیقی مزاج کی کسی بھی تحریر کے بارے میں یہ قول ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے کہ اسے سب سے پہلے اتنا دلچسپ ہونا چاہیے کہ قاری اگلے سے اگلا صفحہ پڑھنے پر مجبور ہوتا چلا جائے، ان خاکوں کا بیشتر حصہ مکالماتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اور کبھی کبھی پس منظر میں وہ تصویریں بھی چلتی رہتی ہیں جن میں یہ لوگ دوسروں کی آنکھ سے دیکھے اور دکھائے گئے ہیں البتہ ہر جگہ توازن اور دلچسپی کو برقرار رکھا گیا ہے۔

اتفاق سے سوائے تصدق سہیل اور نصیر کوی کے اس کتاب میں شامل تمام لوگوں سے میری کم یا زیادہ ملاقات رہی ہے، مجھے خوشی ہے کہ عرفان جاوید نے ان کی صورت گری میں کچھ نئے رنگوں کا اضافہ تو کیا ہے لیکن مجموعی تاثر کے حوالے سے یہ اپنے اس تعارف سے مختلف نہیں ہیں جن کی وجہ سے انھیں وہ مقام حاصل ہوا ہے جو ان سے منسوب ہے اور جہاں وہ مقیم اور موجود ہیں۔ شیخ سعدی نے کہا تھا کہ آدمی جب تک بات نہیں کرتا اس کے عیب اور ہنر چھپے رہتے ہیں۔ عرفان جاوید نے اس اصول پر عمل کرتے ہوئے ان لوگوں کو خوب کھل کر بولنے پر اکسایا ہے لیکن اس بات کا خیال رکھا ہے کہ بے عیب ذات صرف خدا کی ہے اور یہ کہ زندگی کے اصل رنگ بلیک اور وائٹ نہیں بلکہ ان کا تعلق اس گرے (Grey) ایریا سے ہے جو کسی شخصیت کی انفرادیت کا اصل اور صحیح ترجمان ہوتا ہے۔

مختصر یہ کہ اس کتاب کی معرفت ایک عرصے کے بعد مجھے شخصیات کے بارے میں لکھی گئی کچھ عمدہ اور خوب صورت تحریروں کو ایک ساتھ پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ فی زمانہ اردو ادب سے متعلق کتابوں پر مختلف وجوہات کی بنا پر خاصا برا وقت ہے۔ ''دروازے'' جیسی کتابوں کو دیکھ کر یہ حوصلہ ہوتا ہے کہ ''ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں''

سو اس حوصلہ افزائی کے لیے عرفان جاوید کا شکریہ اور مبارکباد۔
Load Next Story