کشمیریوں کا واجب الادا قرض
اس وقت نئی نویلی، نوخیز، انوکھی تحریک آزادی کشمیر نے تہلکہ مچارکھا ہے
کشمیریوں نے آزادی کی جدوجہد اسی روز سے شروع کردی تھی جب انگریزوں نے ایک سو ستر سال قبل گلاب سنگھ کے ساتھ بدنام زمانہ معاہدہ امرتسر کے تحت 16مارچ 1846ء کو کشمیر کا 75لاکھ روپے نانک شاہی کے عوض سودا کیا تھا، 1946ء میں قائد اعظم نے مسلم کانفرنس کی دعوت پر سرینگر کا دورہ کیا جہاں قائدکی دور اندیش نگاہوں نے پہچان لیا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، 13 نومبر 1947ء کو شیخ عبداللہ نے پنڈت نہرو کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے معاہدہ دہلی کہتے ہیں، پھرکانگریس نے بغیر کسی الیکشن کے شیخ عبداللہ کو سری نگر کے تخت پر مسلط کردیا تو 25 فروری 1975ء کو آزاد و مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال ہوئی، اس تاریخی ہڑتال کے دوران سری نگر کے لال چوک میں کشمیری عوام کا من پسند سبز ہلالی پرچم لہرایا گیا۔
ہڑتال کے جواب میں بھارت نے 4اور 13مارچ 1975ء کو بالترتیب بھارتی لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے شیخ عبداللہ سے کیے جانے والے معاہدے کی توثیق کروالی جس پر پاکستان نے اقوام متحدہ سے احتجاج کرتے ہوئے کہاکہ یہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی ہے، جب ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کیا گیا تو تمام کشمیری سیاسی جماعتوں نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم، مسلم متحدہ محاذ کے ذریعے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ مسلم متحدہ محاذ کے رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ وہ الیکشن جیت کر ہندوستان کے ساتھ الحاق کی اس قرار داد کو ریاستی اسمبلی میں نامنظور قرار دیں گے۔
23 مارچ 1987ء کو ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ کی واضح اور فیصلہ کن فتح کو دھونس و دھاندلی کے ذریعے شکست میں تبدیل کرکے بھارت نے کشمیری عوام کی پرامن ذریعے سے تبدیلی لانے کی خواہش کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردیا، یہی وہ نقطہ آغاز تھا کہ جمہوری طریقے سے جدوجہد کرنیوالے انتخابات میں حصہ لینے والی قیادت مسلح جدوجہد شروع کرنے پر مجبور ہوگئی۔
1989ء میں جب کشمیری حریت پسندوں نے ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور اقوام متحدہ کی بے حسی سے مجبور ہوکر مسلح جدوجہد کا فیصلہ کیا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آنیوالے برسوں میں کشمیری عوام اس طرح ان کے سامنے کھڑے ہونگے کہ ہندوستان نواز سیاسی قوتوں کو اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائیگا، کسی کو یہ اندازہ تک نہیں تھا کہ کشمیری عوام کی جدوجہد کے نتیجے میں کشمیر کے انتظامی، سیاسی اور سماجی ڈھانچے کی بلند و بالا عمارت انھی قوتوں پر آگرے گی، 5فروری 1989ء کو حکومت پاکستان نے باقاعدہ یوم یکجہتی کشمیر منانے کا فیصلہ کیا۔
اس وقت نئی نویلی، نوخیز، انوکھی تحریک آزادی کشمیر نے تہلکہ مچارکھا ہے، بطل حریت برہان وانی جب تک زندہ رہا، اس نے بھارتی سورماؤں کی نیندیں اچاٹ رکھیں، جب شہادت کا رتبہ پایا تو آزادی کی تحریک کو نئی زندگی دے گیا۔ برہان وانی کی شہادت تحریک آزادی کی جان جب کہ بھارت سرکار کے لیے وبال جان بن چکی ہے۔ تحریک آزادی کے حقوق ملکیت تیسری نسل یعنی 15سے 25سال کے نوجوان اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک آزادی ریاست کے ہر گھر تک پہنچ گئی ہے، جسے دبانے کے لیے بھارت نے وادی میں طویل ترین کرفیو بھی نافذ کیا، جس میں سیکڑوں افراد شہید ہوئے، ہزاروں افراد بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں سے نابینا اور معذور ہیں جب کہپوری مقامی آبادی بدترین انسانی مصائب میں مبتلا ہے۔
دنیا کشمیر میں بربریت و ظلم و ستم کا ناقابل مثال دور دیکھ رہی ہے، کشمیر میں بھارتی فوج وحشت و درندگی کے نت نئے انداز متعارف کرارہی ہے، آج کشمیر میں ہر طرف ماتم ہے، آہ و بکا ہے،کشمیریوں کے بچوں کے خون سے کشمیر کی سڑکیں سرخ ہیں، کشمیر پر ٹوٹنے والے کوہ غم وبربریت پرعالمی ضمیر کو چیخ اٹھنا چاہیے۔
جلتی، سلگتی، دھماکوں سے لرزتی مقبوضہ وجموں کشمیر کی سرزمین عالمی ضمیر کے لیے چیلنج بن چکی ہے، جنت نظیر کشمیر لہو لہو نظر آرہا ہے، سات لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں کی مہلک ہتھیاروں کا ہدف بننے والے نہتے کشمیریوں کی بستیاں تاراج ہیں اور ان کی گمنام قبروں پر مشتمل اتنے قبرستان آباد ہوچکے ہیں جن کی دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا بھر میں کہیں مثال نہیں ملتی۔کشمیر میں تحریک آزادی کی نئی لہرکو جبر سے دبانے کی تفصیلات اتنی لرزہ خیز ہیں کہ انسانی حقوق کا دم بھرنے والے حلقوں اور عالمی برادری میں زلزلہ آنا چاہیے تھا، بھارت نے کشمیری حریت پسندوں کو دبانے کے لیے ظلم کا ہر حربہ استعمال کرلیا مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
عالمی ادارہ کمیشن برائے انسانی حقوق (آئی ایچ آر سی) آزاد کشمیر نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور درندگی کی رپورٹ شایع کی ہے۔ کمیشن کے ایمبیسڈرکی رپورٹ کے مطابق 1989ء سے ستمبر 2016ء تک 27سال کے دوران بھارتی افواج نے 94,548کشمیریوں کو شہید، ایک لاکھ 37 ہزار 469 کو گرفتار کیا، یتیم بنائے گئے کشمیری بچوں کی تعداد ایک لاکھ 7ہزار 591 ہے، بھارتی افواج نے 10ہزار 717کشمیری خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا، جو انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی اور اقوام متحدہ سمیت مسلمان ملکوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ بحیثیت قوم جب ہم کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتے ہیں تو اس کے متعلق کتنے سنجیدہ ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر ہم تنہا نہیں، بلاشبہ عالمی سیاست کے حوالے سے ہم تنہا نہیں لیکن ڈپلومیسی کے میدان میں کمزور اور ہندوستان سے پیچھے ہیں، اس وقت بھی پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں، وزیر خارجہ کا قلمدان وزیراعظم کے پاس ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہماری کوئی خارجہ پالیسی ہی نہیں اور خارجہ پالیسی کی آڑ میں حکمران چند مخصوص ممالک سے ذاتی تعلقات مضبوط کرنے اور تجارتی روابط بڑھانے میں مصروف ہیں اور اسی کو خارجہ پالیسی کے طور پر قوم کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔
سچ یہ ہے کہ صنعت کار اور تجارت پیشہ حکمران نہ خارجہ پالیسی میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ اس میدان کی باریکیوں، مضمرات اور پیچیدگیوں کا ادراک رکھتے ہیں۔ یوم یکجہتی کشمیر پر پاکستانی حکومت کو اپنے حقیقت پسندانہ موقف، بھارت کی ہٹ دھرمی اور سامراجی پر ایک کھلا کھلابیان جاری کرنا چاہیے جسے تمام اہم ممالک کے صدر ہائے مقام میں پاکستانی سفارتخانے میڈیا کے ذریعے بین الاقوامی برادری میں عام کریں۔
بھارت کو بھی اب یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ اسے بالآخر جلد یا بدیر جموں و کشمیر سے اپنا ناجائز قبضہ ختم کرنا ہوگا، تحریک آزادی تحلیل نہیں ہوسکتی، عوامی تحریکیں، دلوں اور دماغوں میں گھر بنالیں تو مرا نہیں کرتیں۔ دنیا کے اس حصے میں کئی عشروں سے مسئلہ کشمیر ابھی تک حل طلب ہے جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کسی بھی وقت ایک شعلہ بن کر نہ صرف خطے بلکہ دنیا کو بھی تباہی سے دوچار کرسکتا ہے۔
پاکستان کا ہمیشہ یہ اصولی موقف رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کیا جائے، کشمیری عوام حق خود ارادیت کے سوا کچھ نہیں مانگتے، عالمی برادری خطہ ارض میں قیام امن اور دہشتگردی کے خاتمے کی آرزو مند ہے تو بھارت کو تخریب کاری سے روکنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل سے ہی خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن ہے، مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں ہے۔ کشمیری عوام گزشتہ سات دہائیوں سے ظلم و بربریت برداشت کررہے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کیا جائے۔