23 مارچ اور طیبہ جیسے بچوں کی مدد
طیبہ کے کیس کا کیا بنے گا؟ ہم اس بارے میں یقین سے کچھ کہہ نہیں سکتے
KARACHI:
طیبہ کے کیس کا کیا بنے گا؟ ہم اس بارے میں یقین سے کچھ کہہ نہیں سکتے۔ البتہ ہمیں اس بارے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ طیبہ کا کیس نہ ہی اپنی طرح کا پہلا ہے اور نہ ہی آخری۔ تقریباً روز ہی طیبہ جیسے بچوں کی طیبہ جیسے کیس جیسی بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ کی خوفناک خبریں آتی ہی رہتی ہیں۔ایسی خبریں اب معمول بن گئی ہیں اورکیوں نہ بنیں جب غربت اور نظام کی خرابی کا یہ حال ہو کہ ملک میں تقریباً ڈھائی کروڑ بچوں کواسکول جانا ہی نصیب نہ ہوتا ہو، 45 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار ہوں، ہر 14 میں سے ایک پاکستانی بچہ ایک سال کی عمرکو پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتا ہو، جہاں پر 11 میں سے ایک پاکستانی بچہ اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے ہی مر جاتا ہو اور جہاں صرف طیبہ جیسے بچے ہی نہیں بلکہ ان کے ماں باپ بھی اپنے بچوں جیسے ہی نصیب رکھتے ہوں کہ ہر 37 منٹ میں ایک پاکستانی ماں بچے کی پیدائش کے وقت جان سے جاتی ہو، جہاں تقریباً 6 کروڑ یعنی ملک کی تقریباً ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی کاٹنے پر مجبور ہو، جہاں 43 فیصد لوگ غذائی عدم تحفظ سے دوچار ہوں اور جہاں دائمی ''عوامی'' حکمرانی والے صوبے سندھ کے دیہات میں 76 فیصد خاندان بے زمین ہوں۔
مگر اسی پاکستان میں ایک اور قسم کی مخلوق بھی پائی جاتی ہے، جس کے اس غربت اور بھوک کے مارے ملک سے لوٹ گئے 200 ارب ڈالر یعنی تقریباً20,800 ارب روپے تو صرف سوئٹزر لینڈ کے ہی بینکوں میں پوری حفاظت کے ساتھ موجود ہیں۔ یہ وہی مخلوق ہے کہ جس نے صرف 2013ء اور2014ء میں ہی دبئی میں 4.3 ارب ڈالر کی جائیدادیں خریدیں جب کہ2015ء کی صرف پہلی ہی سہ ماہی میں 379 ملین ڈالر کی پراپرٹی خریدی۔ یہ کرپٹ مخلوق اور اس کا کرپشن کا مال و جائیداد ''اسلامی'' جمہوریہ پاکستان میں ایک مقدس حیثیت رکھتے ہیں اور قانون و سزا سے مستثنیٰ ہیں۔
یہ وہی خوش نصیب مخلوق ہے کہ جس کی ''خوش نصیبی'' اس ملک میں طیبہ جیسے کروڑوں بچوں کی بدنصیبی کی وجہ ہے۔ سوئس بینک اکاؤنٹ، دبئی ولاز اور طیبہ جیسے بچوں کے کہیں درمیان میں موجود ہم پڑھے لکھے پاکستانی گوکہ نہ ہی اس کرپٹ نظام اور نہ ہی اس کرپٹ نظام سے مستقل فیض یاب ہونے والی اس خلائی مخلوق کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں مگر ہم طیبہ جیسے بچوں کی زندگی کچھ آسان کرنے کے لیے کچھ کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں 2 بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے۔ نمبر ایک غربت اور معاشرتی بے رحمی کا شکار بچوں کے بارے میں قومی سطح پر آگہی پیدا کرنا، نمبر دو اس آگہی کے ذریعے قومی سطح پر ان بچوں کی عملی مدد کا جذبہ پیدا کرنا۔
تو کیوں نہ ہم آنے والے 23 مارچ کو طیبہ جیسے بچوں کا ساتھ دینے کے تھیم کے ساتھ منائیں۔ ایسا ہو کہ وفاقی حکومت اس تھیم کا اعلان کرے اور عوامی سطح پر انسانی بھلائی کے لیے کام کرنے والی شخصیات، این جی اوز، کمپنیاں، اپنی اپنی فیلڈ کے نامور لوگ، مختلف پروفیشنل لوگ، اساتذہ، طلبا اور میڈیا نیٹ ورکس مل کر اس تھیم کے لیے کام کریں۔ اس تھیم کے لیے ایک بینک اکاؤنٹ کھولا جائے کہ جس میں لوگ نہ صرف روایتی طریقے سے بلکہ آن لائن اور بذریعہ ایس ایم ایس بھی اس تھیم کے لیے چندہ دے سکیں۔ 23 مارچ سے تین چار ہفتے قبل سے ہی اس تھیم کے لیے میڈیا مہم چلائی جائے۔ 23 مارچ کو جمع شدہ رقم طیبہ جیسے بچوں کے لیے کام کرنے والے اداروں کو دے دی جائے۔ اگر پاکستان کی آبادی کا صرف 5 فیصد بھی سو روپے فی کس چندہ دے تو یہ تقریباً ایک ارب روپے بن جاتے ہیں جب کہہم میں سے بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو سو روپوں سے بہت زیادہ بھی دے سکتے ہیں۔
ہم اسی طرح 14 اگست بھی کسی تھیم مثلاً بند اسکولوں کو کھولنے کے تھیم کے ساتھ مناسکتے ہیں جس کی جمع شدہ رقم سے بند اسکولوں میں سے منتخب شدہ اسکولوں کو بنا اور سنوار کے عملی حالات میں لایا جائے۔ ہم 25 دسمبر کو تیزاب کے حملوں کا شکار افراد کی سپورٹ کے تھیم کے ساتھ مناسکتے ہیں۔اس تھیم کے لیے عوامی عطیات سے جمع شدہ رقم سے جتنے ایسے افراد کی سرجری ہوسکے وہ کی جائے۔ مجوزہ عوامی اتحاد ایک ویب سائٹ بنائے کہ جس پہ ہر تھیم کی مہم کے دوران ہر روز کی پروگریس دی جائے۔ کیونکہ اس آئیڈیے میں پیسے جمع اور خرچ کرنے کے کسی بھی مرحلے پہ حکومتی کردار موجود نہیں لہٰذا ہم امید کرسکتے ہیں کہ لوگ اعتماد کے ساتھ ہر تھیم کے لیے جو بھی ہوسکا چندہ دیں گے اور یہ اعتماد بڑھتا جائے گا، جب لوگ ہر تھیم کی جمع شدہ رقم کی شفاف تقسیم دیکھیں گے۔ ہم ہر سال پورے سال اپنے مختلف قومی دن اور تہوار مختلف تھیمزکے ساتھ مناسکتے ہیں۔ اس طرح ہم نہ صرف اپنے ان ہم وطنوں کو جو مختلف مسائل کا شکار ہیں یہ پیغام دیں گے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں بلکہ بیرونی دنیا میں بھی ایک حساس اور ہمدرد قوم کے طور پر ہمارا امیج بن سکے گا۔
طیبہ کے کیس کا کیا بنے گا؟ ہم اس بارے میں یقین سے کچھ کہہ نہیں سکتے۔ البتہ ہمیں اس بارے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ طیبہ کا کیس نہ ہی اپنی طرح کا پہلا ہے اور نہ ہی آخری۔ تقریباً روز ہی طیبہ جیسے بچوں کی طیبہ جیسے کیس جیسی بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ کی خوفناک خبریں آتی ہی رہتی ہیں۔ایسی خبریں اب معمول بن گئی ہیں اورکیوں نہ بنیں جب غربت اور نظام کی خرابی کا یہ حال ہو کہ ملک میں تقریباً ڈھائی کروڑ بچوں کواسکول جانا ہی نصیب نہ ہوتا ہو، 45 فیصد بچے غذائی کمی کا شکار ہوں، ہر 14 میں سے ایک پاکستانی بچہ ایک سال کی عمرکو پہنچنے سے پہلے ہی مر جاتا ہو، جہاں پر 11 میں سے ایک پاکستانی بچہ اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے ہی مر جاتا ہو اور جہاں صرف طیبہ جیسے بچے ہی نہیں بلکہ ان کے ماں باپ بھی اپنے بچوں جیسے ہی نصیب رکھتے ہوں کہ ہر 37 منٹ میں ایک پاکستانی ماں بچے کی پیدائش کے وقت جان سے جاتی ہو، جہاں تقریباً 6 کروڑ یعنی ملک کی تقریباً ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی کاٹنے پر مجبور ہو، جہاں 43 فیصد لوگ غذائی عدم تحفظ سے دوچار ہوں اور جہاں دائمی ''عوامی'' حکمرانی والے صوبے سندھ کے دیہات میں 76 فیصد خاندان بے زمین ہوں۔
مگر اسی پاکستان میں ایک اور قسم کی مخلوق بھی پائی جاتی ہے، جس کے اس غربت اور بھوک کے مارے ملک سے لوٹ گئے 200 ارب ڈالر یعنی تقریباً20,800 ارب روپے تو صرف سوئٹزر لینڈ کے ہی بینکوں میں پوری حفاظت کے ساتھ موجود ہیں۔ یہ وہی مخلوق ہے کہ جس نے صرف 2013ء اور2014ء میں ہی دبئی میں 4.3 ارب ڈالر کی جائیدادیں خریدیں جب کہ2015ء کی صرف پہلی ہی سہ ماہی میں 379 ملین ڈالر کی پراپرٹی خریدی۔ یہ کرپٹ مخلوق اور اس کا کرپشن کا مال و جائیداد ''اسلامی'' جمہوریہ پاکستان میں ایک مقدس حیثیت رکھتے ہیں اور قانون و سزا سے مستثنیٰ ہیں۔
یہ وہی خوش نصیب مخلوق ہے کہ جس کی ''خوش نصیبی'' اس ملک میں طیبہ جیسے کروڑوں بچوں کی بدنصیبی کی وجہ ہے۔ سوئس بینک اکاؤنٹ، دبئی ولاز اور طیبہ جیسے بچوں کے کہیں درمیان میں موجود ہم پڑھے لکھے پاکستانی گوکہ نہ ہی اس کرپٹ نظام اور نہ ہی اس کرپٹ نظام سے مستقل فیض یاب ہونے والی اس خلائی مخلوق کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں مگر ہم طیبہ جیسے بچوں کی زندگی کچھ آسان کرنے کے لیے کچھ کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں 2 بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے۔ نمبر ایک غربت اور معاشرتی بے رحمی کا شکار بچوں کے بارے میں قومی سطح پر آگہی پیدا کرنا، نمبر دو اس آگہی کے ذریعے قومی سطح پر ان بچوں کی عملی مدد کا جذبہ پیدا کرنا۔
تو کیوں نہ ہم آنے والے 23 مارچ کو طیبہ جیسے بچوں کا ساتھ دینے کے تھیم کے ساتھ منائیں۔ ایسا ہو کہ وفاقی حکومت اس تھیم کا اعلان کرے اور عوامی سطح پر انسانی بھلائی کے لیے کام کرنے والی شخصیات، این جی اوز، کمپنیاں، اپنی اپنی فیلڈ کے نامور لوگ، مختلف پروفیشنل لوگ، اساتذہ، طلبا اور میڈیا نیٹ ورکس مل کر اس تھیم کے لیے کام کریں۔ اس تھیم کے لیے ایک بینک اکاؤنٹ کھولا جائے کہ جس میں لوگ نہ صرف روایتی طریقے سے بلکہ آن لائن اور بذریعہ ایس ایم ایس بھی اس تھیم کے لیے چندہ دے سکیں۔ 23 مارچ سے تین چار ہفتے قبل سے ہی اس تھیم کے لیے میڈیا مہم چلائی جائے۔ 23 مارچ کو جمع شدہ رقم طیبہ جیسے بچوں کے لیے کام کرنے والے اداروں کو دے دی جائے۔ اگر پاکستان کی آبادی کا صرف 5 فیصد بھی سو روپے فی کس چندہ دے تو یہ تقریباً ایک ارب روپے بن جاتے ہیں جب کہہم میں سے بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو سو روپوں سے بہت زیادہ بھی دے سکتے ہیں۔
ہم اسی طرح 14 اگست بھی کسی تھیم مثلاً بند اسکولوں کو کھولنے کے تھیم کے ساتھ مناسکتے ہیں جس کی جمع شدہ رقم سے بند اسکولوں میں سے منتخب شدہ اسکولوں کو بنا اور سنوار کے عملی حالات میں لایا جائے۔ ہم 25 دسمبر کو تیزاب کے حملوں کا شکار افراد کی سپورٹ کے تھیم کے ساتھ مناسکتے ہیں۔اس تھیم کے لیے عوامی عطیات سے جمع شدہ رقم سے جتنے ایسے افراد کی سرجری ہوسکے وہ کی جائے۔ مجوزہ عوامی اتحاد ایک ویب سائٹ بنائے کہ جس پہ ہر تھیم کی مہم کے دوران ہر روز کی پروگریس دی جائے۔ کیونکہ اس آئیڈیے میں پیسے جمع اور خرچ کرنے کے کسی بھی مرحلے پہ حکومتی کردار موجود نہیں لہٰذا ہم امید کرسکتے ہیں کہ لوگ اعتماد کے ساتھ ہر تھیم کے لیے جو بھی ہوسکا چندہ دیں گے اور یہ اعتماد بڑھتا جائے گا، جب لوگ ہر تھیم کی جمع شدہ رقم کی شفاف تقسیم دیکھیں گے۔ ہم ہر سال پورے سال اپنے مختلف قومی دن اور تہوار مختلف تھیمزکے ساتھ مناسکتے ہیں۔ اس طرح ہم نہ صرف اپنے ان ہم وطنوں کو جو مختلف مسائل کا شکار ہیں یہ پیغام دیں گے کہ ہم ان کے ساتھ ہیں بلکہ بیرونی دنیا میں بھی ایک حساس اور ہمدرد قوم کے طور پر ہمارا امیج بن سکے گا۔