اے ایس آئی کے ایس ایچ او تعینات ہونے پر حیران نہ ہوں
اسلام آباد پولیس کے پاس کوئی لیڈی سب انسپکٹر یا انسپکٹر نہیں ہے
KARACHI:
سچ ہے یا جھوٹ، کہا جاتا ہے کہ ہمارے وفاقی دارالحکومت کا باوا آدم ہی نرالا ہے، اس دعوے کو دلیل بہم پہنچانے کے لیے غورکیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ اسلام آباد میں ایک ویمن تھانہ بھی ہے اور اس میں صدف بشارت ڈیوڈ نامی خاتون ہیں جو ہیں تو اے ایس آئی لیکن ایک عرصہ سے وہ ویمن پولیس اسٹیشن کی ایس ایچ او چلی آ رہی ہیں۔
یہ کیسے ہوا اور آج تک کیوں ہوتا چلا آ رہا ہے، تحقیق کے بعد کھلا اسلام آباد پولیس کے ایک اعلیٰ آفیسرکی مبینہ اشیر باد پولیس اپنے ہی قانون پولیس رولزکے باب بائیس کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور ایک اے ایس آئی خاتون کوطویل عرصہ سے ایس ایچ او، ویمن تھانہ تعینات رکھاگیا ہے۔ کیا کوئی اور خاتون، اسلام آباد پولیس کے پاس نہیں ہے جو سب انسپکٹر بھی ہو ا ور جسے اس تھانہ کا انچارج لگایا جا سکے۔
بہ ہرحال لگتا ہے کہ مذکورہ بالا اعلیٰ آفیسرنے اس خاتون کی تعیناتی کو اپنی اناکامسلہ بنا لیا ہے۔ ان کی اس روش سے ان کے ماتحت پولیس افسران بھی دبے لفظوں میں اظہار کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ فورس میں خلاف میرٹ اقدامات کرنا ڈٹ جانے کاغلط اورمنفی رجحان ہے اور اسے فروغ ملنے کا بھی احتمال ہے۔ وفاقی پولیس رول کے ماہراوروفاقی پولیس میں تین دہائیوںسے زیادہ شعبہ تفتیش میںغیرمعمولی مقدمات کویکسوکرنے والے ایک سینئر آفیسرنے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا، مذکورہ اے ایس آئی، صدف بشارت ڈیوڈ ہوں یا کوئی اور اے ایس آئی ان کی بطورایس ایچ او تعیناتی پولیس رولزکے باب 22کی شق ایک کی خلاف ورزی ہے،
جس میں واؔضح طور پرکہا گیاہے کہ تھانہ کاایس ایچ او، (Station House Officer)یاانچارج،کم سے کم سب انسپکٹرہوگا۔اے ایس آئی رینک کے ماتحت آفیسرکو بطورایس ایچ اوتعینات نہیںکیا جاسکتا۔جب مذکورہ پولیس قانون بنایاگیا، جو اب بھی پاکستان میںنافذالعمل ہے تو اُس وقت انسپکٹر کا رینک اس میں شامل نہیں تھا، ایس ایچ اوکی تعیناتی کے لیے سب انسپکٹرکو ہی موزوں سمجھا گیا تھا کہ یہ رینک ماتحت افسران کاسب سے بڑا عہدہ ہوتا تھا، مگراب اس میںترمیم کرکے سب انسپکٹرکے بعدانسپکٹرکاعہدہ بھی شامل کرلیا گیا ہے،
البتہ ایس ایچ اوکی تعیناتی کے لیے پولیس قانون کے مطابق رینک میںاب بھی کم از کم رینک، سب انسپکٹرکا ہے۔آج سے نوسال قبل، وفاقی پولیس میں ایس ایچ اوکی تعیناتی کے لیے اس وقت کے آئی جی پولیس نے کم ازکم رینک انسپکٹرمقررکیاتھا، مگر پچھلے ایک سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے، ملک اب جونئیرسینئرکی تمیزرکھے بغیر سب انسپکٹروں کو بھی ایس ایچ اوتعینات کیا جاتا ہے حتیٰ کہ المیہ یہ بھی ہواکہ موجودہ آئی جی بنیامین سے پہلے تعینات آئی جی اسلام آباد، واجد درانی نے ایس ایچ اوزکی تعیناتی کے لیے تحریری امتحان کی شرط بھی رکھی تھی، اس وقت اسلام آباد ضلع کے مجموعی تھانوںکی تعداد 16 تھی مگر ان میںایس ایچ اوکے عہدہ پرتعیناتی کے لیے مجموعی طورپرپینتیس انسپکٹروںنے پولیس لائنزمیںتحریری امتحان دیا تھا
جس میں مذکورہ اے ایس آئی، صدف بشارت ڈیوڈشامل ہی نہ ہوئیں اورجو لوگ شامل ہوئے، ان میںسے بھی بعض تھانوںکی تعدادکے اعتبارسے پہلے 16 نمبروں کی میرٹ لسٹ میں ہی نہ آنے کی بنیادپرفیل قرارپائے، مگرمذکورہ بالاآفیسر،جوصدف ڈیوڈکی بھرپور سرپرستی کرتے اور اِسے پے درپے نالائقی ثابت ہونے کے باوجودغیرقانونی طورپربطورایس ایچ او برقرار رکھے ہوئے ہیں نے فیل ہونے والے ایک انسپکٹرکو جو اس وقت بھی ایک تھانہ کے ایس ایچ او ہیں،
نہ صرف برقراررکھوایابلکہ انہیںٹیسٹ میں میرٹ پرنہ آنے کے بعداورواجد درانی کاتبادلہ ہوتے ہی ٹیسٹوںوالانظام ختم کرکے اسے(مردانسپکٹرکو) ایک سال سے زائد عرصہ قبل ایس ایچ اوترنول سے ہٹاکرایس ایچ اوتھانہ گولڑہ تعینات کردیاجہاںپرسیکٹرجی چودہ میں ضلعی انتظامیہ کی پابندی کے باوجوداس قدربڑے پیمانے پرغیرقانونی تعمیرات ہوئیںکہ چند یوم قبل وزارت داخلہ کوجی چودہ کے تین سب سیکٹروں میںتعمیرات رکوانے کی خاطررینجرزاورایف سی تعینات کرناپڑی ہے اوراس کے بعد جی چودہ سیکٹرکے پلاٹوںکے الاٹیوںکوقبضے دیناایک خواب بن چکاہے،
کیونکہ لوگوںنے کروڑوںروپے مالیت کے بلڈاپ پراپرٹی کے کلیم حاصل کرنے کی خاطربڑے پیمانے پرغیرقانونی تعمیرات کیں جس میںاسی مذکورہ بالااعلیٰ پولیس آفیسرکے قریبی عزیزکے بارے میںبھی بتایاگیاہے کہ ُاس نے بھرپورفائدہ اٹھایا۔اس کے بعدمذکورہ بالااعلیٰ پولیس آفیسرنے اپنے من پسندایس ایچ اوکو جو تحریری امتحان میںمیرٹ لسٹ میںفیل ہو گیا تھا کو چندماہ قبل رمناتھانہ کاایس ایچ اوبنایا،اس ضمن میںمذکورہ اے ایس آئی، صدف بشارت ڈیوڈ سے رابطہ کے لیے مختلف اوقات میں کوششیں کی گئیں
مگران سے رابطہ نہ ہوسکا،تاہم ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد، محمدیوسف ملک نے ایکسپریس کے ساتھ بات چیت میںموقف اختیارکیاکہ ان کے پاس کوئی لیڈی پولیس سب انسپکٹر نہیں ہے، جسے وہ تھانہ ویمن کاایس ایچ اوتعینات کریں۔اس سوال پرکہ اسلم ساہی سب انسپکٹر تھانہ ویمن میںخواتین سے تفتیش کے لیے مامورہے توانہوںنے کہا،
وہ تفتیش میں خواتین اہل کاروں کی مددکرتاہے اوراگراس سب انسپکٹرکو اس بات کادکھ ہے کہ وہ سینئررینک میںہوکرجونئیر رینک کی اے ایس آئی کے ماتحت کیوںکام کررہاہے تووہ مجھے تحریری درخواست دے، اس حوالے سے مزید سوال کے جواب میں ایس ایس پی نے کہا، تھانہ ویمن میں درکارخواتین تفتیشی افسران کی نفری کے لیے ریکوزیشن بھیجناان کا کام نہیں،بل کہ یہ حکومت کاکام ہے، اسی لیے انہوںنے ایسی کوئی ریکوزیشن وزارتِ داخلہ کو نہیں بھیجی۔
بے نظیربھٹوکے آخری دورِحکومت میں،خواتین کی شکایات پر کہ مرد اہل کار تفتیش نہ کریں اس پر ملک بھر میں ویمن تھانے بنائے گئے اور رول ماڈل کے طور پر بنایا گیا ویمن پولیس اسٹیشن اسلام آباد، افسرشاہی کی نذرہوگیا اور نمائشی تھانہ بن کررہ گیا۔حقیقت حال یہ ہے کہ نصف درجن سے زیادہ پولیس کی سینئرانسپکٹررینک کی خواتین افسران موجود ہیں اور ان کی حق تلفی کرتے ہوئے اے ایس آئی رینک کی صدف بشارت ڈیوڈکو طویل عرصہ سے ایس ایچ اوتعینات رکھاگیا، اسلام آباد پولیس کی تاریخ میں یہ ایک نئی اور اچھوتی مثال ہے،
ناقص کارکردگی ثابت ہوجانے کے باوجودطویل عرصہ سے بطور ایس ایچ اوتعینات صدف بشارت ڈیوڈ کو اسلام آباد کی ایک عدالت میں نالائقی ثابت ہونے پرعدالت نے شوکازنوٹس بھی جاری کیا تھاکہ آپ کو ضمنی تک لکھنا نہیں آتی تاہم وفاقی پولیس کی اہم سیٹوں پر تعینات ،دو اعلیٰ افسران نے اس کیس کو نہ صرف دبادیابل کہ اس پر کوئی ایکشن بھی نہیں لیا۔اس معاملہ کی گردبھی نہ بیٹھی تھی کہ وفاقی پولیس کے دواہم عہدوںپرتعینات اعلیٰ افسران کی من پسند مذکورہ اے ایس آئی نے ایک فریق کے ساتھ مبینہ ملی بھگت کرکے پولیس قانون کی بھی دھجیاں اُڑادیں اورایک ہی وقوعہ کے دومقدمات درج کر ڈالے۔
گذشتہ سال 2011 میں اپنی نوعیت کاایک منفردمقدمہ درج کیاگیا،جس میں ارم نامی لڑکی کے اہل خانہ کی طرف سے کہاگیاکہ عظمت نامی لڑکے نے زبردستی گھرمیںگھس کر بدتمیزی کی اور رواں سال میں پھراسی وقوعہ کی دوسری بارایف آئی آردرج کی جس میں اسی لڑکے عظمت پرالزام لگایا گیاکہ اس نے ارم کواغوا کرنے کی کوشش کی ہے۔پولیس قانون کے مطابق ایک وقوعہ کے دومقدمے درج نہیںہوسکتے، البتہ پہلے سے درج مقدمے میں ضمنیوںمیںتفتیش کوآگے بڑھایاجاتاہے مثلاً تتمہ بیان میںکوئی نئی بات ہوتو اسے شامل کرکے ملزم کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے،
مذکورہ اے ایس آئی صدف بشارت ڈیوڈ پولیس تفتیش پرمطلوبہ مہارت نہیںرکھتیںاوران کی واحدمبینہ طور پر قابلیت ،اعلیٰ افسران کامنظورنظرہوناہے، اس لیے اس معاملہ کوبھی سابقہ معاملہ کی طرح دبادیاگیا۔ ویمن پولیس اسٹیشن کی بعض خواتین اہل کاروںکی ''ویک اینڈ'' سرگرمیوںکابھی مبینہ انکشاف ہواہے۔اس سلسلے میں ایک خط تھانہ میںتعینات گم نام خاتون اہل کارکی طرف سے پولیس کے افسران کو لکھاگیاہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق خط میں بتایاگیاہے کہ تھانہ میںتعینات کچھ خواتین اہل کار جمعہ یاہفتہ کی شام بن سنورکراپنے کمروںکوتالے لگاکرغائب ہوجاتی ہیں۔اس گمنام خط میںیہ بھی انکشاف کیاگیاہے کہ''ویک اینڈ''پرایس ایچ او صدف بشارت ڈیوڈکی مبینہ آشیربادسے آٹھ خواتین اہل کارغائب ہو جاتی ہیںاوران میںسے اکثرکے اہل خانہ تھانے میں ان کی عدم موجودگی میںان سے ملنے آ جاتے ہیں اورانہیںبتایاجاتا ہے کہ وہ ''سپیشل ڈیوٹی پرہیں'' اوراگرکوئی زیادہ ایمرجنسی ہوتوانہیں''سپیشل ڈیوٹی''پرسے واپس پہنچنے کاحکم تھانے کے نمبرسے دیا جاتا ہے، جس سے وہ سمجھ جاتی ہیں کہ ان کے اہل خانہ کو حقیقی معنوں میں ہنگامی صورت کاسامنا ہے، جس میں کسی نہ کسی عزیز کی وفات یاایسی ہی نوعیت کی اورایمرجنسی ہوتی ہے۔
خط میں اعلیٰ افسران سے اچانک تھانہ پرچھاپہ مارکرصورتحال خودمعلوم کرنے اور اصلاح ِاحوال کابھی مطالبہ کیاگیاہے۔ایک سابق آئی جی نے صدف ڈیوڈ کو اے ایس آئی سے سب انسپکٹر بھی بنا دیاتھامگر سپریم کورٹ کے حکم پر شولڈرپرموشن واپس کرنا پڑی، حالانکہ مذکورہ سابق آئی جی نے ان کی ترقی کومستقل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی اوراسے فاطمہ جناح ایوارڈ بھی دلوایا ۔ تھانہ ویمن کی ریکارڈ بک دیکھی جائے تو ہر مقدمہ کی تفتیش خواتین سے مردپولیس اہل کارکرتے ہیں، تازہ ترین دو مقدمات،ترپن اور چون جن میں لڑکیاں ملزمان ہیں کی تفتیش خواتین کے تھانہ میں تعینات سب انسپکٹرمحمد اسلم کررہے ہیں،
جس سے خواتین کاتھانہ قائم کرنے کامقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔اس سلسلے میں ایکسپریس کے رابطہ پر، ایچ او تھانہ ویمن صدف بشارت ڈیوڈ نے موقف اختیارکیا کہ افسران کی مرضی ہے، وہ جسے چاہیں اس عہدہ پر رکھیں۔ میں نالائق ہوںاور اس عہدہ پر قائم ہوں تو اس کا جواب، آئی جی بنیامین یا ایس ایس پی محمد یوسف سے لیں۔محکمہ نے مجھے جو ذمے داری دی تھی وہ میں پوری کرتی رہوں گی۔ اس حوالہ سے آئی جی اسلام آباد کا کہناہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اے ایس آئی کو پولیس رول کے مطابق ایس ایچ اوتعینات نہیں کیاجاسکتامگرہمارے پاس اس وقت کوئی اورسینئرلیڈی پولیس افسرنہیں ہے، تاہم اے ایس آئی صدف بشارت ڈیوڈ کوسب انسپکٹر بناسکتے ہیں۔
پولیس ذرائع نے ''ایکسپریس'' کوبتایا، کراچی سے آنے والی انسپکٹر،فاطمہ پروین جن کا کراچی میں دشمنی کے باعث خاوند قتل کردیاگیاتھا، کوآئی جی اسلام آباد نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈیپوٹیشن پر آئے افسران کو واپس بھیجنے کے فیصلہ کی آڑ لے کر واپس کردیا، حقائق یہ ہیں کہ اس خاتون کو ہائی کورٹ کے فیصلہ سے اکتالیس یوم قبل آئی جی نے اسلام آباد پولیس سے واپس کراچی بھجوادیاتھا۔
اسی بنا پر مذکورہ خاتون انسپکٹر فاطمہ پروین نے وفاقی سیکریٹری داخلہ خواجہ صدیق اکبر کو درخواست بھی دے رکھی ہے، جس کی وفاقی سیکریٹری داخلہ خود انکوائری کررہے ہیں ،ڈیپوٹیشن پرآئی انسپکٹر،فاطمہ پروین کی دو ماہ سے اسلام آباد پولیس نے تنخواہ بھی بند کررکھی ہے، سرکاری طریقہ کار کے خلاف، سینئر تفتیشی افسر سب انسپکٹر،اسلم ساہی کو اے ایس آئی، صدف بشارت ڈیوڈ کی ماتحتی میں تھانہ ویمن میں تفتیشی آفیسر تعینات کیاگیاہے۔
سچ ہے یا جھوٹ، کہا جاتا ہے کہ ہمارے وفاقی دارالحکومت کا باوا آدم ہی نرالا ہے، اس دعوے کو دلیل بہم پہنچانے کے لیے غورکیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ اسلام آباد میں ایک ویمن تھانہ بھی ہے اور اس میں صدف بشارت ڈیوڈ نامی خاتون ہیں جو ہیں تو اے ایس آئی لیکن ایک عرصہ سے وہ ویمن پولیس اسٹیشن کی ایس ایچ او چلی آ رہی ہیں۔
یہ کیسے ہوا اور آج تک کیوں ہوتا چلا آ رہا ہے، تحقیق کے بعد کھلا اسلام آباد پولیس کے ایک اعلیٰ آفیسرکی مبینہ اشیر باد پولیس اپنے ہی قانون پولیس رولزکے باب بائیس کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور ایک اے ایس آئی خاتون کوطویل عرصہ سے ایس ایچ او، ویمن تھانہ تعینات رکھاگیا ہے۔ کیا کوئی اور خاتون، اسلام آباد پولیس کے پاس نہیں ہے جو سب انسپکٹر بھی ہو ا ور جسے اس تھانہ کا انچارج لگایا جا سکے۔
بہ ہرحال لگتا ہے کہ مذکورہ بالا اعلیٰ آفیسرنے اس خاتون کی تعیناتی کو اپنی اناکامسلہ بنا لیا ہے۔ ان کی اس روش سے ان کے ماتحت پولیس افسران بھی دبے لفظوں میں اظہار کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ فورس میں خلاف میرٹ اقدامات کرنا ڈٹ جانے کاغلط اورمنفی رجحان ہے اور اسے فروغ ملنے کا بھی احتمال ہے۔ وفاقی پولیس رول کے ماہراوروفاقی پولیس میں تین دہائیوںسے زیادہ شعبہ تفتیش میںغیرمعمولی مقدمات کویکسوکرنے والے ایک سینئر آفیسرنے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا، مذکورہ اے ایس آئی، صدف بشارت ڈیوڈ ہوں یا کوئی اور اے ایس آئی ان کی بطورایس ایچ او تعیناتی پولیس رولزکے باب 22کی شق ایک کی خلاف ورزی ہے،
جس میں واؔضح طور پرکہا گیاہے کہ تھانہ کاایس ایچ او، (Station House Officer)یاانچارج،کم سے کم سب انسپکٹرہوگا۔اے ایس آئی رینک کے ماتحت آفیسرکو بطورایس ایچ اوتعینات نہیںکیا جاسکتا۔جب مذکورہ پولیس قانون بنایاگیا، جو اب بھی پاکستان میںنافذالعمل ہے تو اُس وقت انسپکٹر کا رینک اس میں شامل نہیں تھا، ایس ایچ اوکی تعیناتی کے لیے سب انسپکٹرکو ہی موزوں سمجھا گیا تھا کہ یہ رینک ماتحت افسران کاسب سے بڑا عہدہ ہوتا تھا، مگراب اس میںترمیم کرکے سب انسپکٹرکے بعدانسپکٹرکاعہدہ بھی شامل کرلیا گیا ہے،
البتہ ایس ایچ اوکی تعیناتی کے لیے پولیس قانون کے مطابق رینک میںاب بھی کم از کم رینک، سب انسپکٹرکا ہے۔آج سے نوسال قبل، وفاقی پولیس میں ایس ایچ اوکی تعیناتی کے لیے اس وقت کے آئی جی پولیس نے کم ازکم رینک انسپکٹرمقررکیاتھا، مگر پچھلے ایک سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے، ملک اب جونئیرسینئرکی تمیزرکھے بغیر سب انسپکٹروں کو بھی ایس ایچ اوتعینات کیا جاتا ہے حتیٰ کہ المیہ یہ بھی ہواکہ موجودہ آئی جی بنیامین سے پہلے تعینات آئی جی اسلام آباد، واجد درانی نے ایس ایچ اوزکی تعیناتی کے لیے تحریری امتحان کی شرط بھی رکھی تھی، اس وقت اسلام آباد ضلع کے مجموعی تھانوںکی تعداد 16 تھی مگر ان میںایس ایچ اوکے عہدہ پرتعیناتی کے لیے مجموعی طورپرپینتیس انسپکٹروںنے پولیس لائنزمیںتحریری امتحان دیا تھا
جس میں مذکورہ اے ایس آئی، صدف بشارت ڈیوڈشامل ہی نہ ہوئیں اورجو لوگ شامل ہوئے، ان میںسے بھی بعض تھانوںکی تعدادکے اعتبارسے پہلے 16 نمبروں کی میرٹ لسٹ میں ہی نہ آنے کی بنیادپرفیل قرارپائے، مگرمذکورہ بالاآفیسر،جوصدف ڈیوڈکی بھرپور سرپرستی کرتے اور اِسے پے درپے نالائقی ثابت ہونے کے باوجودغیرقانونی طورپربطورایس ایچ او برقرار رکھے ہوئے ہیں نے فیل ہونے والے ایک انسپکٹرکو جو اس وقت بھی ایک تھانہ کے ایس ایچ او ہیں،
نہ صرف برقراررکھوایابلکہ انہیںٹیسٹ میں میرٹ پرنہ آنے کے بعداورواجد درانی کاتبادلہ ہوتے ہی ٹیسٹوںوالانظام ختم کرکے اسے(مردانسپکٹرکو) ایک سال سے زائد عرصہ قبل ایس ایچ اوترنول سے ہٹاکرایس ایچ اوتھانہ گولڑہ تعینات کردیاجہاںپرسیکٹرجی چودہ میں ضلعی انتظامیہ کی پابندی کے باوجوداس قدربڑے پیمانے پرغیرقانونی تعمیرات ہوئیںکہ چند یوم قبل وزارت داخلہ کوجی چودہ کے تین سب سیکٹروں میںتعمیرات رکوانے کی خاطررینجرزاورایف سی تعینات کرناپڑی ہے اوراس کے بعد جی چودہ سیکٹرکے پلاٹوںکے الاٹیوںکوقبضے دیناایک خواب بن چکاہے،
کیونکہ لوگوںنے کروڑوںروپے مالیت کے بلڈاپ پراپرٹی کے کلیم حاصل کرنے کی خاطربڑے پیمانے پرغیرقانونی تعمیرات کیں جس میںاسی مذکورہ بالااعلیٰ پولیس آفیسرکے قریبی عزیزکے بارے میںبھی بتایاگیاہے کہ ُاس نے بھرپورفائدہ اٹھایا۔اس کے بعدمذکورہ بالااعلیٰ پولیس آفیسرنے اپنے من پسندایس ایچ اوکو جو تحریری امتحان میںمیرٹ لسٹ میںفیل ہو گیا تھا کو چندماہ قبل رمناتھانہ کاایس ایچ اوبنایا،اس ضمن میںمذکورہ اے ایس آئی، صدف بشارت ڈیوڈ سے رابطہ کے لیے مختلف اوقات میں کوششیں کی گئیں
مگران سے رابطہ نہ ہوسکا،تاہم ایس ایس پی آپریشنز اسلام آباد، محمدیوسف ملک نے ایکسپریس کے ساتھ بات چیت میںموقف اختیارکیاکہ ان کے پاس کوئی لیڈی پولیس سب انسپکٹر نہیں ہے، جسے وہ تھانہ ویمن کاایس ایچ اوتعینات کریں۔اس سوال پرکہ اسلم ساہی سب انسپکٹر تھانہ ویمن میںخواتین سے تفتیش کے لیے مامورہے توانہوںنے کہا،
وہ تفتیش میں خواتین اہل کاروں کی مددکرتاہے اوراگراس سب انسپکٹرکو اس بات کادکھ ہے کہ وہ سینئررینک میںہوکرجونئیر رینک کی اے ایس آئی کے ماتحت کیوںکام کررہاہے تووہ مجھے تحریری درخواست دے، اس حوالے سے مزید سوال کے جواب میں ایس ایس پی نے کہا، تھانہ ویمن میں درکارخواتین تفتیشی افسران کی نفری کے لیے ریکوزیشن بھیجناان کا کام نہیں،بل کہ یہ حکومت کاکام ہے، اسی لیے انہوںنے ایسی کوئی ریکوزیشن وزارتِ داخلہ کو نہیں بھیجی۔
بے نظیربھٹوکے آخری دورِحکومت میں،خواتین کی شکایات پر کہ مرد اہل کار تفتیش نہ کریں اس پر ملک بھر میں ویمن تھانے بنائے گئے اور رول ماڈل کے طور پر بنایا گیا ویمن پولیس اسٹیشن اسلام آباد، افسرشاہی کی نذرہوگیا اور نمائشی تھانہ بن کررہ گیا۔حقیقت حال یہ ہے کہ نصف درجن سے زیادہ پولیس کی سینئرانسپکٹررینک کی خواتین افسران موجود ہیں اور ان کی حق تلفی کرتے ہوئے اے ایس آئی رینک کی صدف بشارت ڈیوڈکو طویل عرصہ سے ایس ایچ اوتعینات رکھاگیا، اسلام آباد پولیس کی تاریخ میں یہ ایک نئی اور اچھوتی مثال ہے،
ناقص کارکردگی ثابت ہوجانے کے باوجودطویل عرصہ سے بطور ایس ایچ اوتعینات صدف بشارت ڈیوڈ کو اسلام آباد کی ایک عدالت میں نالائقی ثابت ہونے پرعدالت نے شوکازنوٹس بھی جاری کیا تھاکہ آپ کو ضمنی تک لکھنا نہیں آتی تاہم وفاقی پولیس کی اہم سیٹوں پر تعینات ،دو اعلیٰ افسران نے اس کیس کو نہ صرف دبادیابل کہ اس پر کوئی ایکشن بھی نہیں لیا۔اس معاملہ کی گردبھی نہ بیٹھی تھی کہ وفاقی پولیس کے دواہم عہدوںپرتعینات اعلیٰ افسران کی من پسند مذکورہ اے ایس آئی نے ایک فریق کے ساتھ مبینہ ملی بھگت کرکے پولیس قانون کی بھی دھجیاں اُڑادیں اورایک ہی وقوعہ کے دومقدمات درج کر ڈالے۔
گذشتہ سال 2011 میں اپنی نوعیت کاایک منفردمقدمہ درج کیاگیا،جس میں ارم نامی لڑکی کے اہل خانہ کی طرف سے کہاگیاکہ عظمت نامی لڑکے نے زبردستی گھرمیںگھس کر بدتمیزی کی اور رواں سال میں پھراسی وقوعہ کی دوسری بارایف آئی آردرج کی جس میں اسی لڑکے عظمت پرالزام لگایا گیاکہ اس نے ارم کواغوا کرنے کی کوشش کی ہے۔پولیس قانون کے مطابق ایک وقوعہ کے دومقدمے درج نہیںہوسکتے، البتہ پہلے سے درج مقدمے میں ضمنیوںمیںتفتیش کوآگے بڑھایاجاتاہے مثلاً تتمہ بیان میںکوئی نئی بات ہوتو اسے شامل کرکے ملزم کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے،
مذکورہ اے ایس آئی صدف بشارت ڈیوڈ پولیس تفتیش پرمطلوبہ مہارت نہیںرکھتیںاوران کی واحدمبینہ طور پر قابلیت ،اعلیٰ افسران کامنظورنظرہوناہے، اس لیے اس معاملہ کوبھی سابقہ معاملہ کی طرح دبادیاگیا۔ ویمن پولیس اسٹیشن کی بعض خواتین اہل کاروںکی ''ویک اینڈ'' سرگرمیوںکابھی مبینہ انکشاف ہواہے۔اس سلسلے میں ایک خط تھانہ میںتعینات گم نام خاتون اہل کارکی طرف سے پولیس کے افسران کو لکھاگیاہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق خط میں بتایاگیاہے کہ تھانہ میںتعینات کچھ خواتین اہل کار جمعہ یاہفتہ کی شام بن سنورکراپنے کمروںکوتالے لگاکرغائب ہوجاتی ہیں۔اس گمنام خط میںیہ بھی انکشاف کیاگیاہے کہ''ویک اینڈ''پرایس ایچ او صدف بشارت ڈیوڈکی مبینہ آشیربادسے آٹھ خواتین اہل کارغائب ہو جاتی ہیںاوران میںسے اکثرکے اہل خانہ تھانے میں ان کی عدم موجودگی میںان سے ملنے آ جاتے ہیں اورانہیںبتایاجاتا ہے کہ وہ ''سپیشل ڈیوٹی پرہیں'' اوراگرکوئی زیادہ ایمرجنسی ہوتوانہیں''سپیشل ڈیوٹی''پرسے واپس پہنچنے کاحکم تھانے کے نمبرسے دیا جاتا ہے، جس سے وہ سمجھ جاتی ہیں کہ ان کے اہل خانہ کو حقیقی معنوں میں ہنگامی صورت کاسامنا ہے، جس میں کسی نہ کسی عزیز کی وفات یاایسی ہی نوعیت کی اورایمرجنسی ہوتی ہے۔
خط میں اعلیٰ افسران سے اچانک تھانہ پرچھاپہ مارکرصورتحال خودمعلوم کرنے اور اصلاح ِاحوال کابھی مطالبہ کیاگیاہے۔ایک سابق آئی جی نے صدف ڈیوڈ کو اے ایس آئی سے سب انسپکٹر بھی بنا دیاتھامگر سپریم کورٹ کے حکم پر شولڈرپرموشن واپس کرنا پڑی، حالانکہ مذکورہ سابق آئی جی نے ان کی ترقی کومستقل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی اوراسے فاطمہ جناح ایوارڈ بھی دلوایا ۔ تھانہ ویمن کی ریکارڈ بک دیکھی جائے تو ہر مقدمہ کی تفتیش خواتین سے مردپولیس اہل کارکرتے ہیں، تازہ ترین دو مقدمات،ترپن اور چون جن میں لڑکیاں ملزمان ہیں کی تفتیش خواتین کے تھانہ میں تعینات سب انسپکٹرمحمد اسلم کررہے ہیں،
جس سے خواتین کاتھانہ قائم کرنے کامقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔اس سلسلے میں ایکسپریس کے رابطہ پر، ایچ او تھانہ ویمن صدف بشارت ڈیوڈ نے موقف اختیارکیا کہ افسران کی مرضی ہے، وہ جسے چاہیں اس عہدہ پر رکھیں۔ میں نالائق ہوںاور اس عہدہ پر قائم ہوں تو اس کا جواب، آئی جی بنیامین یا ایس ایس پی محمد یوسف سے لیں۔محکمہ نے مجھے جو ذمے داری دی تھی وہ میں پوری کرتی رہوں گی۔ اس حوالہ سے آئی جی اسلام آباد کا کہناہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اے ایس آئی کو پولیس رول کے مطابق ایس ایچ اوتعینات نہیں کیاجاسکتامگرہمارے پاس اس وقت کوئی اورسینئرلیڈی پولیس افسرنہیں ہے، تاہم اے ایس آئی صدف بشارت ڈیوڈ کوسب انسپکٹر بناسکتے ہیں۔
پولیس ذرائع نے ''ایکسپریس'' کوبتایا، کراچی سے آنے والی انسپکٹر،فاطمہ پروین جن کا کراچی میں دشمنی کے باعث خاوند قتل کردیاگیاتھا، کوآئی جی اسلام آباد نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈیپوٹیشن پر آئے افسران کو واپس بھیجنے کے فیصلہ کی آڑ لے کر واپس کردیا، حقائق یہ ہیں کہ اس خاتون کو ہائی کورٹ کے فیصلہ سے اکتالیس یوم قبل آئی جی نے اسلام آباد پولیس سے واپس کراچی بھجوادیاتھا۔
اسی بنا پر مذکورہ خاتون انسپکٹر فاطمہ پروین نے وفاقی سیکریٹری داخلہ خواجہ صدیق اکبر کو درخواست بھی دے رکھی ہے، جس کی وفاقی سیکریٹری داخلہ خود انکوائری کررہے ہیں ،ڈیپوٹیشن پرآئی انسپکٹر،فاطمہ پروین کی دو ماہ سے اسلام آباد پولیس نے تنخواہ بھی بند کررکھی ہے، سرکاری طریقہ کار کے خلاف، سینئر تفتیشی افسر سب انسپکٹر،اسلم ساہی کو اے ایس آئی، صدف بشارت ڈیوڈ کی ماتحتی میں تھانہ ویمن میں تفتیشی آفیسر تعینات کیاگیاہے۔